اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جب اہلِ کتاب میں سے ایک قوم کو عذاب کے لیے چنا تو اسے یہ پیغام اپنے نبی حضرت ایرامیہ (جرا میہ) علیہ السلام کے ذریعہ بھیجا جنہیں کنعان سے فلسطین کی طرف مبعوث فرمایاتھا کہ ً اگر تم میری نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو میں تم پر ایسا بادشاہ مسلط کردونگا کہ جو مجھ سے بھی نہیں ڈرتا؟( تاکہ عذاب کے تقاضے پورے ہو سکیں ) انہیں بھی یہ ہی غرہ تھا کہ ہم نبیوں (ع) کی اولاد ہیں لہذا ہم کچھ بھی کریں ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کچھ نہیں کہے گا۔انہوں نے اس پیغام کو کوئی اہمیت نہ دی نتیجہ یہ ہواکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک بادشاہ ان پر مسلط کردیا جس نے ان کے تمام معابد ڈھادیئے جتنے کتاب ِمقدس کے نسخے تھے وہ سارے تلف کر دیے فلسطین کی اینٹ ،سے اینٹ بجادی اور اور ان کے بوڑھوں اور بچوں کو اس نے قتل کر دیا جبکہ چھ لاکھ آدمی وہ اپنے دار الحکومت نینوا پکڑ کر لے گیا۔ اور انہیں بیگار پر لگا دیا۔ یہ قصہ اتنا مشہور ہے کے مجھے سند پیش کر نے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر آپ چاہیں تو قصص انبیا ءابن کثیر (رح) کی تحریر کردہ پڑھ لیجئے ؟ اس کے بر عکس ایک ایک اور قوم تھی حضرت یونس (ع) کی جس کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے جبکہ سورہ یونس میں تفصیلی طور پر ذکر موجود ہے۔ وہاں کے باشندوں نے حضرت یونس کو جھٹلایا اور وہ ناراض ہو کر انہیں چھوڑ کرچلے گئے ۔کیو نکہ جیسا کہ انہوں نے اپنے قوم سے فرمایاتھا کہ تین دن میں عذاب نازل ہو جائے گا ، وہ نازل نہیں ہوا؟ انہیں اس بنا پر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کہ انہوں (ع)نے پہلے تو بغیر اللہ کی مرضی کے عذاب کا وعدہ کیوں کیا اور پھر بغیر اجازت انہوں نے اپنا مقام کیوں چھوڑا ؟ان کو مچھلی کے پیٹ میں میںقید کردیا! دوسری طرف ان کی قوم کی طرف عذاب بھیجدیا ، قوم سمجھدار تھی اس نے عذاب کا ادراک کرلیا اور توبہ کی طرف مائل ہو گئی؟ جس کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا۔ کیونکہ وہ قرآن میں فرماتا ہے کہ میں کسی کو سزا دے کر خوش نہیں! مگر تم صرف میری بات مان لیا کرو؟ لہذا اس نے اپنی سنت کے مطابق معاف کردیا ،جب انہوں نے کہا کہ ہم حضرت یونس (ع)پر ایمان لانے کے لیئے تیار ہیں، دریں اثنا حضرت یونس (ع)بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اپنی لغزش کا اعتراف کر کے تائب ہو چکے تھے ،لہذاان کو ان کی قوم میں واپس بھیجدیا گیا،یہ قر آن ہے جو قصے کہانیوں کی کتاب نہیں !اس میں سبق کیا ہے جو اس قصہ کو بیان کر کے اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں دینا چاہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت یونس (ع)نے اپنی طرف سے عذاب کا وقت کیوں دیدیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایسی کوئی بات وحی نہیں کی تھی، پھرجہاں وہ تعینات تھے وہ مقام کیوں چھوڑا؟ جبکہ بعد میں اس نے انکی بات بھی رکھ لی کہ عذاب بھی قوم کو دکھا دیا؟ یہ تھیں گذشتہ دوقوموں کی مثالیں؟اب اپنی طرف آتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور (ص) اللہ کے نہ صرف رسول ہیں بلکہ اس کے حبیب (ص)بھی ہیں؟ شافع محشربھی ہیں۔ ایسے کامل انسان ایسے نبی ص) جیسا کہ فلک نے اس سے پہلے کوئی نہیں دیکھا؟ ع “بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔اس کے باوجود کہ انہیں خوشخبری دیدی تھی کہ ان کے سب اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے ہیں؟ پھر بھی ان کے خوف میں کمی نہیں آئی اس کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ ہر وقت پریشان رہتے تھے ، نہ صرف ا پنے لیے بلکہ اپنی امت کے لیے اور اس کی بخشش کی دعا مانگتے رہتے تھے ؟ جب سورہ الانعام کی آیت نمبر٦٥نازل ہو ئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ “ ہم اوپر سے عذاب اور نیچے سے عذاب نازل کر نے اور تمہیں آپس میں تکڑیوں میں بانٹ کر لڑادینے پر بھی قادر ہیں “تو حضور (ص) پریشان ہو گئے اور جنگل کی طرف نکل گئے صحابہ کرام (ص) بھی وہاں تک پہونچے اور وہاں جاکر دیکھا کہ حضور(ص) سربسجود گریہ زاری میں مصروف ہیں صحابہ کرام (رض) بھی شامل ہو گئے جب حضور(ص) نے سر اٹھایا تو انہوں(رض) نے وجہ پوچھی کہ آپ نے پہلے تو کبھی ایسا نہیں کیا! آج ایسی کیا خاص بات تھی ؟تو حضور (ص) نے بتایا کہ اس آیت کے نزول نے مجھے پریشان کر دیا ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما تے ہو ئے دو عذاب تو ہٹا دیئے کہ پہلے دو عذاب تو نہیں آئیں گے مگر تیسرے کے بارے میں اس نے فرمایا کہ یہ اس قوم کا مقدر ہو چکا ہے لہذا تم وعدہ کرو کے میرے بعد تم آپس میں لڑوگے تو نہیں؟ سب نے یک زبان ہو کر فرمایا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے پاس قرآن ہے اور آپ (ص)کا اسوہ حسنہ ہمارے در میان ہے بھلا ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ تب حضور(ص) نے فرمایا کہ تم ان دونوں کو فراموش کردوگے اور ایک دفعہ سرداروں کی تلواریں نیام سے باہر نکل آئی تو پھر واپس نہیں جا ئیں گی؟ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہم جو تکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں یہ ہمارے زیر ِ عذاب ہو نے کی علامت ہے۔ہم اس سے نکلنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟جواب نفی میں ہے۔ جبکہ اللہ اپنی سنت کے مطابق توبہ کرنے پر عذاب ہٹادیتا ہے کیونکہ وہ توبہ پسند کر تا ہے؟ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے ۔ کہ ہمیں پہلی قوم کی طرح پیغام کو نظر انداز کر کے خود کو مزید عذاب کا مستحق بدستور ثابت کرنا ہے یا حضرت یونس(ع) کی قوم کی طرح رمضان المبا رک کا فائدہ اٹھا کر اور توبہ کر کے جاری عذاب سے خود کو نکالنا ہے؟اگر ہم حضرت یونس (ع)کی قوم کی پیروی کر تے ہیں تو اس کے لیے اجتماعی توبہ کی ضرورت ہوگی، مگر وہ ممکن اس لیے نہیں ہے کہ اب تک میں نے کسی عالم یا لیڈر کی زبانی یہ نہیں سنا کہ ہم زیر ِ عذاب ہیں؟ ہر ایک سبز باغ دکھا رہا جب کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار ہی نہیں ہے؟ تو توبہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؟اور حضور (ص) ایک حدیث کے مطابق ایسے شخص کی بر بادی پر آمین کہے چکے ہیں؟ جس نے رمضان مبارک کا مہینہ پایا اور جہنم سے نجات نہ کرائی، یا حضور کااسم ِ گرامی آیا اور اس نے درود شریف نہ بھیجااور جس نے ماں باپ دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور ان کے ذریعہ اپنی جنت نہ بنالی۔ اس حدیث کو کئی طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔ایک جگہ اس طرح بھی بیان ہوئی ہے کہ حضور (ص) نے ایک دن تین مرتبہ صحابہ کرام (ص) کے سامنے آمین کہا ؟ صحابہ کرام (رض) میں تجسس پیدا ہوا تو حضور (ص) نے فرمایا کہ یہ حضرت جبرائیل (ع) تھے، پہلے انہوں نے فرمایا کہ وہ بر باد ہوا جس نے رمضان کا مہینہ پایااور اس نے جہنم سے نجات نہیں پائی میں نے اس پر آمین کہا ، پھر انہوں نے فرمایا کہ جس کے سامنے میرا نام آیا اور اسنے درود و سلام مجھ پر نہیں بھیجا ! میں نے کہا آمین،پھر انہوں نے کہا کہ جس نے اپنے ماں باپ، یا دونوں سے کسی ایک کوپایا اور ان کے ذریعہ اپنی بخشش نہ کرالی، میں(ص) نے کہا آمین۔ اس وقت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان المبارک کی شکل میں توبہ کا موقعہ فراہم کیا ہوا ہے جس کی تقسیم احادیث کے مطابق اس طر ح ہے کہ پہلا عشرہ رحمت ہے، جو چل رہا ہے جو چاہے اس کی رحمت سے فائدہ اٹھائے توبہ اور معافی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔ دوسرا عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے جو دوسرا قدم ہے اللہ کی طرف بڑھنے کے لیے جو چاہے روزوں اور احکامات کے مطابق اپنی زندگی اس کے سانچے میں ڈھال لے اورمغفرت کا حقدار بن جا ئے اس کے بعد تیسرا عشرہ ہے نجات کا عشرہ جس میں اعتکاف ہے اور طاق راتوں میں شب ، قدر ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاکر جہنم سے اپنی نجات کرالے۔ یہ لوگوں کو انفرادی یا چھوٹے گروہوں کی شکل میں توبہ کر کے کامیابی حاصل کر نے کا موقعہ ہے۔جوکہ پھر ایک سال کے بعد ملے گا۔ جب تک یہ تباہی اسی طرح جاری رہیگی ؟ کیوں ؟ اس لیئے کہ وہ قرآن میں فرماچکا ہے کہ میں اپنی سنت یعنی طریقہ کار نہیں بدلتا اور طریقہ کار کیا ہے وہ پہلے توبہ اور نتیجہ میں بخشش ؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )ورنہ یہ جو چند دن گذرے ہیں وہ بتارہے ہیں کہ ہم پر ایک ایسا دشمن سزا دینے کے لیئے مقرر کیا گیا ہے جو قتل و غارت گری اسی کے نام پر کر رہا ہے اور اس مہینے میں بھی وہ چین سے نہیں بیٹھا جس میں کفار بھی بیٹھ جایا کرتے تھے۔ شیطان نے اس کے اس فعل کو قر آن کے مطابق اسکی کی نظروں میں اچھا کر کے دکھانے کا اہتمام کر رکھا ہے اور اپنے خیال میں اس طرح سے وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کمارہاہے، حتی ٰکے وہ واصل جہنم ہو جائے؟ اور اس کی اصلاح کی اس لیے کوئی صورت باقی نہیں ہے؟ اصلاح صرف اسکی ہی ممکن ہے جو خدا سے ڈرتا ؟ہو جو اس سے ڈرتا ہی نہ ہواس کی اصلاح نہیں ہوسکتی چاہیں وہ ہم خود ہوں یا ہمارا دشمن ؟ میں اس امید پر اپنی بات ختم کر تا ہوں۔ کہ آپ لوگ اس پر غور کریں گے البتہ اس نے آپ کے دلوں پر مہر لگادی ہے تو پھر دوسری بات ہے۔ تو وہ عذاب بھگتے رہئیے جو آپ سالوں سے بھگت رہے ہیں ۔