آج مجھے جتنا جناب صبیح منصور کو مرحوم لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے آج تک کسی کو بھی مرحوم لکھتے ہو ئے نہیں ہوا، جبکہ ان سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ مگر میرے آقا (ص) نے فرمایاکہ مومن، دوسرے مومن سے صرف اللہ کے لیئے محبت کرتا ہے وہ بلا شبہ مومن تھے اور مجھے ان سے عقیدت کی حد تک محبت تھی،کیو نکہ وہ تھے ہی محبت کیئے جانے کے قابل اور صرف مذہب اور قوم کا درد ہی ہم دونوں میں ایک جذبہ مشترک تھا۔
ان سے میری ملا قات آج سے کو ئی دس گیا رہ سال پہلے ہوئی تقریب ِ ملا قات یہ تھی کہ میرے سب سے چھوٹے صاحبزادے مسرور جیلانی ان دنوں ٹورنٹو میں تھے اور ان کے بے حد اصرار پر میں ٹورنٹو گیا تو وہاں بہت سے احباب سے ملا قات ہو ئی انہیں میں میرے ایک بہت ہی دیرینہ دوست حضرت مو لانا وصی مظہر ندوی مرحوم سابق مئیر حیدر آبا د ( سندھ) اور وزیر مذہبی امور پاکستان تھے ،جو کہ نقل وطن کر کے ٹورنٹو تشریف لے آئے تھے اور یہاں بھی سر گرم ِ عمل تھے وہ بھی ملے ۔
اورکہنے لگے کہ تم نے لکھنے لکھانے کاشغل کیوں چھوڑ دیا، میں نے انہیں بتایا کہ میں جہاں ہوں وہا ں صرف ایک اخبار ،ہم لوگوں نے کو شش کر کے مریکل کے نام نکالا ہے جس میں ابھی صرف چار صفحات اردو کے ہو تے ہیں۔ اور اس کی بھی زندگی کے لا لے پڑے ہو ئے ہیں لہذا میں کہاں لکھوں۔ یہاں یہ میں بتا تا چلوں کہ میں نے لکھنے لکھانے کی شروعات ہی مولانا کے شہر لکھنئو اور نسیم انہونوی مرحوم کے پرچہ حریم سے ١٩٤٤سے شروع کی ۔
کہنے لگے ماشا اللہ یہاں سے بیس با ئیس اخبار نکلتے ہیں تم ان میں سے کسی میں لکھنا شروع کر دو! میں نے عرض کیا کہ آپ میرے مزاج کوتو جانتے ہیں کہ میں سچ بولتا ہوں، سچ لکھتا ہوں اور لکھتے وقت غیر جانبدار ہو جا تا ہوں ۔لہذا میرے قلم کو کون ایڈیٹر اتنی چھوٹ دے سکتا ہے، جبکہ اکثریت مفاد پرستوں اور فرقہ پرستوں کی ہے؟ کہنے لگے ابھی اچھے لوگوں سے دنیا خالی نہیں ہو ئی ہے، تم مجھے بھی جا نتے ہو میں جس اخبار میں لکھ رہا ہوں اس کے ایڈیٹر کوکہدیتا ہوں اورتم اس میں لکھنا شروع کر دو! میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں سفارش کا قائل نہیں ہوں، میں پہلے ان سے عام آدمی کی حیثیت سے ملاقات کرونگا اور اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے معیار پر پورے اتر ے تو پھر لکھنا شروع کر دونگا۔ چونکہ مولانا نے پہلے ہی اپنی کچھ نا یاب تحریریں مجھے پڑھنے کے لیئے دی ہو ئی تھیں جو صبیح منصور صا حب کے اخبار پاکیزہ انٹر نیشنل میں قسط وارشائع ہو رہی تھیں ۔ان میں سے میں نے ٹیلفون نمبر لیا اور ان کو فون کیا اتفاق سے رابطہ نہ ہو سکا ، میں نے فون پر پیغام چھوڑ دیا اور یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ شاید اللہ سبحانہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے ۔
اس لیئے وہ نہیں ملے، اور اب کسی اخبار کے ایڈیٹر کی طرح وہ بھی انتظار کر یں گے کہ میں ان کو دوبارہ فون کروں! جبکہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں کسی سے تعلقات رکھنے سے پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ وہ وعدے کا کتنا پکا ہے اور وقت کا کتنا پابند ہے۔ انہیں صفات میں سے میرے نزدیک ایک صفت خط یا فون کا جواب دینا بھی ہے۔
مگر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ انہوں نے مجھے فوراً ہی فون کیااور معذرت کر تے ہوئے بتایا کہ میں فون پر تھا اور یہ میری عادت ہے کہ میں کسی کو انتظار کراکر دوسری کال نہیں لیتا ! میں نے ملنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے وقت اور پتہ دیدیا جو اتفاق سے میرے بیٹے کے گھر سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ میں ملنے گیا ۔ تو وہ انتظار کر رہے تھے؟ میں نے انہیں بتا یا کہ مجھے ان کی یہ جواب دینے کی ادا یہاں تک کھینچ لا ئی ہے ۔ جو فون کا جواب نہ دیں میں انہیں عام طور پر پسند نہیں کرتا بلکہ میں ان سے ملنا بھی پسند نہیں کر تا ہوں؟ توانہوں نے جواب میں فرما یا کہ میں بھی انسانوں کی اسی قسم سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے بھی آپ کی صاف گوئی اور وقت کی پابندی پسند آئی ۔ اندر گئے کچھ چا ئے پانی لیکر آئے۔ چائے کا دور شروع ہوا تو کہنے لگے کہ اب بتا ئیے آپ کیسے تشریف لائے؟ میں نے بتایا کہ میں بھی کبھی ادیب اور شاعروں کی فہرست میں شامل تھا ۔ مگر پاکستان کے حالات دیکھ کر میں نے ١٩٥٧سے لکھنا چھوڑ دیا کہ وہاں اس وقت تک ہر ایک کی زبا ن پر ٹیپ لگی ہوئی تھی۔ اور یہاں ہجرت بھی اسی لیئے کی کہ یہاں والوں کو انصاف اور آزادی اظہار حاصل ہے لہذا میں یہاں دین کی بہتر خدمت کر سکتا ہوں۔اب احباب کہہ رہے ہیں کہ نظم اور نثر دونوں ذرا ئع پیغام پہو نچانے کے ہیں! لہذا آپ دوبارہ لکھنا شروع کر دیں ۔ میرا خیال ہے کہ میرے اور آپ کے خیالات ملتے ہیں۔ اس لیئے میں آپ کے اخبار میں لکھنا چاہتا ہوں اگر آپ پسند کریں، پھر میں نے بتایا کہ میں نےچند اقساط جو کہ وینکور کے نو زائیدہ اخبار مریکل میں لکھنا شروع کی ہیں وہ بھی لیتا آیا ہوں جوکہ انہوں نے دیکھیں! وہ تھے میری کتاب ً حقوق العباد اور اسلام ً کے پہلے چند حصے بس دیکھ کر پھڑک اٹھے، کہنے لگے کہ یہ تو میرے دل کی آواز ہے لوگ صرف روزہ نماز کو کافی سمجھتے ہیں، جبکہ حقوق العباد کی طرف تو کسی کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ مجھے پابندی سے اپنا مضمون ہر ہفتہ وہاں سے بھیجتے رہیں ؟
میں نے کہا کہ مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور میں الحمد للہ مسلمان ہوں؟ کہنے لگے بس پھر بسم اللہ کر کے لکھنا شروع کر دیجئے ۔ اور وہ دن ہے اور آج کا دن کہ میرا کوئی مضمون کبھی لیٹ نہیں ہوا اور نہ ہی انکو مجھے یا دہانی کرانا پڑی چونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ اخبار بننے کے لیئے شبیر غوری صا حب کو منگل کو کراچی بھیجتے ہیں لہذا میں انہیں جمعہ سے لیکر ہر حالت میں پیر تک مضامین بھیجدیتا اوروہ فورا ً رسید بھجدیتے، جبکہ دوسرے دن یعنی بدھ کواخبار پابندی سے شائع ہو تا تھا اور وہ مجھ کو ہر بدھ کو اپنے ہاتھ سے بڑی پابندی سے اخبار میل کر دیتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد ہمارے ایک دوست نے کہا کہ آپ حالات حاضرہ پر بہت اچھا لکھتے رہے ہیں جس میں آپکاانداز بھی منفرد ہے کہ طنز او مزاح کے ساتھ مذہب ،اور تا ریخ سب کچھ ہو تا ہے وہ بھی شروع کردیں۔
میں نے کہا کہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ ایک ہی اخبار میں مذہبی کالم بھی ہو اور یہ کالم بھی ہو تو انہوں نے تجویز کیا کہ آپ گھسیٹا خان کے فرضی نام سے لکھنا شروع کر دیں۔ ابھی ایک ہی دو کالم لکھے تھے کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ کو ئی پاکستان کے کسی اخبار میں لکھتا ہے اور پاکیزہ میں وہاں سے نقل ہوتا ہے؟ یہاں کوئی ایسا کالم لکھ ہی نہیں سکتا؟ پھر انہوں نے ہی تجویز کیا کہ اس کے ساتھ کنیڈین لگا دیا جا ئے! اس پر بھی یار لوگ نہیں ما نے ؟تو مجھ سے صبیح بھا ئی نے اجازت چاہی کہ جو کوئی پوچھے تویہ بتا دوں کہ یہ شمس جیلانی لکھ رہے ہیں ؟ اور انہوں نے اس دس سال میں ایک مرتبہ بھی میرے مضمون میں سے ایک لفظ کو بھی ادھر سے ادھر سے نہیں کیا۔ ایک مرتبہ جب میں نے نہرو کو تقسیم کا ذمہ قرار دیا ،تو صرف فون پر کہا کہ آپ تو تا ریخ کو بدل رہے ہیں اس پر بڑا ہنگامہ ہو گا ؟ میں نے جواب میں کہا کہ آپ مضمون شائع کردیں ،جواب میں دونگا۔ کہنے لگے آپ خود ہی لکھ لیں،میرے دفتر میں آکر۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کمپوٹر میں بھی وہ میرے پہلےاستاد تھے جبکہ دوسرے جناب صفدر ھمدانی صاحب چیف ایڈیٹر عالمی اخبار ہیں۔ وہ مضمون شائع ہوا اس کے بعد کوئی ہنگامہ بھی نہیں ہوا کیونکہ لوگ اب سچ پڑھنا پسندکرنے لگے تھے، جبکہ مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم نے مجھے گلے لگا لیا کہ تم نے پہلی دفعہ سچ لکھا ہے اصل تاریخ یہ ہی ہے؟
اکثر مالکان ِ اخبارات لکھنے والوں کی تعریف میں بخل سے کام لیتے ہیں! کہ کہیں لکھنے والے کا دماغ نہ خراب ہو جا ئے اور نخرے دکھانے لگے ؟مگر وہ ہمیشہ مجھے بتا تے کہ تمہارا کالم میرے اخبار میں لکھے جانے والے کالموں میں سے سب سے زیادہ پڑھا جانے والاکالم ہے، میں جب بھی کسی دکان پر کھڑا ہو تا ہوں اور میرا اخبار پہونچتا ہے تو اخبار اٹھانے والا سب سے پہلے تمہارا کالم پڑھتا ہے اور یہ کہ یہ تمام فرقوں میں یکساں مقبول ہے؟ اب سے چند مہینے پہلے جب میں نے انہیں یہ بتایا کہ میں ایک تقریب میں ٹورنٹو آرہا ہوں تو کہنے لگے کہ تم نے میرے دل کی بات کہدی میں چا ہتا ہوں کہ تمہا رے اور قمر علی عبا سی صا حب کے اعزاز میں ظہرانہ دوں، میں نے کہا کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے؟ عباسی صاحبکو ظہرانہ دیدیجئے میں اسی میں شرکت کرلونگا؟مگر وہ نہیں مانے اور اس میں بھی ان کی طرف سے جو میرے لیئے مضموں پڑھا گیا جو محترمہ نا ہید رضوی صاحبہ نے ان کی طرف سے لکھا اور پڑھا تھا تو اس میں بھی اس بات کی انہوں نے تعریف کی کہ شمس جیلانی ایک با عمل آدمی ہیں اور یہ کہ انکا کوئی مضمون چا ہیں سفر میں ہوں یا حضر میں کبھی لیٹ نہیں ہوا ، اسی میں یہ اعلان بھی نا ہید صاحبہ سے کرا یاکہ گھسیٹا خان بھی شمس جیلانی ہی ہیں۔
جب تقریب ختم ہوئی تو کہنے لگے میرا دل نہیں بھرا کچھ وقت گھر کے لیئے نکالوتو وہاں بیٹھ کر با تیں ہو نگی، دوسرے دن وہ خود لینے مجھے رچمنڈ ہل ڈیڑھ گھنٹے ڈرائیو کرکے آئےاور پہلی دفعہ یہ شکا یت کی اب میں ڈرا ئیو کرتے ہو ئے گھبراتا ہوں، لہذا میں اپنے سمدھی کو ساتھ بٹھا لا یا ہوں، اس دن کے جلسہ کی با تیں کرتے رہے اور اس پر بہت لطف اندوز ہو ئے کہ جب ناہید صاحبہ نے گھسیٹا خان والا انکشاف کیا تو لوگوں کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ میری ان سے آخری ملا قات تھی۔ جبکہ ان سے آخری دفعہ بات اسپتال جا تے ہو ءی جب انہوں نے مجھے فون کیا کہ آپ مجھے اپنے مضامین ابھی بھیجدیں؟ اس تاکید پر ابھی میری حیرت دور نہیں ہو ئی تھی کہ انہیں شدید کھانسی نے آلیا۔۔۔۔جب وہ کچھ تھمی تو انہوں نے جملہ مکمل کیا کہ شاید مجھے ابھی اسپتال جانا پڑے ؟ یہ تھا احساس ِ فرض اس لیئے کہ وہ اپنے اس کام کو کمائی کاذریعہ نہیں بلکہ فرض سمجھ کر کرتے تھے اور ایک دو دن سے نہیں پینتیس سالوں سے پاکیزہ نکال رہے تھے۔ تیس سال تک مہک ریڈیو چلا تے رہے اور پینتیس ہی سال تک رمضان میں سحری کا پرو گرام وہ اور ان کی بیگم صاحبہ پیش کرتے رہے۔
اس کے بعد پھر ان سے میری بات بھی نہ ہوسکی ،جبکہ ان کی بیگم صاحبہ سے بات ہو تی رہی اور وہ ہمیشہ مایوس ہی نظر آئیں، میں حال پوچھتا !تو یہ ہی فرماتیں کہ ابھی ان سے بات نہیں ہو سکتی، ڈاکٹر اجازت نہیں دیتے ہیں؟ پہلی دفعہ امید کی کرن اس دن نظر آئی کہ جب ان کی بیگم صا حبہ نے فرمایا کہ وہ انشا اللہ اگلے ہفتہ گھر آجا ئیں گے ،اب تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، میں ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس کررہا ہوں، اس لیئے کہ آپ تو جانتی ہیں کہ ہم دونوں مل کر گھنٹوں فون پر با ت کر تے تھے اور عنوان ہمیشہ امت کی بے راہ روی ہو تا تھا! وہ اتنے حساس آدمی تھے کہ جب بھی وہ کسی تقریب میں جا تے تو بڑھتی ہوئی برا ئیاں محسوس کرتے، پھر مجھے سنا تے اور ابتدا یہاں سے ہو تی جیلانی صاحب بہت برا ہو رہاہے بہت برا ہورہا ہے ایسا نہیں ہو نا چا ہیئے؟ میں ان کا دل رکھنے کے لیئے کہتا کہ انشا اللہ سب ٹھیک ہو جا ئے گا ؟ حسرت سے کہتے کہ ٹھیک ہی تو نہیں ہو رہاہے ،حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہو تے جا رہے ہیں اور وہ پھر پورا قصہ سنا تے ۔
مگر انکی بیگم صا حبہ کی دی ہوئی خوشخبری مجھے راس نہ آئی کہ دوسرے دن محترمہ رشدہ حیدر کا فون آگیا کہ انٹر نیٹ پر ابھی کسی نے خبر دی ہے کہ وہ انتقال فرما گئے، چونکہ انٹر نیٹ کی خبر تھی اس لیئے میں نے فورا ان کے گھر فون کیا تو کسی نے فون اٹھایا، مگر بجا ئے صبیح بھائی یا ان کی بیگم صاحبہ کے استقبالیہ الفاظ کے میری سماعت سے کچھ دیر تک آہیں اور سسکیاں ٹکراتی رہیں ، کچھ توقف کے بعد ان کے بڑے فرزند نسبتی نے بات کی اور تصدیق کرتے ہو ئے کہا کہ یہاں اس وقت کوئی بھی بات کر نے کی پوزیشن میں نہیں میں نے کہا کہ میں یہ جانتا ہوں۔
انا للہ وانا الیہ را جعون ہ یہ ١٣مارچ ٢٠١٢ کی صبح تھی جب کہ یہ روح فرسا خبر مجھے ملی اس وقت میرے اندازے کے مطابق ان کی عمر بمشکل ٦٥سال تھی۔دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور لواحقین کو صبر ِ جمیل بھی (آمین) ۔
ویسے توہم سب کے لیئے ہی یہ دعا کرتے ہیں اس لیئے کہ حضور (ص) نے فرما یا کہ جب بھی دعا مانگو تو جنت الفردوس کی دعا مانگو، اس لیئے کہ وہ جنت میں سب سے اونچا درجہ ہے جو کہ اللہ کے بہت ہی پیا رے بندوں کے لیئے مخصوص ہے۔ مگراب یہ کہنا رواج سا بن گیا ہے اور ان کے لیئے بھی یہ دعا مانگی جا تی ہے جو حضور ( ص) کی زندگی کے بہت بڑے حصہ کا اتباع نہیں کر تے؟ جبکہ وہ مقام ہی ان جیسوں کے لیءےہے اور یہ تو واقعی حقدار ہیں اس دعا کے، کیونکہ میں نے آپ کے سامنے جو ان کی زندگی کا خاکہ پیش کی ہےا وہ خود منہ سے بو ل رہا ہے کہ وہ مسلمان امہ پر کڑھنے والے اور خود اسوہ حسنہ (ص) پر پوری طرح عمل کر نے والے تھے لہذا اس دعا پر دلکی گہرا ءیوں سے آمین کہیءے؟ چونکہ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اس کی وجہ سے ان کے بہت سے پہلو ابھی تک سامنے نہیں آسکے؟ کیونکہ با عمل مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ اس کے بھی قائل تھے کہ اس ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو، میں یہ تو جانتا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ سے لیکر رشتہ داروں تک سب کا خیال رکھنے والے تھے، مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ ان کا یہ شعبہ بھی اتنا وسیع تھا کہ کراچی تک پہونچا ہوا تھا جوکہ مجھے کل فون پر شبیر غوری صاحب نے بتا یا تو اس کی وسعت کا علم ہوا ؟ میں اس لیئے اس شعبہ کے ذکر کوچھوڑ تا ہوں کہ وہ شاید خود ہی اس کا ذکر کر یں ۔ یا جو ان سے مستفید ہو تے رہیں ہیں وہ ذکر کریں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے