ممکن ہے کہ آپ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں کہ کوئی اندیکھی قوت دنیا کی پالیسی وضع کرتی ہے پھر اس پر دنیا کی اکلوتی سپرپاورعامل ہو جاتی ہے، اس کے بعد وہی پالیسی چاروں طرف نظر آنے لگتی ہے؟ کچھ دانشور کہتے ہیں کہ یہ وہ انتا لیس کار پوریشنز ہیں جو پوری دنیا پر اپنی دولت اور میڈیا کی بنا پر چھا ئی ہوئی ہیں اور ان کی جڑیں کچھ اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ ہر طرف سے پیسہ سمٹ کر ان کی تجوریوں میں خودبخود اس طرح چلا جاتا ہے جیسے کی پودے کو خوراک۔ اور جو دن بھی گزر رہا ہے وہ دنیا کے لیئے بد سے بدتر ہو تا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں دنیا کے دانشور تو بہت کچھ کہہ رہے ہیں، مگر میں یہاں صرف پاکستان کے دو دانشوروں کی بات کرونگا۔ ان میں ایک تھے جناب ذوالفقا ر علی بھٹو اور دوسرے عزیز احمد ؟ بھٹو صاحب کے بارے میں شاید مجھ سے لوگ اتفاق نہ کریں مگر ان کی ذہانت مسلمہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک غلطی کہ مالدار طبقہ اور غربا کے درمیان مصا لحت کرانے کی کوشش کی؟ ان کاانجام آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہوا؟ جو لوگ انہیں آگے لا ئے تھے انہوں نے ہی انہیں وہاں پہنچا دیا جہاں سے آج تک کوئی نہیں لوٹا؟ دوسرے دانشور عزیز احمد تھے جو ماہرِ مالیات تھے! وہ اچھے خاصے آسمان پر اڑ رہے تھے دنیا میں ایک نام تھا؟ مگر نہ جانے انہیں کیاسوجھی کہ وہ اپنے مربیوں کو ایک غلط مشورہ دے بیٹھے اور وہ راز فاش کر گئے جو نہیں کرنا چاہیئے تھا؟ کہ “اگر غیر ترقی یافتہ ملکوں سے ،ترقی یافتہ ملکوں کی طرف جاری ہجرت کو روکنا ہے تو وہیں صنعتیں لگا دو“ یہ بڑی اچھی تجویز تھی اور انہوں نے حقائق کا ادراک کر کے ان کی ہمدردی میں دی تھی،اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حقِ نمک ادا کیا تھا؟ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ سرمایہ دار تو کچھ بھی اپنے مفاد کے سوا نہیں سننا چاہتا ہے نہ ہی وہ کچھ دینا چاہتا ہے۔ وہ معتوب ہوئے اور پھر قعر گم نامی میں چلے گئے؟ وہ تو بس ایک بات چاہتا ہے جو کہ اسکا پہلا اصول ہے “جہاں بھی اسے پیسہ نظر آئے وہ اپنی تجوری میں ڈال لے اور لوگوں کی زندگی اجیرن کر دے تاکہ ان کی مجبوریاں مزید اس کے لیے فائدہ بخش ثابت ہوں سکیں، پھر وہ دنیا کی مجبوری سے ناجائزفائدہ اٹھاکر اپنی دولت بڑھائے۔ اس کے مقابل میں اشتراکیت آئی اس سے مسلمان اس لیے ناراض تھے کہ اس میں خدا کا تصور نہیں تھا؟ جبکہ ان کے ہاں خدا کا تصور تھا، مگر صرف زبان کی حدتک اگر وہ واقعی زبان سے اقراری ہوتے دل سے مانتے اور اس پر اس کی روح کے ساتھ عامل ہوتے تو دنیا میں نظامِ عدل کے داعی ہونے کی وجہ سے سر بلند ہوتے ؟ پھر کہیں وہ خلاءہی نہیں پیدا ہوتا جو کوئی طالع آزما یا کوئی اور نظام جگہ پاتا۔ قصہ مختصر مفاد پرستوں اور قوم فروشوں نے ہمیں بیچ کر مجاہد بنا دیا اور دوسری بڑی پاور شکست کھا گئی؟ جبکہ سرمایہ کار اپنے آدمی اوردولت بچانے میں کامیاب ہو گیا؟ اب دوسرا نظام جو اسکی جگہ لے سکتا تھا وہ انہیں کل والے مجاہدوں کا نظام تھا جو کل تک مجاہد تسلیم کیئے جاتے تھے۔ پہلے تو وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ مگر جب انہوں نے وہاں اپنے مختلف فقہی عقائد کے باوجود نظامِ عدل قائم کر دیا! تو آنتیں الٹی گلے پڑگئیں؟ انہیں واپس آنا پڑا کہ اس بوتل کے جن کو واپس بوتل میں بند کردیں ؟ مگر تاریخ بتا تی ہے کہ اس جن کو بوتل سے نکالنا تو آسان ہو تا ہے ،مگر بوتل میں بند کر نامشکل ہو تاہے؟ کیونکہ شر جب ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے اور اسے عقیدہ بنا کر مرنے مارنے پر تیار ہو جاتا ہے تو اسے صرف ایک آپریشن کر کے کینسر کی طرح نہیں نکالا جاسکتا جبکہ وہ پورے جسم میں سرایت کرچکا ہو؟ اب صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ چادر چھوٹی ہے اور جن انتہائی طاقتور اور لمبا چوڑا ہے اس کی ٹانگیں ڈھکتے ہیں تو سر نگا ہوجاتا ہے اور سر ڈھکتے ہیں تو ٹانگیں ننگی ہو جاتی ہیں؟ لہذا مختلف نسخے آزمائے جارہے ہیں اور طبیب پر طبیب بدلے جارہے ہیں مگرکامیابیابی ہے کہ آکے نہیں دیر رہی ہے۔ ایک دور تھا کہ ورلڈ آرڈر کے خالقین نے یہ طے کیا کہ تمام دنیا کو آمروں کے سپرد کردیا جائے نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں آمر ہی آمر نظر آنے لگے؟ یہ تھا دوسری جنگ عظیم سے لیکر افغان وار تک کا نقشہ ۔ اس کی ناکامی دیکھ کر پھر ورلڈ آرڈر تبدیل کرنا پڑاکیونکہ اس میں یہ خرابی نظر آئی کہ آمر اپنے عوام میں غیر مقبول ہونے کی وجہ سے ان کے لیے درد ِ سر بنے رہے؟ جبکہ ان کے ذریعہ بڑی رقوم اور اشیاءبانٹی گئیں تاکہ رقم خرچ کرنے والوں کی جے ہو یا زندہ باد کے نعرے لگیں؟ مگر ہوا الٹ کہ اس میں سے زیادہ تر پیسے واپس باہر اسی آمر کے اکاؤنٹ میں چلے گئے۔ اور خرچ کرنے والے کے حصہ میں مردہ باد آیا؟ پھرورلڈ آڈر بدلا گیا اورآمر ختم ہوگئے سوائے چند بادشا ہوں کہ جو کہ زندہ ہی نادیدہ طاقتوں کے رحم وکرم پر ہیں؟ پھر سے سب جگہ جمہوریت آگئی اور آمروں کا طبقہ ختم ہو گیا، مگر ہر وقت وہ نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر نا چنے کی بنا پر اور سب ملکوں میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت کی بنا پر جمہوری نظام بھی ناکام رہا اور آجکل پوری دنیا ایک انتشار کا شکار ہے۔ اب شاید موجودہ ورلڈ آرڈر یہ ہے کہ بار بار تبدیلی؟ کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہر وقت تبدیلی چاہتا ہے؟ لہذا دنیا گاہے بگاہے دونوں مزے چکھتی رہے کبھی آمریت کا اور کبھی جمہوریت کا جوکہ آجکل جاری ہے؟ اور یہ کب تک جاری رہے گا یہ کوئی نہیں جانتا؟ یہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے پنڈت ہی جانتے ہیں؟ اس کی تازہ مثال جو آجکل کا گرماگرم موضوع ہے وہ مصر میں منتخب صدر مرسی صاحب کا دھڑن تختہ فوج اورعدلیہ کے ہاتھوں ہے؟ یہ انقلاب کیوں آیا کسی کو معلوم نہیں ، کیونکہ ہنی مون شروع ہوئے ابھی ایک ہی سال ہوا تھا ، دینے والوں نے انہیں چھ ارب ڈالر بھی دیئے جتنے کہ پہلے بھی مصر کے ایک آمر کو دیئے گئے تھے ؟ شاید اس کے کاسہ گدائی میں اتنی ہی گنجائش ہو یا بھا ؤہی یہ ہی ہو ؟اسی دوران وہاں یہ نعرے لگائے کہ ہم مصر کو پاکستان نہیں بننے دیں گے؟ پھر نہ جانے ان سے کیا حکم عدولی ہوئی کہ وہ نکالے گئے ؟ اور مرغ باد نما قسم کے بادشاہوں نے اپنی پہلی فرصت میں عبوری صدر کو مبارکباد بھی دیدی؟ بہت سے پنڈت کہہ رہے ہیں کہ ایجنڈا ہی شروع سے یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ جماعت عوام میں مقبول تھی ان کو بھی چانس دیکر انکا نمونہ حکمرانی بھی دنیا کو دکھا دیا جائے کہ یہ آکر کیا کریں گے؟ اور باقی دنیا کو بھی خبر دار کرنا مقصود تھا ۔ کہ مینڈیت کوئی چیز نہیں ہے منڈیت وہ ہے جو ہم چاہیں ؟ اگر مزید سمجھنا چاہیں تو اپنے یہاں مذہبی جماعتوں کی حکومت کا طرز ِ حکمرانی اپنی یاد داشت میں تازہ کرلیں؟ تب جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ بات سمجھ میں آجائے گی؟ مسئلہ یہ ہے ہم نے قرآن کو خود نہ سمجھنے کی قسم کھائی ہو ئی صرف اپنے علماءیا مرشدوں سے سمجھنا چاہتے ہیں؟ جو کہ سارے کے سارے استاد ہیں۔ لہذا بقول کسے آجکل جتنے منہ ہیں اتنے ہی اسلام ہیں؟ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) فرمایا کہ “ ان سے کہدو کہ تم اگر مجھ سے (اللہ) سے محبت کے دعوے دار ہو تو میرا (ص) اتبا ع کرو “ پھر دوسری جگہ ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ “ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کا طریقہ کار (اسوہ حسنہ )کافی ہے ً جبکہ حضور (ص) کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ ً صرف میرا راستہ ہی درست ہے وہی سیدھا راستہ ہے جبکہ اس راستے کے دونوں طرف لاتعداد دروازے ہیں جن پر پردے پڑے ہو ئے ان میں سے کسی میں داخل مت ہونا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے ۔ یہاں بہت سے لوگ ممکن ہے یہ سوال کریں کہ حضور (ص) کاہی اتباع کیوں ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ ان (ص) پر پہلے تو زندگی بھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نگراں رہا کہ ہر معاملہ میں وحی کے ذریعہ اللہ سبحانہ تعالیٰ رہنمائی کر تا رہا، مزید یہ کہ یہ فرماکر اس پر اپنی مہر ثبت کردی کہ “یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے وہی فرماتے ہیں جو ان پر وحی کیا جائے؟ یہ سہولت صرف حضور (ص) کو ہی حاصل تھی جبکہ اور کسی نبی (ع)کو بھی اتنی جامع طریقہ سے حاصل نہ تھی؟ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور (ص) کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما ئے تاکہ ہم قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طر ح اپنے ا ور غیر سب کے دوست بن سکیں اور انسانیت کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکیں (آمین)