رمضان ماہ ِ صیام ہی نہیں ماہ ِ توبہ اور احتساب بھی ہے۔ ۔۔شمس جیلا نی

قارئین ِ گرامی آپ سب کو میری طرف سے رمضان ِ  کریم  مبارک ۔آئیے سب سے پہلے تو ہم اللہ تعا لیٰ کا شکر اد کریں کہ جس نے ہمیں  اچھی صحت میں رکھتے ہوئے رمضان المبا رک سے نوازا۔ یہ معمو لی بات نہیں ہے اگر ہم سمجھیں ،نہ سمجھنے والو ں کے لیے یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ کیو نکہ قرآن میں اللہ تعا لیٰ بار بار ار شاد فر ما رہے ہیں کہ قر آن صرف صاحبِ عقل لو گو ں کے لیے ہے (یعنی یہ فاتر العقل اور کم عقلو ں کے لیئے نہیں ) اور دو سری جگہ ار شاد فر ما رہے ہیں کہ ہے کو ئی کہ غور کرے ، پھر یہ بھی فر ما یا جارہاہے کہ آہستہ ،آہستہ پڑ ھا کرو۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس مہنیے کے  ہم سےتقاضے کیا ہیں اور ہمارے فرائض کیا ہیں۔ کیو نکہ اس نے اس مہینہ کویوں عظیم قرار دیاہے کہ اس میں قر آن ِ کریم عطا فر ما یا۔اور قر آن کریم کیا ہے اس کا جواب بھی خو د ہی عنا یت فر ما دیا کہ  “اس میں انسا نو ں کے لیئے شفا ءہے“
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ شفا ءحاصل کر نے کے لیے کیا یہ کا فی ہے کہ نہ تو ہم پر ہیز کریں نہ کھا نے پینے کی عا دتیں بدلیں اور نہ کڑوی لگنے کی وجہ سے دوا پئیں، تو کیا صرف دوا کی شیشی دیکھنے اور اجزائے تر کیبی پڑ ھنے سے ہمیں شفا ءحاصل ہو جا ئیگی ؟جو صا حبِ عقل ہیں میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ شفاءحاصل کر نے کے لیے پہلے وہ غذاچھو ڑ نی ہو گی جس سے تکلیف لاحق ہو تی ہے۔ آپ نے اکثر یہا ں دیکھا ہوگا کہ جب آپ ڈاکٹرو ں کے پاس جا ئیں تو پہلا سوال یہ ہو تا ہے کہ آپ کسی چیز سے الرجک تو نہیں ہیں۔ یہا ں دو باتیں سامنے آئیں کہ پہلے  تووہ غذا چھو ڑنی ہو گی جو مرض کا با عث ہے۔اگر بھرے پیٹ کو اور بھر تے چلے جا ئیں اور دوا کی شیشی صرف سامنے رکھے رہیں تو کیا مرض دور ہو جائیگا ۔آپ کا جوا ب ہو گا “نہیں “ تو ثابت یہ ہوا کہ شفاءحاصل کر نے کے لیے پہلے غذا اور بری عادتیں چھو ڑ نی پڑیں گی جس سے بیما ری میں اضا فہ ہو تا ہے ۔اب یہا ں جودوا ہے وہ قرآن ہے جس میں اللہ نے شفا ءرکھی ہے ،جو ایمان والو ں کے لیے تو ہے ہی ،لیکن تمام انسا نو ں کے لیے بھی ۔کہ یہا ں لفظ  “مو من “نہیں استمال ہوا ہے۔ بلکہ اس کے فوائد عا م ہیں ، لہذاجو اس پر عمل کریگا اس کو فا ئدہ ضرو رہو گا۔ کیو ں؟  اس لیئے کہ وہ رب ِ کا ئنات ہے اسی لیے قرآن کو شفا ءفی  “الناس “ فر مایا۔
اور فرد کی مرضی پر چھو ڑ دیا  کہ جو فا ئدہ اٹھا نا چاہے اٹھائے  نہ اٹھانا چاہے نہ اٹھائے۔ ہم جب تک فائدہ اٹھاتے رہے مستفید ہو تے رہے۔ جب سے غو ر کر نا چھو ڑ ااور قرآن کو جذدان میں بند کر دیا، ہم پیچھے رہ گئے۔ جنہو ں نے ہما ری ہی اَدھو ری تحقیق کو ہما ر ی لا ئبریریو ں سے لیکر آگے بڑھا یا وہ آگے چلے گئے ۔ مثلا بارود کو لے لیں ،ایجاد ہم نے کی، مگر اب اس کا انتہا ئی تر قی یا فتہ استمال کو ن کر رہا ہے ؟ قر آن نے یہ بتا یا کہ لو ہے میں طا قت ہے ہم نے اس پر توجہ نہیں دی ۔ دو سری قو میں یہ قرآنی نکتہ لے اڑیں اب صو رت حا ل یہ ہے کہ انہیں ہم پر دنیاوی بر تری حا صل ہے ؟وجہ کیا تھی کہ ہم نے نظر انداز کیا انہوں نے اس سے استفادہ کیا ۔ آئیے ایک اور مثال لیتے ہیں اللہ تعا لی نے فرما یا کہ کے بجلی کے چمکنے میں انسا نو ں کے لیے فا ئدے ہیں ،ہم نے کبھی غور فر ما نے کی زحمت ہی نہیں کی کہ بجلی گر نے سے تو بظا ہر آدمی مر جاتے ہیں گھر اور درخت جل جاتے ہیں آخر یہ رحمت کیسے ہو ئی؟ ۔جن لو گو ں نے اس پر غو ر کیا ریسرچ کی اس سے فا ئدہ اٹھاگئے ۔انہیں معلو م ہو گیا کہ دو با دلو ں کے ٹکرانے سے جوفرکشن ہو تاہے اس سے اسٹیٹک الیکٹرک سٹی پیدا ہو تی ہے جو ہوا کو پھاڑ کر نائٹرو جن علیحدہ کردیتی ہے اوریہ ہرقسم کے سبزے کی افزائش کے لیے ضروری ہے ۔ لہذا  انہوں نےنائٹرو جن بنالی، ہماری فصلیں سالو ں تک چند من فی ایکڑ  پر رکی رہیں،اب ہماری حالت جب کچھ بہتر ہو ئی جب ہم نے ان سے یہ علم حاصل کیا۔ نقصان کیا ہوا ؟
وہ آجکل زیا دہ غلہ اگا کر بہ زعم خود دنیا کے را زق بنے بیٹھے ہیں۔ اور قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے سمندر میں زائد غلہ پھینک دیتے ہیں یا پھر بھو کے ملکوں پر احسان کر کے انکی آزادی اپنے پاس گروی رکھ لیتے ہیں ۔ انہوں نے زیادہ پیدائش بھی روک رکھی ہے، اپنے لو گو ں کو زمیں کا شت نہ کرنے پر زر ِتلا فی دیتے ہیں کہ قیمتیں مستحکم رہیں۔جبکہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں اگر وہ مو من ہو تے تو یہ نہ کرتے کہ لو گ بھوکے مریں (ویسے ابتو ہم جیسے نام ونہاد مومن بھی یہ ہی کر رہے ہیں)۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ہماری غفلت کے با عث ہے۔ اس کے وہ تو ذمہ دار ہیں ہی، مگر ہم بھی مبرا نہیں ہیں اس لیے کہ ہم نے اپنی ڈیو ٹی سے غفلت بر تی اور جو علم ہمیں دیا گیا تھادو سرو ں کے قبضے میں چلا گیا کیا ہماری بندو ق ڈاکو کے پاس چلی جائے تو ہماری کو ئی ذمہ داری نہیں ہے ؟ہے اور یقیناً ہے۔ ہمیں قرآن نے حکم دیا کہ جہاد کے لیے گھو ڑے پا لو یہا ں قتال نہیں فرما یا اشا رہ تھا، عام زندگی کی طرف کیو نکہ اسلام میں ہر جائز کام جہاد ہے۔ اشا رہ تھا طاقت کی طرف تیز رفتا ری کی طرف۔ آج بھی طاقت کی اکائی ہارس پاور ہے۔ ورنہ عرب میں تو اونٹ استمال ہو تا تھا گھوڑا کیوں ؟۔ جنہو ں نے غور کیا ،وہ صنعتی انقلاب لے آئے ۔ اگرمیں مزید مثالیں دینا شرو ع کرو ں تو اتنی مثالیں ہیں کہ یہ صفحات ان کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن میں سمجھتا ہو ں کہ ہما ری آنکھیں کھولنے اور سمجھنے کے لیئے یہ تین مثالیں کا فی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ کیو ں ہوا یہ اس لیے کہ کیمیا بنانے کی کتا ب توہمیں عطا ہو ئی تھی۔ لیکن ہم نے اسے طا ق میں ر کھ دیا اور نسخہ کیمیا اغیار کے ہا تھ لگ گیا؟ جبکہ اللہ کا اصول یہ ہے کہ جو کھیتی بو ئے گا وہی کا ٹے گا۔
اب آئیے حل کی طرف ۔ حل یہ ہے آپ پہلے اس نسخہِ کیمیا کو طا ق میں سے اتاریئے اور اس کا غلا ف جھاڑ کر علیحدہ کیجئے اور غو ر سے پڑھیئے چو نکہ اس کا ایک ایک لفظ غور طلب ہے۔ یہ صرف علماءکی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر مسلما ن کلی طور پر ذمہ دارہے کہ اسے لفظ بہ لفظ پڑھے اورسمجھے اور شفا ءکا امرت اپنے حلق میں انڈیلے ۔ جہا ں خود نہ سمجھ سکے وہاں ان علما ءسے مدد لے جو کہ خو فِ خدا رکھتے ہیں۔ ان سے نہیں جو برہمنیت سے متاثر ہیں، قرآن پڑھنے کو بھی منع فر ماتے ہیں ۔ا ن سے بھی رائے نہ لیں جنکی برین واشنگ ہو چکی ہے، کیو نکہ و ہ بیچا رے بھی ذہنی طور پر معذور ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے بچیں جو یہ کہتے ہیں کہ قر آن کو سمجھنا صرف علما ئے کرا م کا کام ہے۔ عام آدمی نہ پڑھے اس لیئے کہ گنا ہ گار ہو تاہے کہ سمجھنے اور پڑھنے میں اکثر غلطی ہو جاتی ہے ۔( وہ ا س کی رحمت اور عفو اور در گزر کو بھول جاتے ہیں) لہذا اسے طاق میں ادب سے رکھ دیں ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ آپ سے براہ راست مخا طب ہیں اور فر ما رہے ہیں کہ تما م مو منیں پر فرض ہے کہ وہ علم حا صل کریں۔ اور نبی (ص)  بھی فر ما رہے ہیں علم حا صل کرو چا ہیں چین تک جا نا پڑے۔ اپنے آخری خطبہ میں یہ حکم بھی دیا کہ جو یہا ں ہیں وہ سن لیں اور جو مو جو د نہیں انکو پہنچا دیں۔ صرف معا ملہ یہیں پر ختم نہیں بلکہ سنے والوں کی ڈیو ٹی یہ بھی لگا ئی کہ وہ آنے والوں کو پہنچا دیں۔ یہا ں ایک لاکھ سے بڑے مجمع سے مخا طب ہیں جس میں علم رکھنے والے بھی ہیں اور عام لو گ بھی اور پہچا نا کیا ہے ، ام الکتا ب قر آن اور حضو ر  (ص)کی سنت ِمبارکہ اس سے استفا دہ بھی ہم پر فرض ہے۔ ہم پہ عمل کے سا تھ یہ بھی فرض ہے کہ پہنچا ئیں بھی ، یہ کہہ کرچھوٹ نہیں سکتے کہ علماءنے پڑ ھ لیا تھا ہم نے کا فی سمجھا ۔وہا ں ہر ایک کو خو دہی جواب دینا پڑے گا۔ وہیں نہیں یہا ں بھی نہ جا ننا ( نا واقفیت کو ) جرم کے لیے عذر نہیں تسلیم کیا جا تا تو اس نے توایک ایک چیز کھو ل کر بیا ن کی ہے۔ میرا خیال ہے اب آپ نے قرآن کی اہمیت تسلیم کر لی ہو گی۔ ہم چو نکہ اس پر ایمان رکھتے ہیں لہذاہم فا ئدہ اٹھا نے کے زیا دہ مستحق ہیں۔مگر پہلے تو پر ہیز کے طو ر پر گنا ہو ں سے تو بہ کیجئے پھر اسے کھو لکر پڑ ھیئے ۔ دوا کی طرح نہیں بلکہ فرحت بخش مشروب کی طرح حلق میں پو ری کی پو ری شیشی آہستہ آہستہ انڈیل لیجئے۔ جب آپ پڑھینگے اور دل سے پڑھینگے ، سمجھ کر پڑھینگے تو آپ پر پہلا بھید یہ کھلے گا کہ اللہ تعا لیٰ بصیر اور خبیر ہے ۔ جب اس پر ایما ن پختہ ہوجا ئیگا تو آپ ہر وقت ڈرینگے کہ وہ دیکھ اور سن رہا ۔ جس طرح ما لک کے سا منے چو ری نہیں کرتے اسی طرح اسے کا ئینات کا ما لک جا ن کرآپ پھر ہر برا ئی سے تا ئب ہو جا ئیں گے اگر آپ نے یہ منزل پا لی تو سمجھ لیں کہ آپ نے تقویٰ حا صل کر لیا اگر تقو یٰ حا صل کرلیا تو نجا ت پا گئے اور یہی اس کتاب کا بقو ل  علامہ اقبال(رح) “ ضمیر پر نزول بھی ہے  “یہ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا پڑھنا بھی ثواب ہے اور اس کا سننا بھی ثواب  ہےلہذ ا سنئے ؟مگر مسجدجا نے سے پہلے جو عالم مجتہدیا حا فظ صاحب جو سنا نے والے ہیں وہ  اگر معلوم ہو اورمعنو ں کے ساتھ پڑھ کر جا ئیں تو بہترہے۔ اب آپ نے دو عمل با خیر و خو بی کر لیے ۔
لہذا آخری بات رہ گئی ہے وہ ہے اس پرعمل جو کہ با عث نجا ت ہے، نجات کس سے جہنم سے۔ اگر رمضا ن کا پو را استفادہ حا صل کر نا ہے ،تو پھر یہ سب کچھ کرنے کے بعد رو زانہ اپنا احتسا ب خو د کیجئے اور دیکھئے کس کس پر آپ عمل کر رہے ہیں، برے کام چھو ڑ تے جائے اچھے  کام اختیار کیجئے انشا اللہ آپ نجات پا جا ئنگے  جسےقرآنی الفا ظ میں فلا ح پا نا فرمایا گیا ہے اوراسی لیے آخری عشرے کو عشرہِ نجات کہا گیاہے۔ اگراللہ سبحانہ تو فیق دے تو کا میابی انشا اللہ آپ کے قدم چو مے گی۔ آخرمیں ایک بات اور عرض کردوں کہ آپ اس سے تو واقف ہیں  اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ میرے لیئے ہے اور میں اس کا اجر دونگا۔ مگر یہ راز عام نہیں ہے کہ اس میں نکتہِ پوشیدہ کیا ہے؟ اس پر اگر ذرا غور کریں تو بات سمجھ میں آجا ئے گی؟ اور عبادات تو ایسی ہیں جو سب کو نظر آتی ہیں، اور لوگ اس پر شاہد بھی ہوتے ہیں ۔ مگر یہ ایک عبادت ایسی ہے کہ کوئی اس کی شہادت پوری طرح نہیں دے سکتا کہ آپ روزے سے ہیں یانہیں؟ یہ صرف معاملہ اللہ اور بندے کے در میان ہے ؟ اسی لیئے اس نے فرمایا کہ اس کا اجر میرے پاس ہے ۔ چونکہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے زیادہ اجر ملے؟ جو یقینی طور آپ بھی چاہتے ہونگےکہ آپ کے روز ےمیذانِ حشر میں گنا ہوں پر بھاری پڑیں؟ مگر یاد رکھیئے کہ اس میں جتنا خلوص کا قند گھولیں گے اعمال اتنے ہی بھاری ہونگے۔ کیونکہ وہاں اعمال گنے نہیں جا ئیں گے بلکہ تولے جا ئیں گے اور وزن خلوص کے حساب سے ہی ہوگا اور اسی سے اجر ملے گا۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.