پاکستان میں پہلی اوپن جیل۔۔۔ از۔شمس جیلانی
ویسے تو ہمیشہ سے پورا ملک ہی اوپن جیل ہے رہا۔ جس کا احساس سب کو ہے مگر کہتا کوئی نہیں ہے؟ اس لیے کہ ہر ایک کو ڈر لگتا ہے ان سے جو اس کو جیل بنا ئے ہو ئے ہیں؟ جن میں چور، بھتہ ، خور ، زندہ لوگوں کی کھال اتارنے والے ، اغواء برائے تاوان والے سبھی شامل ہیں؟ سچ یہ ہے کہ جو قوم خدا سے ڈرنا چھوڑ دے اس کی یہ ہی حالت ہو جاتی ہے کہ وہ سب سے ڈرنے لگتی ہے اور یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہونچ جاتا ہے کہ لوگ اپنے سایوں تک سے خوفزدہ رہتے ہیں، جیسا کہ بعض کمیونسٹ ملکوں میں دیکھا جا چکا ہے کہ بیوی میاں سے اور میاں بیوی سے ڈرتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی اسٹیٹ کااتنا وفا دار نہ نکل آئے کہ شکایت کردے اور دوسرا دھرلیا جا ئے۔ یہ ہی صورت حال آج وطنِ عزیز پاکستان کی ہے کہ وہ بنا تو اسلام کے نام پر تھا، مگر جب ملک ہاتھ آگیا تو سب ً مکیری ً بن گئے نتیجہ یہ ہوا کہ جب دل میں یہ چور پیدا ہوگیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بد عہدی کی ہے! تب دنیاوی قوتوں کی تلاش شروع ہوئی اس وقت دو بڑی طاقتیں تھیں ایک پر تو بڑے بھائی پنڈت نہرو کا ٹریڈ یونین میں سر گرم ہونے کی وجہ سے قبضہ تھا لہذا ان کی ضد میں اس کے باوجود کہ پڑوسی سپر پاور نے ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم کو سب سے پہلے دورے کی دعوت بھی دی مگر بیل اس لیے منڈے نہیں چڑھی کہ شاید ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی تھیں۔ لہذا ہم نے سات سمندر پار والوں سے رشتہ جوڑ لیا وہ دن اور آج کا دن کہ جال مضبوط سے مضبوط ترہو تا چلا گیا۔ اور ملک اوپن جیل بن گیا ۔
کیونکہ اب ڈر تھا کمیونزم کا اور ہم حلیف تھے سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والے ملکوں کے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے آزادی خیال پر قدغن لگی جو بڑھتی ہی گئی جو اس سے ظاہر ہے کہ ابتدائی دور میں ہی کئی اخبار نویس جیل یاتررہ پر بھیجے گئے؟
پھر ایک جونیر آفیسر کو دس سنئیر افسروں پر ترجیح دیکر کمانڈر انچیف کے عہدے تک لایا گیا اور یہیں سے سول حکومت کو فوجی بیساکھی مل گئی تاکہ وہ مرکزمیں توضمنی انتخابات کے جھمیلے سے بچی رہے ۔ مگرصوبوں میں یہ عمل جاری رکھے کہ جمہوریت میں وظیفہ جموریت بھی اداکرنا ضروری ہے۔ پہلی جو صوبائی حکومت بر طرف ہو ئی، وہ سرحد کی حکومت تھی جو کہ آجکل خیبر پختون خواہ کہلاتا ہے۔ وہیں سے خان عبدالقیوم خان کی قیادت میں جھرلو ایجاد ہوا، چونکہ اس کی ایجاد کا سہراقیوم خان کے سر تھااس لیے جھرلو کے ساتھ دنیا میں سرحد کا نام بھی خوب روشن ہوا؟ پھر بات یہاں تک پہونچی کہ پہلا وزیر اعظم امریکہ سے پتہ نہیں، ہمیں خود درآمد کر نا پڑا یا انہوں نے خود ترس کھاکر بھیجدیا کہ ہمارے یہاں کوئی ساست دانوں میں، انہیں اہل نہیں ملا؟ وہ قرعہ فال ان کے نام نکلا جو ان دنوں پاکستان کے امریکہ میں سفیر تھے جناب محمد علی بوگرہ مرحوم۔
پھر اللہ کا کر نا یہ ہوا کہ ہمارے حلیف خاص نے ورلڈ آڈر تبدیل کر دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں بھی اب ایک جنرل صدر بن گیا تھا؟ کیونکہ اسے جمہوریت میں یہ خرابی نظر آئی کہ اس میں بھانت ،بھانت کی بو لیاں سنائی دیتی ہیں؟ جبکہ آمریت میں فائدہ یہ نظر آیا کہ صرف ایک مرد ِ آہن ہو تا ہےاور باقی بھیڑیں؟لہذا تمام حلیف ملکوں میں پلک جھپکتے ہی آمر آگئے، اور ہمارے نصیب میں پہلا مارشلا لے کر آنے والے جناب ایوب خان لکھے گئے؟ پھر کیا تھا کہ فوجی آمروں نے راستہ دیکھ لیا اور دوبارہ ہمیں خالص جمہوریت کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ اگر کبھی کوئی نام نہاد عوامی حکومت آئی بھی تو بھی وہ انگریزی زبان میں ٹیلر میڈ تھی؟ سب کچھ وہیں سے نامزد ہوتا تھا جبکہ تہمت ووٹرز کے سر رکھدی جاتی تھی ؟ یہ سلسلہ چلتا رہا وہاں سے ایڈ اور حکمراں دو نوآتے رہے حتیٰ کہ ایڈ میں ملا دودھ پی کر دونسلیں جوان ہو گئیں ۔ جس کا آخری نمونہ کمال اتاترک کے شاگرد رشید جناب مشرف صاحب تھے جوکہ ماڈرن اسلام کے داعی بن کر آئے؟ یہ اس لیئے ضروری ہواکہ ان سے پہلے کیونکہ ضرورت اسلامی جہاد کی تھی، اس کے لیئے جو صاحب بھیجے گئے تھے ان کا نام تھا ضیا الحق اور ان کا نعرہ تھا کہ ً لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو ً انکا کہنا یہ تھا کہ پہلے آنے والوں نے اسلام نافذ کر نے میں پہلو تہی کی اب میں عملی طور پر اسلام نا فذ کرونگا ، وہ کس حد تک مخلص تھے اورکامیاب رہے وہ ان کے گیارہ سالہ دورِحکومت سے ثابت ہے؟ وہ تو اللہ کو پیارے ہوگئے، جبکہ ہمیں اور حلیفوں کومشکل یہ پڑ گئی کہ ان کا لایا ہوا اسلام سب کے گلے پڑ گیا اور ابھی تک پڑا ہوا ہے جوکہ نظریہ ضرورت کے تحت تخلیق کیا گیا تھا جس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا ؟
لہذا ایسے میں کسی پوائنٹس مین کی ضرورت محسوس ہوئی جو ریل کی پٹری کا کانٹا بد ل سکے؟ اور ماڈرن اسلام روشناس کرائے چونکہ دین اُمرا ءکا چلتا ہے ان سے ان کے وزیر بڑھ گئے کہ وہ تو پردے میں کام کر نے کے عادی تھی، مگر وزراءبھرے جلسہ میں پی کر اور ڈائس پر کھڑے ہوکر ناچتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ ہے ماڈرن اسلام ؟
جب آدمی طاقت کے نشہ میں چور ہو جائے تو وہ سب کچھ کر گزرتا ہے؟ جب عدلیہ ان کی راہ میں روڑے اٹکانے لگی، تو انہوں نے اس سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی اور اس پر ہاتھ ڈال بیٹھے ۔ عدلیہ نے جب چھان بین شروع کی تو معلوم ہوا کہ اور جو کچھ ہوا سو ہوا، مگر چک شہزاد میں دوسوسے زیادہ پانچ ایکڑ کے پلاٹ سیاستدانوں کو الاٹ کیے گئے ، تاکہ اسلام آباد کو وہ تازہ سبزیاں فراہم کریں؟ جن کو اب سیاستدان اپنی نئی نسل اگانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ان پر اپنے محل تعمیر کچھ کر چکےہیں اور کچھ کر رہے ہیں ۔ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام تھے ان میں ایک نام صدر ِمحترم کا بھی تھاجوکہ بقول ان کے انہیں کسی نے بطور تحفہ دیا تھا وہ پوری فائل تو کہیں گرد میں آجکل دبی ہئی ہے۔ مگر اس پر انہوں نے برے دنوں میں ریٹائرڈ لائف گزارنے کے لیئے جو محل بنوا نا اپنے دور اقتدار میں شروع کر دیا تھا؟ “ دیکھئے اور عبرت پکڑ ئیے “ کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے! انہوں نے یہ کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ برے وقتوں میں یہ محل اوپن جیل کام دے گا؟ فعتبرو علی الا بصار ، (دیکھو اور عبرت پکڑو )کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے عدن میں بھی ایک جنت بنوا ئی تھی جب بن کر تیار ہو ئی تو وہ دیکھنے گیا ،مگر اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت عزرائیل علیہ السلام اسے دروازے پر موجود ملے اور اس کے باغ میں داخلے سے پہلے اس کی روح قبض کر لی۔ وہ یہ حسرت ہی لیے چلاگیا کہ اپنی بنوائی ہوئی جنت کو ایک نظر دیکھ ہی لیتا ۔ چونکہ یہ واقعہ اسرائیلیات میں سے ہے پتہ نہیں کہ صحیح ہے یا غلط ،مگر ہمارے مشرف صاحب اس سے بہتر رہے کہ کیسے بھی صحیح اس کو نہ صرف انہیں دیکھنا نصیب ہوا بلکہ اس میں وہ رہ بھی رہے ہیں ؟
چونکہ ہر تجربہ سے فائدہ اٹھانے والی قوم ہمیشہ فا ئدے میں رہتی ہے ، اگر پاکستانی قوم ہمارا مشورہ قبول کرے تو ہم یہ مشورہ مفت پیش کر نے کو تیار ہیں کہ پورے ملک میں اوپن جیلوں کا جال بچھا دیا جا ئے۔ تو موجودہ جیلیں جو کہ جرائم پیشہ لوگوں کی پناہ گا ئیں ،اس لیے بنی ہوئی ہیں کہ ان کو کرنے کے لیے وہاں کوئی کام نہیں ہوتا؟ یہاں انکے پاس بجائے جیل کی بیرکوں کے کھلا میدان ہوگا جس میں وہ اپنے لیے تازہ سبزیاں اُگا یا کریں گے، پولٹری فارم میں مرغیاں ہو نگی، بجا ئے پتلی دال کے اور کبھی منہ کا مزہ بدلنا چاہیں تو بھیڑوں کا ریوڑھ ہو گا اس طرح وہ سب کارآمد انسان بن سکیں گے۔اور جسے یہاں کنیڈا میں ہر کریکشنل سنیٹر کے آفس میں قیدیوں کے ذاتی اعترافات لگے ہوئے ہیں ویسے ہی اعترافات وہاں بھی لگے ہوئےملیں گے جو کہ دوسرے ساتھی قیدیوں کے لیئے عبرت کا با عث ہو ں گے ،انہیں دیکھ کرمعزول آمر اکڑیں گے نہیں بلکہ پہلے دن سے انہیں دیکھ کر عبرت پکڑا کر یں گے؟جس سے ان کا فائدہ تو ہوگا ہی کہ اکڑ نکل جا ئے گی مگر ملک کا بھی بڑا فائدہ ہو گا۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے