دوسرے نبیوں پرعظمت رسول صلی اللہ علیہ وصلم ازروءے قرآن از۔۔ شمس جیلانی

کچھ عرصہ پہلے میں نے اعلان کیا تھا کہ مجھ سے ایک صاحب نے فر ما ئش کی ہے کہ میں حضور کی فضیلت انبیا ءکرام پربیان کروں اور شرط یہ لگا ئی ہے کہ آپ اسے صرف قر آن سے ثابت کریں؟ حضور کی عظمت بیان کر نا وہ بھی مجھ جیسے کم علم کے لیئے  یہ میری استعداد سے بہت زیادہ ہے۔ مگروہ دوست تلاش حق میں اپنا آبائی دین بھی چھوڑ چکے ہیں اور  راہ دکھانا میرا فرض ہے کیونکہ میری زندگی ہی اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے دین کے لیئے وقف ہے۔ بس اس امید پر کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح میری راہنمائی فرما ئے گا، بسم اللہ کہہ کر میں نے قلم ہاتھ میں پکڑ لیا ،اس دعا کے ساتھ کہ اے اللہ ! مجھے ہمیشہ کی طرح اس میں بھی کامیابی عطا فرما، تاکہ میں تیرا مزید شکر گزار بندہ بن جاؤں کیونکہ تیرا فرمان ہے کہ “ جو شکر کرتا ہے میں اسے زیادہ دیتا ہوں اور جو کفر کرتا ہے تو میرا عذاب بھی شدید ہے  “(سورہ آلِ ابراہیم آیت نمبر ٧ )
اب ایک طرف تو وہ لوگ اور انکے مفسرین ہیں جو کہتے ہیں نبیوں (ع) میں کوئی فرق کرنا اس لیئے روا نہیں ہے کہ اس کی رد میں قرآن کی آیت کا یہ جز ہے۔۔۔۔ لا نفرق بین احد من رسولہ۔۔۔ (سورہ ٢ آیت(٢٨٥ )ہے۔ جس کو اس گروہ کے علاوہ دوسرے مفسرین نے ان معنوں میں لیا ہے کہ ً ہم سب پیغمبروں (ع) کو مانتے ہیں اور تمام نبی (ع) ایک ہی دین لا ئے تھے جس کی اساس توحید پرہے ً  اس لئے ان کی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس د لیل کو تقویت اس آیت سے مزید ملتی ہے کہ “کچھ لوگ کسی نبی کو مانتے ہیں کسی کو نہیں مانتے ہیں (سورہ ٤ آیت١٥٠) جن کی اس آیت میں مذمت بھی کی گئی ہے ۔
پھریہ ہی لوگ ہیں جو حضور (ص) کے معجزات اور بزرگان ِ دین ،اولیاء اللہ اور ان کی کرامات کے بھی منکر ہیں، جبکہ میرے نزدیک اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) کے دست ِ مبارک سے تقریباًوہ تمام معجزے سر زد کرائے، جو تمام انبیاءکرام  (ع) کے ہاتھوں مجموعی طور پہلے پرظہور پزیر ہوچکے تھے؟۔
لیکن اس کی بھی نفی کرنے کے لیئے مخالفین کے پاس استدلال یہ ہے کہ قرآن خود سب سے بڑا معجزہ ہے جو حضور (ص) کو عطا ہوا اس لیئے اس کی موجودگی میں کسی اور معجزے کی ضرورت ہی نہیں ہے! جبکہ کفار ِ مکہ کی مرضی کے مطابق معجزے بعد میں نہ دکھانے کی وجہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ( سورہ ١٧ آیت نمبر ٥٩ )میں بیان فرما دی ہے کہ فرمائش پر معجزہ دکھانے کے بعد پھر نا فرمانی پر عذاب لانا اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے سنت ر ہی ہے ۔
ورنہ تو اگر ہم سیرت اور تاریخ میں جائیں تو پہلی دعوت کی ابتدا ہی معجزے سے ہوئی کہ جب حضور  (ص)کو اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا !تو ان کی ضیافت کے لیئے حضرت علی  کرم اللہ وجہہ نے بحکم ِ حضور (ص) تھوڑا سا کھانااور تھوڑا سا مشروب جو کہ ایک آدمی کے لیئے بھی کافی نہ تھا فراہم کیااور وہ چالیس آدمیوں کو کافی ہو کر بھی بچ رہا ، جس پر ابولہب کا یہ فقرہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ “ محمد !(ص) تم تو بہت بڑے جادوگر ہو کیا یہ جادو دکھانے کے لیئے ہمیں بلایا تھا “ اور اس کے بعد بھی حضور (ص) سے معجزے قدم قدم پر رو نما ہو تے رہے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے جو وقت ضرورت حضور سے ازخود سرزد ہوئے سوائے معجزہ شق القمر کہ اوران میں سے کو ئی بھی فرمائشی نہیں تھا ، وہ  سب حضور (ص) کی سیرتِ مبارکہ میں جاکرپڑھ لیجئے یہ مختصر صفحات ان سب کا احاطہ کر نے کے لیئے نا کافی ہیں۔ مگر اس گروہ کے معجزوں کی نفی کر نے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جھوٹے مدعیان ِنبوت کے لیئے دروازہ کھل گیا ؟ کہ جب معجزہ ضروری ہی نہیں ہے تو جو چاہے دعویٰ کربیٹھے نبوت کا؟ جبکہ قرآن میں انبیاءکرام  (ع)کے قصوں سے یہ ثابت ہے کہ معجزہ لازمہ نبوت ہے؟
جبکہ آجکل منکرین معجزات کے دین کا ہی غلبہ ہے جو بطور نصاب ان کے مدارس میں پڑھایا جا رہا ہے اس لیئے کہ اس کے پیچھے تیل کی دولت ہے اور ایک قبیلے کے وہ مذموم عزائم ہیں ، جن کی وجہ سے اس کے سردار عامر بن طفیل نے اپنے علاقہ میں حضور (ص) کی حیات ِ مبارکہ میں اسلام کو داخل نہیں ہونے دیا ؟جس طرح کہ بنو امیہ والے مکہ معظمہ میں اپنی برتری کے لیئے پریشان تھے، وہ قبیلہ بھی قریش کی بر تری کے خلاف تھا۔اس کا تقاضہ تھا کہ جہاں بھی کسی قریش کی برتری کاشائبہ نظرآئے اس کو غلط ثابت کیا جا ئے کیونکہ انہیں یہ فخر تھا ہے کہ وہ آل ِ مدار (قدیمی باشندے )میں سے ہیں جبکہ قریش السہل میں سے ہیں؟ اورآج تک اسی منصوبے کے تحت وہ یہ کام منظم طریقہ سے دنیا میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے تحت کتابیں بدلی گئیں ،تفسیریں بدلی گئیں ،تاریخیں بدلی گئیں۔ غرضیکہ وہ سب کچھ کیا گیا جو ممکن تھا۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ میں ً آپکا ذکربلند کرونگا ً ( سورہ ٩٤آیت نمبر٤) نتیجہ یہ ہے کہ کوششوں کے با وجود عوام الناس ا بھی تک پو ری طرح نہیں بدلے ۔ مگر کوششیں جا ری ہیں جس کا عوام کوادراک کرانا ضروری ہے؟
چونکہ یہ کلیہ ہے کہ دشمن کا دوست دشمن ہو تا ہے ،اسی کلیہ کے تحت حضور  (ص)کے ا ہل ِ بیت (رض) کی تنزلی ِ مراتب بھی ضروری سمجھی گئی اور حضور (ص) کی عترت کی عظمت میں آیت مودہ (سورہ ٤٢نمبر ٢٣) کے باوجود ان کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی گئی ۔
چونکہ یہ سب کچھ احادیث میں زیادہ ہے، اس لیئے پہلے احادیث کی اہمیت گھٹائی گئی اور انہیں مشکوک بنا دیا گیا ان میں سے بھی صرف پسند کی احادیث رکھی گئیں اور انکی کی بھی کتر بیونت کے بعد ترویج و اشاعت کی گئی۔ یہ اِس وقت کی صورتِ حال ہے، اس وجہ سے ہر شخص یہ ہی کہتا ہے کہ دلیل قر آن سے دیجئے؟ لہذا میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہر دلیل قرآن سے دی جا ئے؟
اس تمہید کے بعدآئیے اب حضور (ص) کی عظمت قرآن کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں؟ سب سے پہلی فضیلت تو یہ ہے کہ حضور (ص) تمام انسانیت کے لیئے مبعوث ِ رسالت فرمائے گئے ،جبکہ دوسرے نبی کسی قوم یا قریہ کے لیئے بھیجے گئے تھے (سورہ ٤ آیت ٧٩)، دوسری یہ کہ سب کو کتاب ایک دفعہ میں عطا کی گئی مگر حضور( ص)کو ٢٣ سال میں عطا کی گئی، کسی پر دین مکمل نہیں ہوا جبکہ ان پر دین مکمل ہو ا(سورہ نمبر ٥ آیت ٣)۔ اور کسی نبی کے ساتھ ً خاتم النبین ً ( نبوت منقطع کرنے والا) کا لفظ استعمال نہیں ہوا جبکہ یہ صرف ان (ص)کے ہی اسم ِ گرامی کے ساتھ استعمال ہوا (٣٣ ۔ ٤٠) ۔اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ میں اور میرے فرشتے ان نبی پر درود بھیجتے ہیں لہذا تم بھی ان پر درود بھیجا کرو ( سورہ٣٣ آیت ٥٦) ایسا حکم کسی اور نبی کے لیئے نہیں صادر فرمایا گیا۔
پھر یہ دیکھئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قر آن میں یہ فرما تا ہے کہ ہم نے تمام نبیوں (ع) سے عہد لیا کہ وہ اس خبر کو پہونچا ئیں کہ ایک نبی (ص) آنے والے ہیں اور جو ان کے دورکوپا ئے، ان کا اتباع کرے اور وہ ہی روزِ قیامت سب امتوں پر شاہد ہو نگے ( سورہ٣ آیت نمبر٨١) یہ وہ عہد ہے کہ جو خود کو رب تسلیم کرانے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بعد میں لیا! چونکہ اس کا ذکر قر آن خود کر رہا ہے لہذا اس کو جھٹلا یا نہیں جا سکتا؟ یہ شرف سوائے حضور (ص) کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوا کہ اس کے لیئے انبیاءعظام سے بیعت ،اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خود لی ہو ۔ پھر آنے والے نبی (ص) کی پیش گوئی کسی نبی (ع) سے نہیں کرائی گئی۔ جبکہ یہاں حضرت عیسیٰ  (ع)سے کرائی گئی کہ “ میرے بعد ایک نبی آئے گااس کانام احمد ہو گا (سورہ ٦١ آیت ٦) یہ شرف بھی کسی کو اور کو حاصل نہیں ہو اکہ ا س کی امت بھی ساری امتوں پر شاہد ہو۔ پھر کسی امت کو بھی یہ شرف حاصل نہیں ہوا کہ وہ تبلیغ کے فرا ئض ادا کرے اور ساری امتوں پر شاہد بنے؟ (سورہ ٢ آیت ١٤٣) جوکہ صرف حضور (ص) کی امت کو ہی حاصل ہے۔
حضور (ص) کو ایک بہت ہی بڑا معجزہ عطا ہوا جس پرہمیں ایمان رکھنے کا حکم ہے۔ وہ تھا پہلے مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک ،اور پھر وہاں سے عرش تک کا سفر جس میں وہ ایک ایک چیز دکھا ئی گئی، جسکاتعلق آخرت سے ہے۔ جیسے کہ فرشتے جنت دوزخ وغیرہ ، وغیرہ۔ اس کو یہ کہہ کر اہمیت کم کر نے کی کوشش کی گئی کہ ً معراج جسمانی نہیں تھی بلکہ رو حانی تھی۔ یہاں اس سفر کو ثابت کر نے لیئے قر آن موجود ہے دیکھئے (سورہ ١٧ آیت نمبر ١) ہے۔ باقی تفصیلات چونکہ احادیث میں ہیں جوکہ بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام (رض) نے بیان کی ہیں اور اسے جسمانی معراج مانا ہے، ماسوائے ایک کہ ً حضرت معاویہ (رض)  فرماتے ہیں کہ معراج روحانی تھی اس کو تقویت دینے کے لیئے حضرت عائشہ (رض) کے گھر والوں کا نام لیا گیا کہ ً حضرت عائشہ (رض)  کے گھر والے کہتے ہیں کہ وہ فرماتی تھیں کہ “معراج روحانی تھی “جبکہ گھر والوں کا نام روایت میں نہیں دیا گیا ہے کہ وہ کو ن ہیں؟اور گمنام راویوں کے ساتھ اس روایت کی شرعی حیثیت کیا ہے !جواب آپ پر چھوڑتا ہوں؟
جبکہ آپ سب جانتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے والدِ محترم (رض) صدیق کے خطاب سے نوازے ہی اس وجہ سے گئے تھے کہ انہوں نے واقعہ معراج کی یہ فر ما کر تصدیق فرما ئی کہ “ حضور (ص) اگر یہ فر ما رہے ہیں تو وہ حق ہے !میں اس کی تصدیق کر تا ہوں  “ لہذا میں یہاں اسے ثابت کر نے کے لیئے ایک عقلی دلیل دیتا ہوں ۔ کہ اگر یہ خواب تھا ،جسمانی معراج نہ تھی تو پھر اس کوقریش نے تسلیم کیوں نہیں کیا؟
کیونکہ خواب تو ہر ایک دیکھتا ہے اوربیان بھی کرتا ہے ، اس کی تعبیر  بھی علمائے فنِ تعبیر ہمیشہ سے بیان کرتے آئے ہیں؟ جبکہ اس پر کوئی پابندی عائدہی نہیں کی جاسکتی ہے کہ خواب دیکھنے والاکیا دیکھے اور کیا نہ دیکھے اور کہاں کہا ں کی سیرخواب میں کرے؟ اس لیئے میں بلا خو فِ تردید کہہ سکتا ہوں، جو کہ ہر صاحب ِ عقل تسلیم بھی کر ے گاکہ اس شدت سے اس وقت اس کی مخالفت خود اس بات کا ثبوت ہے کہ حضور (ص) نے جسمانی معراج کا ذکرفرمایا تھا، روحانی معراج کا نہیں ؟ یہ شرف بھی کسی اور نبی(ع) کو حاصل نہیں ہواسوائے حضور(ص)
تمام الہامی کتب ایک ساتھ نازل ہو ئیں۔ جبکہ یہ کتاب ٢٣ سال میں بتدریج اس وجہ سے نازل ہوئی کہ ہمارے نبی   (ص) کی رہنمائی اللہ سبحانہ تعالیٰ قدم قدم پرفرماتا رہا ،جب بھی کوئی سوال لوگوں کی طرف سے کیا گیا جواب جلد یا بہ دیر وحی کی شکل میں آتاگیا۔ ایسا کسی اور نبی (ص) کے ساتھ نہیں ہوا۔
“واقعہ شق قمر “ کہ حضور (ص) نے اپنی انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو دو تکڑے کردیا جوکہ مقامی طور پر ہی نہیں پوری دنیامیں دیکھا گیا، ایسا معجزہ بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کسی اور نبی (ع) کے ہاتھوں رونماں نہیں کرایا کہ اس نے اس کے پورے نظام کو ایک لمحہ کے لیئے بھی متا ثر کیا ہو( سورہ ٥٤آیت نمبر١،٢)
پھر کسی نبی (ع) کے بارے میں قرآن یاکوئی کتاب اتنی تفصیل میں نہیں گئی ہے جتنی حضور (ص) کے بارے میں گئی۔ بات یہاں سے شروع ہو تی ہے کہ پہلے تو حضرت ابراہیم  (ع)کعبے کی تکمیل پر دعا فرماتے ہیں کہ “آپ انہیں میں سے ایک رسول ان کی ذریات کو عطا فرما ئیں جو با رگاہ ِ خداوندی میں قبول ہو جاتی ہے(سورہ ٢ آیت نمبر ١٢٩)؟ وہاں حضرت اسمعٰیل (ع) کے بعد کوئی نبی (ع) نہیں بھیجا جا تا ہے کیونکہ یہ علاقہ مخصوص تھا حضور کے لیئے۔ اور اس اہلیت کوروبہ کار لانے کے لیئے جو آخری نبی اور اس انسان ِ کامل کو عطا ہونا تھی بتدریج ترقیِ معاشرہ کاانتظار کیا جاتا ہے اور اس حد تک اس کاانتظار کیا جاتا رہاہے کہ جو انکے شایان شان ہو؟
جبکہ اس پاک سرزمین کی اسطرح حفاظت کی گئی کہ اس طویل عرصے میں اہلِ مکہ کبھی گمراہ بھی نہیں ہوئے، وہ دین ِ ابراہیمی پر قائم رہے۔ حتیٰ کہ جب حضور (ص) کے ظہور کا وقت معین قریب آگیا تواس سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے شام سے ایک مکی قبیلہ کا سردار بت اٹھالا یا اور ان کی پرستش شروع ہو گئی لہذا ان کی ہدایت کے لیئے ہادی کی ضرورت پیش آئی جس کی ایک ایک تفصیل پہلے سے اہلِ کتاب کو ان کی کتابوں اور صحیفوں کے ذریعہ پہونچا دی گئی تھی اور اہلِ کتاب منتظر تھے نبیِ موعودکے ظہور پزیر ہونے کے ،جو اپنے وقت معینہ پر ہوا جس کی تفصیلات احادیث میں تو بہت سی موجود ہیں لیکن انجیل اور تورات میں بھی موجود تھیں جنکا ذکر قرآن نے کیاہے ۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ نمبر ٦ آیت نمبر ٢٠ اور سورہ ٧ آیت نمبر ١٥٨یہ ان ارشادات قرآنی سے ثابت ہے کہ ً اہل ِ کتاب آپ کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ پہچانتے ہیں ً جبکہ نبی امی کے بارے میں دوسری آیت تورات میں ہے۔ً لیکن قر آن آپ کے بارے میں خصوصی تفصیلات وہاں سے شروع کرتا ہے جہاں سے آپکے اوپر وحی کا نزول ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کی جو کچھ تفصیلات ہیں وہ احادیث اور تاریخ میں موجود ہیں جس میں صرف شق صدر کی تصدیق قرآ ن سے ہو تی ہے ( سورہ٩٤ آیت نمبر١) جبکہ پہلی وحی اقرا بالسم (سورہ ٩٦آیت نمبر ١)اس کا نزول بھی احادیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ نزول وحی کے بعد جب حضور (ص) تھوڑے پریشان ہوئے تو تقویت کے لیئے بہت سی آیات نازل ہوئیں جنکا ذکر آگے کریں گے، مگر تسلسل کے لیئے پہلے یہ  جزِآیت کہ “۔۔۔آپ یتیم تھے ہم نے ، ٹھکانہ دیا آپ غریب تھے ہم نے آپ کو مالدار بنا یا۔۔۔۔ الخ  ً ( سورہ نمبر ٩٣آیات ٣تا٨) اس کے بارے میں ابن ِ کثیر (رح) نے مسند احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب ایک عرصے تک وحی نہیں آئی اور حضور (ص) کو پریشانی لاحق ہو ئی تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے حضور (ص) پر تنز کیا کہ کیا تیرا شیطان تجھے چھوڑ گیا۔۔۔۔؟ تو حضور (ص) کی دلجوئی کے لیئے یہ آیات اللہ سبحانہ نے نازل فرمائیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی اور نبی(ع) کی خواہش پر وحی آئی ہو۔
پھر نبوت پر مبعوث ہو جانے کے بعد کا دور ہے۔ کیا کسی نبی سے کہا گیا کہ پہلے اپنے رشتہ داروں کوجہنم سے بچا ؤ؟ یہ تخصیص کیا کسی اور نبی  (ع)کے رشتہ داروں کے ساتھ برتی گئی ۔ یہ عظمت بھی ان نبی (ص) کو ہی حاصل ہوئی کہ پہلے صرف اپنوں کو دعوت دینے کا حکم ہوا ( سورہ ٢٦ آیت نمبر ٢١٤)۔ اس سے پہلے کسی اور کو دعوت بھی نہیں دی گئی اوروں کو دعوت بعد میں دی گئی۔ جبکہ دوسرے انبیاءکرام  (ع)کے ہاں تبلیغ دعوت ِ عام سے شروع ہو تی رہی ۔ پھرجہاں بھی قرآن میں ذکر آیا ہے تمام انبیاء کے ساتھ نذیر (ڈرانے والے ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جبکہ حضور کے ساتھ بشیر (خوشخبری سنا نے والا) اور ً سرا جاًمنیر ا ً یعنی دوسروں کو روشنی دینے والے کا بھی لفظ استعمال ہوا ( سورہ ٣٣ کی آیات ٤٥ اور ٤٦) دوسری آیات میں ًپاک کرنے والا ً بھی استعمال ہوا یہ اضافہ کسی اور نبی کے ساتھ نہیں ملتا(سورہ ٣ آیت١٦٤ اور سورہ٢آیت نمبر ١٥١) ۔جبکہ یہ اللہ کی اپنی صفت خاص میں سے ہے۔ دیکھئے (سورہ ٢ آیت نمبر ٢٥٧) کہ ً اللہ اپنے دوستوں کو اندھیرے سے اجالے کی طرف کھینچتا ہے اور شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے اندھیرے کی طرف بلاتا ہے۔۔۔الخ، ۔ جس طرح نبی  (ص)پر تبلیغ فرض تھی ان کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں  آناتھا اس کمی کو پورا کرنے کے لیئے پوری امت پرتبلیغ فرض کی گئی اس کے اس حکم تحت کہ “تم میں ایک مخصوص گروہ ہونا چا ہیئے جو برائیوں سے روکے اور اچھائیوں کی تبلیغ کرے “ اس طرح اولیائے عظام (رح) کی ایک جماعت کو بھی آئندہ کے لیئے ایک شکل دیدی گئی، اور انہیں پاکیزہ کردار اور کرامات سے نوازا گیا جن میں کچھ کے لیئے تو منکر کرامات بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان میں سے فلاں اور فلاں کی کرامات اس تسلسل سے ہیں جن سے بہت سوں کو فائدہ پہونچا ،اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا؟ یہ بھی صرف حضور (ص) کی امت کا اعزاز ہے کسی دوسری امت کا نہیں۔ (سورہ ٢ آیت نمبر١٤٣) اولیاءکرام کے سلسلہ کے منکر ولایت پرمجھ سے اتفاق نہیں کریں گے؟ جبکہ ان کے سلسلہ میں  متعدد آیات موجود ہیں جو ولیوں کا وجود ثابت کرتی ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ ولیوں کاذکر بار بار فرمایا مثلا ً اللہ مومنوں کا ولی ہے۔(سورہ ٢ آیت نمبر٢٥٧) یا بے شک اللہ کے ولیوں کو نہ خوف ہے نہ ملا ل ہے۔ اور ولیوں کی مزید تفصیل اس حدیث قدسی میں بیان ہوئی ہے کہ میں ان کے ہاتھ بن جا تا ہوں ،پاوں بن جاتا ہوں آنکھیں بن جاتا ہوں۔۔۔۔الخ مگر چونکہ یہ حدیث ہے لہذا میں اسے یہیں چھوڑت ہوں، پھر پہلے تو اسے اس لفظ ولی کوکسی گروہ کے ساتھ مخصوص کرنے بجا ئے اسے عام مسلمانوں پر منطبق کرتا ہوں جس کا انکار منکر اس لیئے نہیں کر سکتے کہ قر آن میں خودمومنوں کا ولی بہت سی جگہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خودکو فرمایا ہے۔ اب رہ گئی تعریف کہ اللہ کاولی کہلانے کا مستحق کون ہے؟ تو اس کے لیئے سورہ مومن کی پہلی نو آیتیں معیار بنا ئی جاسکتی ہیں جو ان پر پورا اترتا ہے وہی مسلمان اورولی کہلانے کا مستحق ہے ۔ پھر متعدد آیات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ً ہم نے بعض کوبعض پر فضیلت دی ً اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ سب بندے ایک معیار کے ہیں، نہ سب نبی اور پیغمبر ایک معیار کے ہیں؟ تو ولیوں میں بھی مدارج کاہونا لازمی ہے جن کی وجہ سے  ترقی  َ مدارج کرکے؟ کوئی کوئی، ہاتھ اور پا ؤں بن جاتا ہے؟ جبکہ تصوف میں معمولی ولایت کامعیار یہ ہے کہ ولی کا ایک فعل بھی خلاف سنت نہ ہو ورنہ وہ ولی نہیں شیطان ہے ؟ لہذا تاریخ میں جن کے کارنامہ جگمگا رہے ہیں ایسے اولیائے کرام سوائے حضور (ص) کی امت کے کسی اور امت کو حاصل نہیں ہوئے۔
پھر اتباعِ سنت کے معیار پر اگر کسی کو پرکھناہے تو حضور (ص) کااوران کے ساتھیوں کا ذکر ہے وہ کس کردار لوگ تھے ۔ یہاں لوگ حواریوں کا ذکر کرسکتے ہیں مگر وہاں صرف ان کے ایمان لا نے کا ذکر تھا ۔ اجتماعی کردارکا ذکر نہیں کہ وہ کیسے تھے پہچان کیا تھی اور بعد میں کیسے نکلے، جبکہ یہاں پوری تفصیل ہے (سورہ ٤٨ آیت ٢٩) میں ہے۔ یہ ذکر تو یونہیں درمیان میں آگیا۔
اب پھر حضور (ص) کی طرف لوٹتے ہیں۔ حضور (ص) کی عظمت کی ایک مثال تحویل کعبہ کا واقعہ رو نما ہو نا ہے ۔ایسا کسی نبی کے لیئے نہیں ہوا کہ ان کی خواہش کو دیکھ کر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے رخِ قبلہ تبدیل کر دیا ہو (سورہ ٢ آیت نمبر١٤٤)۔ ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سب سے پہلے دعوتِ دین اپنے رشتہ داروں سے شروع کرنے کاحکم دیا ان کی قسمت میں سوائے ان کے جو در پردہ مسلمان تھے اورکسی کے ایمان لانے کا وقت ابھی نہیں آیاتھا ، اسی لیئے سوائے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے باقی کسی نے بھی اس موقع پر اسلام قبول کرنے کااعلان نہیں کیا۔
جبکہ فتح مکہ کے بعدآخر میں سوائے ابو لہب ،ابو جہل کے اور ان کے ساتھیوں کے جوکہ غزوہ بدر اور دوسرے مواقع پر مارے گئے یامرگئے، تقریباً سب ہی ایمان لے آئے ؟ یہ شرف بھی صرف حضور (ص) کو ہی حاصل ہوا کہ سب سے پہلے زوجہ محترمہ  حضرت خدیجة الکبریٰ (رض)  ایمان لا ئیں اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور پھر زید بن حارث (رض) جبکہ کسی کا بیٹا ایمان نہیں لایا تو کسی کی بیوی اس سلسلہ میں نوح علیہ السلام کا واقعہ اور لوط کا واقعہ قر آن میں پڑھ لیجئے۔ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) کے بہت سے افعال کو اپنی طرف نسبت فرمائی، مثلاً میرے نبی کی بیعت میری بیعت ہے (سورہ ٤٨ آیت ١٠) ،کنکریا ں میں نے ماریں آپنے نہیں ۔۔۔۔الخ (سورہ ٨ آیت ١٧) پھرصفات کا بیان کرنا کہ آپ نرم دل ہیں (سورہ ٣آیت نمبر ١٥٩) خیر خواہ ہیں(سورہ ٩آیت١٢٨) منصف ہیں( سور٥٤آیت نمبر٦٥) یہ حکم کہ حضور کو (ص) اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھو( سورہ٩آیت٢٤) آپ کا ذکر بلند کیا ( سورہ٩٤آیت نمبر٤) اسوہ حسنہ اتباع کے لیئے کافی ہیں (سورہ ٣٣ آیت ٢١ ) پھر انعامات کا ذکر جو سب بغیر مانگے عطا ہوئے۔ جیسے حوضِ کوثر(سورہ ١٠٨آیت ١)
پھر حضور (ص) کی عائلی زندگی میں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے رسول کی دلجوئی فرماتا نظر آتا ہے؟ جب واقعہ افک میں حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگتی ہے تو اسے اپنے رسول کی دل جوئی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ ان کو سورہ نورمیں اصل حقائق سے آگا ہ فرما دیتا ہے (سورہ نور آیت نمبر ١١)۔ حضرت زینب (رض) کو حضور  (ص)کی زوجیت میں خود دیتا ہے (سورہ٣٣ آیت ٣٧)۔ پھر جب حضور (ص) دین کے مقابلہ میں دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں اور امہات المومنین (رض)  اپناروزینہ بڑھانے کا مطالبہ فر ماتی ہیں تو وہاں بھی اللہ قر آن کے ذریعہ رہنمائی فر ما تا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو خدا اور رسول (ص) کے اتباع پر راضی کر لیتی ہیں پھر امہات مومنین کے آداب بھی بیان کیئے گئے جبکہ کسی اور نبی  (ع)کی بیویوں  کو نہ امت کی مائیں کہا گیا نہ ان کے آداب بیان ہو ئے ہوئے (سورہ٣٣ ۔ آیات نمبر ٦، ٥٣) اپنے رسول (ص) کے اہل ِ خاندان اور عترت کے لیئے۔ آیت ِتطہیر نازل فرماتا ہے کہ میں ان کو پاک کرنا چاہتا ہوں (ً سورہ ٣٣ کی آیت ٣٣) اس کی پوری تفصیل ابن ِ کثیر  نے بیان کی ہے جوکہ بہت طویل ہے وہاں پڑھ لیں۔پھر اپنے سب سے پرانے قانون کو تبدیل کرتا ہے؟ قر آن میں تمام انبیاءکرام فرما تے ہیں کہ ہم تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے ہمارا معاوضہ صرف اللہ کے پاس ہے ۔مگر یہاں آیت مودہ نازل فر ما کر حضور (ص) بھی جو کہ شروع سے یہ فرما تے آئے تھے اور نبیوں (ع) کی سنت تواتر ہ بھی یہ ہی رہی تھی ، اس میں ترمیم فر ماکر اپنے حبیب  (ص)کی زبان ِ مبارکہ سے کہلا تا ہے کہ  ً(اے نبی ) فرما دیجئے کہ میں تم سے کو ئی معاوضہ نہیں مانگتا، مگر میرے قرابتداروں کا خیال رکھنا  ًچونکہ یہاں اس کی تفسیر موجودہ دور کے کچھ علماءنے بدل دی ہے۔ میں آیت کا نمبر دیتا ہوں قر آن میں جا کر پرانے مفسرین کی تفاسیر پڑھ کر آپ خود فیصلہ کرلیں۔( سورہ٤٢ آیت، ٢٣) ۔
پھر امت پر حضور (ص) کے حقوق بیان ہو ئے جس میں یہ فر مادیا کہ رسول کا اتباع میرا اتباع ہے ً یہ بھی فر مادیا گیا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کو اپنے نفس بھی زیادہ نہ چاہے وہ مومن نہیں ہے ً ( سورہ٩ آت ٢٤) پھر سورہ ٣٣ کی آیت ٦ میں حضور کو جان سے بھی عزیز رکھنے کی ہدایت ہے۔ یہ بھی فر مادیا گیا کہ حضور کے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور سورہ ٨ آیت ١٧ میں جوکہ غزوہ بدر کے سلسلہ فرمایا کہ قتل آپ نے نہیں میں نے کیا اور کنکریا ں آپ نے نہیں میں نے ماریں۔ پھر ایک جگہ بات کو یہ فرما ختم فر مادیا کہ یہ جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرما تے سوائے اس کہ جو کچھ ان پر وحی کیا جا ئے (سورہ ٥٣ آیت نمبر ٣،٤ )مومنوں کو بتایا گیا کہ رسول کے اسوہ حسنہ (٣٣۔٢١) ان کے لیئے کافی ہے۔ ان کے اخلاق کی تعریف کی گئی اور خلق ِعظیم کا مالک فرما کر اس کی انتہا فرمادی (سورہ ٦٨آیت٤ ان (ص) کے سامنے حاضر ہو نے کے آداب بتا ئے گئے۔اور ان (ص) کو نظر انداز کرنے پر بتا یا گیا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور تمہا رے اعمال غارت ہو جا ئیں گے (سورہ ٢٤۔ ٦٤ ، ٦٣، سورہ ٤٩ آیات ١تا ٥) ہر شاتم ِ رسول کو سورہ ً ١١١ کی آیات ً ١تا٥ نازل فر ما کر اوران کا انجام دنیا میں دکھا کر ان بد بختوں کو انجام سے با خبردار کردیا گیا کہ جو چاہے ان کی راہ پر چلے مگر برے انجام کے لیئے بھی تیار رہے؟ غرضیکہ حضور (ص) کے فضائل اتنے ہیں کہ کسی ایک چھوٹے سے مضمون میں لا نا ناممکن ہے بلکہ اس کے لیئے بہت ہی ضخیم کتابیں بھی ناکافی ہونگی لہذامیں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کر تاہوںکہ پہلے انہیں رب العالمین نے، رحمت اللعالمین فر مایا ( سورہ٢١ آیت ١٠٧)۔ پھر ان پر قر آن اور دین مکمل فرماکر یہ بھی فرمادیاکہ قیامت تک حضور (ص) کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا( سورہ٣٣ آیت ٣٠)
قصہ مختصر کہ دنیا نے اس شان کا انسان (ص) نہ پہلے کبھی دیکھا نہ آئندہ کبھی دیکھے گی ! اسی لیئے سلسلہ نبوت ہی ختم کر دیا۔ کیونکہ اب کتاب مکمل ہو گئی تھی ، دین مکمل ہو گیا تھا۔ دنیاترقی کی اس منزل پر آگئی ہے کہ کعبہ میں اگر اذان ہو تو پوری دنیا سنے لہذا اب کو ئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم تک پیغام نہیں پہونچا؟ اس لیئے پورے عالم کے لیئے ایک آخری نبی مبعوث فر مادیا گیا جس کادور قیامت تک کے لیئے ہے اور وہ شفاعت پرجاکر ختم ہوگا۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.