امن کی آشا کے سائے میں لاہور میں تاجروں کی کانفرنس۔۔۔از شمس جیلانی

امن کی آشا کے  سائے میں لاہور میں تاجروں کی کانفرنس۔۔۔از شمس جیلانی اللہ روزنامہ جنگ اور انڈین ٹائمز کا بھلا کرے کہ انہو ں نے ہندوستان پاکستان دوستی کے سلسلہ میں کوشش کی، رائے عامہ کو ہموار کیا اور نتیجہ ی

ہ ہوا کہ دونوں ملک اور ان کے عوام بہت قریب آگئے ۔ وہ قریب تو پہلے بھی تھے ۔ مگر برا ہو خود غرض سیاست اور اغیارکا کہ انہوں نے ان میں خلیج حائل کر دی ۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ ایسا کیو
ہوا ؟ اسکی لمبی تاریخ ہے۔ مگر مختصر یہ کہ ،کیبنیٹ مشن نے١٩٤٥ء میں سب کچھ طے کرادیا تھااور قائدِ اعظم نے ریڈیو پر آکر اعلان بھی کردیا تھا کہ “ میں قوم کو جو کچھ زیادہ سے زیادہ متحدہ ہندوستان میں رہتے ہو ئے لے کر دے سکتا تھا وہ لے کر دیدیا  “ اس کے بعد دوباتیں ایسی ہو ئیں جو کہ اس دوستی کو لے ڈوبیں۔ ایک تھی، اس مفا ہمت کے نتیجہ میں عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت! جس میں وزارتِ خزانہ لیاقت خان مرحوم کے حصے میں آئی چونکہ وہ دو اور دو چار سے نابلد تھے، جیسے کہ اکثر اس دور کے نواب ہواکر تے تھے۔اس لیئے اس کو چلانے کی  ذمہ داری ،دو نوکر شاہی کے مسلمان نمائندوں نے اپنے کاندھوں پر لے لی ؟ اور انہوں نے ایسابجٹ پیش کیا جو کانگریس کے منشور کے عین مطابق تو تھا ،مگر وہ ابھی اس کو نافذ نہیں کرنا چا ہتی تھی۔ اس لیئے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا؟  اس میں سرمایہ داروں پر زبردست ٹیکس لگایا گیا تھا اور غریبوں کو سہولت دی گئی تھی۔ اس پر واہ واہ تو ہوگئی، مگر سر مایہ دار جو کہ سیاسی پارٹیوں کے سر پرست تھے وہ ناراض ہو گئے۔  اور و ہی تقسیم کا باعث بنے؟ دوسری طرف مسلم لیگ نے بجا ئے مفاہمتی پا لیسی کے اپنے دوسرے کانگریسی ساتھیوں کوتنگ کرنا شروع کردیا؟ ہر فائیل کو وزارتِ خزانہ میں سے گزرنا ضروری تھا اور وہاں سے وہ اعتراضات لگ کر یونہیں آتی جاتی رہتی تھی، جو کہ آج بھی نوکر شاہی کا طریقہ کار ہے۔ اس تجرباتی دور نے یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کا مستقبل میں ساتھ چلنا ناممکن ہے؟ اس پر تیسری اضافت یہ ہو ئی کہ مولانا ابو الکلام آزاد جو کہ سن١٩٤٢ ء سے کانگریس کے صدر چلے آرہے تھے وہ خود کو اپنے ضمیر کے ہاتھوں از خود غلط سمجھنے لگے کہ وہ چار پانچ سال سے جیل میں رہنے کی وجہ سے غیر منتخب صدر ہیں ۔ جبکہ کانگریس کے دستور کے مطابق سال کے سال انتخابات ہو تے تھے (دیکھا عجیب لوگ تھے اس دور کے بھی نہ ہوا آج کا دور؟)۔ انہوں نے نہرو جی کو منایا کہ وہ ان کی جگہ صدر بن جا ئیں، جبکہ وہ پہلے کئی بار کانگریس میں پوری طرح آنے سے انکار کر چکے تھے اس لیئے کہ وہ سوشلزم کے حامی تھے اور آل انڈیا لیبر یونین کے جنرل سکریٹری تھے۔ جبکہ گاندھی جی ان کی جگہ سردار پٹیل کو صدر بنا نا چاہتے تھے۔ نہرو جی صدر ہو گئے اور انہوں نے آتے ہی اپنی پہلی کانفرنس میں یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ آنے والی پارلیمنٹ یہ طے کر ے گی ہندوستان کا دستور کیسا ہو اس لیئے یہ سمجھوتہ جو دونوں پا رٹیوں میں ہوا ہے ،بے معنی ہے؟     بس پھر کیا تھا مسلم لیگ کی طرف سے بھی ہمیشہ طرح بدلی ہوئی صورتِ حال کو سمجھے بغیر ترکی بہ ترکی جواب آیا اور اس معاہدے کی دھجیاں بکھر گئیں جو ہندوستان کو متحد رکھنے کے لیئے کیبنیٹ مشن کی کوششوں سے مشکل سے  طےہوپایا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاستدان اور سرمایہ دار دونوں اس بات پر متحد ہو گئے کہ مسلمانوں کو پاکستان دیکر جان چھڑاؤ ،ورنہ یہ ہمیشہ تنگ کریں گے؟ اب صورت حال یہ بنی کہ پاکستان دینے کے لیئے نہرو جی سرگرم اور جو پاکستان مانگ رہے تھے وہ پریشان ،یعنی مدعا علیہ چست اور مدعی سست والا معاملہ بن گیا؟ کیونکہ اس کے لیئے مسلم لیگیوں نے  کسی وجہ سےابھی تک تیاری نہیں کی تھی۔ اس کے بعد انگیز وں نے دبا ؤ ڈالا کہ آزادی لینا ہے تو لیلو ورنہ ہم اس تاریخ تک ہندوستان سے  چلے جا ئیں گے؟ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق ، نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان تقسیم ہو کر بھارت اور پاکستان بن گیا؟ آگے چل کرلیاقت علی خان نے فوج کو نظریہ ضرورت کے تحت سیاست میں شامل کر لیا !اس کے بعد و ہ ہو تارہا کہ جس میں فوج کا مفاد تھا،اس میں کشیدگی بھی شامل تھی جو جاری رہی ۔ پھر ہوا یہ کہ دونوں ملک جب بھی قریب آئے تو فوج نے اس کو کبھی کارگل کی شکل میں کبھی سیاچن کی شکل میں اورکبھی تاج  محل ہو ٹل کی شکل میں عین وقت پر کچھ نہ کچھ کرکے آگے بڑھنے سے روکدیا ۔ اور دونوں قوموں کوہمیشہ نا کامی کامنہ دیکھنا پڑا؟ اب یہ خوش آئند بات ہے کہ اس وقت جو یہ تجاروںکی کانفرنس معنعقد ہوئی ہے اس نے یہ ثابت کردیا کہ سر مایہ داروں کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ ان کی غلطی تھی۔ جبکہ آج کل فوج کی کمان ایک انسان دوست کے ہاتھ میں ہے لہذا ادھر سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ رہے دونوں طرف کے سیاست داں وہ چا ہیں اپوزیشن کے ہوں یا حکومت میں، سب اس کے حامی ہیں کہ دونوں ہمسایوں میں تعلقات بہترہو نا چا ہیئے ،کیونکہ نفرت اور جنگجو یانہ پالیسی نے دونوں کے عوام کو غربت کے سوا کچھ نہ دیا؟ گو کہ اس موقعہ پر بھی مسز کلنٹن کا ہندوستان کا دورہ اور وہاں ان کے بیانات معنی خیز ہیں۔ جیسا کہ آج سے پہلے ہو تا آیا ہے ! نمونے کے لیئے اس وقت کے اپنے کالم سے ہم مندرجہ ذیل اقتباس پیش کر رہے ہیں۔ جو ٢٣ جنوری ٢٠١٠ءکو ، اسوقت لکھا تھا جبکہ دونوں ممالک تاج ہوٹل کے واقعہ کے بعد پھربہت قریب آگئے تھے۔ مگر بیچ میں تاج  محل ہوٹل، بل گیٹ صاحب نے آکر یاد دلا دیا اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اس مرتبہ بھی تاج  محل ہو ٹل پھر سے زیر بحث ہے۔    ہندوستانی قیادت کو یہ ادراک کرلینا چا ہیئے کہ جو ملک اپنے یہاں امن قائم کر نے پر خود قادر نہیں ہے وہ ان کو یہ کیسے ضمانت دے سکتا ہے کہ آئندہ اس کی سر زمین ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی البتہ دونوں ملک مل کر ہی کوئی صورت نکال سکتے ہیں ۔ آگے اس وقت کے کالم سے اقتباس پیش ِ خدمت ہے!     “ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ جب کبھی بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان، حالات بہتری کی طرف آئے ہمیشہ غیبی ہا تھوں نے اس کا گلا گھونٹ دیا ۔ اس لیئے کہ امن میں مہاجن کو سراسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے ، فا ئدہ کچھ نہیں ؟ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا کہ پہلے ہال بروک صا حب دورے پر پاکستان تشریف لائے ،پھر بل گیٹ صا حب انڈیا سے ہوتے ہوئے پاکستان تشریف لا ئے۔ اس مرتبہ خاص بات یہ تھی کہ امریکہ سے روانہ ہو تے ہو ئے وہ یہ بھی فر ما کر روانہ ہو ئے تھے کہ امریکہ ، ہندوستان اور پاکستان کے در میان مفا ہمت کرا سکتا ہے ؟  اس لیئے ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اس مرتبہ شاید بڑے کی نظر سیدھی ہو گئی اور کشمیریوں کی سر پر ہما بیٹھنے ہی والا ہے کہ اب مہاجن نے سوچ لیا ہے ، بہت ہو گئی ،کافی کما لیا ۔ہندوستان اور پاکستان میں امن کا دارو مدار اسی پر ہے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ کا حل ہو؟ لہذا لا ؤ، لگے ہاتھوں حل کرا ہی دیں، مگر نہ جانے پھر کیا ہوا، کہ لہجہ ہی بدل گیا ،اور وہ ہندوستان پہونچ کر بولے تو یہ بولے کہ اگر بمبئی جیسی حرکت دوبارہ ہوئی تو، ہندوستان خا موش نہیں بیٹھے گا؟ جیسے کہ تمام دنیا کے امن کا ریموٹ کنٹرول پاکستان کے پاس ہے۔ کہ وہ جب چاہے آن کر دے اور جب چاہے آ ف کر دے ۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ وہ ریموٹ کس کے پاس ہے۔ اور اس کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟ البتہ ہمیں اس بیان سے یہ پتا چل گیا کہ وہ پا کستانی حکمرانوں سے کسی وجہ سے نا راض ہیں، کس سے نا راض ہیں اور کس وجہ سے ناراض ہیں؟ یہ تو ہمیں پتہ نہیں ہے۔ مگر ہیں ضرور ! اور بھارت کے دورے کی آڑ لیکر وہ اسے جھکا ناچاہتے ہیں ۔ یہ بھی کو ئی نئی بات نہیں ہے، یہ وہ ہمیشہ سے کر تے آئے ہیں کہ جو ان کی بات نہ مانے تو اس کی چھٹی کردیتے ہیں؟ کیونکہ عوام پر تو یونہیں تہمت ہے، ورنہ اسے لاتے بھی وہی ہیں اور چلتا بھی وہی کرتے ہیں ۔ یہ تو تھی وہ درناک حقیقت جو ہم سالوں سے لکھتےآ رہے ہیں “    واضح رہے کہ یہ بھی فوج کانعرہ تھا کہ پہلے کشمیر بعد میں اور کچھ ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں نے سوائے اس علاقے کے جو کہ اب آزاد کشمیر کہلاتا ہے کبھی پاکستان کی طرف جھکاؤ نہیں دکھایا ورنہ شیخ عبداللہ کی شکل میں وہاں کانگریسی حکومت کیوں ہوتی اور یہ مسئلہ ہی کیوں پیدا ہوتا؟ اب تو وہ یہاں تک پہونچ چکے ہیں کہ وہ آزادی کی بات کر رہے ہیں اور اس سے کم کے لیئے تیار ہی نہیں ہیں؟ اس کا حل بھی مل کر ہی نکالنا ہو گا۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے دونوں مما لک اپنے دوسرے مسائل حل کریں؟ اور اس کے لیئے یہ ضروری ہے کہ پہلے دونوں حقیقت پسند بنیں۔  لاشوں کی سیاست اور نعرہ بازی بہت ہو چکی ،جو دنیا میں کہیں بھی کسی مسئلہ کا بھی حل ثابت نہیں ہوسکی؟ اور اب ایک ناکام پالیسی  سمجھی جا تی ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.