آجکل ہمارے یہاں دہری شہریت کا بڑا چر چا ہے؟ کیونکہ اس کے لیئے کہیں سے ایک چھپا ہوا قانون نکل آیا کہ پاکستانی دہری شہریت رکھ کر اسمبلی کے ممبر نہیں ہوسکتے؟ اس سلسلہ میں صرف دو ہی شخصیات ظاہر ہو ئیں ، ان میں سے ایک کی رکنیت معطل کردی گئی ہے، جبکہ دوسری شخصیت سیاسی پینترے دکھا رہی ہے۔ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اور ہمیں بھی ان تمام رمضانیوں کی طرح یہ یقین ہے کہ ہماری عدلیہ آزاد بھی ہے اور ایماندار بھی ہے وہ جو کچھ بھی کریگی وہ قانون اور انصاف کے مطابق ہو گالہذا مطمعن بھی ہیں۔ جبکہ ہمیں اس پر حیرت ہے کہ یہ قانون بنا یا کس جیالا نے اورترامیم سے کیسے بچا،اور دبا کہاں رہ گیا۔ ظاہر ہے جب یہ دستور کا حصہ ہے تو بنا یا بھی اسمبلی نے ہو گا اور یقینا کسی سیاست داں کو مخالفت سے روکنے کے لیئے بنا یا ہو گا ؟ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ نوکر شاہی اور رہنمائی ہمیشہ سے دہری شہریت کی حامل رہی اور ابھی اکثریت اور بڑھ گئی ہے؟ یہ قانون دبا شا ید اس لیئے رہ گیا کہ بنا نے والے کا مقصد اسے عام کر نا نہیں تھا، یہ کسی کے لیئے مخصوص تھا اور اس سے پہلے کہ اس پر عمل ہوتا مخالف تا ئب ہو گیا ، پھر اس قانون کے خالق نے اسے اس خیال سے ترمیم کی نظر بھی نہیں کیا کہ داشتہ آید بکار۔ پھر کبھی ضرورت پڑے؟ورنہ شروع دن سے پاکستان میں دہری شہریت ہی کارفرما رہی ہے۔ بہت مدت بعد جا کر پاکستان میں شہریت کا قانون بنا ۔ تب کہیں ١٩٥٤ میں پاکستانی پاسپورٹ بنے اس وقت تک لوگ ہندو ستانی پاسپورٹوں سے کام چلا تے رہے۔ حتیٰ کہ کرنسی بھی انڈین تھی، تو کمانڈر انچیف جنر ل گریسی بھی برطانی شہری تھا ،اور پنجاب کاگورنر بھی ۔ جبکہ پاکستان کے تمام لیڈر سالوں تک انڈین پاسپورٹ پر یا جن کے پاس دہری شہریت تھی وہ برطانوی پاسپورٹ پر سفر کر تے رہے۔ چونکہ بر طانیہ کے سارے سابق غلاموں نے شروع میں تاج ِ بر طانیہ سے وفاداری نہیں چھوڑی تھی اس لیئے مدت تک ان کے ہی گورنرجنر ل ان کی طرف سے پاکستاں پر حکومت کر تے رہے۔ ہمیں ایک دستور کے خالق کے بارے میں بھی علم ہے کہ انہوں نے پہلے خود کو انڈین شہری ظاہر کیا اور ان کے والد کی جو جا ئیداد بمبئی میں تھی اس کو وا گزار کرانے کوشش میں جب نا کامی ہو ئی تو ٥٥ یا٥٦ میں پاکستان آئے اور جناب حسین شہید سہروردی کے پاس بطور جونیر وکیل کام کرتے ہو ئے خود کوسندھ چیف کورٹ میں انرول کرایا؟ اس زمانے میں ایسی با تیں عام تھیں اور وہ روش بعد میں بھی جاری رہی کہ کامن ویلتھ نے دہری شہریت کی اجازت دیدی ،کیونکہ وہ ان کے مفاد میں تھی؟ جس سے وہ اپنے پرانے غلاموں کواپنے قومی مفادات کے لیئے استعمال کر تے رہے اور اب تک کر رہے ہیں؟ اس کے مظاہرے وہاں عام ہو تے رہتے ہیں؟ ابھی چند مہینہ پہلے ہی کراچی میں جب کسی سے امن قائم نہ ہوسکا تو انہوں نے مدا خلت کر کے ایک دن میں کرادیا؟ ان کی بات کیوں نہ مانی جانی کہ ہمارے ہر بڑے آدمی کا ایک پا ؤں یہاں ہے تو ایک پاؤ وہاں؟ اس لیئے کہ سب کے بچے وہاں پڑھ رہے ہیں سب نے گھر وہاں لے رکھے ہیں کاروبار وہاں چل رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کچھ لوگ چھپاتے ہیں، کچھ فخریہ اعلان کرتے ہیں، بلکہ جب انہیں بر طانوی پاسپورٹ ملتا ہے تو وہ ٹی وی پر آکراس کی زیارت بھی اپنے ماننے والوں کو کراتے ہیں اور جشن بھی مناتے ہیں؟ اب تو بر طانیہ ہی نے نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت نے بھی دہری شہریت کی اجا زت دیدی ہے۔ جوکہ تمام غیر رہائش پذیر ہندوستانی کو حاصل ہے۔ صرف ہندوستانی نژاد پاکستانیوں ، بنگلہ دیشیوں اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والوں کو نہیں ہے۔ دہری شہریت کے اپنے مزے ہیں ،ہر ملک کے سابق غلاموں سے خراج پہونچتا رہتا ہے جو ان کے بینکوں میں جمع ہو تا ہے۔ دوسرے جووہاں اکاونٹ رکھتے ہیں انہیں فا ئدہ یہ بھی ہے کہ اپنے اصل ملکوں میں ٹیکس کم یا بالکل نہیں دینا پڑتا ہے۔ اس لیئے کہ وہ بیچارے غربت کی وجہ سے بجا ئے اپنی جیب سے خرچ کرنے کہ وہیں سے قرض ادھار سے کام چلا تے ہیں اور انڈر انوائسنگ کے ذریعہ منا فع یہاں جمع ہو تا رہتا ہے جہاں بچے رہتے اور پڑھتے ہیں؟ جبکہ مسلمانوں کے پاس ایک تیسری قومیت بھی ہے جو سرحدوں کو نہیں مانتی وہ ہے اسلامی قومیت؟ جسے خصوصی طور پر مسلمان ملک خود نہیں مانتے اس لیئےوہ کسی کواپنے ہاں کی شہریت دینے کو تیار نہیں ہیں، چا ہیں وہ ساری عمر وہاں کھپا دے؟ جبکہ جو غیر اسلامی ملک ہیں وہ شہریت دیدیتے ہیں اگر ان کے معیار پر پورے اتریں؟کنیڈا تو ملٹی کلچرل ملک ہے یہاں آپ شہریت لیکر سب کچھ بن سکتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں یہ ضروری نہیں کہ آپ پاسپورٹ لیں صرف گرین کارڈ رکھتے ہو ئے تمام مراعات مل سکتی ہیں، البتہ پاسپورٹ لینے کے بعد بھی وہاں کے صدر نہیں بن سکتے اگر پیدا ئشی امریکن نہیں ہیں ۔ مسئلہ جب پیدا ہو تا ہے جبکہ جنکی شہریت آپ کے پاس ہے اگر ان ملکوں کے مفادات مختلف ہوں ؟ یہاں میں ایک مثال دیکر آپ کو بات سمجھا ناچاہونگا کہ پچھلے دنوں ایک خاتون نے جو رچمنڈ میونسپلٹی میں میری ہم منصب ہیں، مجھ سے پوچھا کہ اس موسم گرما میں کہاں جانے کا پروگرام ہے؟ میں نےکہا ابھی مجھے کہیں نہیں جانا ہے اس لیئے کہ اس سال موسم سرما میں کچھ نجی مصروفیات ہیں میں اس وقت لمبے عرصے کے لیئے جاؤنگا؟ وہ کہنے لگیں کہ میں ابو ظبی جانا چا ہتی ہوں، مگر وہاں کا ویزا بڑی مشکل سے کنیڈین کو ملتا ہے، گزشتہ سال تک کنیڈا پسندیدہ ملک تھا ۔ مگر اب کیوں نہیں رہا ؟ میں نے انہیں وجہ بتا ئی ،تعلقات خراب ہو نے کی کہ وہ تمام لوکل ہوائی راستہ اپنی فضائی کمپنیوں کے لیئے مانگ رہے تھے؟ ایر کنیڈا پہلے ہی حکومت پر بار بنی ہو ئی اگر کنیڈا دیدیتا تو قومی ایر لا ئن دیوالیہ ہو جا تی، جبکہ ٹورنٹو انہیں پہلے سے دیا ہوا ہے۔وہ سن کر کہنے لگیں کہ پھر تو ایسی ہزاروں تکلیفیں ہمیں منظور ہیں؟ یہ ہے وہ قومی غیرت جو ایک سے زیادہ ملکوں کی شہریت کی صورت میں پیدا نہیں ہوتی اور اگر یہ کسی شہری میں نہ ہو تو کوئی ملک غدار شہریوں کو برداشت نہیں کرتا ؟ اور ہر عقلمند آدمی یہ کبھی نہیں کر تا کہ جس کشتی میں بیٹھا ہو اس میں وہ سوراخ کرے؟ جیسے کہ ہم خود کسی غدار کو پسند نہیں کرتے؟ بلکہ جونہیں ہیں انہیں بھی صرف شبہ میں غدار قرار دیدتے ہیں۔
جبکہ ہم من حیثیت القوم دہرے معیار اور دہری شخصیت کے عادی ہوچکے ہیں۔ وہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے ؟ جبکہ پاکستان کا ہم مطالبہ کرتے تھے وجہ یہ بتاتے تھے کہ ہمارا کلچر ان سے مختلف ہے ،زبان مختلف ہے۔ لیکن جلسہ سے واپس آکر شیروانی اتار دیتے تھے اور سلیپنگ سوٹ پہن لیتے تھے اور جلسے جلوسوں کے علاوہ باقی وقت سوٹ زیب تن کیئے رہتےتھے ، اس میں کچھ مجبوری کو بھی دخل تھا کہ شیروانی پہنکر نہ تو اعلیٰ عدالتوں میں جا سکتے نہ کلبوں اور ہوٹلوں میں، جبکہ اپنے بچوں سے باتیں انگریزی میں اس لیئے کیاکرتے تھے کہ ان کی زبان خراب نہ ہو جا ئے، نتیجہ یہ ہے کہ پینسٹھ سال میں بھی نہ ہم اپنا کلچر بنا سکے، نہ زبان اپنا سکے؟ ابھی تک عملی طور پر انگریزی سرکاری زبان ہے رہا کلچر وہ ملغوبہ ہے انڈین، یورپین اور اسلامی کلچر کا اس میں ایک بڑا کام جناب بھٹو کا ہے کہ انہوں نے شلوار قمیص کو قومی لباس قرار دیدیا۔ ورنہ اب تک وہی سلسلہ چلتا رہتا۔اب تو وہ سلسلہ بھی نہیں رہا کہ دکھاوے کو ہی شیروانی پہن نے لیں۔ اب اسلامی جمہوریہ کے رہنما انتہا ئی ڈھٹائی سے انگریزی سوٹ اور ٹائی ہر وقت پہنے رہتے ہیں اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتے ہیں جو بول بھی نہیں پاتے، اکثر سمجھ بھی نہیں پاتے اور نتیجہ یہ ہے کہ دنیا ہم پر ہنستی ہے؟ اب رہ گیا دہرا معیار۔ بہت دن پہلے کی بات ہے کہ ہم اور ہمارے ایک عزیز ٹھٹہ گئے وہاں پر جوصاف سا ریسٹ ہا ؤس تھاوہ لینا چا ہا کہ ان کا خیال تھا کہ وہ برطانوی شہری ہیں لہذا انہیں ان کو اس کے استعمال کا حق ہے، مگر نگراں نے یہ کہہ کر ان کی ساری بر طانویت کر کری کر دی کہ یہ صرف گوروں کے لیئے ہے ۔ رہ گئی دہری شخصیت وہ تو تیرہ سوسال سے اسلام کے ابتدائی چالیس پچاس سال چھوڑ کر آج تک جاری ہے۔ ہم رہتے محلوں میں ہیں بات کر تے ہیں عوام کی ،جو ایک لا ئین سے نکل کر دوسرے میں لگ جا تے ہیں۔ جبکہ اسلام کا سبق یہ ہے کہ جو اپنے لیئے چا ہو وہ اپنے بھا ئی کے لیئے چاہو،جس نے انصاف کا درس دیا، جس نےایماندری کا درس دیا جس نے سچ کا درس دیا ان میں سے ابھی سوچیں کونسی بات ہم میں باق ہے؟ انصاف ہے تو صرف اپنے سے بڑوں کے لیئے۔ کل کی ایک خبر ہے کہ اسلامی یو نیورسٹی کے ایک پروفیسر کو اس لیئے جبری رخصت پر بھیجدیا گیاکہ اس نے ایرانی سفیر کو اپنے ایک جلسہ میں بلا لیا تھا۔ جبکہ امریکن سفیر کو روز بلا تے ہیں اور کچھ نہیں ہو تا۔ بزعم خود ہما را ملک اسلام کا قلعہ ہے ہم اسلام کے علمبر دار ہیں اور ہم ایران سے بہترین تعلقات بھی چاہتے ہیں۔ آج کی خبر دیکھ لیجئے کہ پاکستانی روزانہ اپنے ہا تھوں اور دوسروں کے ہا تھو ں ہوائی اڈوں پر بے عزت ہو تے رہتے ہیں۔ مگر کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ایف آئی اے نے ایک سعودی با شندے کو ہوائی اڈے پر چیکنگ کے لیئے روکا جس کی سیٹ کنفرم نہیں تھی اور وہ ریاض جانے کے لیئے اندر داخل ہورہا تھا، تو اس نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ اپنے ملک میں پاکستانیوں کے ساتھ کرتا رہتا ہے۔ جواب میں نا سمجھی میں کسی سر پھرے نےشعر کا دوسرا مصرع کہدیا جسکا اس نے پہلا مصرع کہا تھا، پہلے تو کہا گیا کہ وہ سفارت کار تھا، پھر پتہ چلا کہ وہ فوجی تھا۔ ؟ سعودی سفارت خانے سے ایک فون کیا آیا کہ اس کے خلاف ایوان ِ وزیر اعظم حرکت میں آگیا ہرمحکمے کی سکریٹری محترمہ نر گس سیٹھی نے ڈی آئی جی کو طلب کر لیا؟ آگے آپ خود سمجھ لیں کہ کیا ہوگا اس اے ایس آئی کے ساتھ ،بس یہ ہی کہ ایک بے روزگار خاندان کا اور اضافہ ہو جا ئے گا؟ یہ تو، تو دہری شخصٰیت کا کرشمہ عام ہے کہ ہمارا سیاسی رہنما ہو یا مذہبی رہنما ہو جو کہتا وہ کرتا نہیں ہے ساری تلقین اور وعظ صرف اوروں کے لیئے ہیں اور ٹھاٹ اپنے لیئے؟ چونکہ یہ بھی کلیہ ہے کہ مذہب امراء چلتا ہے اس لیئے عوام نے بھی یہ ہی طریقہ اپنا لیا ہے کہ جو کہووہ کرو مت؟