اسلام دین معاملات ہے(17)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتہ حاکم اور محکوموں کے حقوق پر بات کررہے تھے۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے یہ فرمایا بادشاہ روئے زمین پرخدا کا سایہ ہوتا ہے۔ خدا کے بندے جو مظلوم ہوں وہ اس کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں اگر وہ انصاف کرے تو اس کو ثواب دیا جاتا ہے اور رعیت پر اس شکر ادا کرناوا جب ہے اگر وہ ظلم کرے اور اللہ کی امانت میں خیانت کرے تو بار گناہ اس پر ہے۔ رعیت کو صبر کرنا لازم ہے(بیہقی مشکواۃ) لیکن ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اپنے امیرسے کوئی غلطی ہو تو اسے اکیلے میں سمجھاؤ ً جس کی روشنی میں ہم نے مشورہ دیا تھا مسلم ممالک میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو کہ بطور مسلمان آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس پر عمل کریں اس مشہور حدیث کے تحت کہ“ حضوﷺ نے فرمایا کہ جو تم اپنے لیئے چا ہتے ہو وہی اپنے مسلمان بھا ئی کے لیئے بھی چاہو ً“ لہذا حضوﷺ کے ایک دوسرے فرمان کے مطابق حکمرانوں کو تنہائی میں مشورہ دو کہ وہ دین پر چلیں سچا ئی اختیار کریں بجا ئے اس کے کہ ہر بات میں ہیر پھیر کریں کریں اور خود کو جہنم میں جا نے سے بچا ئیں؟ جبکہ آپکو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ خود لیڈران کرام کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں تو انشا ء اللہ یہ جو ادبار مسلمان ملکوں پر آیا ہوا ہے وہ بھی ختم ہوجا ئے گا پھر یہ روز روز کے زلزلے اور طوفان سے بھی عوام بچ جا ئینگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجا ئے گا،کیونکہ قرآن میں وہ بار بار فرمارہا کہ سال میں،میں جو ایک دو جھٹکے دیتا ہوں وہ اس لیئے کہ یہ توبہ کرلیں! مگر یہ پھر بھی نہیں مانتے؟ جبکہ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر کو ئی پتہ بھی نہیں گرتا، وہ ا گر کسی کو فائدہ پہنچانا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا، اور سب مل کے فائدہ پہنچانا چاہیں اور وہ نہ چا ہے تو کوئی اسے کچھ دلا نہیں سکتا۔ اور یہ بھی کہ عزت اورذلت میرے پاس ہے تم کہاں تلاش کرتے پھرتے ہو؟ میں جسے چاہوں اسے عزت دوں اور جسے چاہوں ذلیل کردوں۔ اور ایک مشہور حدیث میں یہ بھی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا۔ وطن عزیز کی مثال لے لیجئے! پچھلے پچھتر سال سے عوام ڈسے جا رہے ہیں جو بھی آیا وعدے بہت کر کے آیا مگر پورا ایک بھی نہیں کیسا البتہ دوسروں کو مورد ِ الزام ٹھہراتا رہا کہ میں تو کرنا چاہتا تھا مگر اُس نے نہیں کرنے دیا اِس نے نہیں کرنے دیا؟ جبکہ ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی۔ تمام قوانین جوکہ غیر اسلامی ہیں دس سال کے اندر اسلامی سانچے میں ڈھال دئے جا ئیں گے؟جس پر آج تک عمل نہیں ہوا کیوں؟ پچھلے دور کو جانے دیجئے کہ داستان طویل۔ اس دور بات کرتے ہیں؟ اس میں روڑے کس نے اٹکا ئے میں اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں اسلامی دستور کو نافذ کرنے کے لیئے اسلامی کونسل بنا ئی گئی اس نے سودی کاروبار بند کرنے کی سفارش کی اس وقت کے وزیر اعظم اس کے خلاف حکم ِ امتنائی لینے عدالت عالیہ چلے گئے جوکہ اس نے جاری کردیا، اس وقت تو اسے چیلنج کون کرتا کہ ان وزیر اعظم کا دور، دورہ تھا؟ مگر ان کے بعد میں انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا جو اس وقت حزب ِ اختلاف میں تھے اور ان کے بعد اقتدار میں آئے۔ مگر کسی نے دوبارہ عدالت سے نظر ثانی کی درخواست تک نہیں کی اور ابھی سودی کاروبار چل رہا ہےرہا ہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ جب اس ملک کو مدینہ منورہ جیسی ریاست بنا نے والی پارٹی بر سرِ اقتدار تھی تو ایک اقلیتی ممبر پارلیمنٹ نے جو سرکاری بنچ پر بیٹھتا تھاپارلیمنٹ میں شراب پر پابندی لگانے کی قرارد اد پیش کردی مگر پاس نہیں ہوسکی؟ اسے روکنے کون آیا کوئی نہیں مگر مسلم اکثریت نےساتھ نہیں اگر دی اگر لیڈر آف دی ہاؤس ساتھ دیتے تو اسے پاس ہونے سے کون روک سکتا تھاجبکہ ا سپیکر انکا تھاصدر بھی انکا تھا؟ یہ مانا کہ صبر اچھی خصلت ہے مگر ہر بات کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔آپ کے پاس جو ووٹ اللہ کی امانت ہے اس کو ایمانداری سے استعمال کیجئے ورنہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس روز قیامت آپ کی پکڑ ہوگی؟ کیوں؟ اس لیئے کہ اسلام مظلوموں کی مدد کا حکم د یتا ہے ظالموں کی نہیں۔ جبکہ عوام ظالموں کی مدد کرتے چلے آرہے ہیں مظلوموں کی نہیں؟ظالم ہر وہ شخص ہے جو کہ کسی کاحق دبا ئے اور ادا نہ کرے اور مظلوم ہر وہ ہستی ہے جس کے حقوق ادا نہ کیئے جا ئیں۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا چا ہیئے کہ ہم خود بندے تو اللہ کے کہلاتے ہیں اور مسلمان بھی کہلاتے کیااللہ کے حقوق بھی ہم ادا کر رہے ہیں جو اطاعت پر منحصرہیں، کیا اس کی ساری باتیں مانتے ہیں؟ میں اور آپ سب اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کیا ہم اس پر پورے اتر تے ہیں یا نہیں؟ جبکہ یہ کلیہ بھی ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی کہ عمل کے بغیر ایمان کچھ نہیں اور ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں۔

رہے حکمراں وہ اپنا جواب خود دیں گے۔اس سلسلہ میں بہت سی احادیث ہیں ان میں ان میں سے چند میں یہاں پیش کر دیتا ہوں ۔(١1حضرت طلحہ ؓ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ ظالم امیر کی دعا قبول نہیں ہوتی(حاکم) (2 ) وسری حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ تین شخصوں کا کلمہ بھی قبول نہیں ہوتا ان میں سے ایک وہ حاکم ہے جو رعایا پر ظلم کرے(طبرانی) (3)حضرت معقلؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندے کو اللہ تعالیٰ رعیت کی نگہبانی سپرد کرے اور وہ بھلائی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو وہ بہشت کی خشبو نہ سونگھ پا ئے گا(بخاری، مسلم مشکواۃ)(4)حضرت عائشہ ؓصدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دعا کرتے سنا کہ“ اے اللہ جس شخص کو میری امت کے کسی امرکا والی اور متصرف بنایا اور وہ میری امت کو مشقت اور مصیبت میں ڈالے ،تو بھی انس کومصیبت اور مشقت ڈال اور جو شخص میری امت پر رحم کرے تو اس پر رحم اور نرمی کر(مسلم و مشکواۃ)۔ باقی آئندہ)

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

(685 – 672) قطعات شمس جیلانی

672
دھوم ہی دھوم ہے۔۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

آج کا مومن جو ہے وہ علم سے محروم ہے
اصل میں ظالم ہے وہ کہتا ہےمظلوم ہے
اس نے ڈگر وہ چھوڑ دی جو تھی اساس
معاملت میں ہے صفردھوم ہی دھوم ہے

673
آج کا مسلمان؟۔۔۔۔ شمس

اے شمس !آج کا مومن جو ہے وہ اس لیئے مطعون ہے
بات اللہ کی ہے مانے نہیں اورخودکوسمجھے افلا طون ہے
حکم رب کا جو کوئی مانے وہ اسے کہتا ہے کہ مجنون ہے
وقتِ قیاقمت آگیا شایدقریب، مرحلہ آنے کو” کن فیکون ہے”

674
سوتی امت کو جگاتے رہئے۔۔۔ شمس جیلانی

شمس سوتی امت کو ہر روز جگاتے رہئے
اسوہ حسنہﷺ کے آئینہ میں راہ دکھاتے ریئے
جتنا ممکن ہو شیاطیں سے بچاتے رہیے
اوصاف تو حید پرستوں کے بتاتے رہیئے

675
مزید عذابوں کے تیار رہو ۔۔۔۔ شمس جیلانی

انسان غلط بول رہا ہے فضا ؤ ں میں زہر گھول رہا ہے
اپنی طرف دیکھے ہے نہیں اوروں کی گرہ کھول رہا ہے
آجا ئے نہ وقت سے پہلے کہیں دیکھو کوئی قیامت ِ صغرا
شمس خائف ہوں اللہ کی دہشت سے دل میرا ہول رہا ہے

676
آخری آرزو۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

کیا بناؤں مرے پرور دگارا کس قدر پیارا ہے تو
میری نمازوںمیں بڑھادےتو خشوع اورخضوع
ہے خواہش یہ بھی ترادیدار بھی جنت میں ہو
اے خدا توپوری کرنا یہ بھی میری آخری آرزو

677
ہر بندہ پر شکر لازم ہے۔۔۔شمس جیلانی

وہ بندہ ناشکرہ ہے جو مانے نہیں ہے تیری بات
خالق ہے تو مالک ہے تو اعلیٰ ہے تیری ذات
سب کو تو ہےفنا فقط تجھ ہی کو ہے بس ثبات
کیوں نہ میں تیری حمد کروں لکھوں نبی ﷺ کی نعت

678
اچھی خبر۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ابھی کچھ اور جینا ہےخبر دی ہے کل اطبا ءنے
ہم سوچیں اورہیں اور لکھا ہے کچھ اور اللہ نے
یہ دعائیں کام کرتی ہیں اگرنکلیں کسی دل سے
اعضا ءِرئیسہ کودیدی تقویت کلمہ سبحان اللہ نے

679
بندہ تو ترا ہوں۔۔۔۔ شمس جیلانی

مارے یا جلا ئے تو راضی بہ رضا ہوں
سرخم ہےتیرے آگے کرتاحمدوثنا ہوں
یہ تو ہی بتا انکو کس مٹی سےبنا ہوں
میں اچھا یا برا ہوں بندہ تو تیرا ہوں

680
صلاۃِ مبرور۔۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس آئی کمی تھوڑی سی گر ذہنی سرور میں
جاتا ہوں سرجھکانےمیں اپنے رب کے حضورمیں
حضرت موسیٰ ملنے جاتے تھےاللہ سے طور میں
لیکن مومن ملے ہے پانچ وقت صلاۃ ِمبرور میں

681
مومنین کے کچھ خواص۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ہے انکے لیئے وہ دن بڑاجو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خشیت سے ڈرتے ہیں
وہی ہیں اصل میں مومن جنہیں حکم ہوتا ہے وہ فوراً کر گزرتے ہیں
دیں پر جان دیتے ہیں وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر شب و روز مرتے ہیں
ا نکے لیئے ہے کچھ نہیں جو دربارِاعلیٰ کو بھی اپنا گھر سمجھتے ہیں

682
کچھ ملکوں میں انصاف عنقیٰ ہے۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

پیش کی ہم نے بھی اس ضمن میں ایک عرضی ہے
معاف کردیں یا سزا دیں حضور آپ کی مر ضی ہے
وہاں پالا ہوا ہر ایک نے رفو گری کے لیئےایک درزی ہے
گواہ جھوٹے مقدمہ جھوٹا اور جا ئے واردات فرضی ہے

683
وہ خوش قسمت۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

وہ خوش قسمت جسے اللہ عطاکردے قناعت ہے
فرشتے ناز کر تے ہیں یہ کچھ ایسی ہی سعادت ہے
اےشمس ایسوں کو ہم نے کبھی شاکی نہیں دیکھا
جو مل جا ئے انہیں شکرکرنے کی جو عادت ہے

684
فضول بحث منع ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

مدت ہوئی فرمان جاری ہوچکا دربارِ رسولﷺ سے
مومن جو ہیں کریں اجتناب ہر بحث ِ فضول سے
و ہ ایسی کہیں نہ بات جو کسی کو بھی بری لگے
چاہیں عالم سے بحث ہو یا کسی جاہل جہول سے

685
کونوا مع الصادقین۔۔۔۔ شمس جیلانی

میں حمد اس کی کیوں نہ کروں جس نے لکھنا سکھائی بات سچی ہے
نبیﷺ سچے ہیں فرشتے سچے ہیں اور صادقوں کی جماعت سچی ہے
شمس انہیں مبارک ہو بہت سے لوگ جو اپنے لیئے ہی جیتے ہیں
تم بات ایسی لکھو کہ روز ِ جزاء کہیں فرشتے ہر ایک بات سچی ہے

شائع کردہ از Articles, qitaat | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(16)۔ شمس جیلانی

ایک صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد قرآن کو بطور دستور نافذ کردیں گے ۔ یہ تھے حضرت محمد علی جناح ۔ ان کی عمرنے وفا نہ کی لہذا میں اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اس کے بعد بہت سے لوگ آئے لیکن اسلامی دستور وہیں کا وہیں رہا دریائے راوی اپنی جگہ بہتا رہاچند کو چھوڑ کر جو آیا اس نے دریائے سندھ یا راوی میں دل بھر کے ہاتھ تو دھوئے جب تک وہ نکالا نہیں گیا یا قضاء نے اسےاچک نہں لیا ۔ اسلامی نظام نافذ کرنے کے سلسلہ میں پھرنعرہ بدلا کہ میں اس قراداد مقاصد کو نافذ کر کے رہونگا جو لیاقت علی خان کے زمانے سے شیلف میں رکھی ہوئی تھی انہوں نے؟ اسے باہر نکالا گرد اس کی جھاڑی اور اس کی ایک شق نافذ کرنے کا اعلان بھی کردیا جو کہ حدود آرڈینینس کی شکل میں موجود ہے! مگر وہ گیارہ سال پاکستان کے کرتا دھرتا رہے مگر اسلامی دستورنافذ نہیں کر سکے۔ اس کے بعد ہمارے قومی ہیرو عمران خان نے نعرہ لگایا کہ میں برسرِ اقتدار آگیا تو مدینہ جیسی ریاست قائم کرونگا؟انہوں نے شاید پڑھا نہیں تھا کہ ریاست مدینہ کے جو جو والی رہے وہ کیسے تھےورنہ ان کے سامنےسورہ الصف کی وہ آیت آجاتی کہ “ اے مسلمانوں !ایسی بات کہتے کیوں ہو جوکرتے نہیں ہو ،اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے “ آخر وہ بھی نکالے گئے۔ اگر انہوں نے یہ پڑھا ہوتا تو وہ اس طرح کام شروع کرتے جس طرح کہ خلفائے راشدین نے پہلے دن سے شروع کیا تھا۔اسی طرح وہ بھی کرتے جس طرح انہوں نے ختم کیا تھا کاش! میں آپ کو وہ سب کچھ پہنچا سکتا جس طرح انہوں نے اپنا کام شروع کیا اور ہر ایک اپنے آخری دن کرتے رہا۔ مشکل یہ ہے کہ اس کے لیئے سیکڑوں جلدیں چا ہیئے ہیں، یہ چھٹوٹا سا مضمون اس کامتحمل نہیں ہوسکتا اور میں عمر کے جس حصے ہوں وہ شاید اجازت نہ دے جوکہ بانوے سال ہے؟ البتہ میں نے جو حضوﷺ کی سیرت مبارک کی شکل میں جو کچھ چھوڑا ہے جو آن لائن موجود ہے یا پھر میری چینل پر جاکر وڈیو کی شکل میں میری آواز میں ببھی موجود ہے جس پر آپکا کوئی خرچہ نہیں ہوگا البتہ وقت خرچ ہوگا مگر اس پر عمل کرنے سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونو ! سدھر جا ئیں گے ۔ چونکہ یہاں مسئلہ درپیش ہے حاکموں اور محکومو ں کے حقوق کا محکوموں پر تو سب نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حاکم کیسا بھی ہو اس کی اطاعت کرو ۔ مگر ساتھ میں کسی نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے وقت کے حکمراں کیسے تھے ان کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی معمولی مسلمان مرد یا عورت ٹوک دیتا کہ یہ آپ شرع کے خلاف کر رہے ہیں تو وہ فوراً رک جاتے تھے؟ کیونکہ حضورﷺ نےعوام کو یہ ہی ایک ایسا ہتھیار عطا فرمایا تھا کہ اگروہ کوئی خلاف شرع حکم دیں تو اس کا اتباع لازم نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے یہا ں کوئی ایسا کرنے کی ہمت نہیںرکھتا ورنہ پچھتر سال سے غیر اسلامی قوانین پر عمل نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ انہوں)(رض) نے اپنی زندگی میں جو کچھ بیت المال سے لیا تھا وہ اول تو اتنا تھا جس میں ان کا گزارا بمشکل ہوتاتھا اور لوگوں کے کہنے پر وہ بھی بڑی مشکل سے لینے پر تیار ہوئے تھے ؟جوکہ پہلے دو خلفا ئے راشدین نے تو پورا کا پورا واپس کردیا تھا۔ تیسرے خود بہت مالدار تھے اور چوتھے اپنی فقیری میں مست تھے ان لوگوں کواللہ سبحانہ تعالیٰ نےقناعت عطا کی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے عہدوں کو ایسی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔ کہ آرزو کر تے تھے کہ! کاش اس ذمہ داری کولینے سے پہلے مجھے موت آجاتی یا کوئی دوسرا آدمی مل جا تا اور میری جان چھٹ جاتی۔ کسی نے بھی یہ ذمہ داری بخوشی قبول نہیں کی انہیں جب حا لات نے مجبور کیا تب کہیں جاکرقبول کی مگر جب کرلی تو حکومت کیسے کی وہ آپ کو دکھا وَنگا تاکہ آپ اپنے لیڈروں کو اس راہ پر چلنے پر مجبور کریں اور انکی چکنی چپڑی باتوں پر بار بارآکر دھوکہ نہ کھائیں ۔ اگر آپ خود متقی ہیں اور ان کے خیر اہ ہیں تو انہیں ویسا ہی بنانے کی کوشش کیجیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کو بھی ثواب سے نوازے اور انہیں بھی نیک بننے کی توفیق عطا فرمائےاور وہ منصف حکمرانوں میں شامل ہوجا ئیں جن کا مقام جنت ہے اوروہ ان میں بھی شامل ہوجا ئیں جو یوم ِ حشر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے تخت کے زیر ِ سایہ کھڑے ہونگے جبکہ غیر منصف حکمراں جہنم کی طرف گردن میں طوق پہنے ہوئے اور پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہو ئے جہنم میں جا تے ہوئے عذاب کے فرشتوں کی تحویل میں دکھا ئی دے رہے ہونگے۔

کردیا جو کہ حدود آرڈینینس کی شکل میں موجود ہے! مگر وہ گیارہ سال پاکستان کے کرتا دھرتا رہے مگر اسلامی دستورنافذ نہیں کر سکے۔ اس کے بعد ہمارے قومی ہیرو عمران خان نے نعرہ لگایا کہ میں برسرِ اقتدار آگیا تو مدینہ جیسی ریاست قائم کرونگا؟انہوں نے شاید پڑھا نہیں تھا کہ ریاست مدینہ کے جو جو والی رہے وہ کیسے تھےورنہ ان کے سامنےسورہ الصف کی وہ آیت آجاتی کہ “ اے مسلمانوں !ایسی بات کہتے کیوں ہو جوکرتے نہیں ہو ،اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے “ آخر وہ بھی نکالے گئے۔ اگر انہوں نے یہ پڑھا ہوتا تو وہ اس طرح کام شروع کرتے جس طرح کہ خلفائے راشدین نے پہلے دن سے شروع کیا تھا۔اسی طرح وہ بھی کرتے جس طرح انہوں نے ختم کیا تھا کاش! میں آپ کو وہ سب کچھ پہنچا سکتا جس طرح انہوں نے اپنا کام شروع کیا اور ہر ایک اپنے آخری دن کرتے رہا۔ مشکل یہ ہے کہ اس کے لیئے سیکڑوں جلدیں چا ہیئے ہیں، یہ چھٹوٹا سا مضمون اس کامتحمل نہیں ہوسکتا اور میں عمر کے جس حصے ہوں وہ شاید اجازت نہ دے جوکہ بانوے سال ہے؟ البتہ میں نے جو حضوﷺ کی سیرت مبارک کی شکل میں جو کچھ چھوڑا ہے جو آن لائن موجود ہے یا پھر میری چینل پر جاکر وڈیو کی شکل میں میری آواز میں ببھی موجود ہے جس پر آپکا کوئی خرچہ نہیں ہوگا البتہ وقت خرچ ہوگا مگر اس پر عمل کرنے سے آپ کی دنیا اور عاقبت دونو ! سدھر جا ئیں گے ۔ چونکہ یہاں مسئلہ درپیش ہے حاکموں اور محکومو ں کے حقوق کا محکوموں پر تو سب نے لکھا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حاکم کیسا بھی ہو اس کی اطاعت کرو ۔ مگر ساتھ میں کسی نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ اس کے وقت کے حکمراں کیسے تھے ان کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی معمولی مسلمان مرد یا عورت ٹوک دیتا کہ یہ آپ شرع کے خلاف کر رہے ہیں تو وہ فوراً رک جاتے تھے؟ کیونکہ حضورﷺ نےعوام کو یہ ہی ایک ایسا ہتھیار عطا فرمایا تھا کہ اگروہ کوئی خلاف شرع حکم دیں تو اس کا اتباع لازم نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے یہا ں کوئی ایسا کرنے کی ہمت نہیںرکھتا ورنہ پچھتر سال سے غیر اسلامی قوانین پر عمل نہیں ہوتا ۔ اس کے علاوہ انہوں)(رض) نے اپنی زندگی میں جو کچھ بیت المال سے لیا تھا وہ اول تو اتنا تھا جس میں ان کا گزارا بمشکل ہوتاتھا اور لوگوں کے کہنے پر وہ بھی بڑی مشکل سے لینے پر تیار ہوئے تھے ؟جوکہ پہلے دو خلفا ئے راشدین نے تو پورا کا پورا واپس کردیا تھا۔ تیسرے خود بہت مالدار تھے اور چوتھے اپنی فقیری میں مست تھے ان لوگوں کواللہ سبحانہ تعالیٰ نےقناعت عطا کی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے عہدوں کو ایسی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔ کہ آرزو کر تے تھے کہ! کاش اس ذمہ داری کولینے سے پہلے مجھے موت آجاتی یا کوئی دوسرا آدمی مل جا تا اور میری جان چھٹ جاتی۔ کسی نے بھی یہ ذمہ داری بخوشی قبول نہیں کی انہیں جب حا لات نے مجبور کیا تب کہیں جاکرقبول کی مگر جب کرلی تو حکومت کیسے کی وہ آپ کو دکھا وَنگا تاکہ آپ اپنے لیڈروں کو اس راہ پر چلنے پر مجبور کریں اور انکی چکنی چپڑی باتوں پر بار بارآکر دھوکہ نہ کھائیں ۔ اگر آپ خود متقی ہیں اور ان کے خیر اہ ہیں تو انہیں ویسا ہی بنانے کی کوشش کیجیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کو بھی ثواب سے نوازے اور انہیں بھی نیک بننے کی توفیق عطا فرمائےاور وہ منصف حکمرانوں میں شامل ہوجا ئیں جن کا مقام جنت ہے اوروہ ان میں بھی شامل ہوجا ئیں جو یوم ِ حشر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے تخت کے زیر ِ سایہ کھڑے ہونگے جبکہ غیر منصف حکمراں جہنم کی طرف گردن میں طوق پہنے ہوئے اور پاؤں میں بیڑیاں پہنے ہو ئے جہنم میں جا تے ہوئے عذاب کے فرشتوں کی تحویل میں دکھا ئی دے رہے ہونگے۔

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(15)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں بات کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھےکہ ہمسائیگی یہاں تک محدود نہیں ہے جیسا مولوی صاحب نے چاروں طرف چالیس گھروں تک محدود کردی ہے۔ یہ ایک لا محدود رشتہ ہے کہ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسے رشتہ داروں پر بھی ترجیح حاصل ہے۔اگر ہمسایہ رشتہ دار بھی ہے تو رشتہ کی مناصبت سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا ئے گا؟ اگر اقربیٰ میں سے ہے تو صلہ رحمی کا حقدار بھی ہوجا ئےگا۔ اگر غیر ہے یعنی رشتہ داروں میں سے نہیں ہے۔ اور تین پڑوسی کسی کواچھا کہتے ہیں تو وہ ایک حدیث پاک کے مطابق جنتی ہے۔ اور برا کہتے ہیں تو جہنمی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ برا جب ہی کہیں گے کہ اس کے شر سے ہمسایہ محفوظ نہ ہوں۔ دوسری حدیث ہے کہ وہ مومن نہیں جس کے شر سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو ۔اس سلسہ میں آپ کو یہاں تک خیال رکھنا پڑیگا کہ اگر گوشت پکانے جارہے ہیں تو وہ اتنا ہونا چا ہیئے کہ ہمسایہ کے یہاں بھیجا جاسکے اور وہ کسی وجہ کم ہے تو اس کا شوربا بڑھا کر اسے اتنا کرلیں کہ ہمسایہ کو بھی بھیجا جا سکے اگر آپ موسم کا کوئی نیا پھل لا ئے ہیں تو ضروری ہے کہ ہمسایہ کے یہاں بھی بھجوائیں۔ اس کے گھر طرف کھڑکی مت کھولیئے جس سے دھواں اس کو تنگ کرے مکان اتنا اونچا مت بنوائیے جس سے اس کی ہوا رک جا ئے یا دھوپ روک لیں اور اس کا گھر اس وجہ سے بیماریوں کی آماجگاہ بن جا ئے؟ اس کے بعد جو اس کے حقوق ہیں وہ بتائے گئے ہیں؟حضرت معاویہ بن حیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمسایہ کا حق ہے کہ وہ بیمار ہوجا ئے تو اس کی بیمار پرسی کی جا ئے۔ اگر وہ مر جا ئے تو اس کے جنازے کے ساتھ جایا جا ئے۔ اگر وہ ادھار مانگے تو اس کو قرض دے۔اگر وہ ننگا ہے تو اس کو کپڑے پہنا ئے، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دے،اگر کوئی مصیبت لاحق ہو تو اس کو تسلی دے اک دوسری حدیث میں یہاںں تک فرمادیا کہ جس کے راوی حضرت انس بن مالک(رض) ہیں۔ کہ حضورﷺ فرمایا کہ ” مجھے اس پرور گار کی قسم کے جس کے قبضے میں میری جان ہےکہ کوئی مسلمان مسلمان نہیں جب تک وہ اپنے ہمسایہ کے لیئے بھی وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیئے چاہتا ہے۔ واضح رہے یہ ہر ہمسایہ کے لیئے ہے اگر مسلمان ہے تو اس کے وہ حقوق تو رہینگے ہی اور قریبی عزیز ہے تو اس کے حقوق یا دور کا رشتہ دار ہے وہ بھی بدستور رہیں گے۔ ہم نے پوری کوشش کی ہمسایہ کے حقوق مسلمانوں تک پہنچا سکیں اگر کو ئی کوتاہی رہ گئی تو اللہ سبحانہ تعلیٰ سے معافی کے خواہستگار ہیں۔ اب اس سلسلہ کو ۤآگے بڑھاتے ہیں۔

مریض کی مزاج پرسی۔ حضور ﷺ کا ارشادِ عالی ہے جب کوئی بیمار پڑے تو تم اس کی مزاج پرسی کوجا ؤ اور اسے جلد اچھا ہونے کی نوید دو یعنی اس کی ہمت شکنی مت کرو جیسا کہ ہمارے یہاں کا وطیرہ ہے ؟خصوصاً خواتین میں کہ اگر مزاج پرسی کے لیئے جائیں گی تو ہمت افزائی کرنے کے بجائے یہ کہتی ہوئی سنا ئی دینگی کہ اے! تو تو بڑی کمزور ہوگئی یا کمزور ہوگیا ہےا دیکھو تو بچہ کا منہ نکل ۤآیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حکم یہ ہے کہ جا ؤ تو اسے تسلی دو بجائے اس کے اس کےدل میں نا امیدی پیدا کرو۔ اور مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھو زیادہ دیر نہیں۔ خصوصاً جب وہ اسپتال میں ہو تو جتنا کم سے بیٹھا جا سکتا ہے اتنا کم بیٹھو؟ خصوصاً یورپین ملکوں میں اس کو زیادہ اچھا نہیںسمجھا لکن ہمارے یہاں حکم ہے اور خصو ساً جمعہ کے دن عیادت کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔

مسکین کے حقوق۔ حضرت انس بن مالک روای ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میری مخلوق میں سے کسی ایسے کی کفالت کی جس کا کوئی کفالت کرنے والانہ ہو! تو ایسے بندے کی کفالت کا میں ذمہ دار ہوں

جانوروں کے حقو ق۔ حضورﷺ نے فرمایا ہر حساس جانور جس کو بھوک پیاس لگتی ہو اس کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے یہ حدیث بخاری اور مسلم میں آئی ہے اس میں اس نظریہ کا رد ہوتا ہے جو اس پر کچھ اعتراض کر تے جو مکہ معطمہ مدینہ منورہ میں کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں ۔ یا گھروں میں اکثر خواتین بچی ہوئی چیزیں ڈالدیتی ہیں اور پرندے ہل جا تے ہیں۔ اور وہ غول کے غول ۤانے لگتے ہیں۔ باقی آئندہ

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(14)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں ہمسا یہ کے حقوق پر بات کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے کہ یورپین ملکوں میں ہمارے بارے میں آہستہ آہستہ خیالات ہمارے موجودہ رویہ کی وجہ سے خراب ہو تے جا رہے ہیں ان میں بہتری لانا بطور سفیر ِ اسلام ہمارا فرض ہے؟ اس کے لیئے ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا ورنہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ہم جواب دہ ہونگے۔ للہ اس نکتہ پرغور کیجئے؟ جب میں یہاں آیا تھا تو بات کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے آخرکیوں آپ کو جواب مل جا ئیگا۔ اس سلسلہ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سنا تا ہوں جو شروع دنوں کا ہے کہ میں یہاں کے ایک مال کی پارکنگ لاٹ میں اپنی کار بیک کر رہا تھا، پارکنگ لاٹ سے باہر کار نکالنے کے لئے تو ایک مقامی خاتونے پیچھے سے آکر ٹکر مار دی؟ یہاں کے قانون کے مطابق غلطی ان کی تھی میری نہیں۔ وہ اپنی کار سے اتر کر آئیں اور اپنے کاغذات دیتے ہوئے رونے لگ گئیں میں نے کاغذات واپس کر دئیے اور ان سے کہا کہ مجھے کوئی کلیم وغیرہ نہیں کرنا ہے۔ میں نے اپنا کارڈ انہیں دیااور کہا کہ اپنے شوہر سے کہیں کہ مجھ سے بات کر لیں؟ وہ چلی گئیں جب ان کے شوہر کا فون آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کیا چا ہتے ہیں؟ میں نے کہامیں کچھ نہیں چاہتا، آدمی شریف تھے کہنے لگا آخرآپ کا نقصان تو ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ اتنا زیادہ نہیں ہے جو میں برداشت نہ کرسکوں؟ کہنے لگا کیا آپ مسلمان تو نہیں ہیں؟ میں نے کہا آپنے یہ کیسے سمجھا کہ میں مسلمان ہوں؟ تو کہنے لگا آپ کی باتوں سے،میرے دفتر میں بھی ایک مسلمان ہے وہ ایسا ہی ہے ۔دل نے بہت چاہا کے اس نیک شخص کو دیکھوں جو اسلام کا نام بلند کر رہا؟ مگر مجھے اس حدیث نے روکدیا کہ احسان کرنے کے بعد کسی کو شرمندہ کرکے اپنا نیک عمل مت ضائع کرو؟ اس لیئے میں اس سے ملا قات نہیں کر سکا؟ یہ 911 سے پہلے کی بات ہے۔؟ اب سوچئے ہمارا تصور اس سے الٹ کیسے ہوا؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے اپنے غلط رویوں سے؟اب آگے بڑھتے ہیں اسلام میں ہمسائیگی کا دائرہ بہت وسیع ہے صرف وہی ہمسایہ نہیں، جو بقول مولوی صاحب کے چالیس چالیس گھر تک چاروں طرف آباد ہیں؟ بلکہ یہ ہر جگہ آپ پر لاگو ہو تا ہے مسلمان ہونے کی وجہ سے جہاں بھی آپ اس وقت موجود ہوں۔ مثلاً سڑک پر چل رہے ہیں وہاں بھی آپ کے آگے ہمسایہ ہے ایک پیچھے ہمسایہ ہے ایک دائیں ہا تھ کا ہمسایہ ہے دوسرا بائیں ہاتھ کا ہمسایہ ہے۔ ان سب کاخیال رکھ کر چلنا پڑیگا؟ یہ نہیں کہ آپ دھکے مارتے اور اپنے لئے زبر دستی راستہ بنا تےگزر جا ئیں۔ یہاں مشکاۃ شریف کی وہ حدیث آپکے آڑے آئیگی کہ حضور ﷺ نے فرما یا کہ “راستوں پر بیٹھنے سے بچواگر بیٹھنے سے باز نہ رہو تو راستے میں بیٹھنے کا حق ادا کرو ” صحابہ کرام(رض) نے پوچھا حضورﷺ راستے کا حق کیا ہے فرمایہ ًآنکھوں کا بند کرنا اور ایذ رسانی سے باز رہنا اور سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو مشروع باتوں کا حکم دینا ، غیر مشروع باتوں سے روکنا؟ اس کی تفسیر میں جا ئیں گے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں پہلا اشارہ تو قر آن کی اس آیت کی طرف ہے کہ اے نبی ﷺ مسلمان مردوں سے کہدیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور پھر اس کے بعد کی ایک دوسری آیت میں حکم ہے اپنی خواتین سے بھی کہیں کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں؟ خواتین پر تو عمل درآمدپربہت زور ہےکہ وہ بیچاری صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں، مگر مسلماں مردوں کو چھوٹ ہے جنکو ان سے پہلے حکم ملا تھا؟ رہی ایذارسانی یعنی کو ئی حرکت ایسی نہ ہو جس سے راہ چلنے والوں کو تکلیف ہو اس کا خیال ہم کتنا رکھتے ہیں وہ ہم خود ہی جانتے ہیں۔ پولس والوں نے سارے فٹ پاتھ ٹھیکے پردکانداروں کو دیدیئے ہہں چلنے کی جگہ ہی نہیں چھوڑی ہے کہ وہاں سے کوئی گزر جا ئے موٹرسائیکل اور سائیکل اسٹیند اسی پر بنے ہو ئے ہیں فٹپاتھ دکانداروں کو با قاعدہ الاٹ ہیں اس کی دوسری طرف پانی بیہ رہاہے سڑک پر ٹھیلوں والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں، رہاسلام کرنا نہ وہاں ہم نے دیکھا نہ سنا جس کو پھیلانے کا حکم شروع دن سے اساسِ اسلام میں شامل ہے۔ جبکہ سلام کا ذکر اس حدیث میں اس لیئے ہے کہ حکم یہ ہے کہ وہاں سے گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور انکو اس کا جواب دینا ضروری ہے جو کہ ایک مسلماں پر دوسرے مسلمان کا حق ہے؟ ۔ لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس عمل ہوتا ہے۔ اگر کہں لائین لگی ہے تو بیچ میں کوشش کرکے گھس جاتے ہیں؟ اب رہا لو گوں برے کاموں سے روکنا تو اس میں ہم صفر ہیں ہی؟ ہم نے آج تک نہ تو کسی مولوی صاحب کو دیکھا اور نہ ہی کسی تبلغی جماعت والے کو دیکھا کہ وہ منع کریں کہ تم کم کیوں تولتے ہو، جھوٹ کیوں بولتے ہو اور ملاوٹ کیوں کرتے ہو اور کھٹے آمو ں کو میٹھاکہہ کر کیوں بیچتے ہو یہ اور اسی قسم کی سب باتیں حرام ہیں اور کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ہیں۔ اللہ اورتم حضور ﷺ کی بات تو مانتے نہیں انﷺ کے پاس شفاعت کے لیئے کیا منہ لیکر جا ؤگے۔ انہوں نے جبکہ ہمیں ایک حدیث میں متنبہ کیا ہوا ہے کہ ہے کہ میں شفاعت کی ضمانت انکو دیتا ہوں جو میرے تمام احکامات پر عمل کرتے ہیں ان کو نہیں جو کچھ پر عمل کرتے ہوں اور کچھ پر نہیں کرتے ہوں؟

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(13)۔ شمس جیلانی

النسا ء کی آیت نمبر 36 میں جتنے اَحکامات نازل ہوئے اس کی مثال کسی اور آیت میں نہیں ملتی اس میں ہی ہمسا یوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی اتنی تاکید آئی کہ حضور ﷺ کےایک ارشاد عالی کے مطابق انہیںﷺشبہ ہونے لگا کہ شاید ہمسایہ وراثت میں شامل ہوجا ئے گا۔ اور انہوں ﷺنے ایک دوسری حدیث میں یہاں تک فرمادیاﷺ کہ وہ مسلمان ہی نہیں جس کے شر سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں ہے “ اس کے راوی حضر ابو شریح رض) ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا “وہ مسلمان نہیں وہ مسلمان نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہے “ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا کہ حضورﷺ کون مسلمان نہیں ہے“ فریا ﷺجس کی ایزا رسانی سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہوتے تھے اس علاقے میں جائیداد کی قیمت بڑھ جاتی تھی؟ مگر آج کے دور میں اس کا الٹ ہے کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں جائیداد کی قیمت گر جاتی ہے، غیر تو غیر اپنے بھی وہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور دوسر وں کے علاقے میں جاکر جگہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔یہ ان سے یاتو فخر اور غرور کراتا ہے،اوربعض اوقات ان کی مجبوری کراتی ہے؟ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں کہ نہ ان میں غور تھا نہ فخر تھا! مگر انہوں نے گھر ایک ایسے علاقہ میں لے رکھ تھاجہاں صرف غریب مسلمان رہتے تھے؟لڑکیاں ان کی جوان ہوگئیں تھیں مگر ان کے رشتے نہیں آئے؟ خدا خدا کرکے ایک رشتہ آیا تو انہوں نے شرط یہ رکھی کہ ہم وہاں بارات لیکر نہیں آئیں گے ،پہلے اپنی سکونت تبدیل کریں؟ انہوں نے گھر بدلنا چاہا اس گھر کو فروخت کردیا مگر جس دن وہ نئے مکان میں منقل ہونے والے تھے اسی دن انہیں قضا ء نےآلیا۔ بیچارے حسرت دل ہی دل میں لیکر چل بسے۔جس کے لیئے قرآن پہلے ہی تنبیہ کر رہا ہے کہ“ اللہ سبحانہ تعالیٰ فخر کرنیوالوں اورغرور کرنے کو پسند نہیں کرتا“اگر اس کے باوجود لوگ وہ کام کریں جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے تو وہ کیا جواز لیکر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے جا ئنگے۔ اس کاجواب ہر اس مومن پر چھوڑ تا ہوں جو اس عادتِ قبیح میں مبتلا ہے کیونکہ اس میں ایک گناہ اور بھی ہے کہ حدیث ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی اہانت نہ کرواللہ سبحانہ تعالیٰ تمہیں ذلیل کردے گا “ لڑکے والوں نے مسلمان بھائیوں کی اہانت کی جو کہ غریب علاقہ میں رہتے تھے؟ اس معاملہ پرہم نے سابقہ قسط میں تفصیلاً بات کی تھی وہاں پڑھ لیں جو کہ بہت بڑا گناہ ہے؟ ویسے تو آپ کی ہر سمت چاروں طرف بسنے والے ہمسایہ ہیں اور وہ حسن ِ سلوک کے مستحق ہیں لیکن ایک حدیث کے مطابق ترجیح اس ہمسایہ کو ہے جس کا دروازہ آپ کے دروازے سے زیادہ قریب ہو؟ یہاں یہ حدیث رہنمائی کرتی ہے کہ ایک دن ام المونین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضور ﷺ سے معلوم کیا کہ میرے دوہمسایہ ہیں میں تحفہ دوں تو پہلے کس سے شروع کروں؟ حضور ﷺ نےارشاد فرمایاکہ “ جس کا دروازہ تمہارے زیادہ قریب ہو “۔ جبکہ اب بات وہیں تک نہیں ہے کیونکہ بعض علمائے کرام نے ہمسائیگی کے حدود مقرر کر دئیے ہیں جو کہ چاروں طرف ہیں اور چالیس گھر تک ہیں۔ جبکہ اب صورت ِ حال یہ ہے کے چالیس گھر تو بہت دور کی بات ہے ہم برابر والے ہمسایہ کو بھی نہیں جانتے۔ پھر حقِ ہمسائیگی گھروں تک ہی محدود نہیں ہے جو سفر میں بھی ہے اور ہر برابر کی نشست پر بیٹھا بھی ہمسایہ ہے۔ جہاں ہم برتھ پر قبضہ کر کے کھڑکیاں بند کر کے لیٹ جاتے ہیں کہ ہم آگئے ہیں اب کوئی مسافر آنے نہ پائے؟ یہ کس قدر خود غرضی ہے جبکہ ایک حدیث یہ کہتی جو اپنے چاہووہی اپنے ہمسایہ کے بھی چاہو؟ جب پاکستان بنا تو ہم مشرقی گئے جو کہ اب بنگلہ دیش ہے۔وہاں کے مسلمانوں ٹرین میں داخل ہونے پر انکاکھڑے ہوکر استقبال کرتے دیکھا اور اس کے لیئے سمٹ جگہ بنا تے دیکھا اور رمضان شریف میں ترین سے باہر نکل نماز ادا با جماعت ادا کرتے دیکھ اور ٹرین میں ملکر روزہ کھولتے دیکھا ، ہمیں ان کا یہ دستور بہت اچھا لگا کہ بیٹھنے بعدایک دوسرے سے پوچھتے تھی تمہارا نام کیا ہے، کہاں کے رہنے والو ہو، آجکل کہاں ہو اس سے ان میں غیریت دور ہو جاتی تھی۔ پہلے یورپین ملکوں میں ملکوں میں مسلمان چرچ وغیرہ خرید کر مسجد بنا لیتے تھے کیونکہ ریزونگ آسانی سے ہوجا تی مگر اب اتنے اعتراضات ہوتے ہیں کہ متعلقہ آفیسر سنتے سنتے تنگ آجاتے ہیں تب کہیں سالوں میں جاکر ریزونگ ہوپاتی ہے۔ کیونکہ مسلمان اب دوسروں کاخیال بالکل نہیں کرتے بھاگتے ہوئے تاخیر سے پہنچتے ہیں جب جماعت کھڑی ہو رہی ہوتی ہے اور جلدی میں کسی کی پارکنگ لاٹ کواپنی گاڑی کھڑی کر کے بلاک کردیتے ہیں؟ کیونکہ اب وقت کی پابندی ہمارے یہاں مفقود ہے اورنمازیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کےمقررہ وقت پرہوتی ہیں وقت کی سورہ والعصر میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ اور ان ملکوں میں ہم اسلام کے سفیر ہیں یہاں تو اور زیادہ محتاط ہونا چا ہیئے۔ تاکہ ان کے خیالات جو ہمارے ان جیسے کارناموں کی وجہ سے ہمارے طرف سے آہستہ آہستہ خراب ہوتے جارہے ہیں بدلیں اور پہلے جیسے ہوجائیں۔اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پھر پہلا مسلمان بنادے اورہم سب کو ہدایتدے(آمین )

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

(656 – 671) قطعات شمس جیلانی

656
مومنو! کے لیئے نئے سال کا پیغام۔۔۔ شمس جیلانی

شمس جو لیکر آیا ہے یہاں قسمت بھی اچھی بہت
دین کے کاموں میں کرتا ہےاخلاص سے محنت بہت
بس یہ کام ہی پہچان بن جاتا ہے اس کے واسطے!
اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے یہاں اور وہاں عظمت بہت

657
اتشار پسندوں کو خدا سمجھے۔۔۔ شمس جیلانی

شمس یہاں پہ رہ کے وہاں کے جوکام کرتے ہیں
یعنی یہاں جو ذکرِ خدا صبح و شام کر تے ہیں
جو پھیلارہے ہیں کفروانتشا ان کوخدا سمجھے
ہم اپنا کام کرتے ہیں تو وہ اپنا کام کرتے ہیں

658
منازل ِصراط مستقیم ؟۔۔۔ شمس جیلانی

میں تمہیں بتاؤں کیا جووہ صاحب ِ کمال کرتا ہے
وہ کر کے گوشمالی پہلے اسے خوشخصال کرتا ہے
پھر اسے دے کے ولایت وہ کس طرح نہال کرتا ہے
جب قول و فعل سے اسے ثابت وہ بےمثال کرتا ہے

659
بخالت ایمان کی ضد ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

ایک شخص اللہ اللہ ہرگھڑی بے حدوحساب کرتا ہے
مگر جواب میں حاصل فقط عتابوں پر عتاب کرتا ہے
وجہ جو دل سے پوچھی تو اس نے فوری جواب پایا یہ
بخالت ترک کر کھول مٹھی دولت جمع کیوں کرتا ہے
نوٹ۔حدیثﷺ ہے کہ مومن بخیل نہیں ہوسکتا

660
محافل باعث رحمت۔۔۔ شمس جیلانی

حمد ہوتی ہے نعت ہوتی ہے
سامنے کل کا ئنات ہوتی ہے
ہوش رہتا نہیں کسی کوتب
سامنے رب کی ذات ہوتی ہے

661
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا۔۔۔ شمس جیلانی

دل کی بڑی امیر تھیں حضرتِ فاطمہ
منگتوں کی دستگیر تھیں حضرت ِ فاطمہ
اپنی ردا دیں بیچ اگر گھر میں کچھ نہ ہو
سخیوں میں بینظیر تھیں حضرت فاطمہ

662
جنتی کوفرشتے سلام سے خوش آمدید کہیں گے۔۔۔ شمس جیلانی

مومن وہ نہیں ہے جس نے موقعہ پاکر ملک لوٹا اور ما ل و زر پایا
ہےمومن وہ جس نے اپنے نفس امارہ کومارا اور رتی بھر نہیں کھایا
چلا اسوہ حسنہ ﷺ پر لیکر اپنی مٹھی میں جلتا ہوا جو کہ انگارہ
جب بنا جنت مکانی فرشتوں کا جھرمٹ تھا جدھر دیکھا نظر آیا

663
میرے لیئے وہی فیصلہ کر جو اچھاہو۔۔۔۔ شمس جیلانی

رب تیرے محبوبﷺکی ہر ایک ادا پر میں فدا ہوں
نعرہ میرا اللہ اکبر ہے اور میں بندہ بھی تیرا ہوں
جو کچھ میرے واسطے اچھا ہو وہی بنا میرا مقدر
یہ بات توہی جانے ہے کہ میں اچھا ہوں یا برا ہوں

664
لیڈران کرام۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ڈالروں کی ان پر بھی ہوتی ہیں بر ساتیں بہت
کام کم کرتے ہیں یہ کرتے ہیں پر باتیں بہت
دائمی شاطروں میں پھر بھی ان کا رہتا نام ہے
کھا تے رہتےپیدلوں سے ہیں جو کہ ماتیں بہت

665
با عث رد فسق فجور؟۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

دور فسق فجور ہو تا ہےظاہر چہرے پر نور ہوتا ہے
صرف لا اللہ کہنے سےدل میں پیدا سرور ہوتا ہے
کلمہ قریب کر تا ہے جو کہ اللہ سے دور ہوتا ہے
راہ حق کی طرف بلا ئے جو جگ میں مشہور ہوتاہے

666
بشر نے آکریہاں۔۔۔۔شمس جیلا نی

بشر نے آکر کے یہاں پر اپنی اوقات پہچانی نہں
کیوں سمجھ بیٹھے ہے یہ میرا کوئی ثانی نہیں
راہ ِ حق پر گر جو چلتا ، ہوتا فرشتوں سے عظیم
نا فر مان کیوں آکر بن گیا اللہ کی مانی نہیں

667
پہچانِ مومن ؟۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس بندہ دینِ اللہ کو جو اختیار کرتا ہے
ہر نبی ؑ پیار کرتا ہے ہر فرشتہ ؑپیار کرتا ہے
بار اوروں کے ہے وہ بے جھجک ا ٹھالیتا
نہیں خدا کے بندوں کو وہ زیر ِ بار کرتا ہے

668
گر جسم میں ہے روح باقی۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس ہے جسم میں روح باقی باہر طور ہے جینا
ضعیفی کی دوا کچھ نہیں فرما گئے سرکارِﷺمدینہ
مومن کی ہے پہچان یہ ہرگھڑی اللہ سےڈرے ہے
دوزخ کی وعید سن کر کے ہے اسے آجا ئے پسینہ

669
پہچان ِ نفس ِ مطمئنہ۔۔۔ شمس جیلانی

رب ! مجھے تجھ سے کو ئی بھی پیارا نہیں ہے
نہیں ہے ہماراوہ کچھ جو بندہ تمہارا نہیں ہے
“ نفسِ مطمئنہ“ کی اے شمس پہچان ہے یہ
دکھے غیر میں اس کو کوئی سہارا نہیں ہے

670
فلسفہ حکمت ِ تضاد کیا ہے۔۔۔ شمس جیلانی

اُ گائےگلشن میں کانٹے اور پھول
جنگل میں کیوں ہیں اگائے ببول
منع کیوں ہے مومن کو بحثِ فضول
یہ جانے ہے اللہ یا اس کا رسولﷺ

671
دعا رب العزت کے دربار میں۔۔۔۔ شمس جیلانی

رحم فرما اے مرے خالق اور مالک اے مرے پروردگار
تو جوکہ اپنے بندوں سے کرتا ہے ماںسے بھی زیادہ پیار
گر جو چاہے ایک پل میں دور کردےان سب کا خمار
تاکہ لوٹ آئے پھر سے تیری دنیا کےگلشن میں بہار
بڑھ گیا دنیا میں ہے اب تو بہت ہی خلفشاروانتشار(آمین)

شائع کردہ از qitaat | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(12)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ مضمون میں خاندان پر بات کرتے یہاں تک پہنچے تھے۔ کہ ماں کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اس لئیے کہ وہ جو خدمات انجام دیتی ہے جس درد اور مرا حل سے گزرتی ہے وہ کوئی اور رشتہ دار نہیں گزرتا۔اب آگے بڑھتے ہیں اس سے رشتے سے جو رشتے وجود میں آتے ہیں وہ رحمی رشتہ کہلاتے ہیں چاہیں وہ ماں کی طرف ہوں والد کی طرف ہوں یا بیوی طرف سے ہوں، ان کا خیال رکھنے والاجنتی ہے اور ان سے رشتے توڑنے والاجہنمی ہےجس پر قرآن میں لعنت بھی کی گئی ہے۔میں نے ایک مرتبہ ایک مفتی صاحب کو ٹی وی پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کر نے کا کوئی حکم نہیں ہے؟جو کہ ایک خاتون کے سوال جواب میں جواب میں تھا۔ انہوں نے پوچھا تھا کہ میرا شوہر میری والدہ کا احترام نہیں کرتا ہے اس کے لیئے کیا حکم ہے؟اس پر میں تفصیلاً بات کرنے سے پہلے۔ ہر عقلمند مسلمان سےیہ سوال پوچھتا ہوں۔ اگر بیوی کے رشتہ داروں یا ماں کے رشتہ داروں اچھا نہیں رکھیں گے! توانکے اپنے نرشتہ داروں سے ان کا سلوک اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں ہے؟ آپ کو ان تمام زوجین کے رشتوں کا یکساں احترام کر نا پڑیگا تب بات بنے گی۔کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بچتی ہے ایک سے نہیں بجائی جا سکتی۔ اسی لئے نکاح کے خطبہ مسنونہ میں ال الارحام والی آیت پڑھی جاتی ہے کہ اب آپ کی نئی زندگی شروع ہو رہی ہے ہیں۔لہذا آپ آئندہ نئے رشتوں کا بھی خیال رکھیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جہاں قرآن میں اپنے بے انتہاں احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہیں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ہم نے تمہیں سسرالی رشتہ دار عطا فرما ئے۔ تاکہ ان کے ساتھ بھلا ئی کا برتاؤ کرو؟ جس کا ہمارے یہاں بہت کم خیال رکھا جاتا ہے ذرا ذراسی بات پر شوہر صاحب حکم فرمادیتے ہیں کہ تم آج سے اپنے میکے نہیں جا ؤگی! انہوں نے میری بے عزتی کی ہے۔ مثلاً تمہاری چھوٹی بہن نے اپنے بڑے بھائی کو تو چائے کا کپ پہلے دیدیا اورمجھے بعد میں دیا پھر اسی قسم کی معمولی دوسری شکایات پیدا ہونا شروع ہوجا تی ہیں اور تلخی بڑھتی رہتی ہے اور طلاق پر جا کر ختم ہوتی ۔ جس کا روز بروز تناسب بڑھتا جارہا جو کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کےنزدیک جائز افعال میں سے سب سے زیادہ مکروہ فعل ہے۔ جبکہ بات اتنی سی تھی کہ اس نے یہ قصد اً نہیں کیاتھا؟ کیونکہ آپ کا یہاں رشتہ ہونے سے پہلے اپنے گھر میں عادی تھی اس بات کی کے تقسیم پہلے بڑے بھا ئی سے شروع کی جا ئے ؟کیونکہ اسلام یہ ہی کہتا کہ باپ کی عدم موجودگی میں بڑے بھائی کا و یساہی احترام کیا جائے جیسے کہ باپ کیا جاتا ہے؟ ہاں! یہاں پربھا ئی کا کردار یہ ہونا چاہیئے تھاوہ بہن سے کہتے کہ یہ مہمان ہیں پہلے ان سے شروع کروتو کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوتی؟ہمارے یہاں دیکھا گیا ہے کہ جسے صبر کہتے ہیں وہ روز بروز کم ہوتا جارہا جس کی تلقین اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں فرمائی ہے جس کے بارے میں امام شافعی کا قول ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ ایک سورت نازل فرمادیتے تو بھی کافی تھی۔ جہاں تک اردو میں صبر کے معنی ہیں کہ نقصان پر صبر کرلیں یا کسی کے انتقال وغیرہ پر صبر کرنے کے ہیں جبکہ ہیں عربی میں برداشت کرنے کے بھی ہیں جسے انگریزی میں ٹالرینس کہتے ہیں۔ جبکہ یہاں معاملہ یہ ہے جیسا کہ میں نےپہلے کہا کہ رشتوں کا توڑنے والا جہنمی ہے اور جو ڑ نے والا جنتی ہے۔ سورہ رعد آیت نمبر21 , 25ملا حظہ فرمالیں آپ پر مطلب واضح ہو جا ئے گا۔ یہ حدیث ابتدائی دور کی ہے جس کے راوی حضرت عمروبن عبسہ (رض) ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ کی بعثت ہوئی تو میں ان کے پاس مکہ معظمہ پہونچا تو میں نے سوال کیا آپ ﷺ کیا ہیں ً“ فرما یا میں نبی ﷺ ہو ں “ میں نے پوچھا اس کے معنی کیا ہیں؟ تو فرما یا کہ میں ﷺلوگوں اللہ کا پیام پہنچاتا ہوں، میں عرض کیا کہ مجھے بتائیے وہ کیا ہے؟۔ تو فرمایاً“ صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید اوریکتائی کا پیام دے کر بھیجا ہے، دوسری حدیث یہ ہے کہ حضورﷺ جب مدینہ منورہ پہنچے تو لو گ جوق در جوق ملنے آئے ان میں یہودیوں میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت عبد للہ بن عبد السلام پہنچے تو وہ ؓفرما تے ہیں کہ اس وقت جو میں سنا تو انہوںﷺ نے فرمایا اے لوگو! سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سورہے ہوں نمازادا کرو اس طرح آسانی اور سلامتی سے جنت میں داخل ہوجا ؤگے ً ان دو حدیثوں سے مجھے یہ ثابت کر نا مقصود تھا کہ “صلہ رحمی “پر اسلام شروع سے زور دیتا ہواآیاہے۔ جہاں بھی حضور ﷺ بات کی صلہ رحمی کو اہمیت حاصل رہی۔ اس پر اتنی احادیث موجود ہیں جو اس چھوٹے سے مضمون میں سما نہیں سکتیں۔ لہذا ایک وسرے مسئلہ کو زیر بحث لارہا ہوں! بہت سے لوگ یہاں آکر کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ خاندان پر فخر کرنا گناہ ہے۔اور تمیز نہیں کرپاتے کہ یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ فخر کرنے کے خلاف یہ حضورﷺ ارشاد ِ عالی ہے کہ جو اپنی تین پشت سے زیادہ اپنے خاندان پر فخر کرے وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے“ جبکہ یہ وہ فخر ہے جس کو سرکارﷺ نے ممنوع قراردیا وہ یہ تھا جو عربوں میں رائج تھا کہ نسلوں پہلے کی باتوں پر فخر کرتےتھے اور بحث ہی بحث میں شدت آجاتی تھی پھر اسی میں نوبت یہاں تک پہنچتی تھی کہ تلواریں نکل آتی تھیں اور خون خرابے نہ صرف ہوجاتے تھے، بلکہ نسلوں تک چلتے تھے۔ اس کے بر عکس یہاں یہ جاننا اس لیئے ضروری ہے کہ سوال یہ اٹھا کہ زکاۃکس کو دیں کیونکہ اس کے لیئےاللہ سبحانہ تعالیٰ نے پابند کیا ہے کہ پہلی شرط یہ تھی کہ اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے دوسرے اس آیت میں ترجیح کی فہرست بھی دی ہوئی جوذوی لا قربا والیتمیٰ وال مساکین و ابنالسبیل وغیرہ ہیں اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں جس کے راو ی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں حضورﷺ نے فرمایا لو گو!تمہیں اپنے حسب نسب کا اسقدر علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعہ رتم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکومثلاً باپ دا دا اورا جدات اور ان کی اولاد مرد اور عورت انہیں پہچاننا اور ان کے نام یاد رکھنا ہیں۔ یہ یہی ذولار حام کہلاتے ہیں انہیں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے کیونکہ صلہ رحمی کر نے سے قرابت داروں میں محبت پیدا ہوتی ہے اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے (مسلم)

چونکہ قطع تعلق اسلام میں حرام ہے لہذا ہر مسلمان پر فرض ہے کے ایسی کوئی بات نہ کرے جس سے تعلقات منقطع ہوں۔ یہاں دوسرے لوگوں کاطریقہ نہیں چلے گاکہ اس نے ایک تھپڑ مارا میں دس ما ردیئے۔ یہاں رشتوں کو ٹورنے سے جوڑنے والابہتر ہے۔ لہذا جو رشتہ نہ رکھنا چاہے تو تم اسے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرو اگر بول چال بند ہوگئی ہے تو تم تین دن بعد سلام سے ابتدا کرو اگر جواب نہ ملے تو تم قطع رحمی گناہ سے بر ای لذمہ ہو جاؤگے جبکہ سلام کا جواب نہ دینے والا رشتہ توڑ نے والوں میں شامل ہوجا ئے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کوشش ترک کردیں وہ حکم یہ ہے کہ جہاں بھی وہ ملے آپ سلام کریں ممکن ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے یدایت دیدے۔ (باقی آئندہ)

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(11)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ مضمون میں گھر یلو زندگی پربات کر رہے تھے۔ اور بات یتیموں تک پہنچی تھی۔ عربوں میں دستور یہ تھا کہ اگر کسی کاباپ اس کی نابالغی میں انتقال کر جاتا تو جو بھی گھر کا بڑا ہوتا اس کا سب کچھ اسی کے پاس چلاجاتا۔ نہ بیوہ کو کچھ ملتا نہ یتیموں کو کچھ ملتا۔جہاں اسلام نے خواتین کو ان کے حقوق دیئے وہیں یتیموں کو بھی حقوق دیئے۔ ایک تبدیلی یہ آئی کہ باپ کے بعد ماں بھی بچوں کی ولی ہوسکتی اس سے بڑی حد تک یتیموں کے آنسو پچھ جانا چاہیئے تھے مگر اسلام کے آنے کے بعد بھی بر َ صغیرہندوستان میں رسم ورواج وہی رہے اور یتیموں کے ساتھ بے انصافی جاری رہی۔ حالانکہ اسلام نے یتیموں کے حقوق واضح کر دیئے تھے قرآن حدیث میں سختی سے منع کیا گیا اور اس اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ جو یتیم کے مال کو خورد برد کریگا وہ قیامت دن قبر سے منہ سے انگارے اگلتا ہوا اٹھے گا۔ لیکن ابھی تک اس اسلامی قانون پر عمل نہیں ہوسکا بعض یتیم بچے اس کی وجہ سے نقصان میں رہتے ہیں چچا وغیرہ ان کی پرورش کے نام پر ان کی جائیداد قبضے میں لے لیتے ہیں۔ اور وہ دوسروں کی روٹیوں پر پلنے پر مجبورہوجاتے ہیں ۔ وہاں دسیوں نام نہادیتیم خانے کھلے ہوئے ہیں؟ اکثر جو بچے عوامی مقامات پر یتیم خانو ں کے لیئے چندہ کر تے دکھائی دیتے ہیں وہ عام طور پرففٹی، فٹی پر کام کررہے ہوتے ہیں اوران میں مسلم اور غیر مسلم کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا جبکہ زکاہ میں صرف مسلمان یتیموں کا حق ہے؟میرے پاس ایک جوان نوکری لیئے آیا جب میں وہاں ہوا کرتا تھا۔میں نے اس سے سابقہ تجربہ پوچھا؟ تو اس نے بتایا کہ وہ ابھی تک یتیم خانوں کے لیئے چندہ جمع کیا کرتا تھا اس کا نام تھا رمیش کمار۔ اس نے بتا کہ اس صندوقچی میں جوچندہ لوگ ڈالتے تھے جس کی چابی مالک یتیم خانہ کے پاس ہوتی تھیوہ کھول نصف وہ خود رکھ لیتا بقیہ نصف مجھکو دیدیتا تھا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ جب کوئی معائنہ وغیرہ کر نے آتا تو وہ ہم سب کوجمع کر کے بطور یتیم دکھا دیتا! اور اس طرح یہ کاروبار اس وقت تک چلتارہا جب تک کہ وہ جوان نہیں ہوگیا۔ اور بعض جگہ ان بیچارے یتیمو! کو ایسی سزا ملتی تھی کہ ان کا مستقبل خراب ہو جاتا تھا۔ انگریزوں کے دور میں آئی سی ایس کا امتحان پاس کر نے والوں پر یہ پابندی عائدتھی کہ وہ اچھے خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔ ایک صاحب کو میں جانتا ہوں کہ انہوں نے آئی سی ایس کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کر لیا، لیکن ان کی جائیداد چچا کے قبضے میں تھی ان کی ابتدائی تعلیم ایک ایسے ایک پرائیویٹ اسکول میں ہوئی جو ایک رئیس نے فی سبیل اللہ قائم کیا ہوا تھا اس میں کھانا اور رہائش وغیرہ طالب علموں کو مفت ملتی تھی۔اس بنا پر اس کو آئی سی ایس پاس کرنے کے باوجود ملازمت نہیں مل سکی؟ حالانکہ وہ بہت اچھے خاندان سے بھی تعلق رکھتا تھا اور اچھے نمبروں سے پاس بھی ہوا تھا؟آپ نے دیکھا کہ اس کا مستقل چچا کی اس حرکت کی بنا تباہ ہوگیا اس کا سب کچھ ہوتے ہوئے؟ جو لوگ اس کا باعث ہوئے وہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھا ئیں گے؟ جبکہ قرآن کی سورہ النساء کی آیت 36میں پہلے شرک کو منع کیا گیا اس کے بعد والدین سے حسن سلوک کی بات کی گئی ہے پھر قریبی عزیزوں کی بات کی ہے، وہیں یتیموں کے لیئے خصوصی ہدایت فرمائی ہے کہ ان کا خاص خیال رکھو۔ ان کے سرپر ہاتھ پھیرو کیونکہ ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا اب دنیا موجود نہیں رہا ہے۔ ہم نے بچپن میں دیکھا لوگ اس ہدایت بہت زیادہ عمل کر تے تھے اور اکثر سر سہلا کر بھیجا کھا جاتے تھے۔ کیونکہ بیچارے اتنے ہی پڑھے لکھے تھے کہ یتیم سر ہاتھ پھیرنے کو محرم اور چہلم میں ثواب سمجھتے تھے۔ جو اس کے اصل معنی تھی ان سے وہ قطعی نا واقف تھے۔ کہ وہ یہاں محاور ے کہ طور پر استعمال ہوا ہے۔ جب کے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ جس کسی نے یتیم پرورش اچھی طرح کی تو قیامت میں وہ اس طرح میرے ﷺساتھ کھڑا ہوگا جس طرح کہ میریﷺ شہادت انگلی برابر میں دوسری انگلی ہے۔ اور یہ تاکید تو بہت سی احادیث اور قر آنی آیات میں موجود ہیں کے یتیموں کے مال سے دور ہو وہ تمہیں جہنم میں لے جائے گی۔ ایک اور آیت میں یہ بھی ہے۔ اگر یتیم کے ولی کی مالی حالت اچھی نہ ہو تو وہ یتیم کے مال میں سے اتنا لے سکتا ہے جتنے اس کا گزارا ہوجا ئے اور یہ تاکید ہے کے جب اس کی جائداد لو تو گواہ کر لو اور جب وہ اس قابل ہو جا ئے کہ اپنے معاملات سنبھال سکے تو پھر گواہوں کی موجودگی میں اسے واپس کر دو اس میں ٹال مٹول مت اختیار کرو۔ حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نےارشاد فرما یا کہ مسلمانوں کے گھروں سب سے بہترگھر وہ ہے جس میں یتیم اور ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے بد ترگھر وہ ہے جس کے میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو!(ابن ِ ماجہ) ایک اور بہت طویل حدیث میں جوکہ ابو داؤد، مشکواۃ، حیٰا ۃ ال مسلمیں میں آئی ہے اس میں اس میں اس ماں کوبہت بڑا ثواب ہے جس نے طلاق کے بعد یا بیوہ ہونے کےبعد جاہ جمال رکھنے کے باوجود اپنی خواہشات کو مارا ہو اور بچوں کی وجہ سے شادی نہیں کی ہو یہاں تک کہ وہ بچے جوان ہو کر علیٰدہ ہو گئے یا مر گئے ہوں۔ (ابو داؤد، مشکواۃ اور حیاۃ ال مسلمین)

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(10)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتے اس پر بات کر رہے تھے ۔ کہ بچے کچھ بھی کریں لیکن ماں کی مامتا اور والدکاپیار اور شفقت انہیں کچھ کر نے نہیں دیتا ہے ۔ چونکہ میں 16 سال سینیر سٹیزنس کا کونسلر رہا ہوں قسم قسم کے معاملات میرے سامنے آئے لیکن جب بچوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات آئی تو والدین تیار نہ ہو ئے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے اکثر یہ ہوا کہ وہ ایک دفعہ آکر پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے;اب آگے بڑھتے ہیں .

بڑے بھائی اوربہنوں کے حقوق ۔ ۔ عام طورپر مسلمانوں میں یہ رواج عام ہے کہ باپ کے انتقال بعد بڑا بھائی ہی اپنے خاندان کانگراں ہوتا ہے کیونکہ دوسرے بچے چھوٹے ہو تے ہیں ۔ بڑے بھائی پر واجب ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو باپ جیساپیار دے اور بہن بھائیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ بڑے بھائی کا اسی طرح احترام کریں جس طرح وہ والد کاکیا کرتے تھے۔کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سےبجتی ہے ۔ یکطرفہ معاملات زیادہ عرصے نہیں چلتے بڑے بھائی کو با پ کی یا ماں کی چھوڑی ہوئی جا ئیداد اپنا مال نہیں سمجھنا چاہیئےبجا ئے اس کے خود کو مالک سمجھیں امین سمجھنا چا ہیئے ۔ لہذا خود کو ان کے مال کامحافط سمجھیں اور اس کو بڑھانے کے لیئے جو بھی کوشش کر سکتے ہیں وہ کریں چونکہ اسلام نے انہیں اجازت دے رکھی تو وہ اس میں بقدر ِ ضرورت لے سکتے ہیں لہذا اگر ضرورت مند ہیں تو حسب ضرورت لے لیں۔ ہمارے معاشرے میں بہکانے والے بہت ہوتے ہیں اور وہ بڑے بھائی پر نگاہ رکھتے ہیں چھوٹے بھائیوں کو بہکا تے رہتے ہیں کہ دیکھو! بھائی تمہارے مال پر عیش کر کررہا تمہارے کپڑے پھٹے ہو ئے ہیں یا گندے ہیں ۔ اور اس کے بچے کتنے ٹھاٹ سے رہتے ہیں یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جس بچے کی ماں زندہ ہے وہ زیادہ اچھے طرح سے پرورش کرتی ہے ۔ یہاں بھا بی کا کردار درمیان میں آجاتا ہے چاہیں وہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو اور کتنی بھی ان کی خدمت کرے ماں کا نعم البدل نہیں بن سکتی ؟یہ چھوٹے بہن بھا ئیوں کو بھی سمجھنا چا ہیئے ۔ اور بڑے بھا ئیوں کو بھی چا ہیئے کہ وہ اپنے بارے میں بچوں کے دلوں میں غلط فہمی پیدا نہ ہونے دیں اگر کوئی چیز لائیں تو پہلے انہیں دیں اگر کسی وجہ سے انہیں ملی تو انہیں اس کی وجہ بتا ئیں ۔ کیونکہ بھائی کو باپ کا مقام حاصل تو اسے بھی باپ بن کر ان کی سر پرستی کرنا چا ہیئے ۔ ہر راعی رعیت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور رعیت پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ جبکہ شرعاً بھابی ان کی خد مت کرنے کی پابند نہیں ہے البتہ انسانیت اس پر وہی ذمہ داریا ں ڈالتی ہےاگر وہ ادا کر رہی تو احسان کر رہی ہے اسے محسنہ سمجھیں اس طرح بات بنی رہتی ہے اور تعلقات جلد نہیں ٹوٹتے اگر معاملہ برعکس ہے بڑا بھائی ان کے حقوق ادا نہ کرے پھر تو بھابی کے کرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اور گھر بگڑ جا تے ہیں۔ کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن بغیر انصاف کے نہیں رہ سکتا;ِ یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بڑے بھائی کا ویسا ہی حق بڑے بھائی کا چھوٹے بھائیوں اور بہنوں پر ہے جیسے کہ باپ کا تھا اس کا تقاضہ ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں پر اس کا ویسا ہی احترام لازم ہے جیسا کہ وہ باپ کا کرتے تھے ۔ الادب المفرد میں ایک حدیث آئی ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالک ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایاکہ جس نے پرورش کی دو یا تین بیٹیوں کی یا دو اور تین بہنوں کی حتیٰ کہ وہ اس سے بخیر و خوبی جدا ہوگئیں (شادی بیاہ) کے بعد یا انتقال کر گئیں تووہ جنت میرے برابر ایسا کھڑا ہوگا جیسے میری یہ دو انگلیاں پھر آپ ﷺ نےانگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا اور مزید فرمایا کہ یہ ہی حکم ایک بیٹی یا بہن کابھی ہے ۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کی برتری کا حامل ہے لہذا اس میں بھابھی کاذکر اس لیئے نہیں ہے کہ اسلام نے اسے ذمہ دار قرار نہیں دیا ہے جبکہ وہ بھائی کی لاءف پاٹنر ہیں وہ نہ سمجھیں کہ وہ ثواب سے محروم رہیں گی ، جب اسلام نیک کام کا مشورہ دینے والے تک کو نیکی کا ثواب دیتا ہے تو یہاں کوئی محسنہ کیسے ثواب سے محروم رہ سکتی ہے ۔ اس نکتہ کو بھا بھی کو بھی سمجھنا چاہیئےاس لیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بڑا منصف ہے ۔

مسلمانوں کے مسلمانوں پر حقوق ۔ قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی ہر چیز حرام کردی ہے ۔ اس میں ہر طرح کی اہانت وغیرہ سب شامل ہے ۔ جس کاہر کوئی بھی شخص کلمہ پڑھنے کے بعد حقدار ہوجا تا ہے ۔ جس کا ہمارے یہاں اب بالکل خیال نہیں رکھا جاتا اور اس کی وجہ سے اسلام کی گروتھ رک گئی ہے ۔ مثلا ً اب بھی بہت سی جگہ نومسلم کو نماز تک میں برابر کھڑا نہیں ہونے دیتے حالانکہ وہ پیدا ئشی مسلمانوں سے بہتر ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں جیسے ہی وہ ایمان لاتاہےلیکن پیدا ئشی مسلمان ان کے گھر کھانا حرام سمجھتے ہیں، ان کے برابر بیٹھنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ جن کی مسلمان ہوئے پشتیں گزر گئیں مگر انہیں پنجاب میں مصلی کہتے ہیں ۔ جبکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کے لیئے یہ شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے کیونکہ مسلمان کی ساری چیزیں اس پر حرام ہیں ۔ اس کی جان اس کا مال اس کی عزت اس کی آبرو ۔ بشمول اس کے عیبوں کا کھولنا اس کی غیبت وغیرہ کرنا ۔ ایک دوسری حدیث میں جس کے راوی ابو ہریرہ; ہی ہیں;۔یہ حدیث ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں

(1) جب اس سے ملاقات ہو تو سلام کر
(2) جب وہ دعوت کرے تو تو قبول کر
(3) جب تجھ سے خیر خواہی چا ہے خیر خواہی کر
(4) چھینک لے اور وہ الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کہو
(5) جب بیمار ہو جا ئے عیادت کر
(6) مر جا ئے تو اس کے جنازے ساتھ جا(ترمذی) ایک حدیث تو یہ بھی ہے کہ جو اپنے لیئےچاہے وہ اپنے بھائی کےلیئے بھی چاہ ۔

ایک اور حدیث میں جوحضرت جابر(رض)سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فر مایا کہ جس شخص کو مسلمان کسی ایسے موقع پر ذلیل کر یگا جہاں اس کی ہتک ہوتی ہو اس کی عزت میں کچھ کمی آئے تواللہ اسے ایسے مقام پر ذلیل کریگا جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلب گار ہوگا .>اور جو شخص کسی ایسی جگہ کسی مسلمان کی مدد کریگا اس کی بھلائی ہوتی ہو، تو اللہ ایسے مقام پر اس کی مدد کریگا جہاں اس کو اللہ تعالٰی کی مدد درکار ہو ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ مسلمان سے تین سے زیادہ بات چیت بند رکھے ۔ تین دن گزر جا ئیں تو اسے چاہیئے کہ وہ اس سے جاکر ملے اور اس کو سلام کرے (اگر دوسرے نے سلام کا جواب دیدیا تو دونوں شریک اجر و ثواب ہونگے اگر سلام کا جواب نہ دیا تو سلام کرنےوالا بری الزمہ ہوگاَاس پر قطع تعلق کا گناہ نہیں رہے گا کیونکہ اس نے سلام کرکے پہل کی مگر دوسرے طرف سے ہمت افزائی نہیں ہوئی ۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے تعلق توڑنے والے سے تعلق جوڑنے والا بہتر ہے کوئی اگر تم سے تعلعق توڑے تو تم اس سے جوڑو، جوڑنے۔ ( باقی آئندہ)

شائع کردہ از Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں