کیا قرآن اور سنت میں قرآن کی قسم کھانے کا حکم ہے۔۔۔شمس جیلانی

مجھے اپنے علم پر ناز نہیں ہے کہ مجھے جو کچھ بھی علم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کرم ِ خاص سے عطا ہوا وہ میری حیثیت سے بہت زیادہ ہے اور میں اس کے لیئے اوراللہ سبحانہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے لیئے اس کا انتہائی شکر گذار ہوں کیونکہ اس نے فرمایا ہے کہ جو شکر کرتا ہے اس کو زیادہ دیتا ہوں اور جو کفر کرتا ہے اس کے لیئے میرا عذاب بھی سخت ہے (سورہ ابرا ہیم آیت٧) ۔ چونکہ ہمارے یہاں یہ کلیہ بن گیا ہے کہ کسی کی بات سننے سے پہلے یہ دیکھنے کا رواج ہے کہ کون کہہ رہا؟ یہ بعد میں دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے؟ چونکہ پاکستان کے لوگ مجھے کم جانتے ہیں اس لیئے کہ میں بائیس سال سے باہر ہوں؟ لہزا پہلے اپنا مختصر سا تعارف پیش کر نا چاہتا ہوں؟  میرا یہاں ہجرت کر نے کا مقصد اسلام کی تبلیغ اور خدمت تھا۔ چونکہ میں اس حدیث پر عامل ہوں کہ میرے آقا مخبر ِ صادق محمد مصطفیٰ (ص) کا یہ فر مان ہے کہ “ وہ فلاح پایا گیا ؟ جس کو اللہ نے علم دیا اور اس نے تقسیم کیا ، جس کواللہ نے مال دیا اور اس نے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کیا اور جس کو قناعت دی ، جبکہ ایک دوسری جگہ یہ اضافہ ہے کہ جس کو اللہ نے غیب سے روزی دی ً الحمد للہ ! ثم الحمد للہ ! مجھے یہ تمام نعمتیں اس نے عطا فر ما ئی ہوئی ہیں۔اور بیس سال سے میں یہ ہی کام کر رہا ہوں کہ علمِ دین پھیلانے میں سر گرداں، خدمت ِ خلق میں مصروف ہوں اور مسلمانو ں میں با ہمی اتحاد کے لیئے کو شاں بھی۔  میری اسلام اورسیرت پر نو کتابیں! حقوق العبا د اور اسلام ، سیرتِ پاک حضور  ًروشنی حرا سے ًسیرت حضرت ِ ابو بکر ، سیرت ، حضرت عمر ، سیرت ِ حضرت عثمان ، سیرت ِ حضرت علی ، سیرت ِ حضرت فاطمہ ، سیرت ِ حضرت حسن اور حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شائع ہو کر دنیا میں مقبول ہو چکی ہیں۔ یہ سب کتابیں وہ ہیں جو کہ پہلے قسط وار دنیا کے کئی اخبارات میں شائع ہوتی رہیں پھر کتابی شکل میں آئیں؟ ان کے علاوہ قصص الانبیاءبھی قسطوار تو شائع ہو چکی ہے مگر ابھی کتابی شکل میں نہیں آئی آجکل عشرہ مبشرہ پر لکھ رہا ہو جو اخباروں میں قسطوارمیں شائع ہو رہی ہے۔ ان کے علاوہ اسلامی تعلیمات پر مشتمل تین مجموعہ کلام بھی شائع ہوچکے ہیں، صدا بہ صحر ، گمان ِ معتبر اور اتم ہے انسان (ہندی )  الحمد للہ میں نے قر آن کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے بار بار پڑھا  ہےاور سمجھا ہے اور جو کچھ میں سمجھ سکا اسے لوگوں تک پہونچا یا بھی  ۔ مجھے اس میں کہیں بھی قر آن کی قسم کھانے ، قر آن اٹھانے کا ذکر نہیں ملا ، ہاں اللہ کی قسم کھانے کا حکم بھی ہے اور ذکر بھی اور طریقہ بھی ہے سورہ نور (٧،٦ ) تاریخِ عرب سے بھی یہ ثابت ہے کہ اللہ کی قسم کھانے کا رواج تھا۔ جو مدینہ منورہ میں بھی رائج تھا جس کا ذکر سورہ  نور کی آیت ٥٣  میں منافقین کے سلسلہ میں موجود ہے۔لہذا میں پہلے تو علما ئے کرام سے یہ رہنما ئی چا ہونگا کہ اگر قرآن اٹھانے اور اس کی قسم کھانے کا حکم ہے اور میری کم علمی کی وجہ سے میری نگاہ نہیں پڑی تو وہ تصیح فرمادیں۔ تاکہ میں رجوع کرلوں،ورنہ اس پر خاموش نہ رہیں، کہ یہ وبا پھوٹ پڑی ہے، ہر ایک قر آن بغیر وضو یا وضو کرکے احترام کے بغیر ،ہاتھ میں اٹھا ئے پھررہا ہے کبھی ایک تو کبھی دوسرا حتیٰ کہ ایسے لوگ بھی قرآن اٹھائے پھر رہے ہیں جو نہ اسے پڑھنے کی کوشش کر تے ہیں نہ اس پر عمل کرنے میں یقین رکھتے ہیں، مگرقر آن کو اپنے مذموم مقاصد کے لیئے اٹھا ئے پھر تے ہیں حتی ٰ کہ وہ بھی جو کہ یہ کہتے ہیں ً ضرورت کے وقت جھوٹ بولنا اور سور کھانا بھی جائز ہے ً مگر اس رخصت کا بقیہ حصہ بیان نہیں کرتے کہ ً جب جان کو خطرہ  کسی وجہ سے بھی تو ، مگر دل سے نہ کہیں اور دل سے اسے برا جانیں ً۔ لیکن جن کا بولنا جھوٹ ہو جن کی نس ، نس میں خون کے ساتھ حرام دوڑ رہا ہو، ایک ایک بوٹی اور ایک ایک ریشہ اور ہڈی حرام سے بنی ہو ، جن کی پوری شخصیت ظلم سے بنی ہو ئی ہو۔ وہ لوگ بھی اپنے غلط مقاصد اور جھوٹ کو سچ بنا نے کے لیئے ،قرآن کو کبھی سر پر اٹھا ئے اور کبھی ہاتھ میں لیئے پھر رہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس پر اس پر امت کی رگِ غیرت کیوں نہیں پھڑکتی جیسی کہ قرآن کی غیروں کے ہاتھوں ذراسی بے حرمتی پر پھڑک اٹھتی ہے؟یہاں پر امت کیوں چپ رہتی ہے، اس پرعلماءکیوں نہیں احتجاج کرتے ،جلوس کیوں نہیں نکالتے، چپ کیوں رہتے ہیں اور نوبت یہ ہے کہ ہر ایک جھوٹا آدمی اسے ہاتھ میں اٹھا ئے پھر رہا ہے اوریہ ایک دن کا دھندا نہیں ہے بلکہ ہر روز کاکاروبار ہے۔ کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم جو چاہیں کریں ،وہ جائز ہے ،اس لیئے کہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، یا  وہ ہماری پارٹی کے لیڈر ہیں ۔ ہمارے بھائی بہن بھانجے بھتیجے وغیرہ ہیں برادری اور علاقے کے لوگ ہیں۔  اگر انہوں نے قرآن پڑھا ہو تا تو پہلے تو وہ اس سے واقف ہو تے کہ قرآن قسم کھانے اور اٹھانے کے لیئے نہیں ہے بلکہ عمل کرنے کے لیئے اتارا گیا۔ تو انکی نظر اس کی سورہ بقرہ کی دوسری آیت پر ضرور پڑتی جس میں کہا گیا ہے کہ  “یہ وہ کتاب ہے جس میں شک و شبہ کی ذراسی بھی گنجا ئش نہیں “ پھر اس کو یہ فرما کر مشروط کردیا گیا یہ ہدایت ان کو دیتی ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ پھر اس کے سامنے اسی سورہ کی آخری آیات  میں آیت  ٢٨٥جاتی جس میں وہ تفصیل مل جاتی، جس میں ان دیکھے خدا  کے بعد تمام کتابوں ،انبیاءکرام، فرشتوں سب پر ایمان لا نا اور احکامات کو سننا اور عمل کر نالازمی ہے۔ پھرقر آن اس سے یہ کہتا کہ اللہ کا حکم مانو! اور جو مجھ میں احکا مات ہیں ان پر عمل کرو ۔ کیا اس میں یہ نہیں لکھا ہے کہ انصاف سب کے ساتھ کرو کسی کی دوستی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ ہٹا دے؟ پھر اور آگے بڑھتا تو سورہ النساءنظر آتی العمران نظر آتی اور مائدہ نظر آتی جس میں حلال اور حرام سمجھایا گیا اور سب طیب چیزوں کو کو کھانے کا ذکر کیا گیا تو اسے یہ معلوم ہو جاتا کہ خدا کی راہ میں حرام خرچ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور سورہ المومن تک پہونچتاتو اس کی پہلی نو آیات کی تفسیر بن کر دسویں آیت یعنی وہ اس کی رحمت کامستحق بن چکا ہو تا۔ اور جب درجہ بدرجہ قر آن ختم کر لیتا تو وہ جانتا ہو تا کہ حضور (رض) نے فرمایا کہ ً مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے۔ مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ًکیونکہ اس سے پہلے وہ یہ آیت بھی پڑھ چکا ہو تا کہ یہ نبی  (ص)اپنی طرف سے کچھ نہیں فرما تے ہیں یہ وہی فرماتے ہیں جو ان پر  اللہ کی طرف سے وحی کیا جا تا ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہوتا کہ ہماری زندگی میں احادیث کامقام کیا ہے اسوہ حسنہ کا مقام قر آن میں کیا ہے۔ پھر جب وہ اسوہ حسنہ میں ڈھونڈتا تو اسے وہاں بھی قرآن اٹھانے کی کو ئی مثال نہیں ملتی تو وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کر تا؟ ہمارے بہت ہی جانے پہچانے اور بہت سی معاشرے میں بد عنوانیوں کا انکشاف کر نے والے صحافی ایک ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ لوگ قرآن اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہیں انہوں نے ابھی قر آنی عذاب نہیں دیکھا ہے؟ میرا انہیں مشورہ ہے کہ سورہ الا نعام کی آیت نمبر(٦٥)  اور اس کی تفسیر پڑھیں اس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تین عذابوں کاذکر فرمایا ہے جس میں سے دو تو حضور (ص) کی دعا کی وجہ سے اس امت سے ہٹادیئے تھے (تفسیر ابن کثیر) ،مگر تیسرے کے بارے میں فرما یا تھا کہ یہ اس امت کامقدر ہو چکا ہے وہ تھا “آپس میں ٹکڑیوں میں بانٹ دینا “ ہم زیر ِ عتاب تو ہیں یہ اور بات ہے کہ ماننے کو تیار نہیں ہیں؟ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ وہ علماءجو ہر نئی بات کوبد عت کہتے ہیں، قرآن بیچ میں لانے کو بھی بدعت قرار دیں اور اس کے خلاف تحریک چلا ئیں تاکہ لوگ اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیئے استعمال نہ کرسکیں۔  اس کے لیئے پہلے تو تحقیق کر نے کی ضرورت ہے کہ یہ چیز اسلام میں جب  ہے ہی نہیں تو پھر آئی کہاں سے ؟ جہاں تک اس فقیر کی تحقیق ہے وہ یہ ہے کہ یہ “رواج  “ہے جوکہ انگریزوں کی غلامی کے ساتھ ہمیں تحفے میں ملا ! کیونکہ ان کے یہاں بائبل اٹھانے یا اس پرحلف لینے کا رواج تھا اور ابھی تک بھی جاری ہے۔ ان کی نقل میں ہمارے یہاں آیا اور رائج ہوکر دین کا حصہ بن گیا ؟ کیونکہ غلامی کے بعد بھی مسلمان بائبل پر حلف لینے کو تیار نہیں تھے ،شاید اسی لیئے اس وقت کے علماءنے اس رسم کو متبادل بنا نے پر خاموشی اختیار کی اورنتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ زندگی کے ہر شعبہ میں داخل ہو گیا۔ جبکہ ہندوؤں کے یہاں بھی گیتا اٹھانے کا رواج اسی سے آیا ہے، ورنہ وہ بھی پہلے لٹیا میں گنگا جل لاکر اٹھایا کرتے تھے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.