شریک ِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔۔۔از شمس جیلانی

بے حسی اوربے حمیتی کی انتہا ہے کہ پانچ دن کوئٹہ میں ہزارہ برادری اپنے پیاروں کی میتیں سامنے رکھے مسلم قوم کوغیرت دلاتی رہی مگر پہلے تو چار دان تک اثر ہی نہیں ہوا۔جب مکمکا ہوگیا تو ایک وفد اسلام آباد سے بھیجدیا گیا جس نے علماءسے بند کمرے میں کانا پھوسی کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ دھرنا بغیر کسی نتیجہ پر پہونچے اور مطالبات تسلیم کیئے ختم ہو گیا ۔بند کمرے میںکیا کہا ہوگا کونسی مجبوریاں گنائی گئی ہوںگی !میں تصور تو کر سکتا ہوں مگر حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہہ سکتا کہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہے؟ اور قوم جو ان کی حمایت میں پہلی دفعہ پورے پاکستان میں جمع ہوئی تھی، میڈیا پر دھر نا ختم ہو نے کا سن کر ایسی بھاگی جیسے کہ بچے مدرسہ بند ہونے کے بعد گھر کی طرف بھاگتے ہیں، کیونکہ وہ دیکھ رہی تھی طاہر القادری صاحب کا دھرنا پانچ دن چلا ،یہ دھرنا بھی اتنا تو ہو چکا تھا آگے کئے دن اور چلتا تو اس موسم میں جب کہ بارشیں ہو رہی تھیں وہ لوگ جو کہ پر آسائش زندگی کے عادی ہیں کب تک بیٹھے رہ سکتے تھے ؟انہوں نے اس کا بھی انتظار نہیں کیاکہ جو اہل ِ معاملہ ہیںانکا اس پر ردِ عمل کیا ہوا؟ جوکہ چند منٹوں کے بعد ہی سامنے آگیا کہ ہمیں منظور نہیں ہے لیکن اتنی دیر میںکھیل بگاڑا جا چکا تھا۔ جو کہ حکومت کا مقصد تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ پوراکھیل ہے کیا ۔ اس کے لیئے پہلے یہ شجرہ سمجھ لیجئے جو کہ بعض  جگہ تین واسطوں سے اور بعض جگہ چار واسطوں سے شیطان ِ بزرگ تک پہونچتاہے۔
میں اکثر لکھتا رہا ہوں کہ پاکستان بنتے ہی اسپر کسی کا سایہ ہوگیا تھا؟ اسکی کئی وجوہات تھیں ! پہلی وجہ تو یہ تھی ہمارے یہاں اب وہی تاریخ باقی بچی ہے جو پاکستان بننے کے بعدنصاب ِ تعلیم میں داخل کی گئی اور پڑھائی گئی، دوسرے یہ کہ حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ کوئی دوا کڑوی ہو یا میٹھی وہ ہائی ڈوز سے شروع نہ کی جائے، کیونکہ لوگ سچ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔سچ یہ ہے اگر آپ سننا چاہیں تو، پاکستان بننے سے پہلے ہی زیرِ سایہ ا گیا تھا؟ جب عبوری حکومت میں مسلم لیگ شامل ہوئی تو اسی رات اسپر وقت کا جن عاشق ہو گیا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کل تک جو وزیر حلف اٹھانے والے تھے۔ اور نہ صرف شیروانیاں نئی سلوالائے تھے۔ بلکہ اپنے دوستوں کو بھی شملہ میں مدعو کر آئے تھے؟ ان کی جگہ صبح کو دوبا لکل نئے نام آگئے جنکا تحریک پاکستان میں کوئی حصہ نہیں تھا ان میں سے ایک تھے اچھوت رہنما جوگندر ناتھ منڈل اور دوسرے تھے راجہ غضنفر علی خان۔ جبکہ جو آتے، آتے رہ گئے، وہ تھے نواب اسمعیل خان آف میرٹھ اور خواجہ ناظم الدین۔ نئی نسل ان دونوں کو نہیں جانتی ہوگی بس یہ سمجھ لیجئے انکی خدمات بھی اتنی ہی تھیں جتنی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی عمراور یہ دونوں قائد اعظم کے انتہائی معتمد ساتھی تھے؟ ان کے بدلے میں جو لوگ لیئے گئے تھے ۔ان میں سے جوگندر ناتھ منڈل کبھی مسلم لیگ میں نہیں رہے ،انکی اپنی پارٹی تھی جو پاکستان میں بعد میں وزیرِ قانون اور آباد کاری بنے اور کچھ ہی عرصے کے بعد انڈیا چلے گئے اور دوسرے شروع سے ہی برٹش حکومت کے منظور نظر تھے اور لگاتار مختلف عہدوں پر نامزد ہوتے چلے آرہے تھے چاہیں وہ سر چھوٹورام کی حکومت ہو چاہیں سر خضر حیات کی جن پر وہ١٩٤٥ءتک فائز رہے اور انہیں یہ بھی فخر حاصل ہے کہ وہ ہندو ریاست الور کے وزیر ِ اعظم بھی ر ہے، پھر عبوری حکومت میں، مسلم لیگ کے کوٹے میں وزیر، صحت بنے ۔ یہ مسلم لیگ کی تاریخ میں پہلی تبدیلی تھی جو اس سایہ کی وجہ سے ہوئی، قصہ مختصر اسکے بعد ہر تبدیلی میں اسی سایہ کا ہاتھ رہا جو آج تک جاری ہے۔
اب سایہ کی اصل آپ کو بتاتا ہوں، دوسری عالمی جنگ نے برطانیہ کے کس اور بل نکال دیئے تھے۔ جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔ اسی کا مقبوضہ علاقہ جسے جنوبی امریکہ کہتے تھے سب سے پہلے وہ اس کے چنگل سے طاقت کے زور پر علٰیحدہ ہوا۔ جسے اتحادی بعد  میں مناکر اپنی جنگ لڑنے پر تیار نہ کرلیتے تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا؟ بہر حال وہ برطانوی شہنشاہیت کا جانشین اور اتحادیوں کا نجات دہندہ بن کر ابھرا اور اس نئی شہنشاہیت کا دارالحکومت بظاہر واشنگٹن تھا مگر عملی طور نیویارک کی وال اسٹریٹ تھی ۔ جسے قائم اور محرک کرنے میں سرمایہ دارکئی صدی سے کوشاں تھے جہاں ان کی قائم کردہ کمپنیوں کے دفاتر اور اسٹاک ایکس چینج تھا۔ انہوں نے اس ابھرتی ہوئی طاقت کو ایک نیا نظریہ دیاوہ تھا معاشی شہنشاہیت جوکہ فوجی شہنشاہیت کے بجائے زیادہ بے ضرر اور سود مند تھا ؟ فوجی شہنشاہیت میں خرابی یہ تھی کہ اس میں ظلم کریں تو بدنامی ہوتی تھی، جبکہ ہنگامے ہوتے رہتے تھے ،جس کی وجہ سے بہت بڑی فوج رکھنی پڑتی تھی۔ اس کے برعکس معاشی شہنشاہیت ان تمام نقائص سے پاک تھی۔ کیونکہ دنیا کی ساری دولت کا مرکز اب نیویارک کی ایک اسٹریت تھی جو وال اسٹریٹ کہلاتی ہے اور وہ اسی ملک میں واقع تھی۔
جبکہ اصل منصوبے کو لوگوں کی نگاہ سے چھپانے کے لیئے وال اسٹریٹ کی وال ہالینڈ سے ملادی گئی مگر اس کے پیچھے رہنے والے اذہان میں کوئی اور وال چھپی ہو ئی تھی۔ اس وقت ان سرمایہ داروں کی تعداد کا مجھے علم نہیں، لیکن اب جو دنیا کو کنٹرول کرتی ہیں اور کارپوریشنزکہلاتی ہیں اور ان کی تعد داد ٣٩ہے ۔ جو دراصل پسِ پر دہ دنیا کے اصل حکمراں ہیں ۔ اور کسی کو یہ جرا ءت نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کر سکے؟
کیوں ؟اس لیئے کہ وہ فنا نسر ہیں اور میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے؟ وہ جب چاہیں جس کو چا ہیں اس کو ذلیل کر سکتے ہیں یا ایک رات میں آسمان پر چڑھاسکتے ہیں۔ انہوں نے معاشی شہنشاہیت کی سول ڈسٹری بیوٹر شپ اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اور حکمراں ان کے سب ایجنٹ ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب انہیں مجبوراً ہی کہیں لڑنا پڑجائے تو پڑجا ئے ؟ ورنہ سب ایجنٹ اسلحہ اور رقم انہیں سے لیتے ہیں اور فوج بنا کر آدمی اپنے مرواتے ہیں؟ اس کا فائدہ یہ کہ ان کی مرضی کے بغیر دنیا میں کوئی حکمراں نہیں بنتا اگر بن جا ئے تو رہ نہیں سکتا؟ اگر ایک کی حمیت جاگے اور وہ بغاوت پر اتر آئے تو دس انہوں نے اور لائن میں لگا ئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تجربہ بتا تا ہے کہ وہ ہر گھوڑے پر اس نظریہ سے پیسہ لگاتے ہیں کہ جو جیتے وہ ان کا ،لہذا ہر جگہ کی اپوزیشن بھی ان کی ہے اور حکومت بھی ان ہی کی ہے۔ ساری دنیا کی قومیں متلاشی رہتی ہیں کہ شاید یہ ہمارا ہو ،جو بڑھ چڑھ کر باتیں بنارہا ہے،اور ان کو برا بھلا کہہ رہا؟  جبکہ حقیقت  یہ کہ ع  کہ “ جو انکا ہے ہمارا ہونہیں سکتا “اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے الیکشن سے پہلے جو برا بھلا کہہ کرآتے ہیں ! الیکشن کے بعد ان کے غبارے سے ہوا کیوں نکل جاتی ہے؟ دراصل جس پمپ سے غبارے میں ہوا بھری ہو ئی ہوتی ہے وہ پمپ بھی انہیں کا ہوتاکہ کوئی دشمن نہ آنے پائے اس لیئے کچھ حکومت میں ہوتے ہیں کچھ اپوزیشن میں ہوتے ہیں دونوں اپنے ڈائریکٹروں کا دیاہوا کردار پلے کر رہے ہوتے ہیں۔
جس کا اسکرپٹ کوئی اور لکھ کر دیتا ہے۔ اس کا توڑ اگر کچھ ہے تو وہ عوامی انقلاب ہے مگر اس کی قیادت بھی عموماً ان کے ہی آدمی کر رہے ہوتے ہیں ۔ آنکھ جب کھلتی ہے کہ انقلاب کے بعد اس پر سے پردہ اٹھتا ہے؟
اسے گروہ کو یہ سمجھ کر کہ اس نے خود اپنا ملک شہنشاہیت سے لڑکر چھڑایا تھا ۔ اسے اپنی غلامی کادور یاد ہوگا اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا گیا اور اس نے دنیا میں کچھ دنوں اپنے کردار سے یہ ثابت بھی کیا۔ اس طرح اسے پوری دنیا میں اثر رسوخ حاصل ہو گیا؟ لوگوں کو بہت بعد میں احساس ہوا کہ ایک غلامی سے نکل کر وہ دوسری غلامی میں پھنس گئے اور جس نے قرض لے لیاوہ تو پھنسنے کے بجا ئے قعر مذلت میں دھنستا چلاگیا۔
پاکستان پر ان کا عملی قبضہ اس وقت ہوا جب انہیں اپنے ہی سابقہ اتحادی روس کے خلاف جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیئے خطرہ تھا۔لڑنے کے لیئے مدد درکار ہوئی کیونکہ وہ سرما یہ داری نظام کے خلاف تھا ۔ جبکہ پاکستان میں کمیونزم کے خلاف پہلے سے ہی علماء تقریروں پر تقریریں کرتے چلے آرہے تھے۔ بغیر یہ سوچے ہوئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیشہ کئی طاقتیں بہ یک وقت رکھیں اور کبھی ایک طاقت کو سپر پاور نہیں بننے دیا۔ جس کا ذکر قر آن میں بھی کئی جگہ ہے اور ہمیں غور کرنے کا حکم بھی ہے۔ مگر ہماری ویژن اتنی ہی رہی کہ ہم چند قدم سے آگے کبھی نہیں دیکھ سکے۔ اور ہم نے ایک سپر پاور کاساتھ دے کر دوسری کو ختم کرنے میں مدد دی؟ ایسا کرنے پر ہم اس لیئے مجبور تھے کہ برطانیہ نے ایک صدی پہلے سعودیوں کو عالم اسلام کا چودھری اس لیئے مقرر کیا تھا کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کرے؟ جس کا پہلا مقصدنام نہاد خلافت عثمانیہ کو ختم کر نا تھا اور دوسرا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کر نا تھی ۔ جو کہ بد عت کے نام پر ساری دنیا میں اس نے پھیلادی ۔ اس پرظلم  یہ ہوا کہ ایران میں اسلامی انقلاب آگیا ،قطع نظر اس کے کہ وہ کیوں آیا کیسے آیااور کون لایا، بنی صدر کون تھا ؟ مگر آخرمیں وہ علامہ خمینی کے کنٹرول میں آگیا اور انہوں نے پہلافتویٰ یہ دیدیا کہ اہل ِ تشیع سنی امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔یہ ایک ایسا اعلان تھا جو اسلامی اتحاد کی طرف لے جاتا تھا۔اور وہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری جو اپنے مسلک کی مساجد بنانے اور مدارس چلانے پر خرچ ہوئی تھی تباہ ہوجاتی۔ لہذا اس نے فوراً اپنے سب سے با اعتماد اور محترم عبد اللہ بن باز کو پاکستان بھیجا جو اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکال کر کورنگی کے ایک مدرسہ میں چھ مہینے مقیم رہے ۔ جب گئے تو وہاں سپاہ صحابہ بن چکی تھی؟ اس کے ردِ عمل میں سپاہ محمدی بن گئی۔اور فتنہ فساد کا جو بازار گرم ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ اور اسوقت تک یہ جاری رہے گا جب تک ان مذہبی مدرسوں کے نصاب میں یہ شامل ہے کہ اہل ِتشیع کافر ہیں میلاد ی کافر ہیں ، رسول اللہ کہنے والا کافر ہے اور مزاروں پر جانے والے کافر ہیں ۔ یہ بد عت اور وہ بدعت اور جب تک ہر جمعہ کے خطبے میں ان کے امام منبر پر چڑھتے ہی یہ کہتے رہیں گے کہ “ بدعت گمراہی ہے اوربدعتی گمراہ ہیں اور تمام گمراہ داخل ِ جہنم ہونگے  “امام صاحب جو کہتے ہیں اس میں مجھے کلام نہیں لیکن لگے ہاتھوں وہ بدعت کی تشریح بھی کردیں ایمانداری کے ساتھ تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر وہ اسے جان کرکے تشنہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر نئی ایجاد بدعت ہے جوکہ بدعت کے عربی میں لغوی معنی ہیں تو پھر مسلک ِ بدعت سازاں بھی بد عت ہے کیونکہ یہ بھی نئی ہے؟ جبکہ اس لفظ کی اگر اسلامی تشریح کی جا ئے تو بدعت صرف وہ ہے جو کہ حضور (ص) کے مسلمہ عمل کے خلاف کوئی کام کیا جائے؟ جب تک لوگ یہ پڑھتے رہیں گے تقریروں میں سنتے رہیں گے کہ ساری بدعتی کافر ہیں اور انہیں مارنا ثواب ہے اس کا صلہ جنت ہے، جنت جانے کے لیئے نقد معاوضہ بھی بطو ایڈوانس ملتا رہے گا؟ تو یہ اس کے مترادف ہے کہ چپڑی اور دو دو ؟ لہذا یہ سلسلہ جارہے گا۔ جبکہ اس کا تدارک یہ ہے کہ یہ نفرتی نصاب بند کرکے مدرسوں میں انہیں یہ آیت پڑھا ئی جائے کہ “ ایک انسان کاقتل ِ ناحق پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسانی جان بچانا پوری انسانیت کو بچاناہے “ یہ پورا معاملہ اس چھوٹے سے مضمون میں سمونامشکل کام تھااس کے لیئے ایک ضخیم کتاب  کی ضرورت تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس مسئلہ کوسمجھانے کی میں نے ناکام کوشش کی ہے جو عام فہم نہیں ہے لیکن سمجھداروں کے لیئے کافی ہے۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا اور تمام فریقوں کی سوچ کے لیئے چھوڑدیاتاکہ وہ کوئی اسکا حل تلاش کر سکیں دنیا میں امن کے لیے۔ یہاں ایک شعر پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں۔یہ کس کا ہےمجھے معلوم نہیں ۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی
شریک ِ جرم  نہ ہوتے تو مخبری کرتے(نمعلوم )

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.