کراچی میں لاشوں کے بیوپار کی تاریخ۔۔۔ازشمس جیلانی

ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی ایک جن پاکستان پر عاشق ہوگیا تھا۔ ملک بڑا تھا اس کو بقیہ ملک کے لیے تو اپنے نمائندے مل گئے ۔کیونکہ وہاں لوگ پہلے ہی قبائل اور ذاتوں میں بٹے ہو ئے تھے۔ لیکن سندھ اور خصوصاً کراچی کے لیئے کوئی نہیں مل رہا تھا اس کی دو وجوہات تھیں، ایک تو یہ نیا شہر تھا دوسرے یہ کہ یہاں سندھی تہذیب رائج تھی جو اصل میں عربی تہذیب سے ماخوذتھی لہذا سندھیوں میں وہ تمام صفات تھیں جو کبھی عربو ں کا طرہ امتیاز تھیں۔ مثلا ً مہمان نوازی اسلامی بھائی چارہ وغیرہ وغیرہ۔ مہاجروں نے اس سے کافی فیض پایااور جو لوگ یہاں آکر آباد ہوئے اس مہمان نوازی کی وجہ سے ،ان میں لحاظ تھا اور وہ چونکہ پورے ہندوستان سے آئے تھے لہذا ان میں نہ فرقہ پرستی عروج پر تھی نہ ہی کسی اورقسم کا تعصب؟ اس لیے یہاں اسے نمائندہ ملنا مشکل ہو رہا تھا جو یہاں آپس میں فرقہ واریت کی خلیج پیدا کرے اور لڑائے۔
اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ بنگالیوں نے جو شروع سے ہی ہندو اکثریت سے جان چھڑانے کے لیے کوشاں تھے اور قر بانیاں دیتے آئے تھے، انہوں نے ١٩٥٦میں پاکستان کو دستور دینے کی خاطر ایک قر بانی اور دے ڈالی کہ اپنی اکثریت چھوڑ کر جو کہ پاکستان کی کل آبادی میں ٥٤فیصد تھے، مساوی نمائندگی تسلیم کر لی اور یہ طے پایا کہ مغربی پاکستان جو کئی صوبوں اور بہت سی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا ان سب کو ختم کر کے ایک یونٹ بنادیا جائے تاکہ نمائندگی میں برا بری ہوسکے ؟ چونکہ اسلام نے سب سے زیادہ زور انصاف پسندی پر دیا ہے اس لیے مسلمانوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہم اس کا الٹ کریں گے؟ مشرقی پاکستان کو تو شکایات پہلے دن سے ہی تھیں۔ اب مغربی پاکستان کو بھی با لکل آج کی طرح ،لاہور بہت دور دکھا ئی دینے لگا ئی جو کہ ون یونٹ کا دار الحکومت تھا شکایا ت اور نفرتیں بڑھتی گئیں حتیٰ کہ اس جن کے ایجنٹوں نے پاکستان کو آدھا کرنے کا فیصلہ کیا اور ہمارے دوست اور دشمن دونوں اس میں معاون بنے نتیجے میں پاکستان آدھا رہ گیا۔ تو اس وقت کے آمر جنرل یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کو چار صوبوں میں تقسیم کر دیا۔چونکہ سندھ صوبہ تحریک میں سندھی محاذ نے بہت کو شش کی تھی لہذا بلا امتیاز سب نے ایک کنوشن بلایا جوکہ نواب زاہد علی خان مرحوم کے بنگلے پر حیدر آباد میں منعقد ہواجس کی صدارت عبد المجید سندھی مرحوم نے کی، اس میں یہ طے پایا کہ یہ جماعت، امتیاز کے بغیر نئے اور پرانے ہر قسم کے سندھیوں کی نما ئندہ جماعت ہو گی۔ یہ بات جن کو پسند نہیں آ ئی اور اس کے ایجنٹوں نے نواب زاہد علی کے ہی برادرِ نسبتی نواب مظفر علی خان مرحوم کو اس کے توڑ کے لیے مقرر کیا اور انہوں نے مہاجر ،پنجابی، پٹھان محاذ پرانے سندھیوں کے خلاف بنا ڈالا۔ اس کے بعد زبان کا مسئلہ اٹھا کر سندھ میں پہلی دفعہ نفرت کا گراف اس قدر اونچا لے گئے کہ کراچی حیدر آباداور میر پور خاص میں لسانی ہنگامے ہو ئے ۔ لیکن مرحوم کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اس کا پھل نہیں کھاسکے !ک کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ لیکن ان ہنگاموں نے نفرت کا جو بیج ڈالدیا تھا وہ پھل اور پھول لاتا رہا ؟ جبکہ عاشق جن منتظر رہا اور ان کا نعم ا لبدل ڈھونڈتا رہا؟
اللہ چونکہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے لہذا وہ پیدا ہو کر جوان ہوا اور اس نے ہاتھ پاؤں بطور اسٹوڈینٹ لیڈر مارنے شروع کیئے کیونکہ اسوقت ہر تعلیمی ادارہ میں جمعیت طلباءاسلامی کا زور تھا اور وہ جن کی پروردہ تھی اس لیئے نوزائیدہ لیڈر، اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اور اسے امریکہ جانا پڑا ۔ وہ وہاں جاکر کیا کر تے رہے اسے  اور کیسے جن تک رسائی ہوئی اسےجانے دیجئے کیونکہ کبھی جب وہ خود یا مورخ لکھے گا تو تاریخ میں ذکر آئے گا۔
وہاں جاکراللہ کا کرنا یہ ہوا کہ کسی طرح وہ عاشق پاکستان جن کی نظر میں آگئے اور پھر پاکستان اس ٹھاٹ آئے کہ ہر ایک ان کے گن گارہا تھا، جیسے کہ ابھی ایک صاحب دنوں پہلے آئے تھے اور چھا گئے، اس سابقہ سٹوڈینٹ لیڈر نے واپس آکر اپنے اسٹوڈینٹ ساتھیوں کو پارٹی میں بھرتی کرلیا اور ان سے وفاداری کے حلفنامے لے لیئے۔ اس وقت یہاں مسئلہ درپیش تھا بنگلہ دیش سے بہاریوں کو لانے کا ،انہوں نے نعرہ لگا یا کہ میں لیکر آونگا۔ اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہو ئے وہ مجھے نہیں معلوم؟ جنہیں تاریخ کے اس حصہ سے دلچسپی ہو وہ انہیں سے معلوم کرلیں؟ البتہ نفرتوں کے مینار جو کھڑے کیئے وہ بڑھتے بڑھتے اب قطب مینار بن چکے ہیں ۔ پہلے سندھیوں اور مہاجر وں میں نفرت بڑھی ، پھر پنجابیوں سے ٹھنی اس کے بعد پٹھانو ں سے اورآخر میں بلوچوں سے ۔
پھر اس جماعت کے ورکروں کی لاشیں ملنا شروع ہو گئیں ۔ کبھی سڑک پر پڑی ہوئی کبھی بوری بند ۔ مگر آج تک کوئی یہ نہیں جان سکاکہ ان کا قاتل کون ہے یہ کہتے ہیں کہ دشمنوں نے مارا، جبکہ دشمن کہتے ہیں کہ جنہوں نے حلف کی خلاف ورزی کی یعنی بغاوت کی وہ مارے گئے۔ چونکہ یہ سب الزام ہیں اور جب تک الزام ثابت نہ ہوجا ئیں کسی کومجرم نہیں کہا جا سکتا؟ لہذا آگے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے ؟با لکل اسی طرح کہ نواب آف کالاباغ ایوب خان کے زمانے میں ون یونٹ کے گورنر تھے ،وہ بڑے ظالم آدمی تھی مگر منتظم بہت اچھے تھے ۔ ایک پریس رپوٹرنے ان کے بارے میں لکھا کہ انہوں نے اب تک ٢٣ اخبار نویسوں کو قتل کرایا ہے ؟ اس کی گورنر ہاؤ س میں طلبی ہو گئی ،ایک شیشی ٹیبل پرموجود تھی جس پر زہر کا لیبل لگا ہوا تھا؟ انہوں نے اسے حکم دیا کہ اس کو منہ میں انڈیل لو؟ اس نے کہا کہ یہ تو زہر ہے! تو انہوں نے کہا کہ ہاں ! میں چوبیس کی گنتی پوری کرنا چاہتا ہوں؟ ورنہ آئندہ یہ بات نہ کرنا، اب جاسکتے ہو؟
وہ یہ طریقہ کچھ ایسا ایجاد کر گئے کہ ابھی جو بھی اخبار نویس اس راستے پر چلتا ہے جلد یا بادیر جام َ شہادت نوش کرتا ہے۔ لہذا اس زمین میں وہی طبع آزمائی کرتے ہیں جن کو دل و جاں عزیز نہ ہوں؟ جبکہ آج کا میڈیا بہت منظم ہے اور پا بندیوں سے بظاہر آزاد بھی ہے مگر کبھی رپورٹر کراچی میں مارے جاتے ہیں،کبھی پنڈی میں اور کبھی میرانشاہ میں مگر پہلے کی طرح نہ اُن کا پتہ چلتا ہے نہ اِنکا پتہ چلتا ہے۔ جیسے اس دوران خواجہ رفیق مرحوم اور باقی بائیس اخبار نویسوں کے قاتلوں کا پتہ نہیں چلا۔ یہ تھی پرانی تاریخ مگر ہم چونکہ آپ کو مزید بور نہیں کرنا چاہتے اس لیے ہم نے اختصار کا خاص خیال رکھا ہے ۔  مگر کچھ ذکر  مجبوری ہوتے ہیں ۔جیسے کہ جب بھی کو ئی قتل ہوتا تو بات ہابیل اور قابیل کی ہوتی ہےجو کہ آدم علیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور تمام علماءاس پر متفق ہیں کہ جو جس کام کی ابتدا کریگا اور وہی طریقہ جو کوئی  اوراختیا ر کریگا قیامت تک گناہ یا ثواب کا اس کا موجد بھی حقدار ہوگا۔
یہ تمہید ہم نے اس لیے بیان کی کہ آجکل بھی یہ ہی حال ہے کہ ہر طرف لاشیں گررہی ہیں، بھتے وصول ہو رہے ہیں ۔ اغوا برائے تعاوان وصول کر رہیں ،مگر پکڑا کوئی اس لیے نہیں جاتا کہ کوئی جانتا نہیں ہے کس نے طرح ڈالی اور کون کر رہا ہے ؟ جبکہ گواہ صرف وہی بنتا ہے جو مرنا چاہے ورنہ وہ گواہوں میں نام لکھا بھی لے تو صرف ایک ہی دھمکی پر تائب ہوجاتا ہے اور الزام عدالتوں پر آتا ہے کہ وہ چھوڑ دیتی ہیں ؟ جب آپ نہ گواہ پیش کریں گے، نہ ثبوت تو عدالت زبانی جمع خرچ سے کسی کو مجرم تھوڑی مان لے گی۔ اکثرگواہ کبھی خانہ پوری کے لیئے ہوتے ہیں۔ جو تھانے اور کچھہریوں کے باہر عام ملتے ہیں،کبھی اصلی بھی ہوتے ہیں مگر کسی بڑے باپ کے بیٹے، کسی پیر کے بندے؟ کی سفارش آجاتی ہے ، پھر ثبوت فائلوں میں سے غائب ہو جاتے ہیں ۔ اورعدالتیں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بری کر دیتی ہیں۔
کل پرسوں کی ہی بات ہے کہ ایک بہت بڑی پارٹی کی ترجمان کہہ رہے تھے کہ یہ جمہوریت ہے ہم ووٹ مانگنے توچوروں کے پاس جاتے ہیں اور جائیں گے ؟ ظاہر ہے جنہیں ان سے ووٹ کی توقع ہے وہ انہیں کیسے پکڑیں گے، مجبوری جو ہوئی؟
اب تازہ خبر یہ ہے کہ ایک جماعت جو پانچ سال حکومت میں رہنے کے بعد بقیہ پندرہ دن کے لیے اپوزیشن میں آئی تو پہلا ٹیسٹ کیس عباس ٹاون کا ملا ۔ پہلے تو اس نے الٹی میٹم دیا کہ تین دن کے اندر اس واقعہ کے قاتل گرفتار کر لیے جائیں جبکہ تاریخ یہ ہےکہ وہ خود حکومت میں تھی تو اپنے وزیر کے قاتل کوبھی نہیں پکڑ سکی اور اصل حکمراں پارٹی حکومت میں رہتے ہو ئے اپنی لیڈر کے قاتل نہیں پکڑ سکی؟ کیوں یہ ان دونوں کو پتہ ہوگا؟ مگر اسی پر قیاس کر کے ان کو سوچنا تھا کہ موجودہ حکومت جو چند دنوں میں اپنی مدت پوری کر رہی ہے وہ  یہ کام کیسے کر سکے گی ؟ کیونکہ قاتل نہ معلوم ہیں،بس یہ الیکشن اسکورنگ تھی اور کچھ نہیں، دیئے ہوئے تیندن گزر گئے اور اخبار نویسوں نے پوچھا کہ اب کیا کروگے؟  توانہوں نے جوادیاکہ ہمارے پاس ترپ کارڈ ہے جو وقت پر ظاہر کریں گے؟ وہ وقت پر اس طرح ظاہر ہوا کہ کراچی جوپہلے ہی کئی دن سے بند تھا ، اسے کھلے ابھی آدھا ہی دن گزرا تھا اور خبر گرم تھی کہ پریس کانفرنس ہو نے والی ہے کہ یکایک چارو ں طرف گولیا چلنا شروع ہوگئیں، دکانیں بند، ٹریفک بند، سب کچھ بند۔ جو لو گ دفا تر میں تھے وہ دفا تر میں رہ گئے جو بچے اسکول میں تھے وہ اسکول میں اور جو خواتین بازار کسی ضرورت سے گئیں تھیں وہ بازار میں رہ گئیں ؟ مگر ان لاکھوں انسانوں کی تکلیف پر کسی کا دل نہیں پسیجااور نہ ہی یہ پتہ چلا کہ جن لوگوں نے فا ئیرنگ کی وہ کون تھے، دو پکڑے بھی ڈیفنس میں جو بندوق کی نوک دکانیں بند کرارہے تھے۔ پکڑے بھی رینجرز نے مگر معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھے ؟
اس کھیل میں جو مارے گئے جن کا نقصان ہوا؟ ان کی خطا کیا تھی؟ بتایا نہیں گیا، عوام کے بے حد اصرار پر تھوڑی ہی دیر میں فیصلہ واپس لے لیاگیا ۔ اور دوسرے دن کسی نے ٹریفک روکنے کے لیے فائرنگ بھی نہیں کی ؟ پھر بھی کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل کس نے فائرنگ کی، یا کرائی کیونکہ وہ نامعلوم ہے۔ اور لوگ مجبور ہیں کہ وہ نامعلوم کو ووٹ دیں؟ کیوں اس لیے کہ معلوم لوگ ان کی کسی کام نہیں آسکتے اور کسی مصیبت سے  انہیں نہیں بچا سکتے، تو ایسے معلوم لوگوں کا وہ کیا کریں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.