آجکل قوم پربڑا مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ ہر شخص پریشان ہے کہ کیا چھپائے اور کیا بتا ئے؟ گوکہ پاکستان کی آبادی٢٠٠٨ ءکے مقابلہ میں تین کروڑ بڑھ گئی ہے مگر اس مرتبہ صرف ١٧٠٨١ امید وار میدان میں آئے ہیں جبکہ اسوقت ١٥٠٠٠ ہزار میدان میں تھے۔ اصولی طور پر زیادہ ہونا چاہیئے تھے کہ غریب اور غریب جبکہ مالدار اور مالدار ہوا ہے اوربھرے پیٹ پر سیاست معتبر ہونے اور سیا سی نام مال کمانے کا سنہراذریعہ ہے؟ پھر بجائے ڈبل ہونے کے امید وار کم کیوں ہیں ؟ بقول ایک دانشور ، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ جھوٹ بولنے پر پابندی ہے۔ نامزدگی کافارم ایسا ہے جس میں سب کچھ پوچھ لیا گیا ہے۔ اور جن لوگوں نے مشرف کے دور میں جھوٹ بولا جوکہ ماڈرن ہونے کے لیئے ضروری تھا۔ ان کی جان چھٹائے نہیں چھٹ رہی ہے کیونکہ اسلام میں جھوٹ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ جعلی ڈگریوں کو چھوڑ نا چاہتے ہیں، مگر وہ کمبل ہو گئی ہیں اور جان نہیں چھوڑ رہی ہیں ؟ اس میں مسٹر تو ہونے ہی چاہیئے تھے؟ مگر عالم بھی پیچھے نہیں رہے کیسے کیسے مقدس چہرے نظر آئے ما شا اللہ! سوچا تھا کہ استعفیٰ دے دیں گے تو بات ختم ہو جا ئے گی۔ یا جواب نہیں دیں گے تو بھی ؟ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ نوکر شاہی نے اپنے بچا ؤ میں جب انسداد رشوت ستانی کاقانون( انٹی کر پشن ایکٹ )بنایا تھا تو اس میں یہ ہی تھا کہ پہلے تو نشان زدہ نوٹ اسکے قبضہ سے نکلنا چاہیئے، لہذا افسر خود نہیں چھوتے تھے کہ مالِ حرام ہے اور چھونا تقوے کے خلاف تھا، البتہ جو دفاتر میں الماریاں رکھی ہوتی تھیں فائلوں کے لیے، کہدیتے تھے کہ ان کے پیچھے پھینک دو اس صورت میں صرف الماری پکڑی جاتی تھی ، مجرم بچ جاتا تھاکیونکہ اس کے پیچھے توکوئی بھی پھینک سکتا تھا؟ پھر بھی کوئی اپنی بیوقوفی سے پکڑا جائے تو بس نوکری سے استعفیٰ دید ے بات ختم ؟
کیونکہ اس وقت تک جو قانون لاگو تھا ،اورابھی بھی متبادل قانون کے طور پر وہ بھی چل رہا ہے وہ انگریزوں کابنایا ہوا انڈین ایکٹ١٩٣٥ تھا۔ بعد میں اس کے باوجود کے نیت کسی کی بھی اس پر عمل کرنے کی نہیں تھی جو بعد میں عملی طور پربھی ہم نے پر ثابت بھی کردیا ۔ مگر اسلامی دستور تبرک کے طور پر بنالیا تھااور اس میں حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی لکھدی تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ قانون ان میں سے کہیں دبے رہ گئے جن پر آج تک عمل نہیں ہوا ان میں شق ٦٢اور ٦٢بھی ہے؟ اگر دستور پہلے سے نافذ ہوتا تو اس ملک کا ہر باشندہ ان قوانین سے اتنا ڈرتا جتنا کے گائے چھری سے؟ جیسے کہ اب سیاستداں ڈر رہے ہیں۔
جبکہ دستور کے سرورق کا تقاضہ یہ تھا کہ جب نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان رکھا تھا۔ تو ملک کو بھی اسلام کی طرف لے جانا چاہیئے تھا۔ مگر نہ جانے ملک کی گاڑی میں پچھلا گیر کیسے پڑگیا ؟اور اہل ِ سیاست یہ نعرے لگاتے ہو ئے کہ ً لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو ً سرپٹ پیچھے کی طرف دوڑنے لگے؟ چونکہ سرحدیں ہندوستان نے پہلے ہی بند کر رکھی تھیں لہذا انہیں تو پار نہیں کر سکے، مگر عہد جاہلیہ میں ضرور داخل ہو گئے؟ اور ٦٥سال تک داخل رہے ۔ وہی جھوٹ ،بد دیانتی،اقربا پروری ،قبائلی عصبیت ، وہی سب کچھ ان کی زندگی میں در آیا جس کے حضور (ص) سے پہلے عرب عادی تھے۔
دن آرام سے گزر رہے تھے پوری قوم مال بنا نے میں لگی ہو ئی تھی ۔کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ ملک پر رحم آگیا ؟ اس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو کنیڈا سے پاکستان بھیج دیا،اور راتوں رات ان کو اتنی مقبولیت ملی کہ وہ اسلام آباد پہونچنے اورپارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے میں کامیاب ہو گئے؟ انہوں نے دو قانون ایسے لاکر کھڑے کر دیئے جو تھے تو قدیم اور دستور کا حصہ بھی مگر دکھائی اب دیئے؟ جبکہ ان کے تحت چلنے والی نسل نایاب ہے اور ڈھونڈے نہیں مل رہی ہے۔ جو صاحب الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے ملے وہ بھی اسی سال سے اوپر تھے اور جو نگراں وزیر اعظم بنے وہ بھی ۔ اس سے جو بات ثابت ہو ئی وہ یہ تھی کہ یہ قوم ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی، بعد میں بنی یا بنا ئی گئی۔؟یہ ہی وجہ ہے کہ صاحب ِ کردار لوگ پاکستان سے عمر میں بڑے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا نوجوان نسل میں بھی غیر متنا زع لوگ ملتے! مگر نہیں ملے؟ جبکہ ہر حکومت حلف یہ ہی اٹھاتی رہی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بالا دستی قائم کریں گے اور اسلام کے خلاف کچھ نہیں کریں گے جوکہ پاکستان کی اساس ہے؟
مگر مثال قائم کسی نے نہیں کی سوائے چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کے؟ اور نتیجہ ہوا کہ ایک دانشور کو ٹی وی ٹاک شو میں یہ کہتے سنا گیا کہ اگر قائد اعظم حیات ہوتے تو وہ بھی اس معیار پر پورے نہیں اتر تے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ شاید اس دانشور کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اُس وقت ہم بے دستور تھے؟ اور قائد اعظم اس کے باوجود کہ ایک باکردار آدمی تھے ، انگریزی قوانین پر عمل کر نے کے لیئے مجبور تھے؟ موجودہ دستور تو بعد میں وہ بھی سالوں بعد میں بنا؟ اس وقت تک ہم نے اپنا قبلہ ہی منتخب نہیں کیا تھا اگر ہم بھی آزادی سے پہلے دستور تیار کر لیتے، تو صورت ِ حال یہ نہ ہوتی اور اس سے بہتر پروڈکٹ مارکیٹ میں ہو تی، جیسی کہ آج سے سوسال یا اسی سال پہلے ہواکرتی تھی ،بلکہ اس سے بھی بہتر کیونکہ کسی قومی مزاج کو بننے کے لیئے ٦٥سال بہت ہو تے ہیں۔
اگر اس دن سے دروغ حلفی (جھوٹے حلف نامے) کے تحت مقدمات عدالتیں ابھی قائم کرنا شروع کر یں! تو بہت سو ں کو قبروں سے نکال کر مقدمات قائم کر نے پڑیںگے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ مگر موجودہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس صاحب صرف ان کو ہی پکڑ لیں اور اس چھنی سے گزاردیں جو اسمبلیوں میں آئندہ جانے والے ہیں، تو بھی یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہو گا جو ان کی بخشش کے لیئے انشا اللہ مدگار ہوگا اور نام تاریخ میں ہمیشہ رہے گا اور قوم ان کو اپنے محسنین کے طور پر ہمیشہ یا د رکھے گی؟
ہم نے ایک دانشور کو جعلی ڈگریوں کے معاملے میں یہ کہتے سنا کہ ہر جرم کی سزا کی ایک مدت ہوتی ہے ، لہذا جعلی ڈگر ی والوں کو بھی صرف ایک آدھ بار کے لیئے نا اہل قرار دیا جا ئے نہ کہ ساری عمر کے لیئے؟ اس سے جو بات ثابت ہو تی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے بھی وہ اسلامی قانون نہیں پڑھا ہے ،جو کہ حضور (ص)لیکر تشریف لائے، جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹا ثابت ہو جائے تو تا حیات اس کی کوئی شہادت قبول نہ کی جا ئے؟ تاوقتیکہ کہ وہ تائب نہ ہو ؟
اور تائب ہونے کے لیے بجائے مقدمہ لڑنے کے سب سے آسان طریقہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ مجرم ہیر پھیر کے بجا ئے عدالت میں آکر کہے کہ مجھ سے یہ غلطی ہو گئی اور میں تائب ہو تا ہوں؟ نہ کہ جھوٹ پر جھوٹ بو لتا چلا جا ئے اول تو عدالتوں میں حاضر ہی نہ ہو اور سزا سنائی جائے تو عدالت سے بھاگ کھڑا ہو؟
جھوٹ اتنا فعلِ قبیح ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ ً مسلمان میں سارے عیب ہو سکتے ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہو سکتاً ؟اور حضور (ص) کاسب سے بڑا معجزہ یہ تھا کہ ان کے دشمن بھی انہیں صادق اور امین مانتے تھے۔ اعتماد کی انتہا یہ تھی کہ پورا مکہ دشمن تھا صحابہ کرام (رض)مدینہ ہجرت کر چکے تھے وہ اپنی امانتیں لے جاچکے تھے ۔ پھر وہ کون لوگ تھے جن کی امانتیں حضور (ص) کے پاس ابھی تک رکھی ہوئی تھیں؟ ۔ ظاہر ہے کہ سوائے کفار کے وہ لوگ اور کون ہوسکتے تھے؟ جن کی امانتیں واپس کرنے کے لیے حضور اپنے معتمد ِ خاص حضرت علی کر اللہ وجہہ کو چھوڑگئے؟ ۔
اب جب ہم اسلامی دستور بنا چکے ہیں تو ہمیں کسی اور کی مثال دینے کے بجائے کہ وہ کونسا پاکستان چاہتا تھا؟حضور (ص) کا اسوہ حسنہ اس لیے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ہمارا ایمان قر آن پر ہے اور قرآن ان پر ایمان لانے کو لازمی یہ کہہ کر قرار دیتا ہے کہ ۔ ً اے نبی! ان سے فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میری اطاعت کرو ً چونکہ حضور (ص) نے اسلام پر پوری طرح عمل کر کے بھی راستہ دکھادیا ،اور لوگ چیخ اٹھے کہ حضور (ص)مجسم قرآن ہیں ؟ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسوہ حسنہ کے بارے میں قر آن میں فرمادیا کہ ً تمہارے لیے تمہارے رسول کا اسوہ حسنہ کافی ہے ًیہ کسی اور کے بارے میں نہیں فرمایا ؟ یہ ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر قوم نجات پاسکتی ہے حضور (ص) کے علاوہ کسی اور کا اتباع کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے کیونکہ ان کے علاوہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی گارنٹی کسی اور کے لیے نہیں دی گئی ہے ۔جبکہ یہاں تو یہ بھی گارنٹی ہے کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے سوائے اس کے جو ان پر وحی کیا جا ئے؟ اللہ ہم سب کو حضور (ص) کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے