کاش توہین ِ عدالت کی سزالمبی ہو تی۔۔۔ شمس جیلانی

کاش توہین ِ عدالت کی سزالمبی ہو تی۔۔۔ شمس جیلانی
ایک قصہ مشہور ہے کہ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا ۔ اس نے مدعا علیہ کے خلاف کچھ کہا تو اس نے جوتا عدالت کی طرف اچھالدیا جو کہ جنرل مشرف طرح لگا نہیں! بہر حال وہ توہین عدالت کا تو مرتکب تو ہو ئی گیا۔ اس پر مجسٹریٹ نے اس کو سو روپیہ جر مانہ کر دیا سستا زمانہ تھا اس وقت یہ بڑی رقم تھی، مدعا علیہ مالدار بھی تھا اور بیوقوف بھی کہ اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ اس کو سزا ہوگئی ،اس کا کردار داغدار ہو گیا اور آئندہ دنیا اسے مجرم کہے گی بلکہ اس کی اولاد کو بھی طعنہ دے گی کہ تمہارا باپ سزا یافتہ ہے؟ اس نے اپنی عزت کو بھی روپیوں میں تولا اور کہا کہ بس اسکی سزا اتنی سی ہے اور دوسرا جوتا بھی عدالت کی طرف اچھالدیا ،یہ کہہ کر کہ سو روپیہ اور سہی؟
اس کہانی سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سزا صرف صاحب ِ عزت لوگوں کے لیئے ہے جو جیل آتے جاتے رہتے ہوں، جنہیں اپنی عزت کا پاس نہ ہو، ان کے لیئے سزا کچھ بھی نہیں؟ کیونکہ وہ ساتھیوں کو جن کی اکثریت انہیں جیسی ہوتی ہے یہ کہہ کر کہ میں نے پارٹی کو بچانے کے لیئے یا دستور کو بچانے کے لیئے یا پارٹی لیڈر کو بچا نے کے لیئے یہ کیا تھا جس کی سزا یہ پائی ؟ دیکھا ایک ٹکٹ میں تین مزے یعنی دستور پر احسان کیا، پارٹی پر احسان کیا اور پارٹی کے لیڈر پر بھی احسان کیا ۔ اور شہید مفت میں ہوگئے کہ جمہوریت پر احسان کیا ؟ لہذا عوام ووٹ اس لیئے دیں کہ شہید ِجمہوریت بن کر جمہوریت کو بچا یا، پارٹی کے اراکین بھی خوش رہیں کہ اس نے پارٹی کے لیئے قر بانی دی اور پارٹی کے سر براہ بھی خوش رہیں کہ ان کو بچانے کے لیئے قر بانی دی، اور شیطان بھی معاون ہو کہ انہوں نے ایک اچھا کام کیا ؟
کیونکہ قر آن کہتا ہے کہ شیطان مجرموں کے عمل کو ان کی نگاہ میں اچھا کر کے دکھا تا ہے ؟ ہم چونکہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور مسلمان کے معنی کیا ہیں؟ اپنی ذات کو جنت کے عیوض فروخت کر کے اپنی مرضی سے دستربر دار ہوکر االلہ کے سامنے پوری طرح سر نگوں ہو جانا ۔ یہ میں نے جو تعریف مسلمان کی ہے وہ آپ قر آن میں جاکر خود دیکھ لیں اور اگر آپ قر آن پر دسترس نہیں رکھتے ہیں تو کسی مولوی کے پاس جا ئیے، وہ اگر ایماندار ہے تو اس تعریف کو جھٹلانے کی جراءت نہیں کر سکتا؟ اب آئیے ایک ، ایک چیزکو لیتے ہیں، سب سے پہلے جمہوریت بچانے کی بات ؟ اسلام نے قر آن اور اسوہ حسنہ (ص) کی شکل میں ہمیں مکمل دستور دیا ہوا ہے، ہم کلمہ پڑھ کر اللہ کی بالا دستی اپنی ذات پر تسلیم کر چکے ہیں۔ لہذا اسلامی ملکو ں میں تو کوئی چھوٹ نہیں ہے سوائے اس کے، کہ ہم اسلامی نظام اپنا ئیں اور خصو صا ً اس ملک میں جو کہ اسلام کے نام پر بنا ہو، جس کے دستور کے سر ورق پر لکھا ہوا ہو کہ یہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ  کی حکمرانی ہوگی اور حکو مت قر آن اور سنت کے مطابق ہو گی؟ جبکہ دستور بنانے والوں یہ بھی لکھا ہے کہ جو دفعات قر آن اور سنت کے مطابق نہیں ہیں ،ان کو دس سال کے اندر قر آن اور سنت مطابق ڈھالا جا ئے گا۔  ١٩٧٣میں یہ آئین بنا تھا کیا دس سال ابھی تک پورے نہیں ہوئے ؟جنہوں نے ان قوانیں کو جاری رکھا ہوا ہے،جو اسلام کے خلاف ہیں وہ سو چیں تو سہی کہ اللہ سبحانہ جب ان سے پوچھے گا کہ تم نے اسلامی قوانیں کو نافذ کرنے کے لیئے حکمرانوں کو مجبور کیوں نہیں کیا، اگر تم نے کہا تھا اور انہوں نے تمہاری بات نہیں مانی تو تم نے انہیں ووٹ کیوں دیئے منتخب کیوں کیا ؟
اب دوسرا سوال آتا ہے اگر دستور میں کسی نے اپنے بچا ؤ کے لیئے ایسی دفعہ سہوا ً یا قصداً شامل کردی تھی جو قر آن اور سنت کے خلاف ہے، اس کے بچاؤ کر نے والے، وہاں عذاب کے مستحق ہو نگے یا ثواب کے؟ اب رہا کسی کو بچا نے کا سوال ؟ اسلام مجرم کو بچانے پر پیٹ نہیں ٹھوکتا بلکہ مذمت کر تا ہے ، قر آن کہتا ہے کہ“ شہادت مت چھپاؤ چاہیں تمہارے اپنوں کے یا اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو، حد جاری کرتے ہوئے بھی رحم بھی مت کھا ؤ! اور صرف اچھی باتوں میں ایک دوسرے کے مدد گا بنوبری باتوں میں نہیں “ لہذا بچانا اسلام مستحسن نہیں ہے، بلکہ ظالم کے خلاف مدد کر نا ہر مسلمان پر فرض ہے؟ اس کا جواب بھی خاموشی سے سوچ لیں ؟ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی نے بھی حاکم ِ وقت پر الزام لگا یا تو اس نے عوام کے سامنے یاتو اسی وقت گواہی پیش کر کے خود کو بری الذمہ ثابت کر دیا؟ جیسے حضرت عمر کا واقعہ کہ ایک نمازی نے مسجد میں ان سے سوال کر لیا کہ آپ تو لمبے قد کے آدمی ہیں جو چادریں سب کو ملی تھیں اس میں کسی کا پیرہن نہیں بنا! آپکا کیسے بن گیا جبکہ آپ دراز قد بھی ہیں ؟ تو انہوں اپنے صاحبزادے کو حکم دیا کہ تم جواب دو ! انہوں نے وہیں سب کو یہ کہہ کر مطمعن کر دیا کہ میں نے اپنی چادر ابا حضور کو دید تھی اس لیئے یہ بن سکا؟
دوسری مثال بھی خلافت راشدہ سے دیتا ہوں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زرہ پر ایک یہودی نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی ہے؟ ملکیت کا دعویٰ کردیا ، خلیفہ وقت چونکہ جانتے ہیں کہ احتساب سے کو ئی مستثنٰی نہیں ہے عدالت میں پیش ہو تے ہیں وہ قاضی انہیں کرسی نہیں پیش کر تا کہتا ہے ملزم کے برابر جاکر کھڑے ہو جا ؤ؟ پھر کہتا ہے زرہ پر اپنی ملکیت ثابت کرو ؟ وہ حضرت حسن (رض) کو بطور گواہ پیش کر تے ہیں وہ پہچان کر کے کہتے ہیں کہ یہ انہیں کی ہے ؟ قاضی کہتا نہیں بیٹے گواہی باپ کے لیئے مجھے منظور نہیں ؟ اور فیصلہ اس یہودی کے حق میں کر دیتا ہے۔ دو بے مثال متقی ا شخاص اس کے فیصلہ کو تسلیم کر لیتے ہیں؟اور زرہ چھوڑ کر چل دیتے ہیں؟ یہودی روکتا ہے اور کہتاحضور (رض) مجھے مسلمان کر لیجئے میں صرف اسلام کا نظام ِ عدل دیکھنا چاہتا تھا؟
لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو اس دور کی باتیں ہیں جبکہ بے مثال لوگ حکمراں تھے۔ اس کے بعد بھی پورا بنو امیہ کا دور اور بنو عباس کا دور جنکا تقویٰ ان جیسا نہ تھا ان کے یہاں بھی یہ مثالیں بھری پڑی ہیں وہاں جا کر دیکھ لیجئے؟ کہ اس آمریت میں بھی انصاف کی حالت کیا تھی؟
قصہ مختصر ہم میں سے جوکوئی کسی کو بچا نے کوشش کرے گااگر وہ روز محشر کی جوابدہی پر یقین رکھتا ہے تو وہاں جاکر کیا جواب دے گا،جبکہ اسے نہ اس دن کوئی پناہ دینے والا ہوگا نہ وہاں ایوان صدر ہو گا؟
یہ میں نے کچھ جھلکیاں دکھائی ہیں جو کہ اسلامی ذمہ داری کے بارے میں ہیں ا اس سے وہ جج بھی بچ نہیں سکیں گے جو یہ جانتے ہو ئے کہ کچھ قانون ابھی تک اسلامی نہیں بنا ئے گئے اگر خود نوٹس لیکر پارلیمنٹ کو ریفر نہیں کریں گے اور الیکشن کمشنر بھی نہیں بچیں گے جو غیر امین امید واروں کو نہیں روکیں گے؟ میں نے یہ چند باتیں اس لیئے عرض کردیں کہ اسی میں سب کا بھلا ہے ،اسی میں تمام قوم کا بھلا ہے؟
اب آئیے ہمارے موجودہ مسائل کی طرف کہ ہم ساری دنیا میں جو کبھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اب خوار کیوں ہیں؟ اس کا جواب بھی قر آن میں ہی ڈھونڈتے ہیں ۔ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ، فرمارہا ہے ً تم آپس میں دشمن تھے ، تم نے میری رسی مضبوطی سے پکڑلی (تو) تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے  ً اس کا لٹ کیا ہو گا وہ بھی سورہ الانعام کی آیت نمبر ٦٥ میں بتا دیا گیا ہے کہ ً میں نیچے سے عذاب لانے پر بھی قادر ہوں ،اوپر سے بھی عزاب دینے پر قادر ہوں اور تمہیں تکڑیوں میں بانٹ کر لڑادینے پر بھی قادر ہو ں ً  تفسیر ِ ابن کثیر  (رح)کے مطابق حضور (ص) کی درخواست پر دوعذاب تو اس نے اس امت پر سے ہٹالیئے کہ قوم ِ حضرت لوط  (ع)کی طرح تباہ کر دینایا قومِ حضرت نوح (ع) کی طرح تباہ کر دینا، لیکن آخری عذاب جو تکڑیوں میں بانٹ کرلڑانے والا تھا وہ نہیں ہٹا یا۔ جس کے بعدحضور (ص) نے موجود صحابہ کرام  (رض)سے وعدہ لیا کہ تم آپس میں لڑوگے تو نہیں؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ حضور (ص) یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب اور آپ کی سنت موجود ہو اور ہم آپس لڑیں ً اب اپنے چاروں طرف دیکھئے کہ ہم کس بری طرح آپس میں لڑ رہے ہیں اس کا حل کیا ہے صرف اجتماعی توبہ! جس سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے اس کے بغیر عذاب ہٹانا ،اس کی سنت نہیں ہے اور وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ میں اپنی سنت کے خلاف نہیں کرتا ً
اسلام نے سب سے زیادہ جس پر زور دیا ہے وہ عدل ہے اور ہمارے یہاں سب سے زیادہ اسی کی حالت خراب ہے ؟ آخری امید یہ تھی جس کے لیئے عوام نے جانیں دیں کہ عدلیہ آزاد ہو جا ئے تو ہمارے تمام مسائل حل ہو جا ئیں گے اور اس کو بمشکل آزاد کرا بھی لیا؟ جو ہمارے ہاں کسی کوبھی منظور نہیں تھا ۔اس لیئے  کہ جو عدل کرے گا وہ لحاظ نہیں کر سکتا، ورنہ عدل نہیں کر سکتا؟ جبکہ موجودہ معاشرہ اتنا بدل چکا ہے کہ عدل کا وہ متحمل ہی نہیں ہوسکتا لہذا ہر عادل کے لیئے عدل کر نا سب سے مشکل کام ہے ؟کیونکہ اول تو طرح طرح کے تاخیری حربے  مقابل میں ہیں جو مقدمے کو چلنے ہی نہیں دیتے؟ اس میں سب سے بڑا کردار وہ ادا کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ عدلیہ کے حامی تھے یعنی وکلاء،میڈیا ؟ پہلے وکلاءکومیں اس لیئے لیتا ہوں کہ وہ قانونی پہلو بھی جانتے ہیں اور عدالتی ہتھکنڈے بھی؟ کہ وہاں کس طرح مقدمات کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے؟ اگر عوام نہیں جانتے ہیں تو میں بتادو ں ؟کبھی وکیل کو اس زیادہ اہم کیس میں کہیں پیش ہونا ہوتا ہے۔ کبھی پولس غائب ہو جاتی ہے، اگر مدعا علیہ اس کی مٹھی گرم کر دے یا اوپر سے چٹھی اور فون آجا ئے ؟ کبھی وکیل صا حب پیش کار پر کچھ پھونک کر پڑھ دیتے ہیں اور پیش کار چھوٹی عدالتوں میں فائل سب سے نیچے کر دیتا ہے اور مدعی اور گواہ شام تک سوکھتے رہتے ہیں کہ اب آواز پڑی اور تب آواز پڑی شام کو بھوکے پیا سے گھر چلے جاتے ہیں نئی تاریخ اور نئی امید لیکر  ؟
اب آپ ہی بتا ئیے کہ جج کیا کرے اگر وہ ایماندار ہو ؟ وکیل دیکھ رہے ہیں کہ ملزم تا خیری حربے استعمال کر رہا ہے؟ مگر وہ وکیل جو کہ انسانی حقوق علمبردار ہیں وہ مصر ہیں کہ مدعا علیہ کو اپنی صفائی کا پورا حق دیا جائے؟ چار سال سے یہ ہی ہو تا رہا ؟ جب عدلیہ نہ دبی تو عدلیہ کو پروپیگنڈے کے ذریعہ دبانے کی کوشش جاری ہے۔کہ ہر ایک شہید بننے کو بے چین ہے اگر عدالت نوٹس لے مشکل تو تنقید نہ لے تو بھی تنقید اور عدالت  ہے کہ اپنی عزت بچا ئے پھر رہی! وجہ یہ ہی ہے کہ سب سے بڑا ملزم جو سرغنہ ہے وہ بچا بیٹھا ہے اوربڑے نمبر دو کو جس نے کہا تھا کہ اگر میں توہین ِ عدالت کروں تو سزا چھ مہینے ہوگی اور دستور کے خلاف کروں تو سزائے موت کا مرتکب قرار پا ؤنگا؟ اس کو توہین ِ عدالت میں صرف تیس سیکنڈ کی سزا ہوئی۔ اگر وہ زیادہ ہوتی تو اسے کوئی معاف کر دیتا؟اس سے لوگوں کا حوصلہ اور بھی بڑھا کہ یہ تو بہت آسان ہے۔ اور ہر ایک نے عدلیہ کی توہین کو روز کا مذاق بنا لیا کاش اس کی سزا بھی لمبی اور نا قابل ِ مداخلت ہوتی، اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے بھی؟ تو لوگ شہادت پانے کے لیئے یہ نہ کر تے اور سچ مچ کے شہید بنتے بجا ئے لغوی شہید ہو نے کے؟ ہم نے یہاں لغوی شہید کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے ؟اسلامی شہادت توصرف وہ ہے جو بغیر کسی ذاتی غرض کے صرف اللہ سبحانہ کے لیئے ہو؟ جبکہ لوگ شہادت ہر کسی کی غیر طبی موت کو لغوی معنوں میں کہنے لگے ہیں، جیسے کہ بھگت سنگھ شہید ؟ مگر وہ اسلامی شہادت نہیں ہے ؟ اب عدلیہ مشکل میں ہے اسے ساڑھے چار سال سے فرصت ہی نہیں لینے دیگئی کہ وہ عوام کو انصاف فراہم کر نے کے لیئے کچھ کرسکے؟ پھر زبان زور اس کے نہ کچھ کر نے پر خوش ہیں نہ کچھ نہ کرنے پر خوش ہیں ؟ نہ عدلیہ کی اس تبدیلی پر خوش ہیں ؟ جبکہ اسلام کہہ رہا کہ اگر کوئی توبہ کر لے اور اس پر قائم ہو جائے تو اسے اس کے پرانے گناہ نہ یاد دلا ئے جائیں مگر ہم مسلمان ہیں کہا ں؟ رہا میڈیا اس کی اپنی مجبوریاں جب کہیں گوٹ پھنستی ہے تو عدالت کے پاس  جانا پڑتا ہےجبکہ اسے کاروبار چلانے کے لیئے اشتہار درکار ہیں! وہ حکومت اور سرمایہ داروں سے ملتے ہیں ؟ پھر بھی میری میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ میرے ان معروضات پر غور کریں تاکہ وہ اپنی ذمہ داری جان سکیں اور کسی ظالم کی حمایت کے مرتکب نہ ہوں اگر یوم ِ قیامت پر یقین ہے تو؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized and tagged . Bookmark the permalink.