پرسوں ہم ایک پرو گرام دیکھ رہے تھے،جس کے اینکر کو دعویِٰ سچائی بھی ہے۔ اور اس میں مہمان ِ واحد ایک ایسی پارٹی کے صدر تھے جنہوں نے پارٹی کے تمام عہدے اپنے پاس اس لیئے رکھے ہیں کہ نہ ایک سے زائد ممبر ہوں اور نہ اختلافات پیدا ہوں؟ فاضل اینکر نے ابتدا میں ہی ایک غیرمصدقہ اعلانیہ کے اجراءاعلان کیا اور یہ انکشاف کیا کہ اس کے مطابق اب آئندہ ایوان ِ صدر میں ان کو ہی رسائی اور عہدے ملیں گے جن کو بہترین دہی بڑے بنا نے آتے ہوں؟ لہذا میں نے بہت ساوقت دہی بڑوںکا نسخہ ڈھونڈ نے میں لگا یا! اس تمہید کے بعد پھر وہ تحقیقی نسخہ پیشِ کیا کہ اتنا بیسن اتنے آلو اور اتنا یہ اور اتنا وہ ؟ چونکہ ہم بوڑھے آدمی ہیں حافظہ بہت اچھا نہیں اور پہلے سے قلم کاغذ لیکر اس لیئے نہیں بیٹھے تھے کہ سوائے کھانے پکانا سکھانے والے چینلوں کے دوسرے چینلوں پر ایسے حادثے نایاب ہیں لہذا نہ ہم اسے لکھ سکے نہ ہی اپنے ذہن میں محفوظ کر سکے ۔حالانکہ ہم دہی بڑے کھاتے بہت شوق سے ہیں کہ ہمارا مقولہ یہ ہے کہ کھانا کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو مگر چٹ پٹا ہو نا چا ہیئے؟ لہذا پھیکے قورمے پر ہم ہمیشہ نمک مرچ سے مزین چٹنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے ہماری کبھی انگریزی اور چینی کھانوں سے نہیں بنی کیونکہ وہ بقول بڑھیوں کے، ولایتی شلجم کی طرح پھیکے ہو تے ہیں؟
مگر اس مباحثہ سے پہلے بھی ہم یہ انکشاف ان معتبر لیڈر کی زبانی سن چکے تھے کہ دہی بڑے والے کو صدر بنا دیا؟ لہذا ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ روئے سخن کس طرف ہے اور بین السطور کیاہے ؟ زمانہ کس قدر بدل گیا کہ اگر حلال ذرائع سے مجبوری کے تحت کبھی کوئی دہی بڑے فروخت کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کاپیٹ پالنے لگے تو یہ ان کی بھی نظر میں بھی قابلِ مذمت ہے جو کہ خود بھی دعویٰ عوامیت کا کرتے رہتے ہیں اور عوام کے غم میں ہمہ وقت تڑپتے رہتے ہیں اور اپنے بارے میں فخر سے کہتے ہیں کہ میں اپنے دروازے پر بیٹھ کر اخبار بیچا کرتا تھا ؟
نو منتخب صدرممنون حسین صاحب سے ہم بالکل واقف نہیں ہیں ہم نےمنتخب ہونے کےبعد ان کی سوانح میں چھ مہینے کی بےداغ گورنری پڑھی ہے، کپڑے کا کاروبار پڑھا ہے مگر دہی بڑھے کہیں نہیں پڑھے ممکن ہے کہ جب وہ پاکستان آئے ہوں تو اسوقت انہوں نے یہ کام کیا ہو جب کے وہ بچے تھے اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے کیا ہو؟کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ اسوقت بڑے بڑے رو ساءسڑکوں پر یہ کام کرنے پر مجبور ہوگئے تھے! ہم نے ایک رئیس کو سن پچاس میں ڈھاکا کی نواب پور روڈ پر شیر وانی ، چوڑیدار پیجامہ پہنے اور سر پر دوپلی ٹوپی اوڑھے ،جو اس وقت شرفاء کالباس سمجھا جاتا تھا، اور سر کے اوپر سینی میں مٹی کی تشتریوں میں فیرینی فروخت کر تے دیکھا ہے؟ فراعین ِ دوراں کی عبرت کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے؟
البتہ جو آنے والے صدر کے اس راز سے واقف ہیں وہ یقیناً انکے کاروبارمیں ساجھی رہے ہونگے یا کہیں پر دونوں کے تھلے برابر ہونگے ورنہ یہ پنڈی میں اور وہ کراچی میں انہیں خبر کیسے ہو ئی؟ اس سوال کا انکے پاس شاید جواب ہو ہماری سمجھ سے باہر ہے؟
چلو مان لیتے ہیں کہ انہوں نے دہی بھلے فروخت کیئے تھے تو یہ کونسی برائی ہے! کہ کوئی بھی کسی طریقہ سے اپنی جائز روزی کما ئے اسلام اور قانون کے مطابق یہ اس کا جائز اور پیدائشی حق ہے ۔ مگر زمانے کو کیا کہیں جو ان لوگوں کی چاپلوسی کرتے ہیں اور ان کے سامنے زبان نہیں کھولتے جو پلے ہی مال ِ حرام پر ہیں،جن کی ساری دولت حرام کی ہے۔ ہم نے یہاں لفظ چاپلوسی اس لیے استعمال کیا کہ عزت کا معاملہ تو دل سے ہو تا ہے اور اس کے لیے تقویٰ لازمی ہے ۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اسکے بارے میں فر ماتا ہے کہ ً عزت اورذلت میرے ہاتھ میں ہےً اور ایک دوسری جگہ یہ بھی فر ماتا ہے کہ “ جوانسانوں سے عزت چاہتا ہے میں اسے ذلیل کر دیتا ہوں “ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں دور کیوں جائیے اپنے چاروں طر ف دیکھ لیجئے کہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر رہے اور منہ پر لوگ واہ واہ کہتے رہے، جبکہ پیچھے خود بھی چور ہو نے کے باوجود ان کی چوریاں اور بد عنوانیاں لوگوں کو بڑھا چڑھاکر سناتے رہے؟کہ یہ بھی ایک قسم ہے احساسِ کمتری کی کہ دوسروں کی برا ئیاں بیان کر کے ہر انسان سمجھتا ہے کہ میں نے اپنا قد بلند کر لیا ؟ اور یہ اس قوم کا حال ہے جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پورا ضابطہ اخلاق عطاکیا ہے۔اور بار بار فر مایا ہے کہ “ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو جتنا زیادہ صاحب ِ تقویٰ ہے“
اس کے لیے سورہ الحجرات میں تمام آداب بیان فر ما دیئے گئے ہیں؟ سب سے پہلے تو آ یت نمبر ٦ میں فرمادیا کہ بغیر تصدیق کیئے کوئی بات مت پھیلا یا کرو، پھرآیت ١١ میں فرمایا کہ کوئی مردکسی مردکو برے القاب سے نہ پکارے ممکن ہے کہ وہ اس مرد سے بہتر ہو ،نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کو برے القاب سے یاد کرے ممکن ہے وہ اس عورت سے بہتر ہو؟ پھر آیت١٢ میں فرما یا کہ “۔۔۔ زیادہ تجسس مت کیا کرو ؟
ہمارا طریقہ کار کیا ہے کہ ہمیں جو بھی خبر کہیں سے ملے ہم بغیر تصدیق اسے آگے بڑھا دیتے ہیں جبکہ حضور (ص) نے اس کے بارے میں فرمایا کہ “آدمی کے جھوٹا ہونے کہ لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھادے“ ہم ہر ایک کا نام رکھنے میں کمال رکھتے ہیں، اور تجسس کا یہ عالم ہے کہ ہم ہر ایک کے بیڈ روم تک پہونچ جاتے ہیں اور وہ خبریں بھی ڈرائینگ روم میں بیٹھ کرسناتے ہیں ؟ پھر الحمد للہ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں جبکہ ان میں سے کسی ایک ہدایت پر بھی عمل نہیں کر تے؟ اس پر طرح یہ کہ ہم سچائی کے دعوے دار بھی ہیں؟ جب کہ دوسری جگہ قر آن میں غیبت کی شدیدمذمت کی ہے اور اس کو حضور(ص) اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے؟ جبکہ حضور (ص) نے اس کی تفسیر یہ فر مائی ہے کہ “غیبت وہ ہے کہ جو عیب اس فرد میں ہو لیکن وہ اہل معاملہ کے سامنے بیان کی جا ئے اور تو وہ اسے برا لگے جب کہ وہ بات یا عیب ا س میں نہ ہو تو پھر کوئی بیان کرے تو وہ تہمت ہے جس کی سزا اس سے سخت ہے؟ پھر آخری نصیحت خطبہ وداع میں فرمادی کہ تمہارے لیے اپنے مسلمان بھائی کی عزت اور مال اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ یہ مقام جہاں تم کھڑے یہ دن جو آج ہے؟ مگر ہم نے اسے بھی نظر انداز کر دیا! رہا قر آن تو ہم سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ لیکن یہ خطبہ تو ہر ایک تک اس لیے پہونچتا ہے کہ حضور (ص) نے اس ک انتطام خود کر رکھا ہے ۔ یہ فر ماکر کہ ً جو یہاں ہیں وہ ان تک پہونچا دیں اور جو سنیں بعد کو آنے والوں تک پہونچا دیں اور بعد کو آنے والے اپنے بعد آنے والوں کو ً لہذا یہ صدیوں سے بیان ہو تا آرہا ہے؟ اور ہم پھر بھی ہر ایک کی پگڑی اچھالنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں؟ حالانکہ اس انتخاب پر سب کو خوش ہو نا چاہیے تھا کہ پہلی دفعہ جاگیرداروں اور نوکر شاہی یا فوج کے بجائے کوئی عوامی صدر منتخب ہوکر آیا تو، جو عوام میں سے ہے عوام کی طرح رہا بھی ہے؟ اس کا دامن دہی سے آلودہ ہو تو،لیکن لہو سے اور حرام سے آلودہ نہیں ہے؟ اور امین کہلانے کا پوری طرح مستحق ہے شاید یہ ہی وجہ تھی کہ جب اس مرتبہ پہلے کی طرح الیکشن کمیشن نے شوشہ چھوڑا تو نواز شریف صآحب ایسا امیدوار لے آئے جو اس پر پورا اتر تا تھا اورکم از اس عہدے کے لیے ایک امید وار مل گیا اور دہائی دے کر جان نہیں چھٹانا پڑی کہ للہ ان دفعات کو پرے رکھو ہم میں کوئی بھی امین نہیں ہے؟ جیسا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے الیکشن پر ہنگامہ سب نے مل کر کیا تھا؟
رہی وہ عزت جو منجانب اللہ سبحانہ تعالیٰ ہوتی ہے وہ کیسی ہوتی ہے اور اسکی تعریف کیا ہے؟ ہم تاریخ اسلام سے ایک واقعہ نقل کر کے بات کو ختم کرتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید کہیں راہ میں قیام پذیر تھے اور ملکہ زبیدہ بھی ہمراہ تھیں، کہ انہوں نے دیکھا کہ ہزاروں آدمی کسی کے استقبال کے لئے راستے کے دونوں طرف دورویہ کھڑے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ یہ کس کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں ؟ جب ان کو خلیفہ نے بتایا کہ فلاں عالم تشریف لارہے ہیں یہ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں تو ملکہ نے کہا دیکھو اصل عزت اسے کہتے ہیں؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے