(764 – 736) قطعات شمس جیلانی

736
میں کون ہوں؟۔۔۔۔ شمس جیلانی

میں کچھ نہیں ہوں اللہ نے بنایا مجھے اشاعت ِ دین کے لیئے
صناع اعلیٰ نے ویسے ہی پرزے مہیا کر دیئے مشین کے لیئے
شمس میں یہ جو کچھ بھی دن و رات کر رہا اسی کا توکام ہے
مرنا میرا جینا ہے برائے اسوہ حسنہ ﷺ شرع دین ِمتین کے لیئے

737
لائق حمد اللہ سبحانہ تعالیٰ ہے۔۔۔۔شمس جیلانی

میں حمد کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا
جس میں ہوتا نہیں وقفہ یا کہ سکتا
وہ لوگ کہتے رہیں کہ شمس ہے بکتا
جھوٹ پر جن کا رب نے الٹ دیا تختہ

738
گناہ پر سزا توبہ پر انعام۔۔۔۔ شمس جیلانی

جنت میں جائے گا وہی جو پیروئے حضور ﷺہے
اس کی جگہ جہنم ہےعاملِ فسق وفجور ہے
اب بھی جو کرلے تو بہ کردے گا رب بھی معاف
پھر اس کا مقام جنت اور زوجیت میں حور ہے

739
فلسفہ حیات۔۔۔۔ شمس جیلانی

دنیا اللہ والوں سے کبھی خالی نہیں رہتی
خالی اگر ہوجا ئے تو پھرجاری نہیں رہتی
اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ ہی رہےگا
دائمی زیست ہماری ، تمہاری نہیں رہتی

740
انتطار حشر۔۔۔ شمس جیلانی

کیا بتا ؤں ان کو نظامِ رب کتنا پیارا ہے
غریبوں کا وہ ہے حامی واحد سہارا ہے
امید پر بیٹھے ہیں اس دن فیصلہ ہوگا
کسی نے مال ماراہےیا کہ تھپڑمارا ہے !

741
غیبت کبھی سنا نہ کرے۔۔۔۔ شمس جیلانی

مومن کو زیبا نہیں غیبت کبھی سنا نہ کرے
وہ خود کرے ایسا، ایسا کبھی خدا نہ کرے
شمس اس کا وبال اکثر اسی پر لوٹ آتا ہے
برا نہ سو چے کسی کا اورکبھی برا نہ کرے

742
مداوا فقط لا الہ ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

یہاں جینا جوکہ مشکل ہوا گنا ہوں کی سزا ہے
حالات بدل جا ئیں اگر دنیا یہ مانے کہ خدا ہے
جب بھی سکوں قلب ملا ہے اسی سے توملا ہے
اب بھی انسان سدھر جائے مداوا فقط لاالہ ہے

743
گم کردہ منزل؟۔۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

گم کردہ منزل ہوا وہاں ہر حاکم و محکوم نہیں ہے
کیوں جرمِ بغاوت کی سزا انہیں معلوم نہیں ہے
کام چھوڑا نہیں ایسا کوئی جوکہ مذموم نہیں ہے
اب بھی سدھرجا ئے یہ اُمت امیدِ موہوم نہیں ہے

744
وہ مومن نہیں؟۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس وہ انسان نہیں جو اللہ کاممنون نہیں ہے
وہ مومن نہیں عامل ِ طریقہ مسنون ﷺنہیں ہے
سید ھی سی ہے یہ بات میں نے عرض ہے کردی
جو سمجھے نہ کوئی ایسا گہرامضمون نہیں ہے

745
گناہوں کی انتہا ہوگی تو؟ ۔۔۔شمس جیلانی

ایک دن آئےگا ایسا دنیا کیا سے کیا ہوجا ئےگی
گناہ اتنے بڑھے کہ جب ان کی انتہا ہوجا ئے گی
اللہ جیسی مہرباں ہستی بھی خفا ہوجائےگی
پچھلی قوموں کی طرح دنیا تباہ ہوجا ئے گی

746
ایک اچھی خبر۔۔۔۔ شمس جیلانی

حال میں ایک صاحب جو عمرہ کرکے آئے ہیں
زیادہ تر پاکستانی عمرہ وہاں کرتے پا ئے ہیں
کیا ہی اچھا ہو کہ عمرہ کریں وہ ممبرور ہو!
رہتے ہیں کورے مگر حاجی فقط کہلائیں ہیں
نوٹ۔مبرور ہونےکی پہچان ہے کہ پھر گناہ نہ کریں۔

747
با محمدﷺ ہوشیار۔۔۔شمس جیلانی

رکھنا چاہے کوئی اللہ کے بندوں میں شمار
اتباع ِ رسولﷺ اللہ پر ہے اس کا انحصار
اس سلسلہ میں کہہ گیا ہے شاعر کوئی
“با خدا دیونہ باشد با محمد ﷺہوشیار“

748
جیسا کرےگا ویسا بھریگا۔۔۔ شمس جیلانی

جو کرے اللہ پر تکیہ تو اچھا کام ہوتا ہے
کرے جو غیر پر تکیہ برا پھر انجام ہوتاہے
ہے آتا وہ نظر پیچھے لوہے کی سلاخوں کے
برے کاموں پر ہمیشہ ہی یہ انعام ہوتا ہے

749
وہ تخت دے یا کرے تختہ۔ شمس جیلانی

جو آیا ہے قر آن میں سچ ہےوہ ذوالجلال سچا ہے
جس بشر کا بھی کام اچھا ہے اس کا مآل اچھا ہے
یہ اس کے ہاتھ میں ہےتخت دے یا وہ کرے تختہ
یہ ایسا راز ہے جو جانتا چھو ٹے سے چھوٹا بچہ ہے

750
اپنی رحمت سے کرنا نہیںمجھ کوجدا۔۔۔ شمس جیلانی

تونے بچپن سے سکھایا ہے مجھےکلمہ لا الہ
رب مجھے کرنا نہیں اپنی رحمت سے جدا
تجھ کو ہے اپنے پیارے نبی ﷺنبی کا واسطہ
میرے مالک و خالق اے خدا اے خدا اے خدا

751
غنی بنادیا مجھکو۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

تمہیں کیا گناؤں کہ کیا نہیں دیا اس نے
کچھ نہیں تھامیں بہت کچھ بنادیااس نے
عنایت اس کی جس نے مجھےقناعت دی
شمس حق تو یہ ہے کہ غنی بنادیا اس نے

752
رعیت بڑی مسکین ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

قائد وہاں کے خیر مانیں وہاں رعیت بڑی مسکین ہے
لکھوایا پارلیما ن کی دیوار پر لا الہ قابلِ تحسین ہے
تاسیس سے ابھی تک منتطر ہیں کہ آئےگااسلامی نظام
جو اس چھت کے نیچے ہورہا ہے وہ دین کی توہین ہے

753
اکڑی گردن کا انجام۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس جو بھی آیا وہاں پر جم گیا
ہنستا ہواآیاگیا توبا چشمِ نم گیا
جوعزت لایاتھا وہیں پر چھوڑ دی
آیالیکراکڑی گردن، باگردنِ خم گیا

754
مخلصانہ مشورہ۔۔۔۔ شمس جیلانی

بہتر ہے کہ بات اللہ کی مانیں توبہ کریں اس کو منا ئیں
دوست نہیں دشمن ہیںوقت پر جو کہ کبھی کام نہ ۤآئیں
تکیہ کرواس اللہ پر جو ہے بگڑے ہو ئےکام بر وقت بناتا
تا کہ ڈسیں نہیں آئندہ شریف بن کر یہ دنیا بھر کی بلائیں

755
لاتی بہار ہے ۔۔۔ شمس جیلانی

امت رسولِ پاکﷺ کی بیحد ہے بےشمار ہے
جو بھی ہے جہاں بھی ہے وہ انکاﷺ جانثار ہے
جب نفرت کرے کسی نہیں کرتی وہ پیار ہے
تھوڑی ہو با عمل ہو تو لاتی ہمیشہ بہار ہے

756
شافعِ محشرﷺ۔۔۔۔، شمس جیلانی

لاریب پیارانبی ہمارا نبی الزمان ﷺ بے
وہﷺ جس پہ مہرباں ہو رب مہربان ہے
روز جزا نہ بننا چاہے گا جب کوئی شفیع
وہی شفیع بنیں گے یہ ان ﷺکی شان ہے

757
شکراداکرتے رہو؟ شمس جیلانی

بس شاکر بنے رہو گر رب مہربانہے
پہلے سے زیادہ دیگااس کی شان ہے
دونوں کو وہ ہی دیتا ہےراز اک پناہ
کافر کو ہے سزا مومن کا امتحان ہے

758
یہ سانحہ کیسے ہوا؟۔۔۔۔؛۔ شمس جیلانی

شمس یہ سانحہ کیونکر ہوا کیسے ہوا عقل بھی خود حیران ہے
انسان کو بھیجا تھاعقبیٰ بنا نے کےلیئے بن گیا پیروئےِشیطان ہے
کرنا اس کو چاہیئے تھی پوری مشقت جنت میں جانے کے لیئے
اس کےآرام کرنے کی بہتر جگہ جنت وہاں اور یہاں قبرستان ہے

759
قبولیت توبہ کی شرط۔۔۔ شمس جیلانی

کرکے توبہ معافی مانگواللہ بڑا رحمان ہے
معاف کردے گا گناہ سارے یہ فرمان ہے
وہ معاف کرتا ہی رہتااسمِ بھی غفران ہے
معافی مشروط ہے گراوسان ہیں جان ہے

760
میرے چند اصول۔۔۔۔ شمس جیلانی

بحث و مبا حثہ ہےمنع یوں نہیں پیش کرتا صفائی ہوں
جو کہ کچھ سمجھنا سیکھنا چا ہے میں اس کا بھائی ہوں
لکھتا ہوں جوکچھ میں لکھتا ہوں چھان بین کر کے اسے
ویسے میں کچھ نہیں ہوں دین کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں

761
نوزائیدہ پر پوتی سے پہیلی ملاقات پر۔۔۔۔ شمس جیلانی

ماں باپ نے نام دیا ا س کے اسے آئیلا نور ہے
چڑھتے ہوئے سورج میں ہوا اس کا ظہور ہے
آنکھوں کی چمک کہہ رہی بچی با شعور ہے
شاید بھٹک کر آگئی کوئی جنت کی حور ہے

762
۔۔۔۔لا اکراہ فی الد ین۔۔۔ شمس جیلانی

بات واضح ہے فرق ِکہیں زیروزبر نہیں ہے
اسلام کی خوبی ہے یہ اس میں جبر نہیں ہے
دل سے پڑھے کلمہ ہے ہم سے بھی افضل
یہ فرمان ِ الٰہی ہے کیا تمہیں خبر نہیں ہے

763
حالت ِ ماحول۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس ماحول وہاں کا اتنا گندہ ہے
اللہ کا جوبندہ ہے رہتا شر مندہ ہے
کہو اگر جھوٹ مت بولو کم مت تولو
کہتے ہیں لوگ یہ تو ہمارا دھندہ ہے

764
کس کو یارا ہے۔ شمس جیلانی

کوئی بندہ کہے مجھے تو پیارا ہے
ہو حقیقت مگر یہ استعارہ ہے
کہاں رب العالمین کہاں اک بندہ
ایس طرح کہنےکا کس کو یاراہے

شائع کردہ از Articles, qitaat | تبصرہ کریں

اسلامی طرز معاشرت (4)۔شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں مصا فحہ، معانقہ اور دست بوسی پر بات کرتے ہوئے اس سلسلہ میں بعض لوگوں کی شدت پسندی تک پہنچے تھے۔اب آگے بڑھتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں حضور ﷺ سے ہونا ثابت ہیں ?مگرغورطلب بات یہ ہے کہ جن بچوں کو ایسے استاد ملیں گے ان کی ذہنی حالت کیا ہوگی؟ یہ بات آپ لوگوں کو سوچنے کے لیئے چھوڑتا ہوں۔ جبکہ اسلام ہادیِ ﷺ اسلام اور انﷺ کی پیرکار اپنے عمل سے دنیا پر یہ ثابت کر چکے ہیں کہ” محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں” جس کی بنا پر قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیںحریص کہا ہے تاکہ ہر ایک ان جیسا متقی ہوجا ئے۔ میں نےمسلمان استعمال کرنے بجا ئے متقی کا لفظ استعمال کیا ہے کہ مسلمان تو ہر ایک ہوجاتا ہے۔ متقی مشکل سے بنتا ہے جو کہ ایک مسلمان کا حدف ہونا چاہیئے مگر ہے نہیں ۔صحابہ عظام اور اولیا ئے کرام نے یہ ہی طریقہ اپنا کر دنیا میں اسلام پھیلا یا ؟قارئین کی مزید تسلی کے لیئے میں اس سے متعلقہ مزیداحادیث پیش کرتا ہوں؟۔ ایک حدیث میں حضرت زرا ؓنے اتنا اور زیادہ لکھا ہے کہ “مگر یہ کہ وہ بھائی یا ا دوست سفر سےآیا ہو(تومعانقہ کرسکتا ہے)(مشکواۃ)اور بطور تکریم ہاتھ کو بوسہ دے سکتا ہے(التر غیب والترہب للمنذری)جبکہ حضرت شعبی ؒفرماتے ہیں کہ حضرت جعفر بن علی کرم اللہ وجہہ جب حبشہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضورﷺ اسوقت غزوہ خیبر سے فارغ ہوئے تھے وہﷺ ان سے ؓ گلے ملے اور فرمایا کہ مجھے خیبر کی فتح سے زیادہ ان سے ملنے پر خوشی ہوئی ہے یہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بھی موجود ہے اس کو ابن کثیر ؒ نے بھی متعدد حوالوں کے ساتھ اپنی سیرت پر کتاب البدایہ والنہا یہ میں لکھا ہے ۔حضرت زارع ؓجو عبد ال قیس کے وفد میں شامل تھے فرماتے ہیں کہ ہم جب مدینہ منورہ پہنچے تو جلدی جلدی اپنی سواریوں سے اترے اور ہم نے رسول ﷺاللہ کے ہا تھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا(ابو داؤد، مشکواۃ)حضرت انس ؓ نے ایک مرتبہ بڑی نہایت غایت،اور فرحت کے ساتھ فرمایاکہ میں نے اپنے ان ہاتھوں سے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ مصافحہ کیامیں نے کبھی کسی قسم کی حریریا ریشم کو حضورا کرم ﷺ کے ہاتھوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا؟ان کے شاگرد کے سامنے جب یہ بیان کیا گیا تو انہوںنے اسی شوق سے عرض کیا کہ میں بھی ان ہاتھوں سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں جن ہاتھوں نے حضور ﷺاکرم سے مصافہ کیا؟ اس کے بعد یہ سلسلہ ایسا جاری ہوا کہ آج تک جاری ہے(خصائل نبویﷺ)حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ رسولﷺ کے صحابہ ؓ مصافحہ کیا کرتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو آپس میں معانقہ کیاکرتے تھے۔اور مصافحہ کی مشہور حدیث میں حضورﷺ کے زمانے میں مسلسل مصافہ کرنا ثابت ہے۔دوسری حدیث میں یہ ہے کہ حضرت زید بن حارث(رض) جب مدینہ منورہ تشریف لا ئے اور دروازے پر دستک دی تو حضورﷺ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لا ئے تو ان سے معانقہ کیا اور ان کے ماتھے کو بوسہ دیا(ترمذی) ہا تھ کو چومنے کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت ثابت ؓ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ کبھی حضور ﷺ کے ہاتھ کو آپ نے چھواہے انہوں(رض) نے کہا ہاں! تو حضرت ثابت (رض) نے حضرت انسؓکے ہاتھ کو چوم لیا(الادب المفرد)

حدیہ؛حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرماکہ آپس میں ہدایا اورتحائف کا تبادلہ کر تے رہو کہ باہمی محبت بڑھے(بخاری۔الادب المفرد)دوسری حدیث میں ہے کہ حدیہ ایسے شخص کا قبول کرو جو ہدیہکا طالب نہ ہو ورنہ باہمی رنجش کی نو بت آئے گی۔لیکن تم اپنی طرف سےکوشش کرو کہ اس کو کچھ بدلہ دیا جا ئے اور اگر بدلہ دینے کو کچھ بھی میسر نہ ہوتو اس کی ثنا اور وصف ہی بیان کرواور لوگوں کے روبرو اس کے احسان کو ظاہر کردواور ثنا اور صفت کے لیئے اتنا کہدینا کافی ہے جزاک اللہ خیرااگرمحسن کا شکریہ ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ ہوگا۔جس طرح نعمت کی نا شکری بری ہے اسی طرح یہ برا ہےکہ ملی ہوئی چیز پر شیخی بگھاری جا ئے کہ ہمارے پاس اتنا ۤآیا اتنا یہ بھی برا ہے۔(مسند احمد)ایک حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تمہاری خاوطرداری کوخوشبو، تیل، یاتکیہ پیش کرے توخوشبو سونگھ لو۔تیل لگالو، دودھ پی لو۔ تکیہ کمر سے لگالو۔انکار اور عذر مت کرو۔کیونکہ ان چیزوں میں کوئی لمبا احسان نہیں ہوتا جس کابار تم سے نہ اٹھ سکتا ہو اور دوسرے کادل خوش ہوجاتا ہے(ترمذی) ایک دوسریحدیث میں تاکید ہے کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی کہ باہم تحائف دیتے رہا کرواس سے دلوں کی صفائی ہوتی ہی محبت بڑھتی ہے اور کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کوبکری کے پا ئے کاکوئی تکڑا بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے اور یہ خیال نہ کرے کہ تھوڑی سے چیز کیابھیجیں جو کچھ ہو بے بلاتکلف لو اور دو(الادب المفرد)

شائع کردہ از Articles, Islami tarz e muashirat | تبصرہ کریں

اسلامی طرز معاشرت (3)۔شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتہ سلام پر بات کر رہے تھے۔اسی پر آگے بڑھتے ہیں۔حضرت ابن ِ عباسؓ فرماتے ہیں کے میرے نزدیک خط کا جواب دینا اسی طرح ضروری ہے(ادب المفرد) اس کی روشنی میں میرے خیالل میں چونکہ آج کے دور میں اور بھی بہت سے ذرائع خط وکتابت کے علاوہ موجود ہیں،ان سب کا جواب دینا ہر مسلمان کا جہاں تک اس سے ہوسکے سنت ہےانہیں جواب دینا چاہئے۔ حضور ﷺ کو جس کسی نے بھی خط لکھا اس کو انہوںﷺ نے جواب سے نوازا حتیٰ کہ مسلمہ کذاب جیسے نبوت کے جھوٹے دعویدار کو بھی جواب دیا جو ان ﷺکی سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے۔جواب دینے سے ایک تو آپ کی انکساری ظاہر ہوتی، دوسرے آپ کے اخلاق حمیدہ کا پتہ چلتا ہے۔ جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے نزدیک بہت اچھا ہے جس کا اخلاق اچھا ہےًجواب نہ دینے کی صورت میں قباحت یہ ہے کہ اس سے آپ کاتکبر ظاہر ہوتا ہے جو سوائے اللہ کے کسی کو زیب نہیں دیتا۔ جس کے بارے حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ً کہ کبر میری چادر ہے جس نے اس میں پیر ڈالنے کی کوشش کی میں اس کو ذلیل کردونگا ً یہ بہت بڑی وعید ہے۔اور اس سے بداخلاقی بھی ظاہر ہوتی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں حضو ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ مومن نہ بنو، اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ وہ تدبیر بتاؤں جو تم ایک دوسرے محبت کرنے لگو۔ آپس میں سلام کو پھیلاؤ (بہیقی، مشکواۃ)

حضورﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں پہنچے تو سلام کرے اور اگر بیٹھنے کی ضرورت ہو تو بیٹھ جا ئے اور پھر جب چلنے لگے تو سلام کرے۔اس لیئے پہلی مرتبہ کا سلام کرنا دوسری مرتبہ کے سلام کرنے سے بہتر نہیں ہے یعنی دونوں سلام مسنون ہیں (تر مذی۔مشکواۃ) ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ًغریبوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر مسلمان کو سلام کرو چاہے اس سے جان پہچان ہو یانہ ہو ً(مسلم۔بخاری) حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بچے جب تم گھر میں داخل ہوا کرو تو پہلے گھرو الوں کو سلام کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں خیر اور برکت کی بات ہے(ترمذی)

حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص تو اس کو سلام کرے، درمیان میں کوئی چیز حائل ہو جا ئے جیسے درخت یا دیوار، پتھر وغیرہ پھرتو جیسے ہی سامنے آئے سلام کر ((زاد الصالحین ۔ زاد امعاد)

سلام میں تشبہ۔حضرت عمر ؓ بن شعیب ؓنے اپنے والد سے اور وہ دادا سے روایت کر تے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دوسری قوموں کے ساتھ تشبہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔اس کی وضاحت یہ فرمائی کہ یہودیوں کی شبا ہت نہ اختیار کرو،نہ نصاریٰ کی کیونکہ یہودی انگلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں او رنصارایٰ ہتھیلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں (ترمذی)

سلام کے حقوق۔مسلمان، مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کرنا چاہیئے۔چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ کم تعداد بڑی تعداد کو سلام کرے۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ اشا رے سے سلام کر نا جائز ہے جب مخاطب دور ہو۔زور سے سلام کرنا کہ مخاطب سن لے(الادب المفرد)

مصافہ اور معانقہ۔ اس میں بڑا اختلاف ہے۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو میں نے کہتے سنا کہ وہ حضورﷺ سےدریافت کررہا تھاکہ ً جب آدمی اپنے دوست یا بھائی سے ملے جبکہ وہ سفر سے آیا ہو تو کیا اس کے سامنے جھک جائے؟آپﷺ نے فرمایا نہیں۔اس نے پوچھا کیا اس کے ساتھ معانقہ کرے،اس کو بوسہ دے آپﷺ نے فرمایا نہیں۔اس نے کہا کہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے اور اس کے ساتھ مصافحہ کرے حضور ﷺ نے فرمایا ہاں (ترمذی) جبکہ حضور ﷺ کی سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ ہے کہ جب کہ جب حضرت جعفر بن علی ؓ حبشہ سے تشریف لا ئے تو انہوں ﷺ نے انؓ سے معانقہ کیا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیادیا۔ ہم کراچی میں مسجد الفلاح کے سامنے پی۔ سی۔ اییچ۔میں رہتے تھے۔ وہاں کے امام صاحب بنوریہ ٹاؤن کی درس گاہ میں پڑھاتے بھی تھے۔ وہ مصافحہ کو حرام بتاتے تھے۔ محلے والے تو جانتے تھے وہ مصافحہ نہیں کرتے تھے۔لیکن کوئی نیا پھنس جا تا تو اس کی خیر نہیں تھی وہ اس کی جان کو آجاتے تھے؟ جیسے ہی وہ مصافحہ کے لیئے فجر کی نماز کے بعد منبر کی طرف بڑھتا لوگ تماشہ دیکھنے کو تیار ہو جاتے کہ مارا، اب شیر نے پنجہ تھے؟ ماشا اللہ تھے بھی بڑے لحیم شحیم آدمی اس کو جان چھڑانامشکل ہو جاتی یہ تھی اس سلسلہ میں شدت پسندی کی انتہا۔(شمس)

شائع کردہ از Articles, Islami tarz e muashirat | تبصرہ کریں

اسلامی طرز معاشرت (2)۔شمس جیلانی

سلام کا مقام اسلام میں۔ اسلام کی ابتدا سلام سے ہوئی یہ ہی مسلمانوں کوڈورڈ تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو پہچان تے تھے۔حضور ﷺ کاحکم تھا کہ سلام کو بھیلاؤ، لہذا ابتدا سے سلام تھا اورانتہا سلام پر ہے حتیٰ کہ جنت میں داخلے پر فرشتے بھی سلام کر رہے ہونگے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گوکہ سلام واجبات میں سے ہے لیکن فرض کے قریب ہے، جیسے کہ عیدین کی نماز واجب ہے مگر وہ بھی فرض کے قریب ہے۔حضور ﷺ نے امت کو خبر یہ فرما کرﷺ دی ہے کہ قربِ قیامت سلام عام نہیں رہے گا صرف دائروں کہ اندر رہ جا ئیگا۔ سلام ہے کیاایک دعا ہے کہ تمہارے اوپر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمت ہو؟ اسلام نے اس سے ہی اپنا طرز معاشرت شروع کیا ہے دنیا ختم ہو جا ئے گی لیکن سلام مومنو! کے ساتھ قبر میں رہے گا اور پھر جنت میں ساتھ جا ئے گا۔یہاں قبرستان جانے کے لئے السلام علیکم یا اہلِ قبور کہنے کا حکم ہے۔ اور جنت میں داخلہ کے وقت فرشتوں کوحکم ہے کہ وہ سلام کریں؟ حالانکہ اسلامی طرز ِ معاشرت میں جیسا کہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے آنے والے کو بیٹھے ہو ؤں کو سلام کر نے کا حکم ہے؟ لیکن مومنوں کا اعزاز بڑھانے کے لیئے فرشتوں کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سلام میں انہیں پہل کرنے کاحکم دیا ہے جب یہ جنت داخل ہورہے ہونگےاور ان کے سلام کا جواب یہ سلام سے دیں گے۔ اسلامی معاشرت میں کسی دوست کسی ہم مذہب سے ملنے جانے کا بڑا ثواب ہے جوکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیئے ہو۔ اس کے دروازے پر پہنچ کر سلام کرنے کا حکم ہے۔ وہی اجازت کاکام کرتا ہے۔اسے استیذان کہتے تھے یعنی گھر میں داخل ہونےکی اجازت مانگنا۔ حکم ہے کہ دروازے پر پہنچ کر تین دفعہ آنے والاسلام کرے اگر اندر سے جواب نہ آئے تو برا مانے بغیر! خاموشی سے واپس چلا جائے؟۔ ایک بڑ مشہورا واقعہ ہے کہ ایک صحابیؓ کے گھر حضورﷺ تشریف لے گئے انہوں ﷺ نے تین دفعہ سلام کیا، جب جواب نہیں آیا تو وہ ﷺواپس ہونے لگے ان کے صاحبزادے دیکھ رہے تھے انہوں نے سوال کیاکہ ابا آپ جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں چاہتا تھا کہ بار بار حضور ﷺمیرے لیئے دعا کریں اوروہ دوڑ کر حضورﷺ کے پاس پہنچے اور یہ ہی وجہ حضورﷺکو بتاکر ان ﷺسے معذرت کی۔ حضورﷺ نے باالکل برا نہیں مانا اور ان کے ساتھ ان کے گھر تشریف لے آئے؟۔ یہاں سلام کے ساتھ ساتھ کھڑے ہونے کے آداب بھی ہیں کہ حضور ﷺ دروازے کے سامنے کبھی تشریف فرما نہیں نہیں ہوتے تھے بلکہ دروازے کے ایک ایک طرف تشریف فرما ہوتے تھے تاکہ گھر کے اندر نظر نہ پڑے؟اب وہ دور گزر گیا ہر ایک کے گھر میں ٹیلیفون ہے،جیب میں ٹیلیفون ہے پہلے سے دن اور وقت مقرر ہوسکتا ہے۔ جبکہ پہلے سے آداب میں یہ بھی شامل ہے جب مہمان پہنچیں توصاحب ِخاِنہ منتظر ملیں اورجیسا کہ اس میں حکم ہے کہ دروازے پر استقبال کریں اور گھر اندر لے کر آئیں اور واپسی میں دروازے تک چھوڑ نے جا ئیں۔ یہ ہی قوانین اس کے اپنے گھر کے بارے میں بھی ہیں جب جا ئے تو سلام کرے۔ حضور ﷺ جب گھر میں تشریف جا تے تو اس طرح سے سلام کرتے کے سونے والوں کی نیند میں خلل نہ پڑے اور جاگنے والے سن لیں۔ایک حدیث میں عطا بن یسار ؓمروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ میں اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت جب میری ماں وہاں ہو تب بھی اجازت طلب کروں ؟حضور ﷺ نے فرمایا ہاں! اس نے پھر عرض کیا کہ حضور ﷺ میں تو اپنی ماں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں ایسا نہیں ہے کہ وہ علیحدہ گھر میں رہتی ہوں اور میں عیلحدہ گھر میں رہتا ہوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا پھر بھی تم اجازت مانگو، پھر اس نے کہا کہ میں خدمت کے لیئے بار بار آتاجاتا ہوں ہر بار اجازت لیکر جاؤں حضورﷺ نے فرمایا تم اجازت لیکر اندر جاؤ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اپنی ماں کو کھلی حالت میں دیکھو؟ تو سائل کہ نہیں۔ آپ ﷺ فرمایا کہ پھر اجازت لو۔(مشکواۃ شریف) ایک دوسری روایت میں جو رسولﷺ اللہ سے منقول ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ اذن چاہناتین بار ہوتا ہے ؟ اجازت مل جا ئے تو اچھا ہے ورنہ واپس لوٹ جاؤ ،اس میں مزید اضافہ یہ بھی ہے کہ اذن حاصل کرنے سے پہلے سلام کر نا چاہیئے اور اپنا نام ظاہر کرنا چاہئے یہ نہ کہے کہ“ میں ہوں“ (زاد المعاد)حضرت ابوامامہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تین شخص ہیں جنکا اللہ تعالیٰ ضامن ہے کہ وہ جنت میں جا ئیں گے۔

(1)جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے

(2 )جو نماز کے لئے مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہے۔

(3)جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہے۔ (زاد المعاد) وہ آدمی خدا سے زیادہ قریب ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے۔

سلام کی ابتدا آپ اس طرح فرماتے تھے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و براکاتہ (باقی آئندہ)

شائع کردہ از Articles, Islami tarz e muashirat | تبصرہ کریں

اسلامی طرز معاشرت (1)۔شمس جیلانی

الحمد للہ بفضل ِ تعالیٰ ہماراسلسلہ اسلام دینِ معاملت ہے ختم ہوا۔اب ہم یہ نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔جیسے کہ معاملات کو مسلمان بھلا بیٹھے ہیں۔اسی طرح اس کو بھی بھلائے ہوئے ہیں جبکہ اس کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ حضور ﷺ نے خود عملی طور پر کرکے دکھایا ہے اور ہمارے لیئے سبق چھوڑا کہ کیا کام کس طرح کرنا چاہیے؟ مگر آجکل مسلم امہ نے اسے بھی غیر ضروری سمجھ کرترک کردیا ہے، جبکہ یہ بھی اسی طرح اسلام کا حصہ ہے اور یہ بھی اور مذاہب میں موجود نہیں ہے اس لیئے کہ وہ اسلام کی طرح دین نہیں ہیں صرف روحانی حصہ کو اہمیت دیتے ہیں؟ جبکہ انسان جسم اور روح دونوکا مرکب ہے۔

چونکہ قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے صرف حضور ﷺ کے اتباع کو اپنا اتباع فرما یا ہے اور یہ بھی فرمایا مجھے اس کے سوا کوئی اور دین پسند نہیں ہے۔ لہذاجو کام حضور ﷺ کے طریقہ پر کیا جا ئے وہ مسنون کہلاتاہے! اور عبادت میں شامل ہے اس میں روحانی فائدے بھی ہیں ساتھ ہی جسمانی فائدے بھی ہیں۔ چونکہ اللہ سب کا خالق ہے اس سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اسکی تخلیق کی ضروریات کیا ہیں؟اس لیئے اس کا اپنا لطف ہے جسمانی اور مجلسی فوائد ہیں اور ثواب بھی ہے۔جبکہ کسی اور کا اتباع کا نہ کرنے کاحکم ہے نہ اس کا ثواب ہے اور نہ ہی کسی نے خود اپنی تصنیفات میں فرمایا ہے کہ میرا اتباع کرو؟انہوں ؒ نے یہ ہی کہا کہ ہمارے خیال میں حضورﷺ نے یہ کام اس طرح کیا ہے؟

حضرت امام مالک ؒ سے خلیفہ ہارون الرشید نے کہاکہ کیونہ ہم جو کہ ہمارا فقہ ہے اس کو پوری خلافت میں نافذ کردیں؟لیکن انہوں نے فرمایا کہ نہیں ان کو آزاد چھوڑدووہ جونسا فقہ چاہیں اختیار کریں۔ اس سلسلہ کی آخری کوشش سعودیوں نے کی تھی وہ چاہتے تھے کہ تمام دنیا ان کے فقہ کو تسلیم کرلے جو نہیں ہوسکا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بری طرح امت مسلمہ انتشار کا شکار ہوگئی؟اب وہ بھی اسطرف سے نا امید ہو کر جدید دنیا کی طرف متوجہ ہیں۔وجہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اور و ں کے لئے راستہ بند کردیا ہے حضور ﷺکے لیئے یہ فرماکر کہ ﷺ ًیہ وہی کچھ کہتے جو ہم ان ﷺکی طرف وحی کرتے ہیں،یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے۔اور دوسری آیت میں یہ بھی فرمادیادیا کہ تمہارے لیئے تمہارے نبیﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اُسوحسنہ ﷺکو اپنا کر مسلمان شدت پسند ہوجاتے ہیں۔ حالانہ کے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حضور کا اسوہ حسنہ ﷺ ہی مسلمان کو مکمل مسلمان بناتا ہے۔ دین بنتا ہی قرآن اور صاحب ِ ﷺقرآن کو ملاکر ہے۔ ایسا مسلمان جو ہر لحاظ سے متقی کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ حدیث ہے ً جو اپنے لیئے چاہو وہ اپنے بھائی کے لیئے بھی چاہو ً نفرت کسی سے نہ کرو محبت سب سے کرو؟ یہ ہی اُسوحسنہﷺ کاوہ سب بڑا ہتھیار تھا جس کے ذریعہ اولیا ئے کرامؒ نے اسلام کو تمام دنیا میں پھیلا یا۔ جبکہ بادشاہوں نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی بلکہ خود انکی راہ پر چل پڑے جو گم کردہ منزل تھے ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں ہم خود چھوت چھات کا شکار ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کا ارتقا رک گیا ورنہ آج اس کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ہم نسلی مسلمان ان کو وہ حقوق نہ دے سکے جس کے وہ حقدار کلمہ پڑھتے ہی ہوجاتے تھے؟ جبکہ وہ ہم سے بہتر اس بنا پر تھے کے ان کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

مگر ان کے ایمان لانے کے باوجود ہم انہیں اپنے اندر سمونے کے لیئے تیار نہیں ہوئے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی اچھوت کہ وہ اچھوت رہے ان کا حشر دیکھ کر دوسروں کے حوصلے پست ہوگئے؟۔ کاش ہم حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مضبوطی سے پکڑے رہتے تونتائج کچھ اور ہوتے۔ پھر ہم متحد ہوتے اور اتنے فرقے بھی نہیں ہوتے۔ اس پر کچھ مفاد پرستوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا حدیثوں کو مشکوک بنادیا؟اور یہاں تک گئے کہ جس کا راوی ان کے فقہ کا نہ ہو وہ حدیث ضعیف ہے؟جبکہ یہ ایک سازش تھی حضور ﷺ سے محبت کو کم کرنے کے لیئے۔ حالانکہ کہ وہ مسلمان ہی نہیں ہے جو کہ اللہ اور رسولﷺ کو سب زیادہ نہ چاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ راست دکھا ئے اور پہلے جیسے مسلمان بن جائیں۔آمین

شائع کردہ از Articles, Islami tarz e muashirat | تبصرہ کریں

(735 – 710) قطعات شمس جیلانی

710
گناہ پر سزا توبہ پر انعام۔۔۔۔ شمس جیلانی

جنت میں جائے گا وہی جو پیروئے حضور ﷺہے
اس کی جگہ جہنم ہےعاملِ فسق وفجور ہے
اب بھی جو کرلے تو بہ کردے گا رب بھی معاف
پھر اس کا مقام جنت اور زوجیت میں حور ہے

711
اسلام طریقہ زندگی ہے۔۔۔۔۔شمس جیلانی

اسلام فقط دیںِ ذکرو اذکار نہیں ہے
ہر بات تو واضح پر اصرار نہیں ہے
مومن کا عمل صالح ضائع نہیں جاتا
صرف اللہ کے لئے ہو بیکار نہیں ہے


712
رب کی دَیں ہے۔۔۔ شمس جیلانی

اے میرے مالک اے میرے خالق پروردگار
یوں حمد کرتا ہوں میں تیری لیل و نہار
جھوٹ میں کہتا نہیں،جھوٹ میں لکھتا نہیں
یہ تیری دَین ہے سچوں میں ہوتا ہوں شمار

713
ایمان کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔۔۔۔ شمس جیلانی

لوگ سمجھیں ہیںمسلماں ہے وہ جس کا مسلمانوں جیسا نام ہے
اس میں نکتہ پنہاں ہے کیا وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺکا تابع احکام ہے
شمس جو کرتا عمل اس پر ہے وہی کہلانے کا ہے مستحق ملسماں
واسطے اس کے ہے جنت دائمی عزت بھی ہے عظمت بھی ہے آرام ہے

714
دو متفرق اشعار۔۔۔۔شمس جیانی

جہاں میں جیسے جیسے بے دینی بڑ ھھ رہی ہے
زمانے میں ویسے ویسے بے یقینی بڑھ رہی ہے
یہ خدا جانے اس بغاو ت کااب انجام کیا ہو گا
کیا پھر کوئی چنگیز آے گا اس کانام کیاہوگا

715
مسلمان کسے کہتے ہیں۔۔ شمس جیلانی

مومن کا ولی اللہ ہے
کافر کاولی شیطان ہے
رب کا یہ ہی فرمان ہے
مظہرِکامل مسلمان ہے

716
دین میں جبر نہیں ہے۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

اے شمس دین میں واللہ نہیں جبر نہیں ہے
وہ مسلماں ہی نہیں جس میں صبر نہیں ہے
قر آں تو واضح ہے فرقِ زِبر اور زَبر نہیں ہے
یہ شدت پسندی آئی کہاں سے خبر نہیں ہے

717
روزے پر مختلف الخیالی۔۔۔شمس جیلانی

مومن کا مطمح نظر رب کا ہے جلوہ
کچھ کہتے ہیں کہانا فقط ہے حلوہ
کئی بے روزہ مسلمان کہلاتے ہیں
چھا یا ان پر شیاطیں کا ہے غلبہ
نوٹ۔ دیکھنے میں یہ ایک مزاحیہ قطعہ ہے
مگر اس کی تفسیر طویل ہےمندرجہ ذیل پتہ
پر بھیجئے اول آنے پرسیرت فاؤنڈیشن سے انعام
اور سرٹیفکٹ حاصل کیجئے۔

718
اللہ کو اتنا چاہو۔۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ اتنا کو چاہو کہ دیوانہ کہیں تمہیں
گراس کو شمع کہیں پروانہ کہیں تمہیں
کرتے رہوکام اسی طرح تم اس کے دین کا
بعداز مرگ حامل ِ حیات ِ جاودانہ کہیں

719
علی کی مثال کچھ بھی نہیں۔۔۔ شمس جیلانی

جچی علیؑ کے نگاہ میں فکرِمآل کچھ بھی نہیں
علی ّزندہ ہیں اور عروج و زوال کچھ بھی نہیں
گھمنڈ مرحب کو یہ تھا کہ خیبر فتح نہیں ہوگا
علی ّ نے جاکر کے کردیا ثابت محال کچھ بھی نہیں

720
قابل ِ علی ؑ اور عدو۔۔۔۔ شمس جیلانی

علی ؑ خلییفہ تھےسوکھی روٹی پانی میں بھگوکے کھالے تھے
ادھر تو بادشاہت تھی ان کے ٹھاٹ بھی سارے نرالے تھے
علی ؑ اکیلے تھے ان کے ساتھ میں ابن الوقت تھے اور کنبہ تھا
علی ؑ کےساتھ تھوڑے سےجیالے تھے مگر سب اللہ والے تھے

721
علی کا کوئی ثانی نہیں ۔۔۔شمس جیلانی

علی ّ کا کوئی بھی ثانی نہیں ہے
ان کی زیست بھی فانی نہیں ہے
وہ اٹھارہ سلسلوں کے ہیں قائد
امت پر کیا مہربانی نہیں ہے

722
نویدِ جنت۔۔۔۔شمس جیلانی

جوکہ پیوستہ رہے ہرگھڑی قرآن سے
گررکھے روزےاحتساب اور ایمان سے
جائیں گےجنت میں وہ بڑی شان سے
ہے یہ ثابت سرکارﷺ کے فرمان سے

723
لوگ جو خسارے میں رہے۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ایسے بھی کچھ لوگ ہیں سیکھا کچھ نہیں امسال کے رمضان سے
بالکل ان کو فرصت ہی نہ تھی جنگ کرتے رہے زبان کی پیکان سے
اس قدر پھینکے انہوں نے جھوٹ کےبنڈل کے بنڈل الامان و الحفیظ
ماہ بھر لیتے رہے وہ مشورے رات دن بس اپنے اپنے شیطان سے

724
ابھی بھی وقت ہے۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

رمضان جانے والے ہیں اب تینوں عشرے گزارکر
جوغافل ر ہیں لوگ کریں توبہ خودکو سنوار کر
اس میں شبہ نہیں ہے کہ وہاں ہونا ہےا حستاب
للہ جاؤنہیں یہاں سے اسکے سامنے عقبیٰ بگاڑ کر

725
اعتکاف۔۔۔ شمس جیلانی

جو کہ آخری عشرہ میں مسجد میں جا کر بیٹھ رہے اعتکاف کیا
انہوں نے نہ صرف اپنے لئے سب کی طرف سے اک کار َثواب کیا
حرم شریف کے دوحج کا،دو عمروں کا بھی خود کیاثواب حاصل
یہ فرض۔ فرض کفایہ ہے جو ادا ہوا سب کا کام لا جواب کیا

726
شبِ شب قدر۔۔۔۔ شمس جیلانی

ہمیں عندیہ ملتا ہے یہ سرکارﷺکے فرمان سے
طاق راتوں میں اسے ڈھونڈو اکیس رمضان سے
تلاش اس کو کرو انﷺ کی بتلائی ہوئی پہچان سے
دوسری رات ہے کوئی آتی نہیں اس شان سے

727
جنتی ہےجس نے یہ عمل کیئے۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ماہ جس نےگزارادرود وعبادت میں صلہ اسکا رحمت ہے
چھوڑی ہر برائی اس ماہ میں نہ چھوڑا فرض وسنت ہے
پھر سنو اللہ کی رضا ماں باپ کی رضا کی رہیں منت ہے
گر کر لیااس ماہ میں انہیں بھی راضی تو صلہ جنت ہے

728
سپاس گزار ی۔۔۔شمس جیلانی

اے میرے مالک اے میرے پروردگار
تو نے ماں سے زیادہ دیا مجھ کو پیار
کر نہیں سکتا ہوں میں گن کر شمار
ملک رہنےکو دیا وہ لوگ پائے ملنسار

729
عید مبارک۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

عید اس کی ہے جو رہا دور ہر کارِ شیطان سے
بام ودر گونجا کیئے جس کی تلاوتِ قرآن سے
روزے رکھے جس نے کہ احتساب و ایمان سے
جا ئے گا جنت میں وہ یومِ قیامت شان سے

730
گر تیری نصرت ساتھ ہو؟ شمس جیلانی

اے میرے مالک اے میرے پر وردگار
جانتے ہیں نہیں یہ تیرے راکٹ سوار
تیری نصرت ساتھ دے مشکل نہیں
اک گلہری بھی ڈھا سکتی ہے پہاڑ
نوٹ۔ یمن کی تباہی کی طرف اشارہ

731
دعا کیوں بے اثر ہوگئ۔۔۔۔ شمس جیلانی

اپنی اک تہذیب تھی وہ جانے کدھر رہ گئی
عید تو رخصت ہوئی پیچھے باقی ٹر رہ گئی
نمازیں بھی وہی ہیں اور رتجگے بھی ہیں ہنوز
سوچئے کچھ کہ دعاہماری کیوں بے اثر رہ گئی

732
المیہ یہ ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

شمس دیکھاگیا جس دل میں کہ ایمان بہت ہے
اللہ کا بندہ وہ انسان ہےاچھا تابع فرمان بہت ہے
ڈھونڈو اگر مل جاتا ہے لاکھوں میں کوئی ایک !
مردم شماری کردیکھو لا تعداد، مسلمان بہت ہے

733
مال زیادہ با عث ِ عذاب۔۔۔۔ شمس جیلانی

اللہ تعالیٰ کی ہستی بھی توعجیب ہستی ہے
اسے زیادہ دیتا ہے جواس سے کرتا مستی ہے
جتنا مانگےوہ دیتا ہے سمجھےوہ ہےرب راضی
جبکہ مال زیادہ کا احتساب باعثِ کمبختی ہے

734
موت سستی ہے؟۔۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

ہر انسان کے دوہی دور ہوتے ہیں بلندی ہے یا کہ پستی ہے
گربنک میں جمع ہوجائیں بہت ڈالر لاحق ہوتی مستی ہے
کرلے وہ محنت اور عبادت اگر جوانی میں تو ہے وہ کام آتی
دور آج کا کچھ عجب سا ہے زیست مشکل موت سستی ہے

735
سارے مسائل کا حل۔۔۔۔۔ شمس جیلانی

جوکہتا ہےغلط کہتا کہ اپنے بندے کی دعا وہ رحمٰن نہیں سنتا ہے
وہ جو اس کی بات مانے ہے نہیں نبیﷺ اللہ کا فرمان نہیں سنتاہے
آج کا بندہ بغاوت پر اتر آیا ہے طور طریقہ اگر بدلے تو وہ من جائے گا
کرجوتوبہ لے ! یہ شکایت رفع ہو جا ئےگی کہ مسلمان نہیں سنتا ہے

شائع کردہ از Articles, qitaat | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(24)۔ شمس جیلانی

ہمارے معاشرے میں سفارش ایک ایسی چیز ہے جس کو حضورﷺ نے برا بھی فرمایا ہے اور اچھا بھی فرمایا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہتھیاروں کی مثال ہے کہ اگر وہ اپنی حفاطت کے لیئے رکھے جائیں یا جہاد کے لیئے رکھے جا ئیں تو وہ اچھی چیز ہیں۔لیکن وہ کسی کے قتل میں استعمال ہو تو بری چیز ہے؟ لہذا اسکے حق میں اور مخالفت میں دونو طرح کے پہلو ہیں؟ اور ان پر تفصیلی بات کرنا ضروری ہے۔وطن عزیز میں ہم نے دیکھا کہ اس کا استعمال برائی میں میں بھی ہے اورچھائی میں بھی ہے۔مگر برائی کے مقابلے میں بھلائی میں بہت کم ہے۔ برائی کی حالت یہ ہے کہ اس کے اور رشوت کے بغیر وہاں کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ البخاری سفارش کرو تمہیں اجر حاصل ہو گا اللہ اپنے رسولﷺکی زبان سے جو چا ہے فیصلہ کرواتا ہے۔ ابوداود394۔سفارش کرنے کی رشوت لی تو بہت بڑا گناہ کیا۔

یہاں یہ جو ہم نے دو احادیث پیش کی ہیں ان میں سے پہلی صحیح البخاری کی حدیث ہے اس کے پیچھے جو مثال ہے وہ یہ ہے اسلام سے پہلے عربوں میں قبیلہ پرستی اپنے عروج پر تھی جس کو اسلام نے آکر ختم کرنا چاہا تو مدینہ منورہ کا ایک قبیلہ پھر بھی باز نہ آیا۔ ان کے ایک آدمی نے آٹے کی بوری چوری کی جوکہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے گھر تک آٹا گرتا ہوا آیا چوری پکڑی گئی، تو اس نے یہ کیا کہ اپنے گھر سے آگے ایک یہودی کے گھر تک آٹا گرادیا اور اپنے قبیلے والوں کو بلا کردکھا یاتاکہ اس کی جگہ وہ پکڑا جا ئے؟ اہلِ قبیلہ اس کی حمایت میں حضور ﷺکے پاس آگئے۔لیکن دریں اثنا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور ﷺکو وحی کے ذریعہ خبردار کردیا،حضور ﷺ نے یہودی کو بری کر کے فیصلہ اصل مجرم کے خلاف کر دیدیااورحضورﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا تم جوکچھ بناکے لے آؤگے میںﷺ انسان ہوں غلط فیصلہ کرسکتا ہوں؟جو تمہیں سخت گناہ کا مرتکب کردیگا۔ میں ﷺمنتظر رہتا ہوں کے تم اپنے بھائی کی سفارش کرو ،مگر اس کی جس میں بھلائی ہو وہ نہیں جس میں برائی ہو جس کی وضاحت ابو داود والی حدیث میں ہے۔ اس کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ اپنے قبیلے کی جا اور بے جا حمایت کرنا ظالم کا ساتھ دینا ہے؟ جبکہ اسلام مظلوم کی سفارش کرنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر ظالم کی نہیں ۔اسی کی روشنی میں تاریخ میں اک دکا اللہ والے بھی ملتے ہیں جو حکام سے تعلقات رکھتے تھے کہ لوگوں کے کام کرائیں۔ مگر اولیاء اللہ کی اکثریت اس کے خلاف رہی عموماً بادشاہوں کی ان سے ٹھنی رہی۔ اب جو عالم ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے گروہ کے ساتھ جاتا ہے یاقبیلے ساتھ جاتا ہے۔قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں وہ دوسروں کی جائداد پر قبضہ کرنے میں مدد دیتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے لوگ پیروں کے مرید اس لیئے بنتے ہیں کہ ان کے فون اس کار خیر میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے۔ ایم این اے یاایم پی اے کے پاس کوئی شکایت لیکر آیا تو اپنے ہی آدمی کے لیئے کہہ دیتے ہیں تھانیدار کو، کے اسے بند کردو، وہ حوالات میں بند کردیتا ہے؟ جبکہ اس کے لواحقین دوڑے آتے ہیں اور کہتے ہیں وہ میرا بھائی یا بیٹا ہے تو پھر فون کرتے ہیں یہ تو میرا آدمی ہے اس کو چھوڑ دو اور فر یادی کو بند کردو؟ کیونکہ حلقے بہت بڑے ہیں لاکھوں آدمیوں پر مشتمل ہیں وہ انکے نام بھی نہیں جانتے ہیں۔ جبکہ حال پیروں کا اس سے بھی برا ہے؟ کسی کے پچیس لاکھ مرید ہیں کسی کے اٹھارہ لاکھ مرید ہیں۔ وہ جس کی زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں ان کے مقابلہ میں فریادی کی کوئی فریاد نہیں سنتا کہ پیر کی چٹھی یا فون آجاتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ گڑ ڈالے تو پیر کاخلیفہ بھی آجاتا ہے۔ یہ ہی حالت سرکاری ملازمتوں میں ہے کہ نا اہلوں کو وہ ملتی ہیں، اہل دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اپنی 92 سالہ زندگی میں نے صرف ا یک آدمی دیکھا جو دین پر عامل تھا۔ ان کے بیٹے نے اپنی ملازمہ کو قتل کردیا؟ انہوں نے انکار کردیا کہ میں اس کی کوئی مدد نہیں کرونگا کیونکہ یہ ظالم ہے؟اس بچہ کی ماں جوکہ ڈاکٹر تھی دوڑتی پھری بیٹے کی محبت میں اثراور رسوخ استعمال کیا مال خرچ کیاوہ بری ہوگیا۔ وہاں کی پوری زندگی میں ان کے سوا کوئی دوسرا ایسا مسلمان مجھے نہیں ملا؟ ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بے ایمانی ہوتی ہے نا انصافی ہوتی ہے غریبوں کے بچے اپنی ذہانت کے باوجود پہلی تو کیا دوسری اور تیسری پوزیشن بھی نہیں لے سکتے ہیں۔ جبکہ بڑے لوگوں کے والدین اپنا اثر رسوخ اور پٹرول (گیس) خرچ کرکے اپنے کند ذہن بچے پوزیشن کے ساتھ پاس کروادیتے ہیں۔ اس طرح وہ سفارش کرکے بجا ئے ثواب کے خود کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت آمین۔

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(23)۔ شمس جیلانی

اسلام اور رشوت۔اسلام نے رشوت کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے ؓ روایت ہے کہ حضور ﷺ نےرشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔(ابو داود، مسلم)جبکہ اس میں حضرت ثوبان ؓ نے اضافہ کیا ہے کہ جو ان دونوں میں معاملہ طے کرائے اس پر بھی لعنت ہے(ابوداود۔مسلم) ایک اور حدیث میں اس کو ملعون بھی کہا گیا ہے۔حضورﷺ کے زمانہ یہ قطعی حرام رہی نہ کسی دی نہ کسی نے لی لیکن بعدمیں فقہائے کرام اس کو اس کے لیئے جائز قرار دیدیا کہ جو مجبور ہو وہ دے سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے اس میں انہوں نے حضرت خالد سیف اللہ رحمانی نے جائز قرار دیتے ہوئے جو وجہ بتائی ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ میں اس کو نقل کروں؟ اس لیئے نہیں کر رہا ہوں مگر اس سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ وہاں تحریف کرتے ہوئے کس حد تک لوگ گئے ہیں۔میں نے حضور ﷺ کی پوری سیرت لکھی ہے ظاہر ہے کہ مجھے بہت سی سیرتوں کا مطالعہ کرنا پڑا، مگر مجھے وہ کہیں نظر نہیں آئی جبکہ دار العلوم دیوبند نے ان کے آرٹیکل مولانا غفران کےآرٹیکل شاید بغیر پڑھے ہوئے ایک فتوے کی شکل میں رشوت کے سلسلہ میں مولاناغفران ساجد قاسمی، حی النسیم، ریاض سعودی عرب کے حوالے سے بیان ہوئی جن کا ای میل اڈریس مندرجہ ذیل ہے۔ غالباً یہ نظریہ ضرورت کے تحت اضافہ ہے جس میں میڈیا سے متعلق لوگوں کو خوش کرنے کے لیئے جو داد دہش کیجا تی ہے اس کی ایک بنیاد بنادیاگیا ہے ۔ البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں شروع سے لیکر ایک اخبار کو بے انتہا نوازا گیا ہرحکومت نے اسے خوش رکھنے کے لیئے کسی نہ کسی شکل میں خراج پیش کیا۔ یہ تو تھی وہ صورت حال جومیں نے یہاں ریکارڈ کو صحیح رکھنے کے لیئے بیان کردی۔حضورﷺ کےزمانے ایک صاحب کامعاملہ پیش ہوا کہ انہوں نی واپس آکر بیعت المال کی رقم تھی پیش کی اور فرمایا کہ یہ بیعت الما ل ہے۔ اور مجھے یہ تحائف ملے ہیں۔ حضور ﷺ نےناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ “ یہ ماں یا باپ کے گھر بیٹھاہوتا تو اسے کوئی دینے آتا ً ًاور تحائف بھی بیت المال میں داخل کردیئے اس کے بعد سے ذرا سا بھی کسی کو شبہ بھی ہوا تو یہ روایت رہی کہ اس کو بیت المال میں جمع کرادیا گیا۔ اس وضاحت کے بعد اب رشوت بات کرتے ہیں۔

از: مولانا غفران ساجد قاسمی‏،حی النسیم، ریاض، سعودی عرب
gsqasmi99@gmail.com

آج دنیا رشوت ایک ایسا ناسور ہے۔کہ شعبہ زندگی میں سراہیت کر چکا ہے؟اس سلسلہ میں قرآن کی بھی ایک آیت سوری بقر میں188ہے۔ جس کااردو ترجمہ میں پیش کر رہا ًایک دوسرے کامال ناحق ناکھایاکرو،نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کامال اپنا کرلیا کرو،حالانکے تم جانتے ہو ً

اس آیت اور اوپر کی بیان کردہ دو احادیث کے بعد کسی مسلمان کے لیئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ رشوت لے یارشوت دے؟صرف وہی ایک سہولت ہے جو کہ مجبوری میں جس طرح حرام چیز کراہیت کے ساتھ وقتی طور پر حلال ہوجاتی وہ رشوت دے سکتا ہے جس کا جائز حقہے مگر نہں مل رہا ہے۔ لیکن لے کوئی نہیں سکتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غیر ترقی یافتہ ملکو ں میں اپنا جائز حق بغیر کچھ لیئے دیئے حاصل نہیں کوئی نہیں کرسکتا حتیٰ کہ ریٹائر منٹ کے بعد نصف پینشن ملتی ہے۔نصف رشوت میں چلی جاتی ہے۔ ایسی صورت ِ حال میں لینے والے اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے اور وعید بھی سنتے ہیں مگر چھوڑتا کوئی نہیں ہے؟ شاید وہ سمجھتے ہوں یہ کسی اور کے لیئے کہا جارہا ۔ نہ وہاں کسی کا گھر محفوظ ہے نہ کسی کی عزت محفوظ ہے۔ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ رقبہ قبضہ گروپ کے قبضے ہےمیں ہے جن میں مولوی حضرات کے نام بھی آتے ہیں۔ کوئی کسی کو کہے کیا سکتا ہے جب کے وہی کام وہ خود بھی کر رہا ہے۔ مذہب مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام کہہ رہا حرام حرام ہے؟ مگر علماء مجبوری کی بنا پر فتوے پر فتوے دے رہے ہیں کہ“ حلال ملتا ہی نہیں ایسا مال جس میں حلال کا غلبہ ہو وہ بھی مساجد میں لگایا جاسکتا ہے؟ جبکہ غلبہ شرط ایسی ہے کہ کسی مالدار شخص کہیں گے کہ ہمیں اپنے کھاتےدکھادو تاکہ ہم مطمعن ہوجا ئیں کے حلال کا غلبہ ہے؟ تو ہم مسجد کے لیئے تمہاری رقم لے سکتے ہیں۔ وہ بجائے ان کی مدد کرنے کے دھکے مار کے دکان سے یا خارخانے سے باہر نکال دے گا۔ پھر نہ مسجد بنے گی نہ جومساجد ہیں وہ جاری رہ سکیں گی۔ نہ مولوی صاحب کی تنخواہ ملیگی۔ تو سارا مذہبی کاروبار بھی ٹھپ ہو جا ئے گا۔ لہذا وہ بیچارے ان کے حق میں فتوے دینے پر مجبور ہیں؟ اب بتلا ئے ہم بتلائیں کیا؟

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں

عید الفطر مبارک کس کوکہوں؟۔ شمس جیلانی

قارئین! ہر سال کی طرح اس سال بھی مجھے وہی مشکل پیش آ رہی ہے کہ میں کس کو مبارک باد دوں؟ آپ سوال کریں گے کہ یہ کیابڑی بات ہے آپ سب کو عیدمبارک کہدیں اس لیئے کہ یہ وہ دن ہے جس دن اللہ سبحانہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ جس مزدور نے پوری محنت سے مزدوری کی ہو اس کا اجر کیا ہے؟ تو وہ جواب دیں گے کہ اس کی مزدوری فو را ً ادا کردی جا ئے؟ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما ئے گا کہ میں نے ان کو بخش دیا؟یہ ایک حدیث کا لب ِ لباب ہے جو کہ میں نے آپکے سامنے پیش کیاہے؟ دوسری حدیث یہ بھی ہے کہ حضورﷺکا ارشاد مبا رک ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جا ئیں گے۔ مگر ایک دوسری حدیث میں فرماﷺ رہے ہیں کہ روزوں کے با وجود بھی روزہ دار جھوٹ بولنا، گندی زبان استعمال کرنا اور بری حرکتیں نہیں چھوڑے تو اللہ کو اسے بھوکا مارنے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں جنت کی یقین دہانی ان کو کراسکتا ہوں جو پورا اسلام اپنا ئیں ان کو نہیں جو کچھ لیں اور کچھ چھوڑدیں۔ یہ تھی عوام کی بات اب خواص کے بارے میں سنئے یہ ہے کہ ً“ ظالم حکمراں جہنم میں جا ئیگا اور منصف حکمراں اللہ تعالی کے عرش کے سایہ میں ہوگا “قرآن کی سورہ بقر شروع یہیں سے ہو تی کہ اس کتاب میں شک اور شبہ کی گنجا ئش نہیں یہ ہدا یت ہے متقی لوگوں کے لیئے جو ایمان لا ئے غیب پر اور پر جو نماز پڑھتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں چونکہ بعض مفسریں کے مطابق قرآن میں جو کچھ آیا ہے وہ غیب ہے اور ان سب پر ایمان لانا لازمی ہے؟جس میں جنت کے ساتھ دوزخ بھی شامل ہے؟ اور یہ بھی اسی قرآن میں ہے متقی اور منافق برابر نہیں ہوسکتے اور منافق کی پہچان یہ ہے جو حضورﷺ نے بتائی جو کہتا ہے کر تا نہیں۔ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا،امانت رکھو تو خیانت کرتا۔ لہذا آجکل ایسا آدمی نایاب ہے مجھے تو ڈھونڈے نہیں ملتا جس کو میں عید کی مبارک کہوں؟ کیونکہ میرا یہ ایمان ہے کہ قرآن میں جو کچھ لکھا ہے وہ سچ ہے اورجو نبیﷺ نے فرمایا ہے وہ سچ ہے کہ نبوتﷺ سے پہلے ہی سے وہ تو صادق اور امین تھے یہ کافر بھی مانتے تھے۔ چونکہ امت نے ان کی بات ماننا چھوڑدی اسی وجہ سے امت عذاب میں مبتلا ہے اور میں پچیس تیس سال سے لکھ رہا ہوں کہ قوم عذاب میں مبتلا ہے؟ اس کی ایک طویل حدیث میں علا مات بتا ئی ہیں وہ اس وقت ہم میں سب موجود ہیں۔ جس میں عوام کے لیئے تو بہت سی نشانیاں ہے۔ مگر خواص کے لیئے یہ بھی ہے کہ وہ بیت المال کو اپنا مال سمجھیں گے؟ عذاب کے سلسلہ میں سورہ انعام کی آیت نمبر 65 نازل ہوئی جسمیں ذکر تھا کہ ً میں اوپر سے، عذاب نازل کرنے میں اور پیروں کے نیچے سے عذاب نازل کرنے پر قادر ہوں اور اس بھی کہ تم کو ٹکڑیاں کر کے ایک دوسرے سے بھڑا دوں. تو حضورﷺ بہت پریشان ہوئے اور مسجد نبویﷺ سے نکل کر جنگل کی طرف تشریف لے چلے، کچھ صحابہ کرامؓ بھی ان کے پیچھے گئے دیکھا کہ حضورﷺ سجدے میں ہیں انہوں نے طویل سجدہ کیا جب سر اٹھایا تو صحابہ کرام ؓ نے پوچھا ایسا تو آپﷺ نے پہلے کبھی نہیں کیا آج کیا معاملہ ہے جو آپ اتنے پریشان ہیں؟ جس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ آیت نازل ہو ئی ہے۔ میری دعا پر اللہ نے دو باتیں تو مان لیں کہ اس امت کو حضرت نوح ؑ کی امت کی طرح نیچے سے عذاب نہیں آئیگا نہ اوپر سے آئیگا۔ مگر تیسری بات نہیں مانی اور فرمایا کہ میں تکڑیوں میں بانٹ کر لڑانے پر قادر ہوں اور وہ اس امت کا مقدر بن چکا ہے۔پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے وعدہ لیا کہ تم میرے بعد آپس لڑوگے تو نہیں، ایک دفعہ اگر دفعہ میان سے تلواریں نکل آئیں تو پھر واپس میان میں قیامت تک نہیں جا ئیگی؟ سبؓ نے کہا حضور ﷺ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قر آن ہم میں موجود ہے، سنت ہم میں موجود ہے اور ہم آپس میں لڑیں؟تو حضور ﷺ فرمایا کہ قر آن تمہارے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ پھر کیا ہوا وہ تمہیں معلوم ہی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اس کا حل کیا توجواب وہی ہے جو میں ہمیشہ سے دیتا آرہا ہوں کہ اجتماعی تو بہ؟ جو کہ پہلی دفعہ اب کہیں جاکر امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے ہمت پکڑی اور کہی؟۔ میں تو سمجھا تھا کہ انہوں نے کہنے کی جراء ت کی ہے تو اب وہ با قاعدہ اس سلسلہ میں تحریک بھی چلا ئیں گے؟ مگر ہر امید پوری تو نہیں ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا تو سہی گو دیر سے کہا باقی علما ٗ تو ابھی خاموش ہیں۔ بلکہ ان میں سے بہت سے ظالموں کے ساتھی ہیں؟ یہ اردو کا ظالم نہیں ہے عربی میں ہر وہ شخص ظالم ہے جو کسی کے حقوق ادا نہ کرے؟ چاہیں وہ اللہ کے ہوں چاہیں وہ بندوں کے ہوں۔اب آپ ہی بتا ئیں کہ ایسی صورت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس سوالو ں کے جواب جو میں نے شروع میں لکھا ہے فرشتے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے؟جیسے دنیا میں ہر حکومت کے کارندے اپنی رپورٹوں میں کہتے رہتے ہیں سب ٹھیک ہے؟ جبکہ فرشتوں سے تو غلطی کا امکان ہی نہیں ہے۔ دوسرے اللہ عالم غیب ہے؟ اسے سب کچھ معلوم ہے کہ جنہوں نے روزے رکھے انہوں نے برا ئیاں نہیں چھوڑی ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ رمضان بھر ایک دوسرے پر تہمتیں لگاتے رہے ہیں، دودھ میں پانی ملاتے رہیں۔ ذخیرہ اندوزی چور بازاری کر تے رہے ہیں پڑوسی گرانی وجہ سے بھوکوں مرتے رہے اور نہ جانے کب تک مرتے رہیں مگروہ کھاتے پیتے رہے ہیں؟ جبکہ ایسے تمام لوگوں ں کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہً یہ ہم میں سے نہیں ہیں ً جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے کا مقصد یہ ارشاد فرما یا ہے کہ مسلمان متقی بن جا ئیں۔اب آپ سے ہی پوچھتا ہوں کہ گناہ چھوڑے بغیر روزہ رکھنے سے تقویٰ حاصل ہوسکتا؟ ہر ایماندار کا جواب یہ ہی ہوگا کہ نہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت امتحان میں پاس نہیں ہوسکی پھر بھی یہ مبارکباد کی مستحق ہے، اگر ہے تو دلیل کیاہے؟

شائع کردہ از Articles | تبصرہ کریں

اسلام دین معاملات ہے(22)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتے تجارت پر بات کر رہے تھے، اور اس سلسلہ میں گناہ اور ثواب بتائے تھے۔ اس سلسلہ میں حضورﷺ نے ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عمر ؓہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ تاجر کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے رزق دیا جاتا ہے،غلہ کوگرانی کے خیال سے روک رکھنے والا ملعون ہے۔(ابن۔ ماجہ۔ دارمی۔ مشکواۃ) یاد رہے کہ اتنے سخت الفاظ حضورﷺنے بہت کم کسی کے لیئے استعمال فرما ئے ہیں؟ جبکہ یہ تو بار بار فرمایا ہے کہ “ذخیرہ اندوز ہم میں سے نہیں ہے“ اس میں بعض مفسرین نے اپنی طرف سے یہ بریکٹ میں اضافہ کردیا ہے کہ(قحط کی حالت میں) واللہ عالم۔ مگر سوچئے تو سہی کہ جن لوگوں کوحضور ﷺ فرمارہے ہیں کہ یہ ہم سے نہیںہیں۔ پھر ہم مسلمان ہوتے ہوئے وہی کام کریں تو ان کو کتنا دکھ پہنچتا ہوگاایسے تمام لوگ کس منہ سے قیامت کے دن ان ﷺکے سامنے جا ئیں گے۔ جبکہ ہمارے یہاں ذخیرہ اندوزی عام ہے۔ جان کرقلت پیدا کی جاتی ہے اس میں حکومت بھی شامل ہوتی ہے؟اس مقصد کے لیئے پہلے وہ گندم ایکسپورٹ کردیتی ہے۔ پھر مہنگے داموں امپورٹ کرتی ہے۔ جو اس میں معاونت کرتے ہیں کیا وہ شاملِ ِگناہ نہیں ہیں جو کہ چند ٹکوں کے لیئے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں ۔اور لالکھوں انسانوں کے بھوکا مارنے کاباعث ہوتے ہیں۔ جو یہ کرتے ہیں وہ اپنے گریبان منہ ڈالکر دیکھیں؟

قرض دار کی رعایت۔تجارت اور قرض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔لہذا اب اس پر بات کرتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بلا شک اللہ تعالیٰ خرید و فروخت اور قرض کی ادائیگی میں رعایت اورمروت کرنے والے کودوست رکھتے ہیں۔(ترمذی)

قرض سے پناہ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آدمی پیوند پر پیوند لگائے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے تو اس بہتر ہے کہ وہ قرض لے اور اس کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو(مسندامام احمد)

قرض کاوبال۔حضور ﷺ نے ارشادفرمایاکہ مسلمانو! قرض لینے سے بچوکیونکہ و ہ رات کے وقت رنج و فکر پیدا کرتا ہے اور دن کو ذلت اور خواری میں مبتلا کرتا ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

قرض کی لعنت۔حضرت حجش ؓ سے ایک طویل حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے قرض کے بارے میں فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔اگر کوئی شخص جہاو میں شہید ہوجا ئے،پھر زندہ ہوکر دوبارہ شہید ہوجائے پھر زندہ ہوکر سہ بارہ شہید ہوجا ئے۔اس کے ذمہ کسی کا قرض آتا ہو وہ جنت میں نہ جا ئے گا جب تک قرض ادا نہ کیا جائے۔(عین ترغیب از نسائی طبرانی و حاکم)

اللہ سے پناہ مانگو۔۔،رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمانوں! محتاجی اور مفلسی ذلت اورخواری سے اللہ سے پناہ مانگا کرو۔(نسائی)

دعا ادا ئے قرض۔حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے معاذبن جبل ؓ سے فرمایا کہ میں تمہیں ایسی دعا نہ بتاؤں کہ اگر تمہارے سر پر پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو بھی حق تعالیٰ ادا فرمادیں۔اسکا اردو ترجمہ یہ ہے۔ ًاے اللہ مالک تمام ملک کے، آپ ملک جس کو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں جس سے چاہیں ملک لے لیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں غالب کر دیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں پست کردیتے ہیں۔آپ کے اختیار میں ہے سب بھلائی ہے بلا شبہ آپ ہر چیز پرپوری طرح قدرت رکھنے والے ہیں۔اے دنیا اور آخرت کے رحمان اور ان دونوں میں رحیم۔آپ دیتے ہیں دونوں جہان میں جس کو چاہتے ہیں۔مجھ پر ایسی رحمت فرما ئیے کہ سبب سے آپ مجھے غیر سے مستثنیٰ فرمادیں (طبرانی)

مقروض کے ہدیہ سے احتیاط۔۔۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺاللہ نے ارشاد فرمایاکہ جب کوئی کسی کو قرضں دے تو تو قرض لینے والے سے کوئی ہدیہ نہ قبول کرے۔(بخاری)

قرضدار کی رعایت۔حضرت عائشہ سے ؓ روایت ہے کہ رسول ﷺاللہ نے فرمایا کہ میری امت میں جو شخص قرض میں پڑجا ئے۔پھر اس کے ادا کرنے کی پوری کوشش کرے اور دا کرنے سے پہلے مرجا ئے میں اس کا مدگار ہوں۔(مسنداحمد۔طبرانی)

قرضدار کو مہلت دینے یامعاف کرنے کا صلہ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن غم اور گھٹن سے بچا ئے تواس کو چا ہیئے کہ تنگ دست قرضدار کو مہلت دے یاقرض کا بوجھ اس کے سر سے اتاردے(مسلم)

قرض کی ادا ئیگی کی نیت۔حضورﷺ نے فرمایا جو آدمی قرض لیتا ہے اور اس کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے قیامت کے دن اس کی طرف سے اس کا قرض اللہ ادا کردیگا۔اور جو قرض لیکر ادا نہیں کرنا چاہتا ہے قیامت میں اللہ اس سے فرمائے گا اے بندے تو نے شاید یہ خیال کیا تھا میں اپنے بندے کا حق تجھ سے نہیں لونگاپھر، مقروض کی کچھ نیکیاں قرضدار کو دی جائینگی۔ اگر مقروض نے نیکیاں نہیں کی ہونگی تو قرضدار کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈالدیئے جا ئیں گے۔(طبرانی،حاکم)

شائع کردہ از Articles, Islam is a religion of affairs | تبصرہ کریں