ہم نے چند یوم پہلے ایک دلچسپ خبر پڑھی کہ چینی یونیورسٹیوں میں ایک نیا شعبہ کھلا ہے ۔ جس میں وہ اپنی خواتین کو معا شرتی آداب سکھا ئیں گے، سب سے زیادہ زور اس پر تھا کہ وہ انہیں صحیح طریقہ سے ہاتھ ملانا سکھا ئیں گے؟ اس کی کوئی وجہ نہیں بتا ئی کہ خواتین کو ہی اس کے لیئے کیوں چنا، مردوں کو کیوں نہیں شامل کیا ؟ میرے خیال میں چینی ایک عقلمند قوم ہیں، انہوں نے یہ سوچا کہ دہرا وقت اور پیسہ کیوں خرچ کیا جائے کیوں نہ ماں کو زیورِ تہذیب سے مرصع کر دیا جا ئے جس کی گود بلا تفریقِ جنس سب ہی کی پہلی تربیت گاہ بنتی ہے۔ بلکہ اب تو جدید سائنس نے ماں کی کوکھ کو پہلی در سگاہ قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ تربیت وہیں سے شروع ہو تی ہے، جیسے جیسے بچہ تخلیق کے مختلف مراحل سے گزرتا جاتا ہے۔ جبکہ اس رازسے ہماری بڑی بوڑھیاں پہلے سے ہی واقف تھیں یہ ہی وجہ تھی کہ وہ ہر زچہ کو یہ ہدایت کرتی تھیں کہ دوران حمل اچھی با تیں سوچا کرو، اچھے خیالات رکھا کرو، نیک کام کیا کرو حتیٰ کہ تصویریں بھی اچھی دیکھا کرو تاکہ بچہ خوبصورت ہو؟ یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ اس کے کمرے میں کوئی خوبصورت سی تصویر بھی آویزاں کر دیتیں تھیں؟ اس کلیہ کے بہت سے عملی ثبوت بھی ہیں۔ مثلا ً بہت سے بچے اپنی شیر خوارگی کے زمانے میں مٹی کھانے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دوران ماں میں کیلشیم کی کمی ہو جانے کی وجہ سے ،اکثر مائیں، ملتانی مٹی پاکستان میں عام استعمال کر تی تھیں۔ مگر اب انہیں ڈاکٹر پہلے سے ہی کلشیم دے دیتا ہے اور نو زائیدہ بچے مٹی کی طرف راغب نظر نہیں آتے۔ گود کتنا انسان کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیجئے کہ ایک پادری صاحب حضرت ولی اللہ (رح) محدث دہلوی سے ملنے آئے جو کہ اکثر ان کے پاس منا ظرے کے لیئے پہلے آیا کر تے تھے، اور ہمیشہ ہار کر جاتے تھے۔ اس مرتبہ وہ آئے تو انہوں نے کوئی مسئلہ ہی نہیں چھیڑا اور دعا کی درخواست کر کے اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزار کر جا نے لگے تو انہوں نے پو چھا ؟ کیا بات ہے کہ آپ آئے بھی بہت دنوں کے بعد اور آج کو ئی مسئلہ بھی نہیں چھیڑا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے ہم یو نہیں وقت ضا ئع کر رہے تھے، اب اسکا حل دریافت کر لیا ہے۔ انہوں نے پو چھا کہ وہ کیا ہے؟ کہنے لگےکہ تحقیق کاروں نے جب تحقیق کی، تو پتہ یہ چلا کہ یہ مسلمان ماؤں کی گود ہے جو بچوں کے ذہن کو بچپن سے ہی پختہ کر دیتی ہے، اس لیئے ان پر کسی دوسرے مذہب کا اثر نہیں ہو تا ہے۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ وقت طلب مسئلہ تو ہے ،مگر مسلم ماؤں کی سوچ اور شغل بدل دیئے جا ئیں ۔ تو کامیابی آسان اور پائیدار ہو جا ئیگی،اوراب ہم اسی پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس پر کام کیا ،ان کی دیکھا دیکھی اورں نے بھی انکی نقل کی اور سب اس کا پھل پا رہے ہیں؟ نئی نسل چونکہ سمجھ نہیں پا ئیگی ،لہذاپہلے ہم یہ بتا دیں کہ اس سے معاشرے میں فرق کیا آیا؟ پہلے آج کی طرح تعلیم عام نہ تھی حالانکہ اسلام نے سب سے زیادہ زور علم پر دیا تھا اور ہر مومن اور مومنہ کے لیئے حصول ِعلم فرض تھا۔ جبکہ حضور (ص) نے تو یہاں تک فر مادیا کہ حصول علم کے لیئے اگر چین تک جانا پڑے تو بھی جا ؤ ً پہلے یہ حدیث کافی مشہور تھی ۔ مگر گزشتہ صدی کے وسط میں وہاں کمیونزم آگیا ! پہلے تو یہ سننے میں آیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر یہ سننے میں آنے لگا کہ یہ سرے سے حدیث ہی نہیں ہے؟ مگرہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں ہے؟ لیکن ایک جگہ یہ ضرورپڑھا ہے کہ ً علماءکا متفقہ فتویٰ ہے کہ کوئی حدیث مجوزہ معیار پر پوری نہ بھی اترتی ہو، مگر اس میں اچھے کام کرنے کی تحریص ہو ، تو وہ بھی بیان کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر علم حاصل کرنا اچھا کام ہے تو اس میں تحریص ہے یا نہیں؟ یہ آپ خود فیصلہ کر لیں؟ پھر چین آجکل ہمارا جگری دوست بھی ہے اور اکثر ہم اس کے مشورے مان بھی لیتے ہیں ،مثلا ً یہ مشورہ کہ پہلے کشمیر کے بجا ئے ہندوستان سے اپنے دوسرے مسائل حل کرو ؟ کشمیر کا مسئلہ بعد میں خود بخودحل ہو جائے گا ۔ کیونکہ ہم نے بھی ہانگ کانگ اور تایئوان کے سلسلہ میں یہ ہی پالیسی اپنا ئی تھی، اور آج دیکھ ر ہے ہو کہ ہانگ کانگ بھی بغیر جنگ کے ہمارا ہے، اور تا ئیوان سے بھی دوستی ہے۔ جب کہ عہد سابق میں ہم پر پابندیاں تھیں تو ہم نے اپنی ساری تجارت ہانگ کانگ کے ذریعہ جاری رکھی ہوئی تھی؟ دوسرے ہم نے اپنے فرائض ِ منصبی کی وجہ سے چین کی تاریخ پڑھی توپتہ چلا کہ سولہویں صدی تک چین انتہائی ترقی یا فتہ ملک تھا اور کاغذ تو اس نے اس وقت ایجاد کرلیا تھا ہے جب کہ باقی مہذب دنیالکھنے کے لیئے پتھر کی سلیٹیں استعمال کر رہی تھی؟ اگر ہمارے یہاں شروع سے ہی ذہنوں پر ایسی ہی قد غن لگی ہوئی ہوتی، تو مسلمان دنیا کے معلم بننے کے بجا ئے ویسے کے ویسے ہی رہتے جیسے اسلام سے پہلے تھے ۔ لیکن اسلامی احکامات کی روشنی میں انہوں نے پوری دنیا سے پہلے علم سیکھا پھر باٹنے کے قابل ہو ئے۔ یہ بات تو یونہیں درمیان میں آگئی ہم وہ بتا نے جا رہے تھے کہ پہلے والی ماؤں میں ایسی بات کیا تھی؟ گوکہ اس وقت آج کی طرح وہ اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھیں کیونکہ رواج کی بناپر گھر کی دہلیز حصولِ علم کے لیئے بھی انہیں پار کرنے کی اجازت نہ تھی، مگر ایمان میں پھر بھی پختہ تھیں۔ ہوتا یہ تھاکہ اکثر نانی اور دادیاں بچو ں کورات میں لے کر بیٹھ جا تیں، کبھی پیغمبر وں کے قصے بیا ن کر تیں، کبھی حضور (ص) کی سیرت بیا ن کرتیں اور اس میں تلقین ہو تی کہ بڑے ہو کر تم بھی ایسا ہی کر نا جیسا انہوں نے کیا؟ کبھی سبق آموز قرآنی یا بزرگوں کے قصے سناتیں اس کے نتیجہ میں جو بچے پروان چڑھتے وہ انہیں کو مشعل راہ سمجھتے ؟ اب صورتِ حال یہ ہے کہ دادی یا نانی جب بوڑھی ہو جاتی ہیں، تو اکثر سعادتمند بچے انہیں ایدھی ہوم میں چھوڑ آتے ہیں کہ وہ خوامخواہ کباب میں ہڈی بنتی ہیں، روک ٹوک کرنے کی وجہ سے ۔ رہیں مائیں انہیں اول تو معیارِ زندگی ہم چشموں سے بلند رکھنے کے لیئے دن رات کام کر نا پڑتا ہے۔اور وہ جب تھکی ہاری دفترسے گھرآتی ہیں تو کوئی انڈین یا اگر زیادہ ماڈرن ہو ئیں تو یورپین ڈرامہ لگا کر دیکھنا شروع کردیتی ہیں اور اسے دیکھتے ہوئے نیند آجاتی ہے ۔ بچوں سے ملا قات بس اتنی دیر کی ہو تی کہ انہوں نے کار کی آواز سنی بھاگ کر دروازے تک گئے ، تھوڑی دیر ان کے ساتھ ڈرامہ دیکھا اور اپنے کمروں میں جا کر سو گئے؟ نتیجہ یہ ہے کہ اب انہیں یہ یاد رہتا ہے کہ کونسی فلم کب ریلیزہوئی، اس میں ادا کار کون کون ہے اور پلے بیک میں کس نے کونسا گانا گایا ہے؟ لہذا وہ گودیں جو خالد (رض)بن ولید بن نے کی تلقین کیا کر تی تھیں اور انہیں اپنا ہیرو سمجھتی تھیں۔ اب ہالی وڈ۔ بالی وڈ اوران کے اداکاروں کو جانتی ہیں کیونکہ ان کے سے بالوں کے اسٹائل اور چال ڈھال کو اپنا نا فیشن اور ماڈرن تہذیب کا حصہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ہماری ایک بہن نے اپنا قصہ سنایا جو کہ انتہائی مذہبی گھرانے سے ہیں، ویسی ہی انہو نے اپنے بیٹے کی پرورش کی اور اب وہ اپنی جیسی بہو لا نا چا ہتی تھیں۔ ایک جگہ رشتہ چلا جو بہت دور تھی، کنیڈا میں فاصلے عام ہیں گو کہ سننے میں کنیڈا بڑا چھوٹا ساملک ہے مگر رقبے کے حساب سے یہ روس کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پرہے۔ اس کے مشرق اور مغرب کے درمیان جو وقت کا صرف فرق ہے وہ ساڑھے چار گھنٹے کا ہے یعنی مشرق میں اگرساڑھے چار بج رہے ہوں تو مغرب میں بارہ بج رہے ہونگے۔ دوری کو دیکھ کردونوں کے والدین اس پر رضامند ہو گئے کہ انکی فون پر بات کر ادیں ،اگر ہم خیال ہوں تو بات آگے بڑھے؟ دونوں میں بات چیت ہوئی لڑکی کا تو پتہ نہیں کہ اس نے کیا کہا، مگر گمان ِ غالب ہے کہ اس نے بھی یہ ہی کیا ہوگا جو لڑکے نے کہا؟ لیکن لڑکے نے ماں سے کہدیا کہ میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا ۔ پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ مجھے اس کے لیئے بالی وڈ کاکورس کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس نے پہلا سوال مجھ سے یہ پوچھا آجکل آپ کونسی فلم اور کونساڈرامہ دیکھ رہے ہیں ؟ جب میں نے بتا یا کہ میں فلمیں اور ڈرامے نہیں دیکھتا !تو اس نے حیرت سے پوچھا کہ پھر تو آپ شاہ رخ خان کو بھی نہیں جانتے ہونگے ؟اور اسی پربات چیت ناکام ہو گئی؟ جبکہ لڑکی اور لڑکا دونوں پاکستانی اور کنیڈین ہیں اور کینیڈا کے ہی پروردہ تھے؟ سوال یہ ہے کہ نئی نسل ایسی کیوں پیدا ہو رہی جواب آپ کو مل گیا ہوگا کہ گودیں بدل گئیں؟ مگر جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا کہ یہ دیر طلب کام ہے جس کے لیئے چائنا اور انگریز صبر کر سکتا ہے مگر ہم نہیں کر سکتے ؟ جبکہ صبر ہماراورثہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتیں بھی صابرین کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں ۔ لہذا اس میں ہم یہ ترمیم کر نا چا ہیں گے ہماری تمام یونیورسٹیوں میں بھی اب تہذیب پڑھا نے کی اشد ضرورت مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے؟ اور اس میں برا ماننے کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ ہم پہلے ہی سے عاد ی ہیں ؟غلام ہندوستان میں،انگریز ، اپنے ہندوستانی سول سروس کے ملازمین کو پہلے انگلینڈ لے کر جا تے تھے، جس میں انہیں ہاتھ ملانے سے لیکر کانٹوں چمچوں سے کھانا پینا اور اٹھنا بیٹھنا سب سکھا تے تھے ۔ تب کہیں جا کر، وہاں سے واپس لاکرکرسی پر بٹھا تے تھے؟ اس لیئے جب سے ہماری یہ عادت ،ثانیہ بن گئی ہے کہ ہم سیکھتے ہی انہیں سے ہیں، مثال بھی انہیں کی دیتے ہیں ، مگر اسلام کی طر ح صر ف وہ باتیں جو ہما رے مفاد میں ہوں! وہ نہیں جو مرضی کے خلاف ہوں۔ مثلا ً اسلام نے سب سے پہلے کہاکہ انصاف کرو اگر دشمن بھی ہو؟ پھر کہا صفائی نصف ایمان ہے ؟اسی سے سیکھ کر اوروں نے اپنے ملک جنت بنا لیئے، اپنے بازار اور گھر سب کچھ چمکا لیئے کیونکہ یہاں تنکا پھینکنے پر بھی دوہزار ڈالر جر مانہ ہے؟ مگر ہمارے یہاں نہ عدل ہے نہ صفائی؟ ملک جہنم ، زار بنا ہوا ہےاور ہماری سڑکیں ہما رے بازار ،کسی کوڑے دان کا منظر پیش کرتے ہیں؟ کیونکہ ہمیں ہر بات کی آزادی ہے ہم راہ گیروں کے سروں پر بھی کوڑا پھینک سکتے ہیں، پان کی پیک تھوک سکتے ہیں، جس طرف دیکھئے دیواریں اور فرش لا لہ زار بنے ہو ئے ہیں۔ ان میں پبلک مقامات بھی شامل ہیں۔ کھانے کی میزوں پر یوں ٹوٹے پڑ تے ہیں کہ تصاویر میں دست و گریباں نظر آتے ہیں، کھانے کی پلٹیں اتنی بھری ہو ئی ہوتی ہیں کہ پلیٹ کم اور ٹرالی زیادہ معلوم ہو تی ہیں ۔اب جبکہ ہمارے ہاں آزاد میڈیا نیانیا آیا ہے انہیں آزادی ہے کہ جس کی چا ہیں وہ ٹوپی اچھالیں! جبکہ وہاں آنے والوں کو بھی شایدکوئی اور کام نہیں ہے یا پھر معاوضہ اچھا ملتا ہے۔ خواتین ہوں یا مرد بجا ئے بولنے کے سب چیختے نظر آتے ہیں۔اور دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے جبکہ یہاں والے اس پر ہنستے ہیں ؟ کیونکہ یہاں لوگ ایک دوسرے کو دلیل کے زور پر زیر کرتے ہیں، آواز کے زور پر نہیں ؟ ہم سے ان کی بے بسی ٹی وی پر دیکھی نہیں جا تی جو بیچا رے منحنی سی آواز رکھتے ہیں۔ اگر ہمیں کہیں ملیں تو ہم کہیں کہ بھا ئی جب تمہیں یہ معلوم ہے کہ تمہا ری آواز پھٹے بانس جیسی نہیں ہے، تو آتے ہی کیوں ہو، ہار نے کے لیئے ؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے