اس مرتبہ ہم نے اپنے قابل ِ احترام دوست جناب صفدر ھمدانی کی طویل اور تازہ نظم سے یہ ایک شعر بطور عنوان چنا ہے جو دراصل ہماری تمام برا ئیوں کی جڑ ہے؟ کیسے آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہم سب کا ایمان ہے کہ کلمہ پڑھ لیا تو مسلمان ہوگئے اور جنت کے حقدار بھی ۔ یہاں ہم صرف اس حدیث کو مدِ نظر رکھتے ہیں کہ تمام کلمہ گو جنت میں جا ئیں گے۔ لیکن کلمہ شہادت میں اس قادرِالکلام نے کوزے میں جو سمند بند کردیا ہے اس کی روشنی میں کلمہ شہادت کا تقاضہ نہیں، بلکہ تقاضے جات کیا ہیں وہ نہیں پڑھے جو قر آن میں لکھے ہیں۔ بظاہر تو یہ دو بول ہیں۔ جن کا مفہوم یہ ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد (ص)اس کے رسول ہیں؟ اس میں پہلے تو لا الہ کہہ کر پڑھنے والے نے تمام دوسرے خدا ؤں کی نفی کردی، پھر تسلیم کیا کہ صرف الہ ایک ہے جو اللہ ہے، جس کی عبدیت میں میں خود کو دینا قبول کرتا ہوں ۔اور محمد (ص)اس کے رسول ہیں ۔ یہ دو باتیں کہنے سے کلمہ پڑھنے واے نے ایک ان دیکھے خدا کو تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی جنہوں (ص) نے اس کو ایک ان دیکھے خدا کے وجود اور اس کی صفات پر مطلع کیا ان کو بھی اس کا رسول (ص) تسلیم کر لیا لہذا ان کی اطاعت بھی لازمی ہو گئی۔ رسول (ص) کون ہیں وہ جو صادق اور امین ہیں جنہو نے بچپن سے لیکر آخری وقت تک کبھی جھوٹ نہیں بولا ،وہ کافر جو کہ دعویٰ نبوت اب جانی دشمن ہیں ان کا اعتماد ابھی بھی متزلزل نہیں ہوا ابھی بھی ان کی امانتیں ان کے پاس ہیں جس کو واپس دینے کے لیئے ہجرت کے وقت اپنے (ص) پیچھے اپنے سب سے معتبر فرد کو خطرے میں ڈالتے ہیں تاکہ خیانت کا الزام لگانے کا کفار کو موقعہ نہ ملے ؟ اور جس کی تصدیق خود خدا بھی کرتا ہے کہ یہ امین و صادق ہیں اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ حکم درجہ رکھتا ہے کیونکہ “ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے یہ وہی فرماتے ہیں جو میری طرف سے وحی کیا جاتا ہے “ اب وہی رسول (ص) آپ کو بتا رہے ہیں کہ اس نے ایک کتاب اتاری ہے تمہاری رہنمائی کے لیئے اس میں وہ تمام چیزیں با لتفصیل لکھی ہوئی ہیں جس پر عمل کرنے سےتمہاری زندگی یہاں اور وہاں جنت یا جہنم بن سکتی ہے۔اس کے بعد اب وہی کتاب پہلی سورہ میں اللہ کی حمد و ثنا اور اس سے مانگنے کا طریقہ بتا کر دوسری سورہ (٢) کی آیت نبر دو میں کہہ رہی کہ میں وہ کتاب ہوں جس میں شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ۔ یہ کلمہ پڑھنے کے بعد پھر آخری انتباہ ہے کہ کہ اگر شک و شبہ ہے تو دین میں جبر نہیں ہے یہیں سے لوٹ جا ؤ ورنہ آگے بڑھو؟ اور جب یہ طویل سورت ختم ہو نے لگتی ہے جس میں احکامات بھی ہیں تعلیمات بھی ہیں اور ان سب کے ذکر و اذکار بھی ہیں، یہاں پر آکر وہی کتاب بطور حکم بتاتی ہے کہ کس کس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ وہ یہ ہیں ً جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے وہ سب کا مالک ہے۔ پھر اس کے بعد رسول (ص) پراور جو کچھ بھی ان پر رب کی طرف نازل ہوا اس پر ایمان لانا ہے۔ پھراللہ کے ساتھ ساتھ اس کے فرشتوں پر ایمان لا ؤ پھر تمام نبیوں (ع)پرایمان لا ؤجن میں حضرت آدم سے لیکر محمد مصطفٰی تک سب شامل ہیں اور صحیفے بھی جو ان پر نازل ہو ئے، اس یقین کے ساتھ کے جو کچھ وہ لا ئے تھے وہ اسی کتابِ مبین کاحصے تھے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے روزازل سے پوری کی پوری لوح محفوظ پرلکھوا رکھی ہے۔ پھر اس کے بعد یہ روش اپنا و جو اہل ِ ایمان کہلا نے کے لیئے ضروری ہے “وہ ہے میں نے سنا اور اس پر عمل کیا “تاکہ اللہ تعالیٰ اس دن مجھے معاف فرمادے جب میں روز قیامت اس کی طرف لو ٹایا جا ؤں؟ جب ان پر بھی ایمان لے آیا تو اب وہ مومن پابند ہوگیا کہ جو اس کو حکم دیا جا چکا ہے یا دیا جا ئے اس پر عمل کرے؟ اب آپ کتاب کی طرف آجا ئیے ؟ اس میں ہر حکم کے بعد ہر صاحب ِ ایمان مکلف ہے کہ مندرجہ بالا عہد کے تحت کہ جو قرآن میں لکھا ہے یا اس کونبی (ص) نے حکم دیا ہے وہ اس پر عمل کرے؟ چونکہ اس کی صفت ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہمارا ہر فعل اس کے ذاتی علم میں ہے۔ یہ جانتے ہوئے جو کو ئی گناہ کرے اس سے زیادہ ڈھیٹ کون ہو سکتا ہے؟آپ پہلے اقرار کر چکے ہیں کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے ؟ کیا دنیا وی مالکوں کے سامنے کوئی چوری کر تا ہے؟ ہر ایک کاجواب ہو گا کہ نہیں ؟ کیونکہ مالک کے سامنے ڈکیتی تو ہوسکتی ہے، مگر چوری نہیں؟ لیکن ڈکیتی کے لیئے ڈکیت کومالک سے زیادہ طاقتور ہو نا ضروری ہے تب ہی وہ ڈکیتی کر سکتا ہے؟ لیکن یہ مالک سب پر غالب ہے عزیز ہے حکیم ہے۔ اگر ویسا اسے تسلیم نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ آپ نے کلمہ پڑھتے ہوئے اقرار کیا ہے تو فوراً اسلام سے خارج ہو گئے اگر آپ نے کوئی بھی گناہ کیا ؟ اس پر علماءکا اتفاق ہے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو حالت کفر میں ہوتا ہے۔ اب اس کی ایک ہی صورت ہے کہ توبہ کریں اس کے لیئے ضروری ہے کہ اس شرط پر عمل کیا جائے کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو؟ یہاں میں نے صرف ایک مثال دیکر ثابت کیا ہے کہ آپ اب ا س صف میں نہیں رہے جس کے لیئے کلمہ پڑھا تھا، کیونکہ آپ نے عہد کرتے ہی اس کی خلاف ورزی کی؟ میں اگر تفصیل جاؤں اور اس کی ایک ایک صفات کو زیر بحث لا ؤں تو بات بہت طویل ہو جا ئے گی جوکبھی ختم نہ ہوگی اور نہ ہی یہاں سما سکے گی۔ چونکہ ہم کہتے خود کو مسلمان ہیں اوراللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ص) نے اس کی تعریف یہ لکھی ہے کہ ً مومن جوکہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے لہذ ا اس کامقام جنت الفردوس ہے ؟ جبکہ اس کے برعکس جو صفت ہے وہ منافق کی ہے جوکہ کافروں سے بد تر ہونے کی وجہ سے جہنم کے بھی درجہ اسفل کا مستحق ہے ؟اس کی صفت یہ بیان ہو ئی ہے کہ جو کہتا ہے وہ کر تا نہیں ہے؟ جبکہ عمل کے سلسلہ میں حضور (ص) تو یہاں تک فرما گئے ہیں کہ مومن اور کافر میں فرق ہی یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے اور کافر نہیں پڑھتا ہے ۔جبکہ ہم سب کو حضور (ص) سے محبت کا دعویٰ ہے ،کیا اس کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ سنو اور عمل مت کرو جو آج کل ہماری روش ہے؟ کچھ لوگوں کو اہل ِ بیت سے محبت کادعویٰ ہے جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں اور عمل کے بغیر ایمان کچھ نہیں ؟۔ اب آپ میزان میں خود کو رکھ کرتولیئے کہ آپ کس پلڑے میں ہیں ؟ زندگی کے اور شعبے تو چھوڑ یئے۔ من حثیت القوم ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اے اللہ اگر تو ہمیں ایک زمین کا تکڑا دیدے تو ہم اس پر ایک مثالی ریاست بنا ئیں گے تاکہ اسلام کی نشاة ثانیہ ہو سکے ؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سن لی اور ملک بھی اس مہینہ میں عطا فرمایا جو اس کا سب سے مقدس مہینہ ہےرمضان المبارک اور اسی پر بس نہیں فرما ئی کیونکہ جب وہ دینے پر آتا ہے تو بہتر سے بہتر عطا فرماتا ہے؟ یہ ہم نہیں ہیں کہ اس کے نام پر حرام کی کما ئی پھٹے کپڑے اور خراب کھانادیں ؟۔ اس نے رات بھی ستا ئیسویں منتخب کی۔لیکن ہم نے کیا کیا کہ ہمیشہ کی طرح ہیر پھیر اور ٹال مٹول شروع کردی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اس امید پر وہ مہینہ اور شب پینسٹھ سال سے برابر آرہے ہیں کہ شاید یہ قوم شر ما کر بدل جا ئے مگر ہم ہمیشہ اس کا استقبال مزید برا ئیوں سے کر تے ہیں؟ بجا ئے روزہ داروں کو سہولت دینے کہ ہر چیز کے بھاؤ بڑھ جاتے ہیں ، ملاوٹ بڑھ جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہر طرح کی حرام کی کمائی سے افطاری مساجد میں بھیجی جاتی ہے۔ جبکہ وہ ایسا عمل منہ پر مار دیتا ہے کہ “ رب فرما تا ہے میں پاک ہوں اور صرف پاک چیزیں قبول کرتا ہوں“البتہ ایک فرق ضرور پڑتا ہے کہ مسجدیں بھر جاتی ہیں لیکن جیسے ہی رمضان گزرے ویسے ہی وہ بھی پھر خالی ہو جاتی ہیں۔ یہ ہی عمل جاری ہے نتیجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کی نشاة ثانیہ تو نہیں کر سکے مگر اسلام کے نام پر دھبہ ضرور ہیں؟ جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہو نا چا ہیئے۔ ہمیں تین حکم دیئے گئے تھے۔ پہلا تھا عدل ،دوسرا احسان اور تیسرا صبر ۔ آئیے اب ان کے تقاضوں پر بات کر تے ہیں؟ پہلے عدل کو لیتے ہیں۔ جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو اپنے لیئے چاہو وہی دوسروں کے لیے بھی چاہو؟ ہمارا رویہ یہ ہے کہ اپنے لیئے تو سب کچھ چاہو !مگر دوسرے کے کپڑے بھی اتار لو؟ ہم نے اپنے دستور کے سرورق پر لکھ رکھا ہے کہ حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہو گی اور تمام قوانیں قر آن اور سنت کے مطابق ہونگے ؟ اور جو نہیں ہیں انہیں دس سال کے اندر تبدیل کر کے مشرف با اسلام کر دیا جائے گامگر ہوا کیا؟ ابھی تک کچھ بھی نہیں۔ نہ کسی مومن نے آج تک پٹیشن کسی عدالت میں دائر کی کہ انہیں قر آن اور سنت کے مطابق بنا ئے جانے کا حکم دیا جا ئے، نہ ہی ججوں نےخود آج تک نوٹس لیا ۔ وجہ کیا ہے ہم عدل کو اپنا کر اللہ کے قانون پر فیصلے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیئے کہ وہ کسی کی رعایت نہیں کر تا ہے لہذا چوری ، رشوت خوری اور بد عنوانیوں کے راستہ بند ہو جانے کا خطرہ ہے پھر کام کیسے چلے گا الیکشن کے لیئے اربوں کھربوں روپیہ کہاں سے آئے گا؟ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ً جو لوگ ہمارے قانون پر فیصلہ پسند نہیں کر تے وہ پکے کافر ہیں ً دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کے لیئے یہ حکم دیا کہ جان کا بدلہ جان ہے، آنکھ کا بدلہ آنکھ ہے ناک کا بدلہ ناک ہے کان کا بدلہ کان ہے دانت کا بدلہ دانت ہے اور ہر زخم کا بدلہ ویسا ہی زخم ہے، اگر کوئی معاف کردے تو بہتر، وہی بدلہ ہے اور جو اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں ً (٥ کی آیات نمبر ٤٤ اور ٥٤) واضح رہے یہاں ظالم شرک کے معنوں میں آیا ہے کیونکہ یہاں اس نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس حق سے انکار کیا جس کی بخشش نہیں ہے جبکہ آیت ۴۷ مں فاسق بھی آیا ہے ؟ ۔ وہی فاسق جن کو ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ کافروں سے بھی نچلے درجہ میں جہنم ہونگے؟ مگر ہم یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ً یہ ہمارے لیئے تھوڑی ہے بنی اسرا ئیل کے لیئے ہے کیونکہ ہم تو اللہ کے محبوب (ص) کی امت ہیں ۔ جبکہ یہ ہی دعویٰ بنی اسرا ئیل کو بھی ہے کہ وہ نبیوں(ع) کی اولاد ہیں ۔ اب دوسری چیز لیتے ہیں جسے احسان کہا جا تا ہے۔ عربی میں احسان کے معنی یہ ہیں کہ اپنی بہترین صلاحیتیں خرچ کرتے ہو ئے اپنی ذمہ داریاں جو جہاں ہے جس پوزیشن میں بھی ہے انجام دے؟ مگر ہمارے ہاں رمضا ن المبارک میں اول تو کوئی کام کر تا ہی نہیں ہے اگر کر تا ہے تو رشوت کے ریٹ بڑھ جا تے ہیں کہ ہرایک کے لیئے عید بھی تو منانی ہو تی ہے؟ تیسرا رہ گیا صبر یعنی میرے نزدک ٹالرینس ( برداشت) وہ رمضان میں دم ٹوڑ دیتی ہے ہر ایک دوسرے سے لڑ رہا ہو تاہے اور کہہ رہا ہوتا کہ مجھے روزہ لگ رہا ہے ؟ اس روزے اس نماز پر ثواب تو خود سوچ لیجئے کہ کیاملے گا؟کیونکہ اس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فر ما یا ہے کہ ً روزہ میرے لیئے ہےاور میں ہی اس کا اجر دونگا ً اس میں نکتہ جو پوشیدہ ہے اسے ہم سمجھنا ہی نہیں چا ہتے ہیں؟ کیونکہ اس کے معنی میرے نزدیک یہ ہیں کہ وہ صرف فرشتوں کے لکھے کی بنا پر اس کا اجر نہیں دے گا بلکہ وہ اپنے ذاتی علم کی بنا پر جس معیار کا روزہ ہوگا خلوص کے اعتبار سے اتنا ہی میزان میں اس کا وہ وزن عطا فرما ئے گا ۔ بغیر خلوص کے اس کے یہاں فرشتوں کے لکھے پندوں کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ بھی جیسے کہ آپ ہوائی سفر سے پہلے اپنا سامان کانٹے پر رکھ کر دیکھتے اور کرتے ہیں۔ یہاں بھی خود احتسابی کے کانٹے پر رکھ دیکھ لیں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے اعمال کا پلڑا بروز قیامت بے وزنی کی کیفیت کا شکار ہو جا ئے؟ اب آخری سہارا رہ جاتا ہے کہ وہ بہت ہی رحیم ہے !بے شک ہے۔ مگر یہاں وہ دو باتیں فرماتا ہے ایک تو یہ کہ میں سزا دیکر کے خوش نہیں ہوں مگر تم میری بات مان لیا کرو ؟ دو سری یہ کہ ً تم لوگو ں پر رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے“ کیا ہم نے اس کی بات مانی، کیا ہم نے اوروں پر رحم کر کے خود کو قابل ِ رحم بنا یا ہو ا ہے؟ یا خود کو نا فرمانی اور بے رحمی اختیار کر کے سز ا کا مستحق ہر طرح ثابت کیا ہوا ہے؟ یہ بھی آپ خود وزن کر لیں دوسرے یہ کہ کو ئی ممتحن اگر کسی طالب علم نے کچھ نہ لکھا ہو پرچہ امتحان پر تواس پر رعا یتی نمبر دیتا ہے؟ جواب ہے نہین ! جبکہ پرچہ ہی سادہ ہو تو پھر ایک بڑا سا دائرہ کھینچ دیتا ہے جسے عرف ِ میں زیرو کہتے ہیں۔ جبکہ وہاں سارا کاروبار ہی اس طے شدہ اساس پر ہے کہ ً اے اللہ ہم نے سنا اور عمل کیا ً اور اپنے اس عہد پر قائم رہیں گے تاکہ اس دن ہم رحمتوں نعمتوں کے مستحق قرار پا ئیں۔ نہ کے سزا کے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے