وطن ِ عزیز سے ایک اچھی خبر از۔۔ شمس جیلانی

بڑے عرصے سے خبر گرم تھی اور سب سنتے آرہے تھے کہ عمران خان اپنی جماعت تحریک انصاف میں الیکشن کرا رہے ہیں اب اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں؟پہلا نتیجہ بڑا خوش آئند ہے اور اپنی زبان سے کچھ کہہ رہا ہے ۔ یہاں پاکستان میں جسے اب پاکستان کہتے ہیں یہ ایک نئی بات ہے کہ کسی سیاسی پارٹی نے پارٹی کے اندر انتخابات کرائے ہوں۔پرانے پاکستان میں جبکہ اس کے دوحصہ تھے ایک مشرقی اور دوسرا مغربی تو کئی پارٹیو ں نے یہ تجربہ کر کے دیکھا مگر اس کے نتیجہ میں مشرقی حصے میں رمضانیوں کے ہاتھ میں حکومت چلی گئی اور جب عوامی لیگ کے لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم جناب حسین شہید سہروردی مرحوم نے موچی دروازے لاہور میں کھڑے ہوکر یہ کہا کہ ہم مشرقی پاکستان میں زمینداری اور جاگیر داری ختم کر چکے ہیں، اب ہم یہاں بھی زمینداری اور جاگیرداری ختم کر کے دم لیں گےاور زمین کاشتکاروں میں بانٹ دیں گے کیونکہ یہاں ایک ایک زمیندار کے پاس پچھتر ہزار ایکڑ تک زمین ہے؟ یہ اسکندر مرزا کا دور تھا؟اور سہروردی صاحب نے کولیشن بنائی ہو ئی جس میں پارٹنر ریپبلکن پارٹی تھی جو کہ سکندر مرزا کی جماعت تھی۔
بس یہ کہنا تھا کہ انہیں لاہور سے فوراً کراچی طلب کرلیا گیا جوکہ اس وقت دار الحکومت تھا۔ جہاں جنرل ایوب خان پہلے سے تشریف فر ما تھے۔ اسکندر مرزا اس تقریر پر بہت ہی برہم ہو ئے اور انہوں کہا کہ تم فوراً استعفیٰ دیدو اس لیئے کہ تمہیں ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے ایوان کے سامنے جانے دیجئے اگر میں اعتماد کا ووٹ ایوان سے نہ حاصل کر سکا تو میں خود استعفیٰ دیدونگا؟ مگر انہوں کہا کہ نہیں مجھے معلوم ہے کہ اب تمہیں ایوان کا اعتماد حاصل نہیں رہا؟ ورنہ یہ ایوب خان بیٹھے ہیں؟
یہ بات سہروردی صاحب کو بھی پتہ تھی کہ ان سے پہلے بھی ایوب خان وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے لیئے استعمال ہو تے رہے رہیں۔اور یہ پاکستان کو وراثت میں ملے ہیں کیونکہ ان کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نے دس سنیئر افسروں کو نظر انداز کرکے کمانڈر انچیف بنا یا تھا۔ اب اگر وہ استعفیٰ نہ دیتے تومارشل لاءآجاتا جب کہ جمہوریت رہنے سے مواقع ملنے اور بہتری کے امکانات تھے۔ لوگ اس پر حیرت کریں گے کہ انہوں نے اتنے زیرک سیاستدان ہوتے ہوئے ایسی بات کہہ کیوں دی؟ اس کی دو وجو ہات تھیں ایک تو یہ کہ وہ اس کے حامی نہیں تھے کہ ملک میں دو قانون ہوں ایک حصہ فائدہ اٹھائے اور دوسرا نہ اٹھائے، دوسری وجہ یہ تھی کہ انہیں دوسری جماعت نے جو اس وقت اپو زیشن میں تھی اور خود کو مسلم لیگ کہلاتی تھی، اس کی طرف سے یہ یقین دہانی کرا ئی گئی تھی کہ اگر ریپبلکن پارٹی نے آپ کا ساتھ چھوڑدیا تو وہ حمایت کریں گے؟ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز یہ بھی زمینداروں کا ٹولہ ہے اور وہ بھی، مفادات دونوں کے ایک ہیں جن پر اس سے زد پڑرہی ہے۔
جبکہ وہاں بقول شاعر کے حال یہ تھا  ع ً تھا یقیں جو خون بہا ئیں گے پسینہ دیکھ کر   دل ہی میں مضطرب تھے میرا جینا دیکھ کر۔ وہ راتوں رات ادھر سے ادھر ہوگئے اور چندریگر صاحب کو وزیر اعظم بنا کراعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کرنے لگے ۔ اسکندر مرزا نے انہیں پچاس دن تک موقع دیا؟ ادھر سہروردی صاحب نے یہ اعلان کر دیا کہ اگر ریپبلکن پارٹی اپنا امیدوار لاتی ہے تو ہم اس شرط پر حمایت کریں گے کہ ہم اپنا کوئی آدمی وزارت کے لیئے نہیں دیں گے۔ لہذا فیروز خان نون ریپبلکن وزیر اعظم بن گئے جن کو ایوب خان کے مارشلا ءنے الٹ دیا۔ اس وقت بھی یہ ہی حال تھا کہ جنرل ایوب خان اپنا مارشلا ءلارہے تھے۔ اور جمہوری قوتیں اپنا کوئی پروگرام رکھتی تھیں۔؟اس کا ثبوت یہ ہے کہ سہروردی صاحب جوکہ بلوچستان کے دورے پر جارہے تھے اور جیکب آباد میں ٹھہرے ہو ئے تھے کہ ان کو رات کو سوتے سے اٹھا کر جب یہ خبر دی گئی کہ انقلاب آگیا ہے توانہوں نے آنکھیں ملتے ہو ئے کہا کہ ً وہ آج تو نہیں آنا تھا؟ یہ راز جس شخص نے پہنچایا کہ جمہوری طاقتیں انقلاب لا رہی ہیں وہ تھا سہروردی صاحب کا جونیر وکیل جس کو انہوں نے عوامی لیگ کا آفس سکریٹری بھی بنا دیا تھا اور جو بعد میں ایوب خان کی کابینہ کا وزیر بنا۔ وہ کون تھا کیا نام تھا؟ ناموں میں کیا رکھا جانے دیجئے؟
یہ ہی صورت ِ حال پھر ١٩٩٩ ء میں پیش آئی جب مشرف صاحب اپنی بر طرفی سے پہلے مارشلا ءلے آئے اور وہ بھی سری لنکاجانے سے پہلے یہ کام پکا کر گئے تھے اگر مجھے بر طرف کیا جا ئے تو تم اور تم انقاب لے آنا۔  جیسا کہ انقلاب میں ان کے دستِ راست جنرل عزیز  نے پنی کتاب میں لکھا ہے۔یہ ہم نے اب تک کی تاریخ بتادی جو یہ ہے کہ جس نے بھی چوروں کی طرف انگلی اٹھائی وہ نہیں رہا۔ اور ہر انقلاب ہا ئی جیک ہوتا رہا۔ جبکہ اور بھی پیچھے تاریخ میں جائیں تو مسلم لیگ جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ کہلاتی تھی وہ دو آنے کی ممبر شپ کی بنیاد پر بنی تھی جس کو قائد اعظم نے یہ کہہ توڑدیا تھا کہ پاکستان بن گیا لہذا اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستاں بننے کے بعد اس میں وڈیرے اور رئیس آگئے سر غلام حسین ہدایت اللہ گورنر سندھ بنے، جی ایم سید جو پہلے سندھ مسلم لیگ کے صدر تھے نکالے گئے کہ رمضانی تھے اور رمضانیوں کی اب ضرورت نہ تھی؟ پاکستان بننے کے بعد پھر پاکستان مسلم لیگ بنی اور اسی کے نقش قدم پر ہر جماعت بجا ئے نیچے کہ اوپر سے بنتی رہی اور رہی مسلم لیگ اس کے ٹکڑے پارچے ہوتے رہے۔
خدا کرے کہ آئندہ خیر رہے؟
اب پہلی مرتبہ بہت عرصہ کے بعد عمران خان نے ہمت کی ہے۔ اور یوسف خٹک کے شہر کوہاٹ سے ایک ٹیلر ماسٹر صا حب ضلعی تحریک انصاف کے صدر منتخب ہوگئے ہیں یہ وہ علاقہ ہے  جوافغان سرحد پرہے جہاں قتل اور خون کا بازار گرم ہے اگر اس انتخاب کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خوانین اب جان دینے کو تیار نہیں ہیں تو وہاں سے کسی ایک کارکن کا منتخب ہو نا یہ پیغام دے رہا ہے کہ عوام موجودہ حکمرانوں سے نہ صرف جان چھڑانا چاہتے ہیں بلکہ ان میں شعور پیدا ہوچکا ہے ؟اور جب بھی اس قوم میں شعور پیدا ہوا تو اگر پارٹی نے  ٹکٹ کھمبے کو دیدیا تو وہ بھی کامیاب ہوا اس کی پہلی مثال پاکستان کی تاسیس کے لیئے الیکشن تھا۔ یا پھر وہ الیکشن تھا جس سے پاکستان دو لخت ہوا۔ جب عوام جان جائیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے ،ان کو جو ووٹ لینے کے بعد دوبارہ نظر نہ آئیں اور سڑکوں  پربھی نکلیں تو روڈ بلاک کر دیں کوئی غریب اپنے بچے کے لیئے دودھ لینے گیاہو تو وہیں پھنس جا ئے ؟ یا اسے جو جیسا بھی ہو ، انہیں میں سے ہو اور انہیں میں رہتا ہو؟اب تو نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات نے جو آجکل جیلوں کے دورے پر ہیں انہوں  نے جیل کے عملے کو جیل کے اندر فول پروف سیکوریٹی فراہم کر نے کا حکم دیا ہے۔
دوسری طرف دوسری پیش رفت یہ ہوئی کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے حکم دیاہے کہ تمام پارٹیاں دوبارہ نشان کے الاٹمنٹ کے لیئے درخواست دیں اور نشان انہیں پارٹیوں کو دیئے جا ئیں گے جو کہ اپنی پارٹیوں میں اندرونِ خانہ نہیں بلکہ اندرونی اتخاب کرا ئیں گی؟ اگر ایسا ہوا تو فل الحال تودو ہی جماعتیں اس معیار پر پوری اتریں گی ایک تحریکِ انصاف اور دوسری جماعت، جماعت ِ اسلامی، باقی تو سب جدی اور پشتینی پار ٹیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن پر گوکہ بڑا دباو پڑ رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم شفاف انتخابات کرا ئیں گے۔ جو بینکوں کے نادہندگان  ہیں، جوگیس اور بجلی کے نادہند یا اور کہیں ہیرا پھیری کے مر تکب ہو ئے ہیں ، مثال کےطور پرجعلی ڈگریوں والے ،جھوٹے حلف اٹھانے والے وغیرہ وغیرہ، وہ امید وار نہیں ہوسکیں گے، سول سرونٹ جن کے ذریعہ ساری ہیر پھیر ہوتی ہے، ان کو یہ وارننگ دی جارہی کہ اگر کوئی بھی سرکاری ملازم کسی پارٹی کے ساتھ وفاداری دکھا تے ہو ئے پکڑا گیا تو جرمانہ اور سزا کا مستحق ہو گا۔ اس صورت ِ حال میں اگر عمران خان کی پارٹی جھاڑو پھیر دے اور سب سمیٹ  کرلے جائے تو کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی ۔  لیکن ایک چیز ہم الیکشن کمیشن سے عرض کریں گے کہ آپ نے جو فیس بڑھا دی وہ زیادہ ہے ۔اس میں ایسے کسی درزی کی گنجا ئش نہیں جس کی دکان کے شیلف اور میز کرسیاں بھی بوسیدہ ہوں ؟ جبکہ وہ دستور کی دفعات کے تحت امین ضرور ہوگا ۔ جن دفعات کو کہ سب نے بٹے کھاتے میں ڈال رکھا ہے۔ اب حال میں سنا ہے کہ ان دفعات پر عمران خان نے بھی تحفظات کا اظہار فرما یا ۔ شاید ان کے ساتھ بھی وہی مجبوری ہے کہ جو نو وارد انکی پارٹی میں حال میں آئے ہیں وہ ان پر پورے نہیں اتر سکتے۔ یہ ہی حال طاہر القادری صاحب کا بھی ہو سکتا کہ وہ بھی سوچیں کہ وقت کم ہے اگر الیکشن ٹل جا ئے تو مزید کام کر نےکا موقعہ مل جا ئے گا ؟ جیسے کہ عمر ان خان صاحب سوچتے ر ہے ہیں؟ کیونکہ ابھی تک سب ہی کہہ رہے تھے کہ غیر جانبدار الیکشن کمشنر پر ان کو اعتماد ہے جن میں طاہر القادری صاحب  بھی شامل تھے، مگر چند دن ہم نے ٹی وی پر ایک پٹی چلتی دیکھی  جو طاہرالقادری صاحب سے منسوب تھی اور یہ تھی کہ الیکشن کمشنر کا بھی انتخاب آئیں کے مطابق نہیں ہواہے۔ اس کے بعد سے ہم دعا کر رہے تھے کہ خداکرے خیر رہے کہ وہ پٹی غلط  ہواورکسی نے یونہی چلا دی ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ کسی نے یہ پٹی انہیں پڑھا دی ہو وہ سچ ہی ہو۔  ویسے تو وہ صاحب ِ کردار آدمی ہیں جو اس سے ظاہر کہ وہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو ئے اور مشرف کے منہ پر مار کرچلے آئے۔ مگر ہر دعا قبول نہیں ہوتی وہ پٹی سچ نکلی اور انہوں نے پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر بھی کردی۔اور پٹیشن دائر ہونے کے بعد، جواب میں یہ چیف الیکشن کمشنر صاحب تبصرہ بھی آگیا کہ ً اگر ہم گئے تو سب جائیں گے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.