ہمیں اسلام نہیں اسلام آباد چاہیئے۔۔۔ از شمس جیلانی

ویسے تو ہم اسلام کے بہت بڑے داعی ہیں حتیٰ کے ہر وقت جان دینے اور جان لینے کوتیا رہتے ہیں ؟ مگر جب اس پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو جان بچاتے پھرتے ہیں؟ حالانکہ اس پر سب متفق ہیں کہ ایمان کلمہ پڑھنے کانام نہیں ہے ، اسلام ایمان  پرعمل سے ظاہر ہونے کا نام ہے ۔ اسی لیے قرآن نے سب جگہ آمنو کے فوراً بعد عامل الصالحات یعنی نیک عمل کی بات کی ہے ۔ اور اس سلسلہ میں بہت سی احادیث اوراقوال ہیں ،مگر میں یہاں حضرت علی  کرم اللہ وجہہ کاقول اس لیئے دے رہا ہوں کہ سُنیوں کے تمام سلسلہ انکو ولی اور اہل ِ تشیع کے تمام فرقے ان کو اپنا امام مانتے ہیں جو کثیر تعداد میں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ  “ایمان بغیر عمل  کےکوئی چیز نہیں اور عمل بغیر ایمان کے کو ئی چیز نہیں “۔ جبکہ ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ ہمیں مسلمان کہلانا تو پسند ہے اور دوسروں کی زبردستی بنانا بھی پسند ہے، مگر اپنے اوپر اسلام کا نفاذ پسند نہیں ہے۔اس لیے کہ وہ ہمارے ہاتھ پا ؤں باندھ دیتا ہے؟ نہ ہم حرام خوری کرسکتے ہیں ، نہ رشوت خوری کر سکتے ہیں، نہ چوری کر سکتے ہیں، نہ سر کاری خزانے کو لوٹ اور لٹا سکتے ہیں نہ ٹارگٹ کلنگ کر سکتے ہیں اور نہ بھتہ وصول کر سکتے ہیں مختصر یہ کہ ہم کسی  کواپنے عمل سے اپنی زبان سے نقصان نہیں پہونچا سکتے؟لہذا ہماری خواہش ہے کہ ہم مسلمان تو کہلائیں مگر اس پر عمل نہیں کریں؟  اب رہا یہ کہ مسلمان کہلانا کیوں ضروری ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کے دستور میں یہ لکھا ہوا ہے کہ وزیر اعظم اور صدر مسلمان ہو گا ؟ دیکھئے ہماری جہالت پر ہنسئے  گامت کیونکہ ممکن ہے کہ اب جو دستور ہے اس میں نہ لکھا ہو کیونکہ دستور کی لاتعداد ترامیم کے بعد گت بن چکی ہے۔ مگر ١٩٥٦کے دستور میں تو وزیر اعظم کا مسلک تک لکھا ہوا تھا ؟ پہلے تو یہ مسئلہ ایسا تھا کہ دستور بن ہی نہیں رہا ،جبکہ دستور ساز اسمبلی کے صدر قائد اعظم خود تھے اور اس وقت وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان مر حوم تھے۔
یہ مشہور ہے کہ کانگریس نے سن ١٩٤٥میں جب دستور ساز کمیٹی بنا ئی تو مولانا شبیر احمد عثمانی  (رح)مر حوم قائد ِ اعظم (رح) کے پاس گئے اور انہوں نے کہا کہ کانگریس نے دستور سازی کے لیئے اپنی کمیٹی بنا لی ہے اب ہمیں بھی بنالینا چا ہیئے؟ اس کے جواب میں قائد اعظم (رح) نے فر مایا کہ مولانا ان کے پاس تو دستور ہے نہیں اس لیے انہیں بنانے کی ضرورت پڑی ،ہمارے پاس تو بنابنایا دستورموجود ہے؟ مولانا نے وضاحت چاہی تو انہوں نے فرمایا اس سے میرا مطلب ! قر آن ہے۔
مولانا چپ ہوگئے اور پاکستان بننے تک چپ ہی رہے ۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم (رح) توبیمار ہو کر امور ملکت سے لا تعلق ہوگئےاور زیارت میں تنہائی کے دن گزارنے لگے ۔ دستور ساز اسمبلی کام کرتی رہی جو بہ یک وقت پا رلیمنٹ بھی تھی اور دستور ساز اسمبلی بھی، مگر کہلاتی سر کاری طور پر دستور ساز اسمبلی ہی تھی۔ کئی سال گزرگئے وہ کیا کر رہی تھی؟ وہ طرح ڈال رہی تھی نئے طرز حکمرانی کی اس کی تفصیل بڑی لمبی ہے ،چونکہ آج ہمارا موضوع صرف اسلام ہے لہذا ہم اسی پر بات کریں گے۔ کہ اس نے دستور سازی کے سلسلہ میں کیا پیش رفت کی ؟ مولا نا برے صابر آدمی تھے ، جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے وزیر شرع جوگندر ناتھ منڈل کو بنا دیا گیا ۔ کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنا ئے! مگر وہ بغیر دستور بنا ئے ہندوستان بھاگ گیا ۔ پھراس کی جگہ دوسرا مسلمان وزیر قانون آگیا! مگر قانون بر طانیہ کا ہی چلتا رہا، آخر مولانا کاصبر و ضبط جواب دے گیا اور انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں ایک دھواں دھاڑ تقریر کی اور اہلِ اقتدار سے پوچھا کہ یہ دستور سازی اسمبلی اپنا اصل کام  یعنی دستور سازی کب  شروع کر یگی اور ہمارے قوانیں مشرف بہ اسلام کب ہونگے اور کب انڈیا ایکٹ ١٩٣٥سے جان چھٹے گی؟
جواب ملا کہ مولانا ہم پریشان ہیں کہ کونسا اسلام نافذ کریں ؟ اس کے جواب میں انہوں نے اس وقت کے ہر مکتبہ فکر کے علما ءکو جمع کیا اور جواب لیکر حاضر ہو گئے کہ جناب یہ سا اسلام جس پر سب متفق ہیں؟ اسی وقت اس مسودے کو قرارداد مقاصد کانام دے کر مولانا نے اسمبلی میں پیش کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ  اتفاق اس وقت کیسے ممکن ہوا کہ جو طبقہ آج ایک امام کےپیچھے نماز پڑھنے پر تیار نہیں ہے وہ ایک مسودہ قانون پر متفق ہو گیا، جس میں اسلام کے بنیادی اصول دستور وضع کرئے کے لیے جمع کیئے گئے تھے ؟ وجہ یہ تھی کہ اس وقت مسلمان ایک بھی تھے اوربشمول علماءسب نیک بھی تھے ۔ اور اسلام باہر سے ابھی امپورٹ نہیں ہواتھا ؟ اس وقت کے ان علماءنے جو حیات تھے اور تمام مکتبہ فکر کے نمائدے تھے اس پر اتفاق کیا اور کسی نے بھی کوئی اختلافی نوٹ نہیں لکھا، لیکن اس کے باوجود صاحب ِ اختیار اسے پاس کر نے لیئے تیار نہ دکھا ئی دیئے؟ کیونکہ اس میں ان کے ہاتھ پاؤں بند ھ رہے تھے۔ انہیں مسلمان حکمرانو ں کی طرح عمل کر نا پڑتا اور کوئی بھی شخص کھڑے ہوکر پوچھ سکتا تھا کہ یہ تمہارا پیرہن کیسے بنا جبکہ سب کو ایک ایک چادر ملی تھی اور اس میں سے کسی کا پیر ہن نہیں بنا ؟
اگر یہ دروازہ کھل جاتا، تو پھر پنڈورہ کا بکس کھل جاتا جو حکمراں نہیں کھولنا چاہتے تھے؟لہذا انہوں نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا ؟تو مولانا نے کہاکہ یہ قرارداد اگرآج پاس نہ ہوئی تو میں عوام سے جاکر کہدونگا کہ تمہارے ساتھ غداری ہو ئی ہے؟
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اسے پاس تو کر دیا گیا مگر اسکا نفاذ التواء ہی میں رہا، حتیٰ کہ غلام محمد نے اس دستور اسمبلی کی چھٹی کر دی گوکہ سندھ چیف کورٹ نے اس کی اس کاروائی کو غلط قرار دیا، مگر فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے اپیل کے دو ران نظریہ ضرورت دریافت کر لیا؟ اور اس طرح اس اسمبلی سے ملکِ بے دستور کی جان چھٹی ورنہ وہ ابھی تک چل رہی ہو تی ؟ اس کے بعد نئی پارلیمنٹ بنی اور اس نے مری کی ٹھنڈی فضا میں اپنا پہلا اجلاس ٥٣ منعقد کیا۔ اس کے بھی سالوں بعد  ١٩٥٦کا آئین بنا، اسوقت وزیر اعظم چودھری محمد علی تھے جو اسلامی ذہن رکھنے والے اور ایمان دار شخص تھے ،جبکہ قائد ِ حزب ِ اختلاف حسین شہید سہروردی مرحوم تھے جوکہ ماڈرن مسلمان تھے ؟ مگر تھے دونوں محب وطن اور دونوں کے پاس کوئی سرمایہ بھی نہیں تھا جو ملک سے باہر رکھتے ؟لہذا اتفاق رائے سے ١٩٥٦کا آئیں پاس ہوگیا اور ٢٣ مارچ یوم ِ دستور قرار دیدیا گیا؟ غلام محمد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اورصدارت کی کرسی اسکندر مرزا نے سنبھالی جو پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ڈیفس سکریٹری کی حیثیت سے سامنے آئے تھے اور سول سروس کے آدمی تھے۔١٩٥٦کے آئین میں ترامیم کا سلسلہ جاری تھا ۔ اور وزیر اعظم فیروز خان نون تھے۔ ان کی چھٹی بھی ایوب خان نے مارشل لاءلگا کر کردی پھر انہوں نے١٩٦٢کا دستور دیا ۔ ان کی اور آدھے ملک کی چھٹی جنرل یحییٰ خان نے کردی، بھٹو صاحب آئے اور انہوں نے ١٩٧٣ کا  آئین دیا جنہیں ،انہیں کے پروردہ ضاءالحق نے فارغ کر دیاکیونکہ بھٹو صاحب اسلامی سوشیل ازم کے بانی تھے؟
ان کے بر عکس ضیاءالحق کا نعرہ تھا کہ میں اسلامی نظام عملی طور پر لا ؤنگا مگر وہ گیارہ سال میں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے لیکن وہ قرارداد ، مقاصد جو کہ کسی آرکائی (پرانے کاغزات) میں رکھی ہو ئی تھی اس کی گرد جھاڑ کے دستور کا حصہ بنا گئے اور غلطی سے دو دفعات ایسی دستور میں شامل کر دیں جنہیں اب ٦٢ ، ٦٣کہا جاتا ہے؟ لیکن جن کا نفاذ ان کے گیارہ سالہ دور میں بھی نہیں کیا جاسکا۔ اسے سب بھولے ہو ئے تھے، کبھی کبھی میں پہلے بھی یاد دلا دیتا تھا۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی؟ کیونکہ یہ اشرافیہ کے مفاد کے خلاف تھی۔
مگر اللہ بھلا کرے علامہ طا ہر القادری صاحب کا انہوں نے سب کو یاد دلادیا؟ اور یہ پاکستانی قوم کی خوش قسمتی تھی کہ اسوقت پاکستان کواپنی تاریخ کا بہترین چیف جسٹس ، کمانڈر انچیف ، اور الیکشن کمشنر ملا ہوا ہے؟  اگر اب بھی اسکانفاذ ہوجائے تو پاکستان بدل سکتا ہے جبکہ ارباب ِاقتدار کی اکثریت ان کو نافذ ہونے سے روکنا چاہتی ہے، اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے؟
اب پاکستانیوں کے سامنے دو راستے ہیں کہ یا تو وہ باسٹھ سال پہلے کا اسلام قبول کر لیں جس پر ہر مسلک اور فقہ کے علماءمتفق تھے یا امپورٹیڈ اسلام بعد میں  بالجبرقبول کر یں جو کہ دروازے پر دستک دے رہا ہے، جسےطالبان لیکر آنا چاہتے ہیں ! جس کا تجربہ قوم کو ہمسایہ افغانستان ، سوات اور فاٹا کے کچھ حصے میں ہو چکا ہے ؟ کیونکہ پوری مسلم دنیا میں تحریکیں چل رہی ہیں اور ان سے آنکھیں بند کر نا مشکل ہے؟
وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی تباہی اور بر بادی کا باعث اللہ اور اسلام سے دوری کو سمجھتے ہیں؟ اور اس کا حل نکالنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت موجود نہیں جب تک یہ خلا ءرہے گا القائدہ یا طالبان جیسے گروہ بنتے رہیں گے۔ اور دنیا کا امن الٹ پلٹ ہوتا رہے گا۔ آج پھر یہاں وہی مسئلہ موجود ہے جو پاکستان بننے کے بعد پیش آیا تھا کہ ہمارے اہلِ اقتدار بلا امتیاز اس پر مصر ہیں کہ وہ  فوری طور پرمسلمان نہیں بن سکتے لہذا کچھ وقت درکار ہے ؟ کیونکہ ہم رشوت خور رہنا چاہتے ہیں، ہم بیت المال لوٹنا اور لٹانا چا ہتے ہیں، ہم حرام خوری بد عنوانی کو بند نہیں کر نا چا ہتے، ہم بے حیائی نہیں چھوڑ سکتے جو مشرف نے متعارف کرائی تھی اور اسکی باقیات ابھی بھی جاری رکھنا چاہتی ہے جس کا مظاہرہ ق لیگ کے کلچرل شو میں پرسوں کیا گیا  جسکو ٹی وی پر پوری دنیا نے دیکھااور ایک مبصرنے ڈھٹائی سے کہا کہ دھمال تو مزارات بھی ہوتا  ہے؟
ہم  نےچشمہ لگاکر بار بار دیکھا وہاں پارٹی کے صدر اور سکریٹری تو نظر آئے مگر مزار کوئی  نہیں نظر آیا، شاید وہی  زندہ پیر ہوں؟ مگر وہ یہ مت بھولیں کہ ان کی یہ حرکتیں طالبان کے کام کو آسان کر رہی ہیں؟
دوسری طرف قوم الیکشن سے امید لگائے بیٹھی ہے مگر امیدواروں کو نامزدگی  کے فارم پسند نہیں جس میں سارا کچا چٹھا امید وار اور اس کے خاندان کا مانگا گیا ہے؟  مختصر یہ کہ وہ کہتے ہیں ہمیں اسلام نہیں اسلام آباد چا ہیے ہے؟ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کلنگ کے بارے میں مشہور ہے جوکہ ایک چھوٹا آبی پرندہ تھا اب نایاب  ہوتا جارہاہے!  کہ جب طوفان آتا ہے تو وہ ریت میں سردے لیتا تھا اور اسکی وجہ سے جب ریت کے پہاڑ اپنی جگہ بدلتے ہیں ؟ تو بچارہ چھوٹا ہو نے کی وجہ سے دب کر مر جاتا ہے  ؟ نتیجہ یہ ہے کہ آج اس کی نسل ہی معدوم ہو گئی ۔ کہ کچھ تو طوفانوں نے مارا اور کچھ لالچی لوگوں نے؟ کہ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ہیرا نگل لیتا ہے اور وہ اسکے معدے میں پڑا رہتا ہے لہذا شکاری بڑی تک و دو کے بعد ہیرے کے لالچ میں اس کا معدہ چیر کر دیکھتے رہتے ہیں  ۔ یہاں بھی حالت وہی ہے کہ شکاری تاک میں ہے دروازے پر طالبان دستک دے رہے ہیں ۔ اور صاحب اقتدار اور عوام ریت میں منہ دیے دریا کی ٹھنڈ ک سے فرحت حاصل کر رہے ہیں۔ خلاف معمول آج میں یہ دعا کر رہا ہوں  آئیےآپ بھی میرے ساتھ شامل ہوجا ئیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پاکستان کو محفوظ رکھے ؟ آمین۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ شفا عت کے لیئے بھی قر آن میں وہ فرمارہا ہے کہ شفاعت اس کی ہو گی جس کی میں چاہونگا جبکہ شفاعت کر نے والابات بھی معقول کہے ؟ کیا کسی صاحبِ عقل کو امت کا کردار دیکھتے ہوئے یہ بات عقل میں آسکتی ہے کہ ان حالات میں بغیر توبہ کے دعا کرنا ،معقول بات کے زمرہ میں آتا ہے ۔ جواب آپ چھوڑتا ہوں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.