حضور (ص) کی سیرت کی بر کات۔۔۔ از شمس جیلانی

قرآن کے بارے میں تو یہ بات مسلمہ ہے کہ اس کا پڑھنا باعث ِ ثواب ہے ۔اس کا سننا بھی باعث ثواب ہے جبکہ اس پر عمل کرنا با عث ِ نجات ہے۔ہم اسے سنتے ہر نماز میں ہیں،ہردکان پر اس کی سی ڈی بھی چل رہی  ہوتی ہے حالانکہ اس کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیئے جس طرح ہماری نمازیں رواجی ہیں اورخلوص سے خالی ہیں اسی طرح اسے بھی ثواب کے لیے نہیں بلکہ کسی خوش الحان قاری کی آواز لوگوں تک پہونچا کر گراہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر نا مقصد ہوتاہے ۔ ممکن ہے میری اس قیاس آرائی پر کوئی صاحب یہ اعتراض کر یں کہ آپ کوئی رو شمن ضمیر ہیں جو دلوں کا حال جانتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تلاوت کا اثرجو مومن کی زندگی پرمرتب ہوتا ہے وہ یہ بتایا ہے کہ “ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے قلوب خوف سے لرزنے لگتے ہیں“ جبکہ بازاروں میں سی ڈی نہ مالک کو غور سے سنتے دیکھا نہ کسی راہ گیر کو لرزتے دیکھا جبکہ پاکستان میں الحمد للہ ٩٧ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ جو لوگ حضور (ص) سے محبت دعویدار ہیں وہ اپنی کاروں میں بھی قرآن کی سی ڈی سن رہے ہوتے ہیں حمد اور نعت سن رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ قرآن کے لیئے حکم یہ ہے کہ جب وہ پڑھا جائے تو خاموش رہ کر ادب سے سنو؟ اور صرف سننے پر ہی بات ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دوسرا تقاضہ رب کریم طرف سے یہ ہے کہ سنو اور کہو ! سنا اور  “عمل کیا  “ جبکہ بازاروں میں تمام کاروبار جاری رہتا ہے ، شور بھی جاری رہتا جسے قر آن نے اسے کافروں کا شیوہ کہا  ہےکیونکہ وہ بھی یہ ہی کرتے تھے؟اس میں جوسبق ہے وہ یہ ہے کہ سننے کے بعد اگراس پر خلوص کے ساتھ عمل بھی کیا تو باعث نجات ہے؟ جبکہ اس پر غور کرنے کی ہمیں فرصت نہیں ہے، اکثریت چونکہ عربی سے نابلد ہے لہذا وہ جانتی ہی نہیں کہ جو کچھ سن رہی ہے اس کے معنی کیا ہیں۔ اور یہ حدیث مدت سے بھولی ہوئی ہے کہ حصول علم ہر مومن اور مومنہ پرفرض ہے؟   اسی طرح یہ ہی صورت حال حضور (ص) کے اسوہ حسنہ (سیرت، ارشادات اورعمل) کے ساتھ ہے کہ بہت سے لوگ حضور(ص) سے محبت کے دعویدار تو ہیں بلکہ کچھ  تو یہاںتک جاتے ہیں کہ میرے دل میں حضور (ص) رہتے ہیں۔حضور (ص) بشارت دیتے ہیں، وغیرہ ، وغیرہ لیکن انہوں نے اپنے دل میں اس پاکیز گی کا بھی اہتمام کر رکھا ہے جو انکا دل حضور (ص) کی قیام گاہ بن سکے؟ اسی شعر سے متاثر ہو کر میں نے ایک قطع کہا تھا کہ ع جن کے دل میں حضور رہتے ہیں، وہ با ادب با شعور رہتے ہیں ان کا شیوہ نہیں برائی ہے، رہ کے دنیا میں دور رہتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں نے اس پر غور کیا کہ حضور(ص)کی ذات گرامی کی شکل میں قر آن کی عملی اور مجسم تفسیر ہمارے پاس ہے لہذا اس میں وہی صفات ہو نا چاہیئے جو خود قر آن میں ہیں۔ یعنی اس کا پڑھنا بھی ثواب ہے اور سننا بھی ثواب ہے اور انکا (ص) اتباع یعنی ان کی راہ پر چلنا باعثِ نجات ہے؟ یہ میں یہ اپنی طرف  سےنہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ قرآن کہہ رہا ہے۔ سب سے پہلے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ فر مایا کہ جو مجھ سے محبت کے دعویدار ہیں ان سے فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو“     پھر ایک دوسری آیت میں فرمادیا کہ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کا اسوہ حسنہ کافی ہے۔ اور تیسری آیت میں یہ کہہ کر بات ختم فرمادی کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فر ماتے سوائے اس کے جو ان پر وحی کیا جائے  “ ہم محبت کے تو سب ہی دعویدار ہیں مگر کتنے ہیں، جنہوں نے حضور (ص) کی سیرت پڑھی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔جواب آپ پر چھوڑتا ہوں؟    ہمارا سارا زور دکھاوے پر ہے خلوص پر نہیں ورنہ یہ صورت ِ حال نہ ہوتی کہ ہم آج فقہی اختلافات کی بنا پر بے دریغ ایک دوسرے کوقتل کر رہے ہیں؟ کیونکہ قر آن نے تو مومنو ں کی تعریف یہ بتائی ہے کہ وہ آپس میں رحیم ہیں۔ لیکن دعوے زبانی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہم میں وہ خوبی نہیں جو قرون ِ اولیٰ کے مسلمانو ں میں تھی۔ کہ حضور (ص)  کےوصال کےبعد بھی سمند ران کے لیئے پایاب ہوتے رہے ان کا خط دریائے نیل میں ڈال دیا گیا تو وہ اپنی سرکشی بھول گیا ،جو صدیوں سے رسم وہاں رائج تھی کہ تغیانی جب ہی دور ہوتی تھی جب ایک دوشیزہ کی بھینٹ دی جاتی تھی؟ افریقہ کے جنگلات میں جب صحابہ کرام (رض) پہونچے تو صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نبی (ص) کے صحابہ ہیں ہمیں ٹھہرنے کے لیئے جگہ دو! تو درندوکی مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو لیے ہوئے جنگل سے جاتی نظر آئیں۔ یہ کس کا فیض تھا یہ نبی (ص) کے اتباع کا فیض تھا جو انہیں بعد میں بھی فیض پہونچا رہا تھا؟ اور یہ فیض صرف صحابہ کرام (رض) تک ہی نہیں رہا اولیا ئے اللہ تک ہی نہیں رہا، بلکہ آج بھی جاری ہے۔صرف رسول (ص) کا ذکر اور اتباع ِ رسول (ص) ضروری ہے؟ بہت سے لوگ آج اولیا ءاللہ کے مزارات پر قابض لوگوں کو دیکھ کر کرامات ِ اولیاءکے ہی منکر ہیں ۔ مگر سب سے بڑے منکر ِ کرامات ابن کثیر (رح) نے بھی یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت عبد القادر جیلانی سے اتنی کرامات تواتر سے سر زد ہوئیں ہیں کہ ان کا انکار نہیں کیا جاسکتا  اوران سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہونچا؟ یہ دنیا آج بھی اللہ والوں سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ حضور (ص)  نےفرمایا کہ “ آخری دور میں جو مسلمان ہو نگے وہ تم (رض) سے زیادہ بہتر ہونگے ؟ جب صحابہ کرام (رض) نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تمہارے درمیان میں، میں خود موجود ہوں تم نے مجھے دیکھا ہے (یہاں یہ بات بین السطور ہے کہ انہوں نے صرف حضور (ص) کوہی نہیں دیکھا بلکہ انکا کردار ، ان پر ہر ضرورت پرہدایت کے لیے وحی آتے دیکھی ، معجزے دیکھے  وغیرہ) تب تم ایمان لا ئے ہو جبکہ وہ مجھے دیکھے بغیر ایمان لائیں گے؟   مگر ہم نے ظلم یہ کیا کہ زبانی دعوؤں کو ایمان اور محبت سمجھ لیا ، پانچ وقت کی نماز پڑھنے کو ہی دین سمجھ لیا جبکہ دین ِ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ جوکہ قر آن اور سنت پر عمل کیئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اگر ہم قر آن اور سیرت پر عمل کریں تو آج بھی ہم میں وہ بات پیدا ہوسکتی ہے کہ حضرت عبد القادر جیلانی کا کردار دیکھ ڈاکو مسلمان ہو جائے؟ہمارے ہاں یوم  میلاد بڑے زور ، شور سے منایا جاتا جو کہ منانا چاہیئے چونکہ آج کی دنیا میں کسی ایک دن کو اہمیت دینے کے لیئے دن منانے کا رواج عام ہے۔ جو اسے بد عت کہتے ہیں پہلے تو شاید وہ معنی نہیں جانتے؟ اگر جانتے ہیں تو اغماض برتے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے سالانہ تبلیغی اجتماع کوتو ہرسال مقررہ تاریخ پر منعقد کریں اور عید ِ میلاد النبی کو مقررہ تاریخ پر منانے کو بد عت کہیں؟ دوسری طرف جو مناتے ہیں وہ اس کا حق پورا ادا نہیں کرتے کیونکہ مدتوں تک میلاد میں صرف حضور (ص) کی  ولادت بیان ہوتی رہی ہے۔ اس کے بعد چند نعتیں اور بس، جبکہ اس موقع پر پوری حاتِ طیبہ بیان ہو نا چاہیئے تاکہ ہم اس سے پورا فیض اٹھا سکیں۔ سوچیئے کیا ہم لوگ بد قسمت نہیں ہیں کہ ہم نے آخری نبی (ص) کا دور پایا ،جس کے بارے میں تمام انبیا ءکرام (ع) خبر دیتے رہے اور یہ آرزو کرتے رہے کہ کاش ہم ان کی امت میں ہو تے ۔مگر ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس اعزاز سے نوازا تو ہم نے نہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی  ویسی قدر جانی جیسا کہ اس کا حق تھا اور نہ ہی اس کے نبی (ص) کی وہ قدر کی جس کے وہ حقدار تھے۔ جس کے لیئے ان کا خود ارشاد ہے کہ وہ مسلمان ہی نہیں جو اللہ اور اس کے رسول (ص) کو سب سے زیادہ نہ چاہے ۔ جس پر حضرت عمر (رض) نے یہ ارشاد سن کر وضاحت چاہی اور فرمایا کہ کیا اپنے نفس سے بھی زیادہ ! تو حضور(ص) نے فرمایا، ہاں! اور جب انہوں(رض) نے اس پر فرمایا کہ میں آپکو اسی حد تک چاہتا ہوں تب حضور (ص) نے فر مایا کہ اب تم واقعی مسلمان ہو !  اوپر ہم نے امتیوں کا ذکر کیا ہے کہ جو واقعی امتی تھے وہ کیسے تھے اور انکا حکم دریاؤں پر وحیوش سب پر یکساں چلتا تھا اور یہ وصف حضور (ص) کی سیرت پر عمل کرنے کی وجہ سے ان میں پیدا ہوا تھا،قرآن میں جا بجا ذکر ہے کہ حضور (ص) کفار کے سامنے سے گزر گئے ، ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہو ئے۔  جبکہ حدیث ہےکہ سامنے ہوتے ہوئے انکو (ص)ابو لہب کی بیوی نہ دیکھ سکی وغیرہ ، وغیرہ، ہمیں حضور (ص) کی سیرت کا فیض حال میں ہی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور ہم آگے آپ تک وہ رو ح افزا واقعہ پہونچا رہے ہیں۔ کہ شاید کہ اتر جا ئے کسی دل میں مری بات؟    ہوا یہ کہ ہم اے آر وائی ٹی وی سے ایک پروگرام جو کہ کوئز کی شکل میں سیرت پر تھا شرکت کر کے آرہے تھے جس میں ہم حضور (ص) کے سیرت نگار ہونے کی وجہ سے مہمان خصوصی تھے اور ہمارے ساتھ ڈاکٹر محمد احمد قادری صاحب بھی تھے ہم نے حسب ِ سابق اپنی تقریر میں سیرت پر عمل کر نے پر زور دیااور ہمارے بعد ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی خوبصورت تقریر حضور (ص) کی سیرت پر فرمائی۔ ہم جیسے ہی اپنی قیام گاہ پر پہونچے ہمارے بھانجے نے گیٹ کھولا، ابھی ہم گھر میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ ایک موٹر بائیک آکر رکی جس سے تین آدمی اترے ایک نے پستول تان کر پوزیشن سنبھال لی اور باقی دو نے وہاں موجود لوگوں کی جو زیادہ تر نوجوان تھے اور اپنے دوستوں کے ساتھ سڑک پر کھڑے تھے ، جیبیں صاف کر نا شروع کردیں ، جبکہ جبیں ہماری بھی ٹٹولیں ہمارے پاس رقم  بھی تھی مو بائل تھا اور ڈاکٹر محمد احمد صا حب کے تو ہاتھ میں موبائل تھا مگر یکایک انہوں نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ تم گھر کے اندر چلے جاؤ ۔ہم نے منہ گھما کر اپنے بھانجے کو دیکھا توانہوں نے ڈانٹا کہ پیچھے مڑ کر مت دیکھو ؟بھانجے نے اشارہ کیا کہ جیسا وہ کہہ رہے ہیں ویسا ہی کریں اور دروازہ بند کر لیں، ہم نے اندر داخل ہوکر دروازہ بند کر لیا؟  اوروہ ڈاکوّں کے پیچھے اپنی کارمیں روانہ ہو گیا جو باہر کھڑی تھی کیونکہ وہ خفیہ پولس میں آفیسر ہے ، اس نے پولس کال کرلی جبکہ وہ وہاں سے آگے جاکر دوسری واردات کر رہے تھے کہ پولس پہونچ گئی، مقابلہ ہوا اور ان میں سے دو مارے گئے اور ایک فرار ہو نے میں کامیاب ہو گیا۔جب ہمارے ہوش بحال ہو ئے تو ہم نے سوچا کہ وہ سب کو تو لوٹ کر لے گئے مگر ہمیں کیوں بخشا ؟ہمارے ساتھ اکثرایسا ہوتا ہے کہ اگر ہم پٹری سے ذراسے اتریں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ خبردار کردیتا ہے، چونکہ پچھلے دنوں ہمارا انحصار بہت زیادہ اپنے بھانجے پر بڑھ گیا تھا اور جہاں جاتے اسی کے ساتھ جاتے لہذا ہمارا خیال یہ تھا کے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے ذریعہ ہمیں یہ یاد دلایا کہ بچانے والے صرف ہم ہیں ؟ جبکہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب جوکہ شیخ ِ ِ طریقت بھی ہیں ، اورتصوف میں بھی انکو بڑاد خل ہے انکا تجزیہ یہ تھا “چونکہ ہم دونوں حضور (ص) کا ذکر کرکے آرہے تھے۔اس لیئے بچ گئے؟ اس کا ذکر جب ہم نے ایک عشایہ میں  کیا جو کہ اس فقیر کے اعزاز میں مشہور نعت گو جناب رفیق مغل نے دوسرے دن عثمانیہ ریسٹورینٹ کراچی میں دیا تھا تو سامعین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ یہ بات کوئی یقین نہیں کریگا کہ انہوں نے آپ دونوں کو چھوڑ دیا ؟ ہم نے انہیں بتایا کہ یہ منظر سرکٹ کیمرے میں محفوظ ہے جو فیض ِ سیرت رسول (ص) کے منکر ہیں ہم ان کو دکھا سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized and tagged . Bookmark the permalink.