ہمیشہ سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ جب بھی ہم منزل کی طرف بڑھے، یکایک چلتے چلتے رک گئے، جیسے کہ کسی نے ہاتھ باندھ دیئے ہوں ، پاؤوں میں بیڑیاں ڈالدی ہوں، یا یکایک بریک لگا دیئے ہوں؟ ابھی یہ آخری امید بندھی تھی کہ ہماری عدلیہ ،ہماری فوج، ہمارے الیکشن کمشنر صاحبان جو انصاف کی ترازو بلند کیئے ہوئے ہیں امیدواروں کو دفعہ ٦٣،٦٢ کی چھننی میں چھان کر چوروں اور سینہ زوروں سے جان چھڑا دیں گے اور شاید قوم کو اچھے رہنما آکراجتماعی توبہ کی طرف راغب کرلیں گے؟ اور ہم اس عذاب سے نکل جائیں جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس وقت سے ہم پر نافذ کیا ہوا جب سے ہم نے اس کی نافرمانی کر نا شروع کی ؟ کہیں آپ نے یہ دیکھا ہے کہ غلام تو نافر مان ہو جائے اور مالک جو کہ قوی اور عزیز بھی ہو وہ خاموش رہے؟
مگر اس مرتبہ پھر بڑھتے ہو ئے قدم رک گئے، کیونکہ بدی کی قوتیں اتنی طاقتور ہیں کہ ان کے سامنے تین ادارے یاتین جانیں کیا کر سکتی ہیں! آخر کو وہ بھی مٹی کے بنے ہوئے انسان ہیں، اگر فولاد کے بھی ہوتے تو بھی اب تو وہ دھماکا خیز چیزیں ایجاد ہو چکی ہیں جن سے فولاد بھی موم کی طرح پگھل جاتا ہے؟ ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہیں؟
جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے ، بالکل عمرو عیار والی بات ہے کہ جب بھی “امیر حمزہ “ پر برا وقت پڑتا تو وہ ہمیشہ عمرو عیار کے پاس جاتے تو وہ کہتا کہ میں نے اپنی زنبیل میں جو بارہ شہر آباد کررکھے ہیں ان کے راشن پانی کی حالت دیکھ لوں؟ اور جب وہ اپنے تھیلے میں نظر ڈالتا تو وہاں اسے ہر طرف بدحالی نظر آتی ، انکساری سے کہتا کہ حضور میں تو حکم کا بندہ ہوں اور فوراً چلنے کو تیار بھی پر کچھ ان کا بندو بست کر دیجئے، اور جب وہ کر دیتے تو وہ زنبیل بغل میں داب کر چل دیتا اور سیاست داں کہہ لیں یا عیار کہ وہ ساتھ ہوتا تو اس کی عیاری اور امیر حمزہ کی بہادری سے ہر شہر منٹوں میں فتح ہو جاتا؟
یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں نے اوپر جن “ امیر حمزہ اور عمرو عیار “ کا ذکر کیا ہے اس کا تاریخِ ِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کوئی کردار مسلمانوں میں گذرا؟ لیکن یہ داستان چسپاں پاکستان کی موجودہ صورت ِ حال پر ہوتی ہے لہذا ذکر بیچ میں آگیا۔ یہ ایک فرضی ً داستان امیر حمزہ نامی کتاب میں ہےً جو کہ جھوٹ کا پلندہ ہے اگر اسے آپ پڑھیں تو جھوٹ پر عش عش کر اٹھیں ؟ جوکہ میں نے بچپن میں پڑھی تھی اور وہ ان دنوں ہر مسلم گھر انے میں پڑھی جاتی تھی؟ میں نے کیوں پڑھی اس کی بھی ایک تاریخ ہے ؟
ہوا یہ کہ کر شن چند ر نے اس کا ذکر بڑے توہین آمیز طریقہ سے اپنے ایک مضمون میں کیا، میری اسلامی غیرت جاگی، مگر اس سے پہلے کہ میں انہیں سخت الفاظ میں احتجاجی خط لکھتا! جوش پر ہوش غالب آگیا اور میں نے سوچا کہ کچھ لکھنے سے پہلے اسے پڑھ تو لوں؟ چونکہ وہ ان دنوں عام دستیاب تھی لہذا تلاش میں کوئی دقت نہ ہوئی، لیکن میں نے جب پڑھا تو معلوم یہ ہوا کہ وہ سچی قوم جس کو کہ سچ لکھنے اور سچ بولنے کاحکم ہے، اس کے ایک فرد نے جس کے نام سے پہلے ملا بھی لگا ہواتھا اس نے ایک ً ہندی کتاب آلہ اودل ً کے جواب میں بادشاہ اکبر کے حکم پر لکھی گئی تھی۔ اسے لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ یہ کتاب جو دو ہندو سورماوں کی بہادری کی داستان تھی؟ اس کی ٹکر پر اکبر باد شاہ جس نے دینِ اکبر شاہی ایجاد کیا تھا، جبکہ وہ خود کواوتار کہلاتا اور سجدہ بھی کر واتا تھا پھر بھی اپنے آپ کو وہ مسلمان کہلاتا تھا، اسے یہ ثابت کر نا تھا کہ مسلمانو ں میں بھی ان سے بڑے سورما ہو گزرے ہیں لہذا اس میں ایسے دو کردار چنے گئے جن کا کہیں وجود نہیں تھا، مگر ان میں سے ایک کی بہادری اور عمرو عیار کے عیاری کے قصوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تیار ہوگئی ۔
جس کو بیٹھکوں میں بیٹھ کر مسلمان بڑے شوق سے رات کو سن رہے ہوتے تھے؟ فائدہ یہ تھا کہ ً آلہ اودل ً سننے سے بچ گئے تھے جو کہ اس سے بڑا جھوٹ کاپلندہ تھا۔
میں نے اس واقعہ کا ذکر یوں بھی کیا کہ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ بھکاری کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا۔اور یہاں بھی ہر ادارے کے پاس ایک ً زنبیل ًہے جس میں ایسے ایسے کئی کئی شہر آباد ہیں اور ان کے راشن پانی کا مسئلہ ہر ایک کی مجبوری بنا ہوا ہے ؟ لہذا بہت سے کام ہمارا ًداتا ً ہم سے نظریہ ضرورت کے تحت کراتا ہے کبھی اسی کو بلیک میل کر نے کے لیے ہم خود بھی کرتے ہیں ، جس سے ہمارے چند “ زنبیلی “شہروں کو راشن مل جاتا ہے، تو ہم یکایک راہ بدل دیتے ہیں! کبھی عوام تنگ کریں تو ہم “ خوداری شو “ شروع کرتے ہیں اور بریک پر پیر پڑتے ہی ہالٹ ہو جاتے ہیں؟ کیونکہ وہ کہدیتے ہیں کہ بس اب بہت ہو گئی ۔
یہ تحریک بھی چلی تو بڑے زور اور شور سے تھی مگر اس میں نہ اب وہ زور شور ہے نہ وہ دعوے ہیں! شاید یہ پھرروایتی دھن ، دھونس اور دھمکی کے آگے مجبور ہو گئی! اب پتہ نہیں کہ سب مفاد پرستوں نے ملکر مجبور کیا یا کسی ایک مگر مچھ نے مگر کچھ ہو ا ضرور؟ کیا ہوا اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے اگر ہم کسی ایک داتا کے اشارے پر چلتے ہوں تو یہ جاننا آسان ہو تا کہ کہاں سے بریک لگا؟ چونکہ ہم بہ یک وقت اتنے اشاروں پر چلتے ہیں کہ ڈرایئور راستہ بھول کر خود حادثہ کر بیٹھتا ہے ۔، لہذا اس تبدیلی میں نہیں معلوم کہ کس کس کا ہاتھ ہے؟
اسی ہزار بیرل تیل کا ، یا اس ایک ارب ڈالر کا جو ایک ملک کے بجٹ میں ہمارے لیے رکھے گئے ہیں ۔ یا پھر ان سابق ً سر خوں ً کا جو بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں اور میڈیا پر چھا ئے ہوئے ہیں جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم دوسرے قسم کے مسلمان ہیں ! حالانکہ اسلام تو ایک ہی قسم کا ہوتا جو سب کے لیے ہے؟ جبکہ یہ دانشور کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ اسلام لانا ہے جس میں چوروں کو چوروں کی طرح برتا جا ئے ،تو پھر ہمیں الگ ملک چاہیے ہے؟ یا پھر وہ مقامی سرمایہ کار ہیں جو ہر الیکشن میں سرمایہ کاری کر تے ہیں اور جن کے اساسے ہر پانچ سال کے بعد دوسرے الیکشن تک دگنے تگنے نہیں بلکہ سیکڑوں گنا تک بڑھ جاتے ہیں ؟
بہر حال کہیں کچھ ہوا ضرور ہے کہ وہ بلند بانگ دعوے ایک دم پانی کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ہیں اور چھنیاں دھری کی دھری رہ گئیں؟ خدا کرے میری یہ پیش گوئی غلط ثابت ہو،صاحب ِ اقتدار، انصاف اور عدل کی طرف پھر سے رجوع کرلیں ؟ ورنہ جو آثار ہیں وہ یہ ہی ہیں کہ وہی واپس آجائیں گے جو بظاہر گئے تھے، مگر گئے کہیں نہیں تھے ؟ کیونکہ انہوں نے صرف سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس میں سے اصل کھوپڑیا ں اب بھی نظر آرہی ہیں۔ جو مقامی عمر و عیار ،وقت آنے پر اتار پھینکیں گے۔
اور مشکل ان کی آئے گی جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم وہ سیٹ خالی چھوڑ دیں گے جن پر ہمیں نیک اور “امین امیدوار “ نہیں ملیں گے ،مگر کسی دو نمبری کو ٹکٹ نہیں دیں گے؟جبکہ رواجی سیاستداں تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے تھے؟ انہیں جیسے ہی دھار نظر آئی انہوں نے کہدیا کہ “ ہم انہیں کیسے ٹکٹ دے سکتے ہیں جو جیتنے کے قابل نہیں ہم صرف انہیں ٹکٹ دیں گے جو کہ الیکشن جیتیں اور ہماری حکومت قائم ہو سکے “ جناب قائم علی شاہ کے یہ الفاظ تو ابھی آپ سب نے ہی سنے ہو نگے؟
اب یہ کام عوام کام ہے کہ اگر انہیں اپنی قسمت بدلنا ہے تو “ ان “کا ساتھ دیں جو امین کے معیار پر پورے اترتے ہوں چاہیں وہ ان کی برادری کے ہوں یا نہ ہوں؟ ان کے گاؤں شہر اور قصبے کے ہوں یا نہ ہوں ۔ یا مسلک اور فرقے کے ہوں یا نہ ہوں؟ ورنہ اب جو روایتی سیاست داں آئے تو وہ اِس دستور کو بد دل دیں گے؟ جس نے ہاتھ پاؤوں نکالے تھے اور پھر پوری قوم کوبجا ئے اجتمائی توبہ کے ،اجتمائی خود کشی کی طرف لے جائیں گے؟ رہ گئے وہ خود ان سب کے کاروبار اور گھر باہر ہیں؟ ان کے طیارے اڑنے کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں ؟ بظاہر جو یہا ان کے اساسے دکھا ئی دیتے ہیں وہ یہیں سے قرضے لیکر چلاتے ہیں ،جبکہ وہ ان کی مالیت سے دگنے تگنے مقروض ہوتے ہیں جبکہ بچارے کافی قرضے معاف کراچکے ہیں؟ یہ بیچارے توکچھ نہیں کرتے کارخانے چلاکر عوام کو ملازمتیں اور کارو بار مہیا کرتے ہیں ،صرف اتنا کرتے ہیں جو منافع کماتے ہیں وہ باہر بھیجتے رہتے ہیں؟
اب یہ آپ خود طے کرلیں کہ آپ اس کی غلامی چاہتے ہیں جو مالک ہے، جو آپ کو دیتا سب کچھ ہے مگرمانگتا بدلے میں کچھ نہیں سوائے اطاعت کے، وہ بھی آپ کے اپنے فائدے کے لیے۔ یا اس کے نافر مان بندوں کے پیرو بنیں جو اصل میں شیطان کے پیرو ہیں ؟ اللہ آپکو بینائی عطا فرما ئے ۔آمین۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے