ہم اپنی اقدار اور املاک کے دشمن آپ ہیں؟ از شمس جیلانی

لاہور کو اومنی بس سروس اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو انگریزوں سے وراثت میں ملی تھی جو اس کے نام سے ظاہر ہے ۔اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ ً چاروں اطراف میں چلنے والی بس سروس یا مختصر ترجمہ چوطرفہ بس سروس۔ چونکہ مجھے لاہور دیکھنے کا اتفاق سن ١٩٥٤ ءمیں پہلی دفعہ ہوا تو اسوقت یہ بسیں سڑکوں پر رواں اور دواں تھیں اور اس کا موازنہ اس وقت کی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی بس سروس سے کیا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا مجھے معلوم نہیں کہ میں مدت سے کنیڈا میں ہوں۔ لیکن مجھے ہندوستان اور پاکستان کے شہروں میں سب سے زیادہ جو شہر پسند تھے۔ ان میں لاہور شامل تھا ۔ اور لاہور کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ ہندوستان کا پیرس ہے۔ یہ کہاوت بھی سن رکھی تھی کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا؟ اس کے بعد اس بس سروس کا کیا ہوا جو اب شہباز شریف کو میٹرو بس سروس کا اجراءکر نا پڑا وہ مجھے معلوم نہیں ۔ مگر میں قیاس کر سکتا ہوں کہ جو اور اداروں کے ساتھ ہوا وہی یقیناً اس بس سروس کے ساتھ بھی ہوا ہوگا۔ اگر نہ ہوا ہو توبھی پانچ ساتھ لاکھ آبادی کا شہر جب ایک کروڑ کی آبادی کا شہر ہو جا ئے تو اس کے لیئے بہت پہلے کچھ کرنا ضروری تھا۔ مگر کبھی کہیں پڑھا نہیں؟ یہ اہلیان لا ہور ہی جانتے ہوں  گےکہ اس سلسلہ میں کس کس نے کیا کیا ؟ مگر اب دنیا مختصر ہو گئی کہ جو اچھا یا برا کام کر تا ہے وہ منٹوں میں نہیں بلکہ بعض اوقات سیکنڈوں میں پوری دنیا میں خبروں میں آ جاتا ہے۔ لہذا لاہور کی میٹرو بس سروس کے اجراءکی خبر بھی دنیا بھر میں پھیل گئی ۔ مگر ہمیں اس پر حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا منصوبہ کس طرح میڈیا کی نظر سے پوشیدہ رہا؟ یہ مانا اس میں سنسنی خیزی نہیں تھی جو پروگراموں کی ریٹنگ بڑھا دے لیکن غیر جانبداری کا تقاضہ یہ تھا کہ جہاں اچھی خبریں ناپید ہو ں اور ڈھونڈے سے نہیں ملتی ہو ں اگر کوئی اچھی خبر تھی تو اس کو بہت پہلے آ جانا چاہیئےتھا کیونکہ یہ ایک عظیم کارنامہ تھا جو پنجاب کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور کے آخر میں انجام دیا ۔جس پر ٢٧ یا ٣٠ ارب روپیہ خرچ ہو ئے اور یہ ستائیس میل کا ٹریک صرف گیارہ مہنے میں مکمل ہو گیا جس میں برادر ملک ترکی اعانت بھی شامل تھی ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا پہلے میڈیا نے با لکل ذکر نہیں کیا؟ سب کو خبر اسوقت ہوئی جب اسکے افتتاح کا اعلان ہوا ۔ اب کچھ تفصیل ملی ہے تو وہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے دن اور رات کام کی خود نگرانی کر کے یہ تحفہ اہلِ لاہور کو گیارہ ماہ میں دیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ الیکشن اسکورنگ  کے  لیئے انہوں نےاٹھا رکھا تھا ، مگر مرکزی حکمراں پارٹی کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ یہ عیا شی ہے اور خوامخواہ اتنی  رقم ضائع کردی  انتہا ہے؟ جبکہ ہو نا یہ چا ہیئے تھا جیسا کہ دنیا کے مہذب ملکوں میں رائج ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن ہر ایک تعمیری کام کی تعریف کر تی ہے اور کرنے والوں کو مبارکباد دیتی ہے؟ اس کا تقاضہ تھا انہیں مبارکباد دی جاتی، مگر ہوا اس کا الٹ کہ جس دن اس کا افتتاح ہونا تھا اور ترکی  کےنائب وزیر اعظم اس میں شرکت کرنے کے لیئے آئے ہوئے تھے، اس سے ایک دن پہلے اول تو میڈیا نے وہ لوگ دکھا ئے جن کو معاوضہ کی ادا ئیگی نہیں ہو ئی تھی اور ان  کے کا روبار یا مکان اس میں آگئے تھے۔ یہ صرف چند آدمی تھے۔ جبکہ میرے خیال میں ستائیس میل میں ہزاروں مکان آئے ہونگے لہذا اس کے افتتاح کے خلاف ہزاروں آدمیوں کو سڑکوں پر ہونا چاہیئے تھا۔ جبکہ انتطامیہ نے ادائے گی نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ کچھ ریکارڈ جل گیا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو معاوضہ نہیں مل سکااور پرسوں تک سب کو ادا کردیا جائے گا جو بھی واقعی مالک ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ جو میڈیا اس کا مثبت پہلو نہیں اجاگر کرسکی وہی میڈیا اس کا یہ برا پہلو سامنے لانے میں پیش پیش رہی اور کئی دن تک یہ کلپ دکھاتی رہی؟ کیا یہ غیر ذمہ داری کا ثبوت نہیں ہے؟
دوسری اہم خبر اسی دن یہ تھی کہ جناب صدر زرداری کا ایک محل لاہور میں بھی تیار ہو گیا ہے اور اس کا افتتاح کرنے وہ خود تشریف لا رہے ہیں۔ جبکہ یہ ہی خبر دودن کے بعد اس خبر سے بدل گئی کہ صدر صاحب تو نواز شریف صاحب کے بھائی کے انتقال پر ان سے تعزیت  کرنے تشریف لائے تھے،جس کی انہوں نے اجازت نہیں دی واضح رہے جبکہ ان کے انتقال کو میرے خیال میں مہینے سے زیادہ ہوچکا ہے؟  پھر پی پی پی کے رہنماؤں کا اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہوا کہ افتتاح میں صدر کوبھی بلانا چاہیئے تھا؟ جبکہ یہ افتتاح سڑکوں پر ہونے جارہا تھا ؟ اور صدر صاحب سات سے بھی زیادہ پردوں میں رہنے کے عادی ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ وہ افتتاح گورنر ہاوس میں فیتہ کاٹ کر کرنے کے عادی ہیں۔ لہذا صدر صاحب تو یہاں آنہیں سکتے تھے۔ بس ایک ہی صورت تھی کہ بس کو صدر صاحب کے محل لے جا کر فیتہ کٹوایاجاتا؟ اس رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیئے۔ جوینگ ڈاکٹرپی پی پی سے تعلق رکھتے تھے ان کو موبلائزڈ کرنے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی پارلیمانی کمیٹی کے نائب صدر شوکت بسرا ڈاکٹروں کی ہمدری یا رہنمائی کے لیئے تشریف لے آئے۔ جبکہ صوبائی حکومت اپنی سی ہر کوشش کر چکی تھی معاملات طے کرنے کے لیئے جس کا ثبوت یہ تھا کہ ایک  رات پہلے چھ گھنٹے کے مذاکرات کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
یہ وہ ڈاکٹر ہیں کہ جن کی کئی سال سے ہڑ تالیں جاری ہیں اور مریض مصیبت میں ہیں۔ سنیئیر ڈاکٹر ان کے ہاتھوں پٹ چکے ہیں ۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔مگر اس موقعہ پر جبکہ غیر ملکی سفیر اور ترکی کے نائب وزیر اعظم موجود تھے تو انکے پیشے کے وقار کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ اس مقام سے دور رہتے بجا ئے اس طرف آنے کے، اس پر لاٹھی چارج ہوا اور آنریبل ممبر کو چوٹیں آئیں۔ اس کے بعد بھی گھنٹوں تک ایوان صدر سے کو ئی رد ِ عمل نہیں آیا، جب میڈیا نے یہ سوال پوچھا کہ کیا صدر صاحب نے خیریت دریافت کی اور کیا وہ عیادت کو آئے یا آنے کا ارداہ رکھتے ہیں؟ جواب میں مجروح کی طرف سے خاموشی تھی۔ کہ یکاک صدر صاحب کو یاد آیا کے ہم اپنے ورکروں کے وارث  بھی ہیں اور وہ اسپتال بھی پہونچے کسرا صاحب کے ماتھے پر بوسہ بھی دیا ؟
اس معاملہ کی مطابقت تھوڑی سی صدر جانسن والے کیس سے ملتی ہے کہ وہ بشیر ساربان کی اونٹ گاڑی دیکھنے کے لیئے اترے اورانہوں نے اس سے ہاتھ ملایا؟ پھر ابراہیم جلیس مرحوم نے اس پر کالم لکھ مارا شرما حضوری کو انہوں نے ابراہیم جلیس اور بشیر ساربان  کو واشنگٹن بلا کر شرف میزبانی بخشا ۔ یہاں بھی اسی طرح ، اس کا سہرا میڈیا کے سر جاتا ہے کہ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ پھر پہلا رد ِ عمل مرکزی وزیر داخلہ جناب عبد الرحمٰن ملک  صاحب کا آیا کہ یہ بس سروس کہیں برسٹ سروس نہ بن جا ئے۔ یہ روایت ہم نے اپنے یہاں ہی دیکھی کہ اگرکوئی اچھا کام کرے اور اپنا بندہ نہ ہو تو اس میں کیڑے نکالے جا ئیں ؟ ایک عوامی منصوبے کو عیاشی کہا جائے ؟جبکہ اپنے آدمی کئی سو ارب کا گھپلا کرکے ملک سے بھاگ جا ئیں تو انکی اعانت کی جائے۔
یہ تھے سرکاری حلقے اب آئیے انکا رد ِ عمل دیکھتے ہیں کہ جو عوام کل تک کہہ رہے تھے کہ لاہور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں اس بس سروس کی وجہ سے شامل ہو گیا؟ دوسرا دن ان کے لیے خود کو ترقی یافتہ ثابت کر نے کا تھا جبکہ وزیر اعلیٰ نے کہدیا تھا کہ  “ یہ آپ کی ملکیت  ہےاور حفاظت کرنا آپکا فرض ہے، اور یہ سروس  دوسرے دن سے ایک مہینہ تک لاہور کے شہریوں اور کے لیئے  اوران مہمانوں کے لیئے مفت ہے “ وہاں وہی افراتفری نظر آئی جو ہمارا  آجکل طرہ امتیاز ہے۔ اسلام جس نے سب سے پہلے دنیا کو صف بندی کا سبق دیا تھا جہاں قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے صف بندی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیئے فرشتوں کی صف بندی  کی قسم کھائی ہے، وہی قوم آج خود کو ہر قسم کی تنظیم سے بالا تر سمجھتی ہے۔ جس کا آئے دن نمونہ کھانے کی میز پر سڑکوں پر غرضیکہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔کہ کوئی قطار نہیں چاہتا کہ پہلے میں اپنی پلیٹ بھر لوں جدھر سے چاہوں اپنی کار نکال لوں ۔ یہاں بھی وہی منظر تھا جو ٹی وی دکھا رہا تھا اور دنیا دیکھ رہی تھی کہ یہ ہم کتنی مہذب قوم ہیں۔سب کے سب بہ یک وقت بس کے اندر داخل ہو نے کے چکر میں تھے ، بغیر یہ سوچے ہوئے کہ اس کے نتائج  کیا نکلیں گے ۔؟یہ ہی کہ نازک ربڑ جو سائڈوں میں لگی ہے وہ اوکھڑ کر دروازے کے ساتھ باہر آجائے گی ؟دو سرے دن وہی نئی بسیں زخمی نظر آئیں کسی کے شیشے ٹوٹے ہو ئے تھے کو ئی دروازہ ربڑ نکل جانے کی وجہ سے ہل جل نہیں رہا تھا میڈیا میں خبر تھی کہ پندرہ بسیں ورکشاپ داخل ہونگئیں اور  یہ کہ حکومت  نےلائن بنانے کے لیے پولس لگادی ہے اب لوگ اچھے بچوں کی طرح شرافت کا ثبوت دیے رہے ہیں۔وزیرَ اعلیٰ صاحب اپنی  قوم کوجانتے تھے کاش وہ یہ کام پہلے ہی کرلیتے؟ آثار یہ ہی ہیں کہ بقیہ بسیں بھی چند دنو ں کے بعد نایاب ہو جا ئنیگی۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ کسی نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دیدی ہے کہ اس کے لیئے سڑک مخصوص کیوں کی گئی، ٹریک الگ کیوں بنایا گیا اور عام ٹریفک اس ٹریک پر بند کیوں کردیا گیا۔ لہذا حکم ِ امتاعی جاری کیا جائے۔ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے بلا تبصرہ چھوڑتے ہیں ۔ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوا تو وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا جو کہ اس کاتھا۔ یعنی وقت کی بچت ؟یہ بھی اسلام کاطرہ امتیاز ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی اور وہ مسلم قوم ہی ہے جو سب زیادہ وقت ضائع کرتی ہے۔ اگر عام ٹریفک اس رستے پر چلنے کی اجازت مل گئی تو وہی حالت ہو گی جو باقی ٹریفک کی ہے کہ ہر جگہ ٹریفک جام ہوگا اور کوئی ادھر سے گھس رہا اور کوئی ادھر سے۔ اگر مہذب ملکوں کا ڈرایئورہمارے یہاں آجائے تو صبح سے شام تک وہ ایلڈ (راہ ملنے )کے انتظار میں کھڑا رہے گا اور اسے راستہ ہی نہیں ملے گا؟  جبکہ ہمیں لوگ یہاں آتے ہیں تو دیکھئے کس طرح لائن میں لگ کر ہر کام کرتے ہیں ؟ مجال ہے کہ بغیر انڈیکیٹر دیئے کوئی اپنی لائن کراس کرے یاجس کا حق ہو اس کو تر جیح نہ دے۔ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے ؟ یہاں اس لیئے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے کہ چاہے ملک کا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کریگا تو نہ صرف چالان ہو جائے گا، بلکہ وزارت سے بھی استعفیٰ دینا پڑیگا۔ جبکہ کچھ دنوں پہلے ہم نے لاہور ہی کی ایک خبر پڑھی تھی کہ ایک پولیس آفیسر صاحب کسی پارک میں بند رنگین شیشوں کی گاڑی میں بیٹھے مشروب سے شغل فرمارہے تھے۔  کہ دو پولس والوں کی شامت جو آئی تو انہوں نے انہیں چیلینج کردیا لہذا ان پولیس والوں کو حوالات میں بند تو ہم نے دیکھا پھر پتا نہیں کیا ہوا؟جرم یہ تھا وہ صاحب ایک بڑے پولس  افسرتھے۔ اور انہوں نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈالی تھی۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.