ہماری بے حسی کی انتہا ہے؟ جبکہ کس کا مقصد کیا ہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیئے اس لیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بھائیوں کے بارے حسن ِ ظن رکھنے کا حکم دیا ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جناب طاہر القادری صاحب نے اگر آواز دی تھی تو اتنے لوگ کیوں نکل آئے اور ان کی استقامت دیکھئے کہ اتنے شدید موسم میں وہ کھلے آسمان کے تلے چار پانچ دن سےپڑے ہیں ؟ جن میں وہ نوجوان ما ئیں بھی شامل ہیں جن کے بچے صرف دو ماہ یا تین ماہ کے ہیں! ماں خود تو خطرہ برداشت کر لیتی ہے ؟مگر کبھی اپنے بچے کو خطرے میں نہیں ڈالتی نہ دیکھ سکتی ہے۔ ہم نے اپنے ذہن پر بہت زور ڈالا کہ آخر وہ ایسی کونسی بات رہی ہوگی کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو گودوں میں اٹھائے ہو ئے یہاں تک آگئیں اور چار دن سے وہاں بیٹھی ہو ئیں ہیں۔ بہت غور کیا تو ذہن اس نتیجہ پر پہونچا کہ انہوں نے یہ قدم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیئے اٹھایا ہے کہ انہیں آج بھی مرنا ہے کل بھی مرنا ہے اس لیئے ایک کوشش کر دیکھو۔ کیونکہ ان کو یقین ِراسخ ہے کہ ان کے بچوں کا وطن ِ عزیز میں مستقبل غیر محفوظ ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو بقول کسے یزید کی طرح عاقبت پر یقین نہیں رکھتے ا،گر ہوتا تو ان کے اندر رحم ہوتا انصاف ہو تا وہ خدا سے ڈرتے والےہو تے ان میں سے کسی میں ایسی کوئی صفت دکھا ئی نہیں دیتی نہ یہ شرما تے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک وزیر دوسرے وزیر کے بارے میں شکایت کر رہا ہے کہ ً میں نے فلاں وزیر کو پانچ لاکھ روپیہ ایک نائب قاصد کے تقرر کے لیئے دیئے تھے پھر بھی اس نے اس کا تقرر نہیں کیا جبکہ دوسرے ایک وزیر کے ارشادات عالیہ میڈیا کے ریکارڈ پر ہیں کہ رشوت لینا ہمارا حق ہے اگر ہم نے نہیں لیں گے تو کوئی اور لے گا دوسرے ہم بہت خرچ کرکے اسممبلی میں آتے ہیں؟
خدارا سوچیئے جہاں ایک نائب قاصد کاتقرر بغیر رشوت کے نہیں ہو سکتا وہاں آنے والی نسل کا مستقبل کیا ہے؟ اس زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ کہ مائیں اپنے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے نو زائیدہ بچوں کو اٹھاکر شامل جلوس ہو گئیں کہ شاید کو ئی صورت جینے کی نکل آئے؟ ورنہ آج نہیں تو کل تو انہیں مر نا ہے کسی کی دیدہ یا نادیدہ گولی سے، بھوک سے، افلاس سے ملاوٹی چیزوں سے اور بیماریوں اور جعلی دواؤں سے اور کچھ نہیں تو پھر خود کشی سے؟ یہ سوالیہ نشان ہے کہ جس قوم میں خود کشی حرام ہے؟ اس قوم میں اب خود کشی کا تناسب روز بہ روز افزوں کیوں ہے؟ قوم اخلاقی پستی پر پہونچ چکی ہے آخر کیوں؟
ان دو کیوں پر ہم پہلے بات کر یں گے کیونکہ ایک کا جواب دوسرے کیوں میں ہے؟ اس لیئے پہلے آخری ًکیوں ً پر بات کرتے ہیں؟ وہ ہے قوم کی اخلاقی پستی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قوم ہمیشہ سے ایسی ہی تھی ؟ جواب یہ ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اس قوم میں اخوت کا یہ عالم تھا اور ہادیِ بر حق (ص) نے عہدِ جہالیت کے بدترین لوگوں میں اپنے عمل سے ایسے لوگ پیدا کر دکھا ئے ،کہ وہ ایک دوسرے کی دشمنی چوری چکاری اور دوسری تمام برائیاںچھوڑ کر بقول قرآن “آپس میں رحیم “بن گئے تھے۔ جنہوں(رض) نے اپنے مہاجروں (رض) بھائیوں کے لیئے اپنی جائیداد نصف وقف کردی تھی؟
چلیئے وہ تو اس دور کی بات تھی۔ مگر ہم نے سن انیس سو سینتالیس میں دیکھا کہ پاکستان کہ انصار نے بھی وہی روش اختیار کی جو کہ ان کے آقا (ص) کا فرمان تھا،اس کا نتیجہ یہ تھاکہ ہر ریلوے اسٹیش پر وہ دیگیں پلاؤ کی لیئے کھڑے ہو تے تھے جہاں سے مہاجرین کی ٹرینیں گزرتی تھیں،اس کے بعد ان کی آبادکاری میں معاون ہوتے تھے، یہ تو تھی عوام کی حالت، مگر جو سرکاری ملازم تھے ان کی بھی یہ ہی حالت تھی۔ کہ وہ بھی بغیر تنخواہ کے مہینوں کام کرتے رہے کاغز نہیں تھا، قلم نہیں تھا میز و کرسی نہیں تھی مگر کسی نے رشوت کا ایک پیسہ نہیں مانگا، اور سب کام مفت میں ہوتے رہے۔ ان میں مکانوں کے الاٹمنٹ ،زمینوں کے صنعتوں کےالاٹمنٹ اورملازمتیں سب ہی کچھ شامل تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ پھرسب اس پستی میں کیسے چلے گئے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ وفا نہیں کیا؟ وہ تھا اس تحریک کے تحت بننے والے ملک کو ایک مثالی اسلامی مملکت بنانا ؟ جس کی دنیا اب دنیا بھر میں اب مثال نہیں تھی؟ جب ہم وعدوں سے پھر گئے تو اس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا، کیونکہ وہ اپنے نبی (ص) سے فرماچکا تھا کہ ً تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے ہم نے تمہارے دلوں کو الفتوں سے بھر دیا جس کے لیئے تم کتنابھی خرچ کرتے تمہارے درمیان اتنی الفت ممکن نہ تھی ً اس میں جو پوشیدہ آگاہی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف دی گئی وہ یہ ہے کہ جب تک تم مجھے راضی رکھو گے یہ ہی تمہارا مقدر ہو گا، لیکن اگر تم میرے ساتھ ہیر پھیر کروگے تو میں بھی تمہاری مدد کرنا بند کردونگا اور تم ویسے کےویسے ہی دوبارہ بن جا ؤگے؟ جب قائدین ِ نے بد عہدی کی اس کے نام کو بلند کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ چونکہ دین ہمیشہ امراءکا چلتا ہے جب اوپر والوں نے کھانا شروع کیا تو نیچے والوں نے بھی کھانا شروع کردیا پھر عہدے بکنے لگے ؟ اراکین اسمبلی بکنے لگے ،پارٹیوں کے ٹکٹ بکنے لگے۔ ووٹ بکنے لگے اسمبلیوں میں جانے کے خرچہ اب اربوں روپیہ تک جا پہونچ گیا ؟پھر اس پر اسمبلیوں کی بے ثباتی کا عالم یہ کہ شام کو تھی توصبح نہیں؟اور یہ ہی حال افسری کا تھا کہ شام کو افسری تھی صبح کو نہیں۔لہذا ہر شخص خائف تھا اور ہے اور ہر ایک کی کوشش تھی اورہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو کم ازکم جو خرچ کر کے آیا ہے وہ تو کمالیا جائے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاروں طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا؟ ایسے میں جو ایماندار تھے پستے اور ناپید ہوتے گئے اور اسی دوران پاکستان جو کبھی ایمانداری کی انتہا پر تھاکہ جہاں نہرو لیاقت معاہدے کے معاہدے کے پاس میں ریلوے قلیوں نے آٹھ آنے لینا شروع کر دیئے تھے بجا ئے سیکڑوں کہ ہمارے لیڈر نے معاہدہ کرلیا ہے کہ ملک چھوڑنے والوں کو تمام سہولتیں دیں گے؟ جبکہ اس سے پہلے ملک چھوڑنے والی اقلیتوں سے وہ سیکڑوں روپیہ وصول کر رہے تھے رہے تھے ،اس لیئے کہ ٹرینوں میں جگہ نہیں تھی اور قلی کسی طرح قبضہ کر کے جگہ بنا لیتے تھے؟ اب وہی قوم پینسٹھ سال میں وہاں پہونچ گئی کہ ننیانوے فیصد لوگ جھوٹے ہیں، بد عہد ہیں ، چور ہیں بھتہ خور ہیں ۔ ہر چیز میں ملاوٹ کر نے والے ہیں ۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ لوگ گھروں سے نکل نہیں سکتے ہیں، اگر نکلتے ہیں تو یقین نہیں کہ شام کو خیریت سے گھر لوٹیں گے؟
یہ سب کیوں ہوا اس لیئے کہ قوم نہ صرف خاموش رہی بلکہ یہ بھی اسی رو میں بہہ گئی اگر یہ اپنا فرضِ مذ ہبی انجام دیتی اور بد عہدوں کو شروع میں ہی روک دیتی تو آج یہ حالت نہ ہوتی ؟کیونکہ پچھلی قوموں کے قصوں میں قرآن ہمیں یہ واقعہ بیان کر کے پہلے ہی آگاہ کرچکا تھاکہ کچھ لوگوں نے حیلے بہانے سے خدا حکم سے انحراف کر نا شروع کیا، تو کچھ لوگوں نے منع کیا اور جب انکی اکثریت نہیں مانی تو ان پر عذاب نازل ہو ا اور وہ سور اور بندر بنا دیئے گئے؟ صرف وہی بچے جنہوں نے انہیں پہلے نصیحت کی تھی اور جب وہ نہیں مانے تو ان سے قطع تعلق کر کے اپنا رہنا سہنا الگ کر لیا تھا؟ اور انہوں نے سزا پائی جو مجرم تھے یا خاموش تما شائی تھے؟چونکہ امت محمدیہ کے لیئے حضور (ص) کی دعا کی وجہ سے اس قسم کے عزاب نہیں ہیں ؟ مگر آپس میں ٹکڑے ہوکر لڑنا ان کے لیئے باقی ہے جو سورہ الانعام کی آیت ٦٥ کے تحت انکا مقدر ہے لہذا ہم اب رب کی نا فرمانیوںکی وجہ سے زیر ِ عذاب ہیں اور اس کا حل اجتماعی تو بہ ہے تاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ راضی ہواور وہ عزاب ٹالدے جو اس کی سنت ہے کہ وہ توبہ کے بعد عزاب دور کر دیتا ہے ؟
ہم چونکہ ہمیشہ سے اس کے قائل رہے ہیں وہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا لہذا ہمارا مشورہ ہے کہ اس سے قطع نظر کہ ڈاکٹر طاہر القادری صا حب کے اور مطالبات کیا ہیں اور وہ غیر دستوری ہونے کی وجہ سے قابل عمل ہیں یا نہیں ہیں؟انکا یہ مطالبہ ضرور قابل ِ غور اور عمل ہے کہ الیکشن کمیشن صرف انکو الیکشن میں اہل قراردے جن کا دامن بے داغ ہو اور جو آئین کی متعلقہ شقوں کے معیار پر پورے اترتے ہوں اور امین کہلانے اور قومی بارِ امانت اٹھانے کے اہل ہوں؟ اور طاہر القادری کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے مطالبات میں تمام قوانین کو اسلامی بنانے کا مطالبہ بھی شامل کریں، جوکہ قطعی آئینی ہے اور آجکل سب بھولے ہوئے ہیں ۔
کیونکہ یہ ہی بد عنوان لوگوں سے بچاؤ کی صورت ہے ورنہ پھر یہ ہی لوگ دوبارہ اقتدار پرقابض ہو جا ئیں گے اور نئی نسل کا پھر اللہ ہی مالک ہے؟
ہم کل یہ چند سطور لکھ کر فارغ ہی ہوئے تھے جو کہ ہم ویسے کہ ویسے نذر قارئین کر رہیں ہیں کہ یہ خوش آئند خبر ملی کہ حکومت نے شرکاء جلوس کی برف اور بارش میں استقامت دیکھ کر وہ مطالبات مان لیئے جو معاہدے کی جان ہیں یعنی امید واروں کا امین ہونا ؟ میں شرکاء دھرنا اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی استقامت اور دین سے محبت کو سلام کر تا ہوں کہ ان سب کی دین سے محبت نے الیکشن کمیشن اور حکومت کو درست سمت پر ڈالدیا ہے جس سے ایک مرتبہ پھر امید کی کرن چمکی ہے مگر ابھی اجتماعی توبہ کی ضرورت باقی ہے۔ تاکہ یہ معاشرہ پہلے ہی جیسا ہوجا ئے۔ آمین ثمہ آمین۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے