ہماری جانے والی حکومت نے تو تاریخ میں ایک عجیب تجربہ کیا تھا کہ تمام کا رو بارِ حکومت نا اہلوں کو دیدو؟ اس کے لیے ان کی صلا حیت مت دیکھو بلکہ پسند دیدگی کااس میں یہ معیار دیکھو کہ جو جتنا شا ہ کا وفادار ہو اس کو اتنا ہی بڑاعہدہ اسے دیدو؟ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے اسیکنڈل سامنے آئے اور ملک کی مالی حالت نہ گفتہ بہ ہو گئی ۔ مگر حکومت پانچ سال کھینچ لے گئی ۔یہ کمال تھا جناب زر داری صا حب کی اس ذہانت اور مہارت کا جو کہ بطور شطرنج کے ماہر کھلاڑی کے انہوں نے ظاہر کی؟ شاید بہت سے لوگ اس نکتے کو نہ سمجھ پا ئیں ۔اس لیئے میں یہ بتا تا چلوں کہ شطرنج بہت ہی قدیم کھیل ہے جو با دشاہ مدتو ں سے کھیلتے چلے آرہے ہیں اور ہمارے یہاں یہ ایران کی فتح کے ساتھ تحفہ میں آیا۔ اس میں بھی وہی خرابی تھی جوکہ کرکٹ میں ہے کہ آدمی دنیا سے بے خبر ہو جاتا تھا اور بازی کا یہ عالم ہو تا تھا کہ صبح سے شروع ہو ئی اور شام ہو گئی مگر ختم نہیں ہوئی ،تو با قاعدہ فہرست بنتی تھی کہ کونسا مہرہ کس خانے میں ہے اور اس پر دونوں فریق دستخط کر دیتے تھے، کہ رات میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کوئی ہیر پھیر نہ کردیں؟ جیسا کہ ہمارے یہاں انتخابات میں کرنے کے باوجود قسمت کا لکھا ہوکر رہتا ہے؟ دوسرے دن وہی بازی پھر اسی طرح لگ جاتی ؟ اب آپ پو چھیں گے کہ حکومت کون چلا تا تھا جبکہ بادشاہ تو کھیل میں مصروف رہتے تھے ؟جواب یہ ہے کہ وہ وزیر چلا تے تھے جیسے کہ ہمارے یہاں سکریٹری اور کلرک چلا تے ہیں۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے بعد میں ماہرین نے بجا ئے روایاتی شطرنج کھیلنے کے“الل ٹپ“ شطرنج ایجاد کر لی جسے انگریزی میں “ایکس ٹمپور“ کہتے ہیں۔جس میں جیسا موقعہ ہو ویسا ہی مہرا بڑھتے ہیں، قدیم شطرنج کی طرح قلعہ وغیرہ بنا نے اور اس میں بادشاہ کو بٹھانے کا وہ تکلف نہیں کرتے ؟یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہ لوگوں نے کرکٹ کے طویل کھیل سے تنگ آکرجو کہ کئی دن چل کر اکثر ڈرا ہوجاتا تھا ! ون ڈے میچ شروع کر دیئے ۔ مگر زرداری صاحب کی مہارت یہ تھی کہ انہوں نے دونوں طریقے بہ یک وقت استعمال کیئے کہ اپنے لیے تو قلعہ بنا یا اور وہ اس میں بیٹھ گئے ،مگر مہرے بڑی بیدردی سے بڑھتے رہے اور جو پٹ گیا اس کو فارغ کرتے گئے ؟مثلا اگر بجلی کی سپلائی کمپنیوں کو ادا ئیگی نہ ہو نے کی وجہ سے بند ہوئی تو انہوں نے کسی اور مد سے رقم ادا کر کے بجلی جاری کرادی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی وجہ سے بد عنوانی کے الزام میں کئی مہرے مارے بھی گئے یا عدالتوں میں کھچڑ رہے ہیں ۔ لیکن وہ اس تر کیب سے پانچ سال کھینچ گئے؟ گوکہ نتیجہ یہ رہا کہ مہرے زیادہ تر پٹ گئے یا انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔مگر قلعہ کی وجہ سے وہ محفوظ رہے اور ان کا قلعہ ِثانیہ بھی سندھ کارڈ کی وجہ سے محفوظ رہا؟ اب آپ پھر پو چھیں گے کہ انہونے یہ تجربہ کہاں سے حاصل کیا؟ جس کے نتیجے میں ایک زرداری سب پر بھاری کانعرہ معرضِ وجود میں آیا؟ در اصل یہ انہوں نے بمبینوں سینما سے حاصل کیا ،جہاں وہ اسے کامیابی ے ساتھ پہلے چلا چکے تھے، جس میں ٹکٹوں کی کھڑکی سے لیکر ایم ڈی تک کے سب محکمے ان کے ہاتھ میں رہتے تھے؟ جبکہ موجودہ حکومت کو وہ سہولت اس لیے حاصل نہیں کہ بادشاہ ابھی تک قلعہ میں محفوظ ہے۔ اب رہی موجودہ حکومت کی غفلت، جس کو یہ معلوم تھا کہ معاہدے کے تحت جو درمیانی لوگوں نے کرایا تھا کہ آئندہ باری ان کی ہے اورانہوں نے ہر قسم کی انہیں ضمانت بھی دی ہوئی تھی؟ جو اس سے ثابت ہے کہ پہلے تو پورے ملک کا انہوں نے سروے کمپنیوں کے ذریعہ جا ئزہ لیا اور جہاں جہاں خود کو کمزور پایا وہاں لیپا پوتی انجام دیکر لوگوں کی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کر تے رہے اور جبکہ اس کے نتجائج اخبار میں بھی آتے رہے تاکہ وہ رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکیں؟ مگر انہوں اس کے باوجود ان کے پاس ماہرین کی فوج موجود تھی اور مالیات کے تو اتنے بڑے ماہر ان کے پاس تھے جن کا ڈنکا دنیا میں بجتا ہے اور جن کے متقی ہونے کا چر چا بھی ہے، لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ سودی معاملات کی ہر رقم وضو کرکے اور بسم اللہ پڑھ کر اس کے خانے میں رکھتے ہیں لہذا ان کی مشکلا ت آسان ہو جاتی ہیں؟ لیکن انہیں نہ جانے کیوں نواز شریف صاحب نے بروقت استعمال نہیں کیا؟ جو اس سے ثابت ہے کہ انہیں موجودہ بجٹ وہی کا وہی اپنانا پڑا سوائے معمولی ہیر پھیر کے جوکہ نوکر شاہی نے پہلے سے تیار کرکھا تھا ؟ جبکہ نوکر شاہی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ وہی کام کرتی ہے جو مفاد پرست کرانا چاہیں اور اس میں جنتا گڑ ڈالیں؟ وہ ان کے لیئے اتنا ہی میٹھا کر دیتے ہیں؟لیکن بات آتی ہمیشہ وزیروں پر ہے جیسے سابقہ حکومت میں حج اسکینڈل؟ کیا کسی اور نے پکڑے گئے بیچارے مولانا؟ جبکہ میاں صاحب کو یہ سوچنا چا ہیے کہ ان کے پاس عام مہرے نہیں ہیں بلکہ نورتنوں کا مجمع ہے اور وہ بھی زیادہ تر رشتہ دار ہیں لہذا انہیں وہ سہولت حاصل نہیں کہ وہ زرداری صاحب کی طرح مہروں کو پٹواکر اپنے اقتدار کو طول دے سکیں؟ یہ تھی وہ سیاسی صورت حال جس میں میاں کی حکومت برسر ِ اقتدار آئی اور آتے ہی اسے بجٹ پیش کر نا پڑگیا ؟ جبکہ میاں صاحب اس کی پہلے سے تیاری کر کے رکھتے تو یہ صورت ِ حال پیدا نہ ہو تی ان کے پا س جناب اسحاق ڈار صاحب جیسے ماہر مالیات تھے وہ بجٹ پہلے ہی سے تیار کر لیتے ؟ جوکہ اچھی اور بری دونوں قسم کی سہولتوں کا امتزاج ہوتا ؟ لہذا کچھ اچھا اور کچھ برا چل جاتا ؟وہ موقعہ انہوں نے ضائع کر دیا اب ان کو ایسے دو راہے پر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے کہ وہ اس بجٹ کو اگلیں تو مشکل اور نگلےں تومشکل ؟ پھرانہوں نے چھوٹے میاں صاحب کو انتخابی دور میں وعدوں کی چھوٹ دیدی تھی لہذا انہوں نے عجیب عجیب وعدے کیے ؟ مثلا ہم سب جگہ میٹرو بس چلا دیں گے جیسے کہ ہم نے لاہور میں چلائی ؟ اور سب سے پہلے ہم کراچی میں شروع کریں گے؟ اب میری سمجھ نہیں آتا کہ میاں صاحب اس وعدے کو کیسے پورا کریں گے؟ کیونکہ اول تو وہ مرکز میں ہیں نہیں جبکہ کراچی ریاست کے اندر ریاست ہے؟ وہاں مقامی باشندوں کے لیے بھی “ نو گو “ ایریاز بنے ہو ئے ہیں کیونکہ کوئی ایک دوسرے کو اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دینا چاہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کو ئی ان کا منڈیٹ چوری کر لے، جبکہ وہ خود کریں تو اور بات ہے ؟ کیونکہ ہمارے ہاں خلافت راشدہ تک کے دور کو چھوڑ کر بعد میں بیت المال بادشاہوں کے تصرف میں ہی رہا ہے؟ وہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی کراچی میں داخل ہو اور اب تو زرداری صاحب بھی نہیں چاہیں گے کہ وہاں کوئی اور آئے اور سندھ کارڈ خراب کرے۔ پھر وہاں کے عوام اپنے دشمن آپ ہیں جو خود ہی روزانہ دوچار بسیں جلاتے رہتے ہیں آپ کہاں تک بسیں بجا ئے چلنے کے جلنے کے لیے لا تے رہیں گے؟ انہوں نے اپنی سرکلر ریلوے ہی نہیں چھوڑی اول تو وہ پہلے ہی پوری طرح نہیں بن پائی ! کیونکہ اس کے کچھ بننے والے اسٹیشن اور ریلوے لائن کی زمین کی قیمت علاقہ آباد ہونے کی وجہ سے بڑھ گئی تھی ،جہاں اس کا مرکزی اسٹیشن بننا تھا ؟ لہذا وہ بڑے بھٹو صاحب کے دور میں ہی پلاٹنگ کر کے پارٹی کے ورکروں میں بانٹ دی گئی تھی یہ تو تھی اب تک کی صورت حال؟ اب آگے بڑھتے ہیں،ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس پر تبصرہ کر دیا تھا کہ پاور ہاوس بر آمد شدہ کوئلے سے چلانے میں کیا کیا قبا حتیں موجود ہیں؟ لہذا ہم انہیں اب نہیں دہرا ئیں گے۔ اب آئیے ایک اور پیش رفت کی طرف کہ ہائی برڈ کار وں (بجلی سے چلنے والی) پر سے ڈیوٹی ہٹالی گئی ہے؟ جنہیں یورپ اور امریکہ میں رواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ تیل پر انحصار کم ہوکیونکہ ان کے پاس بجلی وافر مقدار میں موجود ہے؟ جو ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے اور ابھی تک پوری طرح کامیاب نہیں ہے، مگر ان کو میدان میں لا نے سے پہلے پوری تیاریاں کر لی گئی ہیں کہ انہوں نے ہر پارکنگ لاٹ میں اور سرِ راہ بھی چارجنگ اسٹیشن بنا دئیے ہیں کہ جب وہ کہیں آخری سانس لینے لگیں تو وہاں کھڑا کرکے انہیں چارج کر لیں ؟آپ کے یہاں بجلی آتی ہی کبھی کبھی ہے لہذ ا یہ کیسے چلیں گی اور راستے میں کھڑی ہو گئیں توچارجنگ کی سہولت مہیا نہ ہونے کی وجہ سے تو کیا ہوگا! کیا اتنی اچھی روڈ سروس ہے کہ انہیں اسی مقام پر چارجر فراہم کر دیا جائے؟ اگر نہیں تو پھر یہ جہاں کھڑی کر کے مالک جا ئے گا اسے واپس نہیں ملیں گی، اگر ملیں بھی تو اس شکل میں ہونگی جیسے تھانوں کے ذریعہ بر آمد ہونے والی چوری شدہ گاڑیاں؟ (٢)اب آپ بھی وہی تجربہ کر نے جارہے ہیں جو کہ گزشتہ حکومت نے اپنی ضروریات پوری کر نے کے لیئے کیا تھا یعنی حاجیوں پر بالواسطہ ٹیکس؟ ڈریں !وہ ایسا مقام ہے کہ دعا یا بد دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے ۔ لہذا انہیں ستانے سے بچیں اور پچھلی حکومت کے انجام سے عبرت پکڑیں؟ پہلا حج آسان رکھیں ،اگر ٹیکس لگانا ہے تو ان پر لگا ئیں جو کہ ہیر پھیر کر کے ہر سال حج پر جاتے ہیں جبکہ حضور (ص) نے تین دفعہ استفسار پر یہ ہی فرمایا کہ حج ایک دفعہ ہے ؟ اب لوگ اپنااسکور بنا نے، یاامپورٹ، ایکسپورٹ کے لیے وہاں جا تے ہیں ان پر بلا شبہ بھاری ٹیکس لگا ئیں۔ کوئی حرج نہیں ہے؟ کیونکہ اللہ دلوں کے حال جانتا ہے۔ پھر آپ نے تنخواہ بڑھانے کے وعدے ان سے کیئے تھے جو آجکل قلم چھوڑ ہڑتال پر ہیں؟ جن کی تنخواہ ان کے اخراجات کا دس فیصد بھی نہیں ہے۔ بہتر تھا کہ وعدے کو اس سے مشروط کر دیتے کہ بشرط ِ کہ تم رشوت چھورڑدو؟ مگر بغیر یہ وعدہ لیے آپنے دس فیصد تنخواہ بڑھا دی ہے یہ تو آتے نمک بھی نہیں ان کے لیے؟ مگر مشکل یہ ہے کہ آپ یہ کہہ نہیں سکتے کہ ہم نے سب کو یہ کہہ الیکشن میںآنے دیا ہے کہ آو اور کماو، کہ ہم میں“ امینوں“ کی جگہ نہیں ہے؟ کیونکہ اگر نوکر شاہی ہی متقی ہو جا ئیگی تو سیاستدان کما ئیں گے کہا ں سے کیونکہ وہ کوئی غلط کام کرے گی ہی کیوں؟ لہذا میں بات کو یہ کہہ کر ختم کر تا ہوں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بد عنوانی ہے اگر اس کو ختم کر سکے تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں؟ ورنہ نہیں۔کیونکہ آپ خرچ کر تے جا ئیں جبکہ وصولی کہیں سے نہ ہو آخر کب تک اس طرح کام چلے گا،جبکہ وہ بھی مجبور اس لیے ہیں اور ہر محکمہ بد دیانت ہے کہ انہیں اپنی آسامیاں خریدنی ہوتی اور پھرکمائی کی جگہ تعیناتی کرانا ہوتی ہے ؟ جس کے لیے صاحب ِ اختیار لوگوں کو ادا ئیگی کر نا ہوتی ہے۔ وہ رقم وہ کہاں سے لا ئیں گے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے