ہم نے ایک کہانی بیگم سے پوچھے بغیر پڑھ لی جس کے سرورق پر لکھا ہوا تھا کہ اسے مرَدوں کو پڑھنا منع ہے۔ صرف یہ ہی وجہ تھی جس نے ہمارے تجسس کوابھارااور اس بد اخلاقی کے مرتکب ہوئے، جبکہ ہم بزعم خود اسلام کے بہت بڑے دعویدار بنے پھرتے ہیں۔ مگر اس سے فائدہ یہ ہو گیا کہ ہمیں اس کتاب کی حقیقت معلوم ہوگئی کہ یہ جس مقد س شخصیت کے نام سے منسوب کی گئی ہے اس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے کہ اس میں ذکر سزاؤں کا تو تھا جنہوں نے کہانی وعدہ کر کے اتنی مرتبہ نہیں پڑھی جو پڑھنا چاہیئے تھی! جبکہ پوری کتاب میں وہ کہانی سرے سے موجودہی نہیں ہے؟ دوسرے یہ کہ بزرگ شخصیات میں بہت سمائی ہو تی ہے سزا پر وہ اتنا زور نہیں دیتے جتنا معاف کرنے پر مائل ہوتے ہیں اور اس کے برعکس اس میں سزا ہی سزا تھی؟ جبکہ ایک عام مجسٹریٹ بھی بغیر فرد جرم لگا ئے کسی کو سزا نہیں دیا کرتا ۔ یہ ہماری لغزش تھی جس کو ہم نے پوشیدہ نہیں رکھا اور بیگم سے پو چھا کہ اس میں وہ کہانی کہاں ہے، جس پر سب کو سزائیں ملتی رہیں؟ انہوں نے پوری کتاب کی خود ورق گردانی کی جب انہیں بھی کہانی نہیں ملی تو بولیں کہ ہاں! آپ درست کہہ رہے ہیں کہانی تو اس میں واقعی کو ئی نہیں ہے؟ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ ہمیں پچاس ساٹھ سال کے بعد یہ قصہ کیوں یاد آیا ؟ اصل میں ہماری نظر ایک خبر سے گزری کہ پی ٹی وی نے دومنٹ کے بعد عمران خان کی تقریر کوسینسر کر دیا؟ تجسس پھر جاگا اور ہم نے سب اخباروں کو کھنگال ڈالا مگر ہمیں کہیں وہ بات نہیں ملی جو کہ حکمرانوں کو ناگوار گزری ؟ خدا کرے یہ خبر غلط ہو اور اس سے ہمارے اس گمان کو اور بھی تقویت ملی کہ اس تقریر کو سب نے سرا ہا ، جن میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور وزیرِ داخلہ جناب چودھری نثار بھی شامل ہیں بلکہ چودھری نثار صاحب کا تو ریمارک یہ تھا کہ یہ ایک محب وطن کی تقریر ہے؟ کیا ہمارے کچھ ارباب اقتدار ایسے بھی ہیں کہ حبِ وطن سے سرشار کسی محب وطن کی تقریر سننے کے لیئے تیار نہیں؟جبکہ دنیا میں تو جذبہ حب الوطنی ہر شہری کےاندرہو نا لازمی ہے اور تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے؟ البتہ اسلام میں اس کی جگہ جذبہ ملی ہے؟ کیونکہ اسلام ٥٦ملکوں میں بٹا ہو نے کے باوجود سرحدوں کو تسلیم نہیں کر تا جبکہ نہ ہی کسی مسلمان کو یہ ممالک اپنی شہریت عطا فرماتے ہیں کہ توازن نہ بگڑ جا ئے گا وہ ان کی مجبوری ہے؟ لیکن ہم عمل کریں یا نہ کرں یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں اور قرآن ہم سے پورے اسلام پر عمل در آمد کی بات کر تا ہے۔ یہ اور بات ہے ہم ہمیشہ اس کے بر عکس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ مثلا ً اسلام کہتا ہے کہ تمام مومن اور مومنات آپس میں بھائی بہنیں ہیں؟اور حضور (ص) نے فرمایا کہ “ جو تم اپنے لیے چاہو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی چاہو “ مگر ہمارا عمل یہ ہے کہ اپنے لیے سب کچھ اور کوئی چیز خراب ہونے لگے تو پھینک نے کے بجاءے بھائی کو دیدو ؟ہمارے شہزادے دنیا میں ایک ایک کروڑوں ڈالر ایک رات میں ہار جائیں تو کوئی حرج نہیں؟حالانکہ قر آن کہتا ہے جوا اسلام میں حرام ہے۔ یہ سب کیا ہے یہ دراصل یہ ہماری اس روش کا کرشمہ ہے جو کہ قر آن کہتا ہے کہ “ اے مومنوں وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں “ اگر ہمیں عمران خان کی تقریر میں کوئی برائی نظر آئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے آئینہ دکھا دیا ؟ جوکہ کسی بھی خوبصورت فرد کو دکھا دیں تو وہ ناراض ہو جاتا ہے؟ یہ لطیفہ تو آپ نے بھی سناہوگا کہ ایک حبشہ کے با شندے کو جو کہ افریقی حسن کا نمونہ تھا۔ راستے میں آئینہ پڑا ملااور وہ اس نے اٹھاکر اس میں اپنی شکل دیکھی تو دور پھینک دیا اور کہنے لگا کہ اگر خراب نہ ہو تا تو کوئی سڑک پر پھینک کیوں جاتا۔ انہوں نے بات یہاں سے شروع کی کہ ہمارے لیڈر کبھی سچ نہیں بولتے؟ یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے چونکہ وہ پاکستان بننے کے بعد کی پیداوار ہیں اس لیئے وقت کا تعین نہ کر سکے ورنہ تو ملک کی بنیاد سے پہلے سے ہی یہ عادت پختہ ہے؟زیر بحث تھایہ مسئلہ کہ امریکہ کی ایک ذمہ دارشخصیت نے سینٹ میں کہاکہ ہم ڈرون حملہ پاکستان کی مرضی سے کرتے ہیں، پاکستان کی قیادت اپنے لوگو ں سے سچ کیوں نہیں بولتی؟وہ ہماری تہذیب سےواقف نہیں ہیں ورنہ وہ ایسی بات نہیں کہتے ؟ ان کے یہاں تو جھوٹ بولنے پر حکومت سے نکال دیتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں سچ بولنے پر یہ ہی سلوک کرتے ہیں؟ یہ ہماری قیادت کی مجبوری ہے؟ جبکہ ان کے یہاں مملکت کا بظاہر کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ سیکولر طرزِحکومت میں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، جبکہ ہمارے دستور کے سرورق پر اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھا ہوا ہے اور یہ بھی کہ حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے ۔ جبکہ نبی (ص) فرماتے ہیں کہ “ جھوٹا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ “لیکن الحمد للہ ہم پھر بھی مسلمان ہیں ؟ پھر انہوں نے گنایا کہ کیا کیا ان کاکیا ہوا ہم نے اپنے نام لکھا؟ اگرنہ لکھتے تو بھائی عمران خان ہماری حاکمیت اعلیٰ کا جنازہ نکل جاتا جبکہ بھرم رکھنا بھی ضروری ہے؟ اور آپ یہ تو جانتے ہی ہونگے کہ حالت ِ اضطرار میں سب کچھ جا ئز ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ جب مدینہ کی ریاست کے خلیفہ حضور (ص) کے بعد حضرت ابو بکر (رض) بنے تو انہوں نے اپنی دکان بند کردی؟لہذامیں نے بھی خیبر پختونخواہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جو وزیر بنے اور جب تک وہ اس کرسی پر براجمان رہے وہ کوئی کارو بار نہیں کر سکتا؟ بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہیں کاروبار کے لیے ہی تو وہ سیاست میں آتے ہیں۔ آپ نے پہلے ہی کافی مشکلات پیدا کردی ہیں حکمرانوں کے لیے مثلا ً جھنڈے کے بغیر کار پھر اس کے بعد سکوریٹی بھی نہیں ہٹو بچو بھی نہیں تو پھر وزارت کا مزہ کیا؟جھنڈے کی اپنی شان ہوتی ہے ؟ جلال بابا مرحوم اسکندر مرزا کے دورمیں وزیر مملکت برائے داخلہ تھے ۔وہ ایماندار بھی تھے اور عوامی بھی تھے ان کے پاس کار نہ تھی ، حالانکہ کے وہ کراچی کے کسی تھانیدار کو اشارہ کر دیتے تو وہ کاروں کی لائین لگا دیتا؟ مگر وہ اسمبلی رکشا میں بیٹھ کر جاتے تھے چونکہ رکشا میں جھنڈا لگانے کے لیئے راڈ نہیں ہوتا ہے، لہذاوہ جھنڈا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے کہ پتہ تو چلے کہ آنر ایبل منسٹر جارہے ہیں؟ اور ایک وہ ہی نہیں اس زمانے بہت سے منسٹر ایسے تھےجن کے پاس کاریں نہیں تھیں۔ خصوصی طور پر جو اراکین مشرقی پاکستان سے ہوتے تھے؟ کیونکہ وہاں سے ہمیشہ چھٹ بھیئے ہی منتخب ہوکر آتے تھے؟ اسی لیے مغربی پاکستان سے ان کی بنی نہیں اور اکثر یت بے انصافی برداشت نہ کر سکی اور بقول ہمارے غدار تھی لہذا اقلیت سے علیحدہ ہوگئی؟ یہ آپ نے عمران خان کیا یاد دلادیا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست کی بنیاد عدل پر تھی اس لیئے وہ کامیاب رہی ؟ ہمارے یہاں بے انصافی تھی اس لیئے ملک ٹوٹ گیا ؟ با لکل نہیں ١٩٧٠ءجیسے الیکشن تو پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوئے جو کہ جنرل یحییٰ خان نے کرائے تھے؟ جس میں مغربی پاکستان میں تو نتجائج وہی نکلے جو ایجنسیاں چاہتی تھیں؟ مگر مشرقی پاکستان میں وہ نتائج نہیں نکل سکے، کیونکہ وہاں کے عوام ذرا مختلف قسم کے تھے۔ اس لیئے وہاں شیخ مجیب کامیاب ہو گئے ؟ اور انہوں نے آنکھیں پھیر لیں جبکہ حق ِ نمک بھی نہیں ادا کیا کہ ان کی تعمیر میں مغرب کا ہاتھ تھا؟ جبکہ ہمارے یہاں جھرلو ٤٧،٤٨میں ہی ایجاد ہو گیا تھا جبکہ ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت بر طرف کرکے صوبہ سرحد میں خان قیوم خان کی حکومت لائی گئی تھی؟ البتہ بنگال میں جب بھی انتخاب کرا ئے گئے نتائج خاطر خواہ نہیں نکلے۔ جبکےاس وقت مرکز میں شہید ملت خان لیاقت علی خان مرحوم کی حکومت تھی؟ اب ہم اپنی بات کو ختم کرتے ہیں اس مفت مشورے کے ساتھ کہ آپ کواگر اپنے بیانات چھپوانے ہیں اور ٹی وی پر چلوانے ہیں تو سچ بولنے سے پر ہیز کریں ورنہ پھر سینسر سے واسطہ پڑیگا اور دوسرے جو ملکی رواج ہے اس سے بغاوت نہ کریں ؟ ایک دفعہ تو اللہ نے آپ کو حادثے سے بچا دیا ہے؟ مگر معجزے ہمیشہ نہیں ہوا کرتے ؟