قومی ترجیحات یاعذابِ جاں؟۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

ہمارے یہاں ترجیحات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے معاملات شروع سے ہی التوا میں پڑتے چلے گئے اور آج تک واپس نمبر پر نہیں آئے کہ وہ پھر سے تر جیحات میں شامل نہ ہوسکے ،کچھ اس لیے بچ گئے کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی، کبھی حکمرانوں کو فرصت نہ ملی، پھر یہ کہ یہ ان کی قسمت جو اللہ کو پیارے ہو گئے اور اللہ نے سب کا پردہ رکھ لیا، ظاہر ہے انہیں وقت سے پہلے کون ما رسکتا تھا؟ ترجیحات کا ہم نے پہلا نمونہ اسوقت دیکھا تھا جبکہ ہماری اس وقت کی مخلص ترین قیادت سے اخبار نویسوں نے پوچھا کہ کانگریس کے لیڈر گاندھی جی نے بہار میں ڈیرہ جمایا ہوا ہے اور وہ فساد زدہ علاقے میں گھوم رہے ہیں اور فساد زدہ لوگوں کی ڈھارس بندھا رہے ہیں، آپ وہاں کب تشریف لے جا رہے ہیں؟ اس پر انہوں نے یہ فرمایا کہ ً بہار کے فسادات کرا ئے ہی اس لیے گئے ہیں کہ مسلمانوں اور ان کے قائد کی توجہ مسئلہ پاکستان سے ہٹادی جا ئے ً جب سے لیکر آج تک تمام کام ترجیحات کی بنا پر ہی ہوتے رہے اور روز بروز مسائل بڑھتے رہے؟ مثلا ً ہر ایک کی پہلی ترجیح اپنی انا کی تسکین اور جتنی جلدی ممکن ہو اقتدار میں آنا ہی رہی؟ جیسے بھی ہو جس طرح بھی ہو!اس سلسلہ میں کسی اصول اور ضابطہ کی پابندی کبھی ضروری نہیں سمجھی گئی؟ پھر اقتدار میں آنے کے بعد اقتدار کو قائم رکھنا دوسری ترجیح تھی جو کہ کم و بیش ہر ایک نے ہی اپنا ئی اور کچھ عرصہ تک یہ ہی دو سنہری ترجیحات جاری تھیں کہ تیسری ترجیح ہمارے قومی ایجنڈے میں شامل ہوئی ایٹم بم بنانا؟ پھر چوتھی ترجیح اس کو بچانا بنی! پھر اللہ نے جب جمہوریت این آر او کے تحت واپس دیدی تو اب وہ اتنی نازک ہو چکی تھی کہ اب گئی اور تب گئی ، لہذا اسے ہر قیمت پر بچانا ضروری تھا ، ورنہ بوٹوں کی چاپ سنا ئی دینے لگتی تھی لہذا پانچویں ترجیح یہ بنی کہ ہر طرح جمہوریت کو بچایا جا ئے؟ اور اس کے نتیجہ میں ملک میں ہر وہ کام جاری ہا جو جمہوریت کے آنے کے بعد جاری نہیں رہنا چا ہیئے تھا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا کہ کسی کو بھی باقی ملکی معاملات دیکھنے کا وقت نہیں ملا؟ جبکہ کچھ اس حسرت میں اقتدار سے اور کچھ دنیا سے ہی یہ حسرت لیے رخصت ہو گئے کہ کاش کہ انہیں ان ترجیحات سے کچھ وقت ملتا تو وہ بھی قوم کے لیے کچھ کر سکتے؟ یہ چند سطور ہمیں لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ آجکل ٹی وی پر تمام ملک کے دانشور اس پر بات کر رہے ہیں کہ کونسا کام ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اس کے مطابق قومی ترجیحات مقرر کی جائیں۔ باقی کو ہمیشہ کی طرح پسِ پشت ڈالدیا جا ئے؟ مثلاً ان کے خلاف کاروائی نہ کی جا ئے جنہوں نے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا ؟ اس لیے کہ ان کے حامی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے سابق سربراہ کو زیر ِ سماعت لا یا جا ئے؟ جب کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ ظالم کی حمایت کر نے والے بھی ظالم ہیں ؟اور ظالم کا لفظ عربی میں بہت وسیع معنی رکھتا ہے جس میں صرف اللہ ہی کے نہیں کسی کے بھی حقوق ادا نہ کرنا ظلم ہے؟ مثلاً گواہی کے لیئے مکلف یہ فرماکر کیا گیا ہے کہ اگر تمہیں اپنے خلاف بھی گواہی دینا پڑے تو بھی مت چھپا ؤ، مجرموں کوسزا دیتے وقت ان پر ترس مت کھا ؤ(اس لیے کہ مجرم دلیر ہو جا ئیں گے)۔ الحمد للہ ہم مسلمان ہیں لیکن وہ زمانہ جا ہلیہ کی خو ہم میں اتنی رچ بس گئی ہے کہ مجبوراً ہم نے اس کتاب کو اٹھا کے طاق میں رکھدیا ہے جو کہ ہمیں عمل کر نے کے لیئے دی گئی تھی۔ جبکہ اس کے نازل کرنے والے کی وارننگ مو جود ہے کہ تم ً کیا چاہتے ہو کہ تم اگر عمل نہیں کر سکتے تو میں اپنے قوانین معطل کردوں ، نہیں میں اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا، اور تمہیں بتا چکا ہوں کہ میں تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آؤنگا جو اتنے ظالم ہو نگے کہ وہ مجھ سے بھی نہیں ڈریں گے تا کہ سزا کے تقاضے پورے ہو سکیں؟ یہ سب اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے، پھر کچھ تا ریخ کی کتابوں میں بھی لکھا ہے اسی میں پچھلی اقوام کی نشا نیاں بھی ہیں ان کے انجام سے بھی اسی کتاب میں ہمیں با خبر کردیا گیا ہے ؟ مگر ہماری مصلحتیں ہیں جو ہم کو اس پر عمل کر نے نہیں دیتیں جبکہ یہ نشہ ان سب قوموں کو تھا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں نبیوں (ع) کی اولاد ہیں وغیرہ وغیرہ لہذا وہ ہمیں کچھ نہیں کہے گا؟ اور وہی وہم ہمکو بھی ہے جبکہ ہمیں خبر دار کر دیا گیا تھا کہ اب ہم ان کو برطرف کر کے تمہیں خلیفہ بنا رہے ہیں تا کہ دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو؟۔  جبکہ ہماری ترجیحات اس کے قوانین کے بر عکس ہیں مثلا ً یہ کہ ملک سے بد عنوانی دور نہ کی جائے کہ سب اس میں ملوث ہے ۔اگر ان کو چھیڑا تو نظام کون چلا ئے گا؟ غداروں کو کھلا چھوڑ دیا جا ئے کیونکہ خدا نخواستہ جمہوریت کو کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟لہذا ہر غدار کو غداری کر نے دو تاکہ دوسرے طالع آزما ؤں کی دل شکنی نہ ہو؟ اگر یہ ہی روش جاری رہی تو آثار نظر آرہے ہیں کہ کوئی نہیں بچے گا۔  کیونکہ وہ نادیدہ دشمن ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے جو کہ سب کچھ خدا کے نام پر کر رہا، بزعم خود جنت کے حصول کے لیے؟ مگر وہ بھی ہمارے ہی جیسا ہے کہ وہ بھی اس سے نہیں ڈرتا ؟ اگر ڈرتا تو وہ اس سے واقف ہو تا کہ ایک جان بچانا پوری انسانیت کو بچا نا اور ایک جان ناحق لینا پوری انسانیت کاقتل ہے؟ جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ گولی اور بم پہچان کر نہیں مارتے کہ ان میں کون گناہ گار ہے اور کون معصوم ہے؟ اس بوتل کے جن کو واپس بوتل میں کرنے کے لیے اس خلاءکو پر کرنے کی ضرورت ہے جس کے نام پر وہ ملک کے استحکام اور سا لمیت سے کھیل رہا ہے۔ کہ ً ہم وہ لائیں گے جو سابق حکمراں ٦٦ میں نہیں لاسکے ً ہم جب تک کتاب کو طاق میں رکھے رہیں گے جو کہ ہمارے دستور کا حصہ ہے اس وقت تک ہم اس عفریت کو جو کہ روزانہ بڑھتی جا رہی ہے لگام نہیں دے سکتے؟  اب تو صورت ِ حال یہ ہوگئی ہے کہ اس ملک میں گسٹاپوکی روح کوواپس لانے والے چیخ رہے ہیں ، کہ گسٹاپو کی روح آگئی ہے جو انسانوں کو اٹھا کے لے جاتی ہے؟ ان کا ملاح چلا رہا ہے کہ پاکستان کا جہاز ڈوبنے والا ہے۔اور اپر ڈیک والے اس سے بے خبر ہیں۔ جس کے جواب میں ایک صاحب نے اس پر گرہ لگائی کہ “ملکی نہیں اس کا اپنا جہاز ڈوب رہا ہے “ اس لیے وہ چیخ رہا ہے؟ہم بھی اس کی بات کو نظر انداز کر دیتے اگر اسکی بات کی تائید عمران خان جیسے مخلص اور سچے لیڈر نے نہ کی ہوتی کہ ً جہاز تو ڈوب رہا ہے مگر امہ کا، نہ کہ صرف پاکستان کا اور اس کے لیئے انہوں نے کہا تو نہیں مگر عمل سے ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ اسلام کا نظام عدل اور احسان واپس لارہے ہیں اور دوسرے صوبوں کو بھی وہ اپنے عمل سے مجبور کر دیں گے کہ وہ ایسا کریں ان سے امید اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے قول وعمل میں تضاد نہیں رکھا ہے وہ اس پر عمل کر کے دکھارہے ہیں؟ لیکن جو ملاح جہاز ڈوبنے کی خبر دے رہے ہیں جہاز بچانا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے؟ ورنہ وہ آئے دن ہڑتال کرکے اس کے ڈوبنے کا اہتمام نہ کرتے؟  جبکہ اس سمجھ پر ہمیں دانشوروںکی سوچ کا بھی ماتم کر نا چا ہیئے کہ اس کے س کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں؟  ان میں ایک پرانے سیاستدان جو ہمیشہ ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔ جن  کاکہنا تھا کہ ً میں نے آٹھ سال سے جھوٹ بولنا چھوڑدیا ہے ً اب جب انہیں اپنی گردن پھنستی نظر آئی تو وہ چلا اٹھے کہ فوج یہ برداشت نہیں کرے گی کہ اس کے سابق سربراہ کا سر بھی دکھے اور وہ قوم کے ساتھ آن بورڈ نہیں ہے ؟ یہ خبر انہیں کہاں سے ملی کیا فوج میں سروے کرایا تھا مگر کب؟ ۔ دراصل یہ فوج اور قوم میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش ہے ، جس کا فائدہ دشمنوں کو پہونچے گا؟ان کے سابق سربراہ نے ایک جرم تھوڑی کیا ہے کہ وہ معاف کر دیا جا ئے ؟جرائم کی ایک طویل فہرست ہے ۔ جن میں باعثِ عبرت یہ محل بھی ہے جوکہ اس نے سبزی اگانے کے نام پر زمین لیکر اس پرمحل بنالیا ہے جو کہ اب اسی کا جیل خانہ بنا ہوا ہے ؟ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس پر بجلی بھی اب تو معلوم نہیں مگرسالوں تک رعایتی بھاؤ پر لی جو کہ زرعی زمین کے لےئے تھا، چونکہ اس میں وہ اکیلا نہیں ہے اس کے اور بھی دوسو سے زیادہ ساتھی ہیں جو کہ اسی جیسے اور ہر محکمے کے لوگ ہیں وہ سب وہاں محل بنا ئے بیٹھے ہیں اس لیئے یہ فائل بھی جو اس آمر کے آخری دور میں اوپر آئی تھی !مگر اب نیچے اس لیے دبی ہو ئی کہ عدلیہ کو نئے مقدموں میں اتنا الجھا دیا گیا کہ جتنے مقدمے وہ نپٹا نہیں پاتی ہے اس زیادہ اہمیت والے نئے مقدمات دائر ہو جاتے ہیں؟لہذا جو مقدمات زیادہ ترجیح والی فہرست میں نہیں ہیں وہ نکل جاتے ہیں اور ان کانمبر پھر کبھی نہیں آتا ؟ حل یہ ہے کہ ہمارے جیسے حالات سے ماڈرن ازم کے نام پر ایک برادر ملک فوجی جنتا کے قبضہ میں چلا گیا تھا، وہ ہمارا ہمیشہ سے دوست ہے ؟جس طرح ہم ملکی ترقی میں اس سے مد د لے رہے ہیں اور میٹرو بس جیسا کارنامہ کر دکھایا اسی طرح اب ہمیں اس کے اس تجربے سے فا ئدہ اٹھانا چا ہیئے کہ اس نے اس جن کو کیسے بوتل میں بند کیا جو تقریبا ً ایک صدی سے وہاں قابض تھا۔

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.