یہ بات خوش آئند ہے کہ آنے والی حکومت جانے والی حکومت کی طرح اسلام سے اتنی بے خبر نہیں ہے کہ وہ ان کی طرح کہدے کہ وعدہ قر آن اور حدیث تھوڑی ہے۔ ہم نواز شریف صاحب سے زیادہ واقف نہیں ہیں کیونکہ مدتوں سے ملک سے باہر ہیں۔مگر میڈیا کے ذریعہ ان کو تبلیغی اجتماعات می بھی دیکھا اور یہ بھی پڑھا کہ وہ اپنے والدِ محترم کے سامنے اف بھی نہیں کر تے تھے اور بقول ایک اینکر کہ وہ ان کی وہیل چیر بھی خود ہی چلا تے تھے اورکسی ملازم کو نہیں دیتے تھے اور نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ ظاہر ہےجو شخص قر آن میں خالق ِ حقیقی کے حکم کو اتنا مانے جس میں خالق ارضی یعنی والدین کے حقوق دوسرے نمبر پر ہیں تو اس خالق کے احکامات ماننے میں کب وہ ٹال مٹول کریگا جو سب کا خالق ہے اور پہلے نمبر پر ہے۔ مگر ہمیں ڈر اس سے لگتا ہے کہ من حیثیت القوم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدے وفا کرنے میں ہماری ہی تاریخ نہیں بلکہ بنی نوع ِ انسانی کی تاریخ وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیئے تھی؟ کیونکہ افراد اور قوموں کی تاریخ یہ ہی رہی ہے بقول ِ باری تعالیٰ کہ “ جب مصیبت آتی ہے تو اللہ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں کہ اے اللہ مجھ پر سے یہ مصیبت ٹالدے تو میں کبھی تیری کوئی نا فرمانی نہیں کر ونگااور جب وہ مصیبت ٹالدیتا ہے تو پھر اس کو یا تو وہ اپنی طرف منصوب کر لیتے ہیں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ہوں جیسے حضرت موسیٰ (ع) کے دور میں قارون کاکہنا تھا“ یا اگر کریڈٹ خود نہیں لیتے تو پھر کسی اور کے کھاتے میں ڈالدیتے ہیں ؟( مثلا ً کسی پیر فقیر اور اِس زمانے میں کسی رہنما، قومی مفکر، کسی ملک کے صدر یا بادشاہ کے کھاتے میں ) یہ تو ہیں قرآنی مثالیں جو کہ رب تعالیٰ نے جا بجا بیان فر مائی ہیں۔ لیکن قصے کہانیوں میں یا سینہ بہ سینہ گزٹ میں کہہ مکرنیوں کی بہت سی مثالیں ہے۔ مثلا ً ہم سب یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ ہمارے گناہ معاف کر دے اور ہمیں غلامی سے نجات دے تو ہم اپنے ملک میں تیری حکومت قائم کریں گے، تیرے احکامات نافذ کریں گے اور اس کو دنیا کے لیے ایک مثالی ملک بنا ئیں گے؟ پھر جب اس کو ترس آگیا اور ہماری سن لی؟ تو پھر سوچتے رہ گئے کہ ہم میں سے تو کوئی اس معیار پر پورا نہیں اتر تا! دوسرے اگر ہم چوروں کے ہاتھ کا ٹنے لگیں ،زانیوں کو سنگسار کر نے لگیں ،تو پھر دنیا کو کیا منہ دکھا ئیں گے، کہ ہم اتنے غیر مہذب ہیں؟ لہذا پھر کہا کہ اے اللہ! ہمیں کچھ مہلت دیدے کہ دنیا کے حالات تبدیل ہو جائیں ، جب وہ بھی تبدیل ہو گئے کہ جہاں ایک بھی ملک مسلمانوں کا نہیں تھا وہاں اس نے ٥٦ ملک عطا فرمادئیے اور کچھ کو تو تیل کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ جبکہ ایک ملک کو اپنی کریمی سے ایٹمی طاقت بھی بنا دیا؟ مگر ہم وہیں کہ وہیں رہے وہی ہیر پھیر!اکثر یہ ہو تا رہا کہ اللہ سے وعدوں کا معاملہ جوں کا توں رہتا رہااور وعدے پورے کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ لیکن جب عوام کے دلوں سے وہ محبت کھینچ لی اور انکے ہاتھ تمام لحاظ اور ادب چھوڑ کر حکمرانوں کی پگڑی تک پہونچنے لگیں؟ تو پھر ان سے آئے دن نت نئے وعدوں کا دور شروع ہوجاتا ہے اور ان کو جھانسا دیکر جب حکومت میں حکمراں بن جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وعدہ کوئی قر آن اور سنت تو نہیں ہے جس سے پھرنا ممکن نہ ہو ؟مگر کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ تم نے جو اللہ سے وعدے کیئے تھے وہ کون سے پورے کئے ہیں؟ ہمارا ہی نہیں ہمارے اجداد کا ریکارڈ بھی یہ ہے کہ چھیاسٹھ سال سے وعدے ادھار چلے آرہے ہیں۔ اگر ہم دانشوروں کو چھوڑ کر تاریخ پڑھتے تو ہمیں وہ وعدے یاد آجاتے جو وفا نہ ہوئے اور شاید شر ماکر ہم توبہ کی طرف مائل بھی ہو جاتے؟ اور اسی طرح ہم علماءکے بجائے خود قر آن پڑھتے تو یہ کبھی نہ کہتے کہ وعدے کونسا قر آن اور حدیث ہیں ،کیونکہ قر آ ن میں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ایک جگہ نہیں متعدد جگہ پر فرما رہاکہ “تم سے قیامت کے دن وعدوں پر پوچھ گچھ ہوگی ًاور رہا اسوہ حسنہ جو احادیث اور روایات میں بیان ہوا ہے۔ اس کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ “ ایک مسلمان حضور (ص) سے راستے میں ملا اور یہ کہہ کر چلاگیا کہ میں ابھی آتا ہوں ؟ اور وہ بھول گیا ، اس کو دوسرے دن اسی وقت یاد آیا کہ کل میں حضور (ص) سے یہ کہہ کر آیا تھا کہ ابھی آتا ہوں! کہیں وہ (ص) وہاں انتظار نہ فرمارہے ہوں ؟ جب وہ وہاں پہونچا تو دیکھا کہ حضور (ص) وہیں کھڑے ہیں؟ وہ بہت شرمندہ ہوا کیونکہ اس وقت اسلام نیا نیا تھا اور وعدہ خلافی کو لوگ برا جانتے تھے؟ جبکہ آجکل تو ہمارا یہ تکیہ کلام ہے کہ ابھی آیا ، پانچ منٹ میں آیا ،لیکن عمل کیا ہے؟ بعض تو دنیا سے چلے جاتے ہیں اور نہیں آ پاتے؟ وہ بھی بیچارے کیا کریں،اس لیے کہ موت کا فرشتہ وقت کا پابند ہے اور وہ کبھی ہماری طرح آنے میں تاخیرنہیں کرتا اور مہلت بھی نہیں دیتا۔ آئیے ایک لطیفہ ، جو حقیقت بھی ہو سکتاہے سنا کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم جس شہر کے کبھی رہنے والے تھے اس کا نام ہے ً پیلی بھیت ً نام کی وجہ تسمیہ مورخین نے یہ لکھی ہے کہ اس کو لدنیا بنجاروں نے جب آباد کیا تو یہاں ایک کچا قلعہ بنا یا تھا اور اسکی دیواروں پر پیلا رنگ پھیر دیا ، چونکہ ہندی میں دیوار کو بھیت کہتے ہیں لہذا راہ گیروں نے اسے پیلی بھیت کا نام دید یا؟ اس کے باشندوںکا کاروبار تھا اناج کی تجارت اوریہ علاقہ ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں ہو نے کی وجہ سے دریاؤں اور ان کی برکت سے جنگلات سے مالا مال تھا، انہیں کے درمیان میں کہیں کہیں جو زمین ہموار تھی وہاں لوگ فصل کاشت کرلیتے تھے اور وہاں کے قدیم لوگ جنہیں “تھارو “ کہا جاتا تھااس وقت اتنے سیدھے تھے کے انگریزی کا( تھارو جینٹل مین) ان پر صادق آتا تھا! کہ ان کے یہاں سکے کا چلن نہیں تھا، وہ اناج سے ہر چیز خریدتے تھے سوائے نمک کے۔ اس طرح یہ ان کا مال اونے پونے خرید کر پھر یہ منڈیوں میں لے جاکر روپیہ کما تے تھے؟ انہیں میں سے ایک ذات ان میں ًمکیری ً بنجاروں کی بھی تھی؟ جو کہ کہہ کر مکرنے کے لیے بڑے مشہور تھے۔ ان میں سے ایک تاڑ کے درخت پر چڑھ گیا۔ اور جب وہ اس سے پھل توڑرہا تو ہاتھ سے وہ رسی چھوٹ گئی جس کے سہارے وہ چڑھا تھا ،جب زمین کی طرف دیکھا تو جان نکل گئی اس نے منت مانی کہ اے اللہ! اگر مجھے تو خیریت سے زمین تک پہونچا دے تو میں ایک بھینس قر بان کرونگا ، اور آہستہ آہستہ ،نیچے کی طرف اتر نا شروع کیا جب آدھا رستہ طے ہو گیا ،تو کہنے لگا بھینس کا تو میں اور بچے دودھ پیتے ہیں مجھے اس کی زیادہ ضرورت ہے ؟ جبکہ تو غنی ہے تیرے یہاں کیاکمی ہے ؟میرے پاس ایک بکرا ہے وہ قر بان کر دوں گا۔ جب اور قریب پہونچا تو کہنے لگا کہ اللہ تو تو غنی ہے ہی تیرے یہاں کیا کمی ہے ؟میں مرغی ضرور قر بان کرونگا ؟ اور جب فاصلہ بالکل ہی کم رہ گیا تو اس نے چھلانگ لگادی اور اس کے پیر زمین پر ٹکنے تھے کہ کہنے لگا کہ اللہ تو داناو بینا ہے خبیر اور بصیر ہے لہذا تو واقف ہے کہ مجھے تونے “ مکیری “ برادری میں پیدا کیاہے اور ہمیں تربیت ہی ہمارے ماں باپ نے ًکہہ مکرنے ً کی دی ہے ؟ جبکہ تو غنی ہے تیرے یہاں اس سے کیا کمی واقع ہوگی ؟ مجھے یہ سمجھ کر معاف کر دے کہ مکیری تھا مکر گیا؟ یہ ہمیں واقعہ اس لیے یاد آیا کہ لوگ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ثنا بھی پانچوں وقت کرتے ہیں اور وعدوں سے بھی مکرتے جاتے ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہے پہلے والے حکمراں کہا کرتے تھے کہ وعدہ کوئی قرآن اور حدیث تو نہیں ہے جو پورا کیا جائے ؟ اس الیکشن میں ان کے ساتھ ہوا یہ کہ ان کے پیروں کے نیچے سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زمین کھینچ لی، اور انہیں سمندر کے کنارے تک پہونچا دیاکہ اب بھی نہ سدھرے تو دیکھ لو؟ وہ سمندر کے دوسری طرف تمہارا وطن ِ ثانی انتظار کر رہا ہے؟ جبکہ اب جنہوں نے انکی جگہ لی ہے جس طرح کہاوت ہے کہ بچے کے پیر پالنے میں نظرآ تے ہیں ان کے پیر بھی پالنے میں نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھائی کے اس وعدے پر جو بجلی کی فراوانی کے سلسلہ میں تھا اور جس کی وجہ سے عوام نے یہ سوچ کرووٹ بھی دیئے تھےکہ وہ ایک کرشمہ ساز انسان ہیں ؟ جس طرح انہوں نے میٹروبس کا منصوبہ گیارہ مہینے میں پورا کر دکھا دیا وہ یہ کام بھی گیارہ مہینے میں کر دکھا ئیں گے؟ کیونکہ میٹرو بس تو ٹرکی سےآنا تھی جب کہ شیخو پورہ میں لگنے والےپلانٹ بقول ان کے کراچی میں پڑے تھے مگر وہ آنہیں پارہے تھے۔ لیکن ان کے بڑے بھائی نے اخبار نویسوں کو یہ فرماکر حیران کر دیا کہ وہ یہ سب کچھ جوشِ خطابت میں کہہ گئے تھے ؟ اور یہ ہم آپ سب جانتے ہیں کے بھائی کے بارے میں بھائی سے زیادہ کون جانتا ہے۔اب آج کچھ نئے وعدے عالم ِ وجود میں آئے ہیں جوکہ بڑے بھائی نے خود کیئے ہیں جن کی ابتدا پہلے صرف تحریک ِ انصاف کے نعروں کی شکل میں تھی۔ مثلا ً شان شوکت ختم کر دی جائے گی۔ ایوان وزیراعظم کو فلاحی مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا ئے گا۔ وزیر وںکی گاڑی پر جھنڈا نہیں ہو گا۔ اور ان کی حفاظت کے لیے سڑکیں بند کرنا وغیرہ بندکر دیں گے۔ یہ نقل ہی سہی چاہیں کسی کی ہو؟ اس لیے کہ اچھائی کسی کی میراث نہیں ہوتی البتہ طرح ڈالنے والے کو ثواب ضرور ملتاہے؟ اگراسے کوئی جیتنے والا اپنا نے جارہا ہے تو اس کے لیئے دعا مانگو کہ اللہ وعدے کر نے والوں کو وعدوں میں استقامت اور وعدہ وفا کرنے کی توفیق عطا فرما ئے (آمین) مگر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے آئین کے مطابق دعا کی مقبولیت توبہ کے ساتھ مشروط ہے اور ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مستقل وعدہ خلافیوں کے مرتکب ہو کر زیر عذاب ہیں؟ اس لیے ہمارا قوم کو مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے آنے والے رہنما کو ساتھ لے اور اس کی قیادت میں ایک دن سب مل کر اجتماعی توبہ کریں کہ آئندہ وعدوں سے نہیں پھریں گے اور انتخاب میں بھی شخصیت پرستی، مفاد پرستی ،برادری کی پاسداری اور صوبہ پرستی جیسی مسلسل غلطیاں نہیں کریں گے ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ حکمرانوں کا جوشِ خطابت بڑھ کر آہستہ اہستہ تمام کیئے گئے اچھے وعدوں کا احاطہ نہ کر لے۔ اور ہم پر عذا ب جو ں کا توں جاری رہے کہ تم نے وعدہ خلافیوں پر ٹوکا کیوں نہیں کیونکہ قر آن کے مطابق غلط کاموں پر ٹوکنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے ؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے