ہم ایک مدت سے وقت کی پابندی کا رونا رورہے ہیں ممکن ہے کے ہمارے بہی خواہوں نے ہماری ان حرکتوں سے تنگ آکر ہمارا نام ہی “ وقت والا با با“ رکھدیا ہو،اگر ابھی تک نہیں رکھا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ عنقریب رکھنے والے ہونگے؟ کیونکہ ہم ایک عرصہ سے جس کوبیاسی سال سے زیادہ برس گزرگئے لوگوں کو یہ ہی سبق دے رہے ہیں کہ بھا ئیوں وقت کی قدر کرو۔ جس کی اہمیت سے خود اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں قسم کھا کر ہم کو آگاہ کر دیا ہے کہ “ سب انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جنہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا ۔ جب کہ وقت کا صحیح طریقہِ استعمال بھی ہمیں وہیں بتا بھی دیا ہے کہ پہلے وہ ایمان لائیں ،پھر اس پر خودعمل صالح کریں اور اس کے بعد دوسروں کو اس طرف رقبت دلائیں اور صبر کی تلقین کریں“ ہم اگر اس پر عمل کر تے تو اب تک کہیں اور پہونچے ہوتے یانہ پہونچے ہوتے ؟مگر کم ازکم اپنی وہ ساکھ تو ضرور باقی رکھتے جو ہمیں حاصل تھی یعنی عزت ِاجداد؟ وہ عزت جو ہمارے بزرگ بنا کر چھوڑ گئے تھے؟ جوکہ انہوں نے بجا ئے وقت گنوانے کے وقت کے صحییح استعمال سے حاصل کی تھی۔ جس قوم کو یہ حکم دیا گیا ہو کہ ہر کام وقت مقررہ وقت پر کیا کرو ، اب اس کا عالم یہ ہے کہ کوئی کام وقت پر نہیں کرتی جبکہ دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے ہر کام وقت پر کرنا ضروری ہے؟ اور دین میں سب سے پہلے تو نماز ہے جو اس قوم پر پانچوں وقت فرض کی گئی جس پر حضور (ص)کا یہ فرمان مشعل ِ راہ ہے کہ “ مومن اور کافر میں فرق ہی یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے جبکہ کافر نماز نہیں پڑھتا “ پھر اس کے بعد زکات کا ذکر ہے کہ وہ بھی سال کے سال ہی فرض ہوتی ان پر جو مسلمان صاحبِ ثروت ہیں اور ہے بھی صرف ڈھائی فیصد اگر سارے مسلمان دیدیں تو اتنی ہو سکتی ہے کہ بھیک مانگنے والا نہ ملے ؟اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں سب کچھ دیا ہوا ہے۔ مگر ہم کر تے کیا ہیں کہ رات افطار و سحر میں گزار دیتے ہیں دن سونے میں کیونکہ عرب ایسا ہی کرتے ہیں۔ بھائی عربوں کی بات اور تھی کہ انہوں نے ایک مہینہ سونے کا سال میں رکھا ہوا تھا مگر پورا سال نہیں؟ اس لیے کہ یہ مہینہ اتنا گرم ہو تا تھا کہ باہر نکلنے کی صورت میں انکے پگھل جانے کاخطرہ تھا؟ اسی لیے اس کانام ہی رمضان تھا کیو نکہ ماہرین لغات کے مطابق لفظ رمضان بنا ہے رمض سے اور اس کے معنی جلا دینے کے ہیں۔ لہذا وہ جلنے اور پگھلنے سے بچنے کے لیے دن میں سوتے رہتے رہتے تھے اور رات کو ریگستانی ٹھنڈی راتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے اور پورے مہینے دن میں کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جو روش بطور رسم ان میں ہنوز جاری ہے ،کہ ان کی کوشش آج بھی یہ ہی ہے کہ رمضان سو کر گزار دیں جبکہ آجکل یہ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ پہلے کی طرح رمضان ہمیشہ گرمیوں میں نہیں آنے کہ اب وہ اس کے پابند نہیں رہے اور وہ کبھی بھی آسکتے ہیں مگر کہلا ئیں گے رمضان ہی یعنی جلانے والا مہینہ مگر اب وہ انسانوں کو جلانے کےبجا ئے گناہوں کو جلاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار نے اس مہینہ کو اپنی جگہ رکھنے کے لیئے یہ بندوبست کیا ہوا تھا کہ ہر تین سال کے بعد وہ ایک سال تیرہ مہینہ کا کر لیا کرتے تھے ۔ اور زمانہ پھر اپن جگہ پر آجاتا تھا ۔ اس کا انتظام اسی خاندان مدلجی کے ہاتھوں میں تھاجو عرب میں شام سے بت پرستی لا یا تھا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ ٹھیک چلا ،مگر اس نے بعد میں ہیر پھیر شروع کردی کہ جو حرام مہینے تھے ان کو اپنی مرضی سے آگے پیچھے کر نے لگا ۔ لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسلام کے آنے کےبعد جہا ں اس خاندان کی پیدا کردہ ساری گمراہی ختم کی، وہیں انکا کلینڈر بھی منسوخ کر دیا۔ سورہ تو بہ کی یہ آیت نازل فر ماکر “ جس میں سال بارہ مہینے کا کہاگیا ہے“ اس آیت کے نزول کے بعد حضور (ص) نے اعلان توفر مادیا کہ آج کے بعد سال بارہ مہینہ کا ہو گا اور آج کا دن وہ دن ہے جس دن کے بعدتمام ساعتیں اپنی جگہ پر آگئی ہیں، مگر حضور (ص) کا دو مہینے اور کچھ دن کے بعد وصال ہو گیا قوم دوسرے کاموں میں لگ گئی ۔ وقت نے موقعہ غنیمت جانا اور چپکے سے رینگ گیا ،کیونکہ یہ بھی مقولہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ “ وقت کسی کا انتظار نہیں کر تا“ گیارہ سال کے بعد حضرت عمر (رض) کے دور ِ خلافت میں سن کی ضرورت پڑی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا جس میں مہینہ اور تاریخ تو لکھی ہو ئی تھی اور اس پر لینے اور دینے والے دونوں کو بھی اتفاق تھا، مگر سن کے بارے میں وہ متفق نہ تھے کہ اسی صدی میں دینا ہے یا اگلی یا اس سے بھی اگلی میں؟ جبکہ جو اس سے قرض مانگتا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے، تک مجھے تو اسی سال چاہیئے ہے ؟ تب اس معاملہ کو حل کر نے کے لیے کلینڈر کو مشرف با اسلام کر نے کی ضرورت محسوس ہو ئی؟ مختلف تجا ویز سامنے آئیں ایک گروہ حضور (ص) کی پیدا ئش سے سال شروع کر نے کے حق میں تھا، دوسرا مبعوث ِ رسالت ہو نے کی تاریخ سے سن شروع کرنے کا خواہش مند تھا،جبکہ تیسرا گروہ جس کی قیادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کر رہے تھے ہجرت سے سال شروع کر نے کے حق میں تھا؟ اس کوہی سب نے پسند کر لیا چونکہ ہجرت ١٢ ربیع الاول کو ہوئی تھی اس لیئے وہ نئے سال کی پہلی تاریخ طے پائی، مگر عربوں نے اس پر اعتراض کیا کہ ہمارا سال ہمیشہ سے یکم محرم سے شروع ہوتا ہے ؟ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ١٢ربیع اول کو پہلی محرم قرار دے دیا جا ئے ؟ اس طرح مسلمانو ں نے وقت کو کلینڈر میں مقید کیرلیا مگر اب مشکل یہ تھی، کہ وقت قابو میں آنے کو تیار نہیں تھا۔کیونکہ ہر سال قمری سال اور شمسی سال میں فرق ہو نے کی وجہ سے دس دن کا فرق آنے لگا اور رمضان کا گرم مہینہ جو پہلے صرف گرمیوں میں آیا کرتا تھا اس نے بھی وقت کی پاپندی چھوڑدی اور اب وہ گرمیوں کے علاوہ موسمِ ِ بہار میں اور کڑا کے جاڑوں میں بھی آنے لگا؟ مگر عربوں نے رواداری نہیں چھوڑی اور وہ راتوں کو بدستور جاگتے اور دن کو سوتے رہے جوتادم ِ تحریر جاری ہے۔ چونکہ دین امراءکا چلتا ہے، اورامارت آجکل انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا پوری امت رات کو جاگنے اور دن میں سونے کی عادت پر متفق ہے ،اس طرح سونے کے مسئلہ پرتو قوم متحد ہوگئی۔ اس سے مزید اتحاد کی کوششوں نے تقویت پکڑی اور اس قسم کی تحریکیں چل پڑیں کہ عید پوری دنیا میں ایک دن منا ئی جا ئے جس دن سعودی عرب میں ہو؟ مگر مشکل یہ ہے کہ وقت ان کے تابع نہیں ہے وہ ابھی تک سرکشی اختیار کیے ہو ئے ہے۔ کہ جب حرم شریف میں عید کی نماز ہورہی ہوتی ہے تو وقت تعاون نہیں کرتا وہ اسی وقت کہیں دوپہر کرتا ہے اور کہیں رات ؟ اس کا حل ایک ہی ہوسکتا ہے کہ ملت دن کو رات مان لے ؟ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ قوم پہلے ہی بدعت کے نام پر اغیار نے بانٹ دی ہے لہذا اس مسئلہ پہ تو کیاوہ کسی مسئلہ پر بھی متحد ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مگر ایک چیز پر اب بھی متحدہے وہ ہے وقت کی بر بادی ؟ کیونکہ اس سے ہماری کبھی نہیں بنی اور ہم ہر خرابی کا ذمہ دار گردشِ ایام کو ہی قرار دیتے آرہے ہیں؟اس کا ثبوت اگر آپ چاہتے ہیں تو ہماری افطار کی دعوتیں دیکھ لیں؟ افطار کے وقت ہر ایک پلیٹ اتنی بھر لیتا ہے کہ اسے کھانے میں کم از کم نصف گھنٹہ تو درکار ہوتا ہی ہے؟پھر اتنی بڑی پلیٹ ختم کرتے کرتے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ اب روزے داروں کی قطار غسل خانوں کے سامنے لگ جا تی ہے۔ اس کی وجہ سے نماز مغرب میں ایک آدھ گھنٹہ کی تاخیر ہو جاتی ہے تو یہ تو مجبوری ہے؟ اور مجبوری میں رخصت بھی ہے۔ اس کے بعد دوسرا دور چلتا ہے جس میں دن بھر کی رکی ہوئی غیبت حدیث مائدہ کے طور پر جاری ہوتی ہے اس پر بھی مسلمان دن بھر کے روزے کے بعد اسی طرح ٹوٹتے ہیں جیسے کھانے پر۔پھر کھانے کے برتن بمشکل میز چھوڑ تے ہیں اور صفائی کے بعد اس کی جگہ ہمہ اقسام کا میٹھا صف آرا ہوتا ہے ، پھر چائے کا دور؟ جب تک گھر پہونچتے ہیں سحری کا وقت شروع ہوجاتا ہے رہی رمضان میں راتوں کو عبادت اور قر آن کی تلاوت اس کے لیے وقت ہی نہیں بچتا؟ اس سال بھی الحمد للہ ہم دوعشرے یعنی عشرہ رحمت اور عشرہ مغفرت تو اسی طرح گزار چکے ہیں اب انشا اللہ آخری عشرہ جوکہ عشرہ نجات ہے (جہنم سے )وہ بھی ہم وقت کے ساتھ جنگ میں گزار دیںگے۔ اور اگلا رمضان المبارک آنے کے منتظر رہیں گے کہ وہ آئے تو یہ ہی کچھ پھرکریں؟یا پھر خدا خود ہی اپنی سنت تبدیل کر کے بغیر توبہ کیئے ہمیں معاف کر دے؟ جبکہ حضور (ص) نے خبر دار بھی کردیا ہےکہ ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل کی دعا ئے ہلاکت پر آمین فر ماکر کہ “ وہ ہلاک ہوا جس نے رمضان المبارک پایا اور آگ سے نجات حاصل نہیں کی “ دوسری حدیث یہ بھی ہے کہ ایک ر مضان کا کفیل دورسرا رمضان ہو تا ہےاور ایک نماز دورسری نماز کے وقت تک کفیل ہوتی ہے۔ مگر اس پر تو ہمیں سو چنے کی فرصت ہی کہاں ہے کہ ہماری وقت سے ہمیشہ سے ٹھنی رہی چونکہ ہم روایات کے امین ہیں لہذا امید ہے کہ آئندہ بھی ایسی ہی ٹھنی رہے گی؟ اور ہم بدستور گردش ِ ایام کو کوستے رہیں گے؟