یہ عجیب حقیقت ہے کہ سچ اور جھوٹ دونوں ایک ہی منہ سے ادا ہو تے ہیں۔ مگر ایک انسان کو فرشتوں کی صفوں میں دا خل کر دیتا ہے، جبکہ دو سرا فعل شیطانوں میں دا خل کر دیتا ہے۔ اب وہ واقعہ آگے پڑھ کر مجھے بتا ئیں کہ میں اس کالم کو لکھتے ہو ئے رؤں یا ہنسوں جو اسے لکھنے کا باعث ہوا ہے؟ آج ہم پھر اسی سبق کو دہرانے جا رہے ہیں جو اسلام نے سب سے پہلے دنیا کے سامنے پیش کیاتھا، وہ تھی صداقت سچائی جس کو اس نے حضور(ص) کی شکل میں پیش کر کے دنیا کو یہ بتا یا تھا کہ ہم نے سچا ئی کی اکملیت بھی ان (ص) پر ختم کردی ہے۔ دشمن یہ کہتے ہوئے گھبراتے تھے کہ آپ (ص) غلط فرما رہے ہیں ؟ کیونکہ دشمنوں کو ڈر تھا کہ ان کی بات کا کوئی یقین نہیں کریگا۔ اس لیئے کہ انکی (ص) چالیس سالہ زندگی میں ایسی کو ئی مثال نہ تھی؟ جب انہوں (ص) نے عوام الناس کو دعوت دی ۔ تو بھی پہلے ان سے یہ پو چھا کہ تم نے مجھے کیسا پایا، سب نے یک زبان ہو کر کہا صادق اور امین؟ تب فر مایا کہ میں (ص) اگر یہ کہوں کے اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کی ایک بہت بڑی فوج آن پہونچی ہے تو تم یقین کروگے؟ سب نے کہا ہاں ! ااس لیئے کہ آپ نے پہلے کبھی کوئی بات اپنی زبان مبا رک سے غلط نہیں نکا لی؟ یہ تھی ان کی سچا ئی پر یقین کی انتہا ؟ یعنی حضور (ص) نے ایک ایسے مفروضہ کی تصدیق ان سے کرالی جو کہ ناممکن تھااور انہون نےبھی، اس کے باوجود تصدیق کر دی، “ (اگر )یہ خبرآپ (ص)کی زبان سے ادا ہو تو ہم اسے بھی ماننے کو تیار ہیں “ یہاں ایک بڑا لطیف نکتہ ہے جو حضور(ص) کی حکمت کو واضح کر تا ہے؟ کہ انہوں نے خبر دی نہیں ،بلکہ یہ فرمایا کہ میں اگر تمہیں یہ کہوں تو تم مان لو گے؟ (جوکہ ایک قطعی انہو نی سی بات تھی) جو لوگ ریگستان کے موسم ، حالات اور اس پہاڑی کی لمبا ئی اور چو ڑائی سے واقف نہیں ہیں پہلے ان کو یہ بتا تا چلوں کہ اس زمانے میں فوج گھوڑوں پر اونٹوں اور خچروں پر اور زیادہ تر پیدل ہی چلتی تھی۔ وہ جب چلتی تھی تو گرد اور غبار کا پہاڑ آسمان تک آگے آگے چلتا تھا ،جس کے پیچھے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ پھر جا بجا راستے میں چرواہے اور راہ گیر ملتے تھے، جو آن کی آن میں اگر کو ئی خطرہ ہو تو خبر شہر میں پہونچا دیتے تھے۔ اور یہ پہاڑی بھی نہ اتنی بلند تھی نہ اتنی بڑی کے اس کے پیچھے ایک فوج چھپ جا ئے لیکن اس کے با وجود اہل ِ مکہ نے حضور (ص) کے پچپن سے لیکر اب تک کی راست گوئی کی بنا پر یہ کہدیا کہ ہم اس مفروضے کو ماننے میں بھی تامل نہیں کر یں گے کیونکہ ہم نےآپ (ص)کو ایک امین اور صادق پایا ہے؟ اس طرح پوری پختگی کر نے کے بعد، تاکہ انکو فرار کی کوئی گنجا ئش نہ رہے ؟ تب حضور (ص) نے وہ جملے ادا فرما ئے کہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول (ص) ہوں کیا تم ماننے کو تیار ہو؟ جس دانشمندی سے حضور (ص) نے اپنا دعویٰ پیش کیا تھا اس کا تقاضہ تھا کہ وہ انہیں بلا چوں چراں نبی مان لیتے ؟ لیکن یہ مفاد پرستی کی لعنت ہمیشہ سے معاشرے میں موجود تھی ۔ اہل ِ مکہ جا نتے تھے کہ یہ کرو فر صر ف اس خدا کی وجہ سے ہے ،جس کی طرف یہ بلا رہے ہیں یہ ان کے ابا واجداد حضرت ابراہیم (ع)اور حضرت اسمعٰیل (ع) کادین ہے جسے انکو ان کی ماؤں نے سیکڑوں دفعہ سنا یا ہو گا جس کا ایک ایک لفظ انہیں یاد ہو گا! مگر مفاد پرستی آڑے آئی اور انہوں نے کہدیا کہ نہیں! یہ بات ہم نہیں مانیں گے؟ اور اس طرح اپنی اس بات کی تردید کر دی جو ا بھی چند منٹ پہلے انہوں نے حضور (ص)پر اعتماد ظاہر کرتے ہو ئے کہی تھی؟ جیسے کہ آجکل ہم اپنے مفاد ، اپنی پارٹی کےمفاد، رشتہ داروں اور برادری کے مفاد کے لیئے جھوٹ بولنے سے نہیں شر ما تے ہیں ؟ یہ سب کیوں تھا ؟ اس کے پیچھے بنو امیہ کی یہ سوچ کار فر ما تھی کہ ہم ابھی حجاج کو پانی پلا نے کی خدمت پر مامور ہو نے کی وجہ سے بنو ہاشم کے ہم پلہ ہیں اگر اس کو مان لیتے تو ہم نبی تو نہیں بن سکتے لہذا ہما را وقار ختم ہو جا ئے گا؟ جبکہ بنی ہاشم بھی سوائے چند کے اس کو پہلے ہی رد کر چکے تھے جو کہ حجاج کو پانی پلا نے کی خدمت پر مامور تھے۔ اس لیئے کہ یہ کلیہ ہے کہ سارے مفاد پرست ہمیشہ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں؟ سب کی سوچ یہ تھی کہ ہماری برتری ختم ہو جا ئے گی ، ہماری تجارت یہاں سے لیکر شام تک جو جاری ہے ،بند ہو جا ئے گی؟ چونکہ اسلام برابری کا سبق دیتا ہے؟ یہ خواتین سر پر چڑھ جا ئیں گی یہ غلام برابری کا مطالبہ کریںگے، اور پسماندہ لوگ ہمارے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے ،کوئی مٹھی چپی کر نے والا نہیں رہے گا اپنے سارے کام بھی خود کر نا پڑیں گے۔ جبکہ اس سے پہلے وہ بھی اہلِ مدینہ اور یہودیوں کی طرح منتظر تھے دعا ئیں مانگتے تھے کہ وہ نبی (ص) کب تشریف لا ئیں گے جن کی ہما رے دادا حضرت ابراہیم (ع) نے دعا کی تھی؟ یہ نتیجہ تھا اس خوف ناک تصور کا جس نے ان کے ذہن میں لا تعداد خطروں کو جنم دیا اور وہ بھول گئے کہ ابھی چند منٹ پہلے جو انہوں نے کہا ہے؟ اس طرح پھر جانے سے آئندہ آنے والی تاریخ انہیں کتنا بڑا جھو ٹا اس وقت تک سجھتی رہے گی جب تک کہ یہ دنیا قائم ہے۔ جبکہ یہ مثال دکھا کر حضور(ص) نے اپنی امت کے سامنے خود کو بطور عملی نمومہ پیش کیااوراس کو آئندہ اس ذلت سے بچانے ،اور بعد میں اپنا جیسا بنا نے کے لیئے یہ فرما کر بات ختم کر دی کہ مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہو سکتا؟جبکہ بعد میں ان کے ماننے والوں نے انکا اتباع کرکے دنیا پر ثابت کر دیا کہ مسلمانوں سے زیادہ سچی دنیا میں کوئی قوم نہیں ہے ؟ وہی عرب جو کہ اپنی بد عنوانیوں کے لیئے دنیا میں مشہور تھے ؟ ایسے بدلے کہ صورت ِ حال یہ ہو گئی کہ لاکھوں مسلمانوں میں بھی کو ئی جھوٹا نہیں ملتا تھا۔ مدینہ منورہ میں بھی جومنافقین تھے وہ بھی مٹھی بھر تھے اپنے مفادات کی وجہ سے ۔ اپنے سچے کردار کی بنا پر وہ لوگوں کے دلوں کو فتح کر کے دنیا کے فاتح بن گئے۔ جبکہ اب ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہمیں کہیں ایک سچا مل جا ئے تو ہمیں حیرت ہو تی ہے؟ جیسی کہ ہماری بہن ڈاکٹر نگہت نسیم (نائب مدیر اعلی عالمی اخبار ) پاکستان میں اس انہونی سے دوچار ہوئیں کہ ایک شخص اور وہ بھی کتب فروشوں میں سے ایماندار مل گیا؟ جبکہ وہاں کو ئی سچ بولتا ہی نہیں ہے اور ایمانداری شجر ممنوعہ ہے؟ یہ ہی آج ہمارے اس کالم کا مو ضوع ہے؟ اور میں نے آپ سے رائے مانگی ہے کہ میں ہنسوں یا رؤں ؟ جبکہ یہ ممالک جہاں وہ رہتی ہیں، جہاں میں رہتا ہوں جوکہ ہمارے علما ءکے فتووں کے مطابق دا رالحرب ہیں ۔ کیونکہ بقول ان کے وہاں کبھی اسلام نہیں رہا ؟ جبکہ اسلام کے تمام بنیا دی اصول ان کے پا س ہیں اور نافذ بھی ہیں جن سے وہ فیضیاب بھی ہو رہےہیں؟ وہ ان کے یہاں کب پہونچے؟ انہیں پتہ ہے ،نہ ہما رے علما ء کو۔ مگر٩٥ فیصد اسلام وہاں پہونچ چکا ہے اور عمل کرکے وہ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ اس لیئے کہ دین کا فروغ اس نے کبھی اور قوموں کی طرح ہمارے ذمہ کیا تھا، مگر انکی طرح جب ہما رے کردار بدل گئے تو وہ بھی ہم سے بے تعلق ہو گیا،لیکن اس کا وعدہ ہے کہ میں اپنے دین کو بلند کر کے رہونگا ؟
ع ہے یہی بات قرآں میں کئی بار کہی تم نہیں اور سہی اور سہی اور سہی ؟ جب کہ ہماری یہاں چند خاندان اپنے اقتدار کو بچا نے اور قائم رکھنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جن کی بنا پر مسلمان رسوا ہو رہے ہیں؟ یہ رسوائی کسی غیر کی دی ہو ئی نہیں ہے ہما رے اپنوں کی دی ہو ئی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمارے اوپر کو ئی اعتبار کر نے کو تیار نہیں ہے؟ اور ہر آدمی پریشان ہے کہ وہ جھوٹ کیا سمجھے اور سچ کیا مانے؟ اخبار کی سرخیاں دیکھ جا ئیے کہ ہمارے وزیر اعظم نے فر ما یا کہ ہم عدلیہ کا احترام کر تے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نےاپنے دو سکریٹریوں کو بلوچستاں سپریم کورٹ کی طلبی پر بھیج دیا ہے ۔ جبکہ ہم کا بینہ کا اجلاس بغیر سکریٹریز کے چلا رہے ہیں۔ اب لو گ خود سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے عدلیہ کے با رے میں جو زبان استعمال کی ہے جو حکم عدولی کی ہے جس پر وہ سزابھی بھگت چکے ہیں وہ صحیح ہے یا یہ بیان درست ہے؟ جبکہ بلوچستان کے لا پتہ افراد کے مقدمہ میں عدلیہ نے یہاں تک کہدیا کہ بس بہت ہو گئی اگر ہماری بات نہیں سنی گئی تو ہم آئین کی حکمرانی کے لیئے کچھ نہ کچھ کر گزریں گے؟ یہ کہا اس نے اس لیئے ہےکہ جن کے اوپر الزام ہے کہ وہ لوگوں کو دن دھاڑے اٹھا لے جاتے ہیں بعد میں کبھی ان کی لا شیں مل جاتی ہیں، کبھی نہیں بھی ملتی ہیں جبکہ وہ اکثر عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے؟ دوسرا بیان اپوزیشن کے لیڈر جناب نواز شریف کا ہے کہ وہ فر ما رہے ہیں کہ ہمارا صدر زر داری کو صدر بنا نے میں کو ئی ہا تھ نہیں تھا؟ اگر ان سے پو چھا جا ئے، تو وہ کہدیں گے کہ ان کا نام الطاف بھائی نے پیش کیا تھا؟جبکہ یہ ان کی رضامندی اور خاموشی کے بغیر ممکن نہ تھا اس لیئے کہ دوسری بڑی جماعت وہ تھے۔ اب آئیے دنیا میں ساکھ کی بات؟ محترمہ ہیلری کلٹن فر مارہی ہیں؟سارے القا ئدہ کے لیڈر چونکہ پاکستان سے ملے ہیں اس لیئے باقی جوبچے ہیں وہ بھی وہیں ہیں؟ کیونکہ وہ اس بات کو ماننے کے لیئے تیار نہیں ہیں کہ اسامہ اپنا نیا محل بنواکر ایبٹ آباد جیسی فوجی چھاؤنی میں سالوں رہتا رہا نہ حکومت کو پتہ چلا اور نہ خفیہ ایجینسیوں کو ؟جس سے ہماری حکومت کی رٹ؟ جس کی روز وہ رٹ لگا تی رہتی ہے ظاہر ہوتی ہے؟ اب رہے عوام چونکہ وہ انہیں میں سے ہیں لہذا اگر ڈرون حملوں جیسے معاملوں میں بھی حکومت لاکھ یقین دلا ئے کہ ہمارے علم کے بغیر ہو رہے ہیں؟ مانتے کو تیار نہیں ہیں ۔ اب بتا ئیے کہ کارو بار ِ حکومت چلے تو چلے کیسے ؟ کیونکہ سب کچھ تو با ہمی اعتماد پر چلتا ہے۔ جبکہ جھوٹ اعتماد کا دشمن ہے؟