عصبیت ہمارے یہاں عربی لفظ ً عصبہ ً سے ماخوذ ہے؟ جس کےمعنی ہیں باپ کے طرف سے عزیزداری یا خونی رشتے؟ گوکہ اسلام نے صلہ رحمی کی تعریف کی ہے جس میں ماں باپ اور سسرالی رشتہ داریوں تک اس کا دائرہ وسیع کر دیا ہے یہ کہہ کر کہ ًاگر کوئی اپنی عمر بڑھانا چاہتا ہے تو وہ صلہ رحمی اختیار کرے ً لیکن یہ اس سے مشروط ہے کہ ایک مومن کسی مومن اور مومنہ کی مدد صرف بھلائی میں کر سکتا ہے برائی میں نہیں۔ کیونکہ جہاں یہ قر آنی حکم ہے وہیں یہ بھی قر آنی حکم ہے کہ صرف بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرومگر برائی میں نہیں؟ جبکہ عصبیت جو کہ برائی میں بھی اپنوں کی مدد پر مائل کرتی ہے وہ اسلام اور اسلامی قومیت کے لیے زہرِ قاتل ہے؟ اسی لیے اسلام نے سب زیادہ مذمت جس چیزکی ہے وہ عصبیت یعنی اپنے نسب پر فخر کر نا دوسروں کو اس کی بنا پر ذلیل سمجھنا ،وغیرہ وغیرہ ہے ۔ اسلام کو ایک خدا پر لانے کے لیے سب سے زیادہ مخالفت کاسا منا اسی ایک گمراہی کی بنا پر کر نا پڑا کہ نہ صرف وہا ں خاندان الگ تھے بلکہ ہر خاندان کا دیوتا بھی الگ تھا۔ اورسب نسبی بر تری کے خبط میں مبتلا تھے ۔ مثلا ً آپ مکہ معظمہ سے شروع ہو جا ئیے تو ان کا بت ہبل تھا، اور دوقدم طائف چلے جا ئیے تو ان کا بت الگ ،مدینے والوں کا بت الگ نجدیوں کا بت بھی یقینا الگ ہو گا چونکہ مورخین نے اس کاذکر نہیں کیا ؟ لہذا میں اس کانام نہیں جانتا مگر نسلی برتری میں وہ بھی پیچھے نہ تھے اور انہوں نے حضور (ص) کو مدینہ پہونچنے پر کہلا بھیجا تھا کہ آپ اگر طاقت کے زور پرہمیں زیر کرلیں تو کرلیں لیکن ہم کبھی آپ کی بالا دستی نہیں مانیں گے؟ کیونکہ آپ آل سہیل میں سے ہیں اور ہم آل ِ مدار میں سے ؟ اور انہوں نے حضور (ص) کوزندگی بھر نہیں مانا پھر مسلمہ کذاب کا شوشہ کھڑا کر دیا ، اسی طرح طائف والوں نے سن نو ہجری تک نہیں مانا اس کے بعد کہیں مانا پھر بھی شرط رکھدی کہ ہم اپنے بت کدے خود نہیں ڈھائیں گے ،تب حضور (ص) نے مدینے سے ایک صحابی (رض) کو بھیجا۔ جبکہ فتح مکہ بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مکہ سے بھیجنا پڑا، تو کہیں ان بتوں کو حضرت خالد (رض) بن ولید نے ڈھایا ، مگر سابق بت پرستوں نے خود نہیں ڈھایا کہ اسلام لانے کے بعد بھی توہم پرستی آڑے تھی ۔ جبکہ مکہ معظمہ میں حضور (ص) نے اپنے دست َ مبارک سے ڈھائے؟وجہ یہ عقیدہ تھیاکہ وہ اس توہم پرستی میں مبتلا تھے کہ ہم ان کے ذریعہ اللہ سبحانہ تعالی کا قرب حاصل کر تے ہیں اور یہ الوہی معاملات میں ہمارے معاون ہیں، حتی ٰ کہ جب حج پر جاتے تو بھی اس اقرار کے ساتھ ان کابھی ذکر ان الفاظ کے ساتھ کرتے کہ “ مالک تو ہی ہے مگر ہم ان کا احترام بھی کر تے ہیں جو کسی چیزکے مالک نہیں ہیں “ یہاں بین السطور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم تیری قربت کے لیے ان کی عزت کرتے ہیں۔ یہ بات قر آن بار بار دہرائی اور ان سے پوچھا کہ “ان پوچھو تو کہ تم کو کس نے پیدا کیا تو جواب دیتے ہیں اللہ نے ؟ پھر یہ کددھر بھٹکتے پھر رہے ہیں“ آج ہم کہاں ہیں؟ جواب آپ پر چھوڑتا ہوں؟
کیونکہ ہماری حالت بھی وہی ہے کہ ہم کہلاتے تومومن یا مسلمان ہیں۔ مگر عمل میں اس سے قطعی مختلف ہیں جیسا کہ مسلمانوں کو ہونا چاہیئے؟ پہلے آپ یہ سمجھئے کہ مومن اور مسلمان میں فرق کیا ہے؟ مومن صرف اللہ اور اس کے رسول (ص) کو ماننے کانام ہے ،جو کلمہ پڑھنے سے پورا ہو جاتا ہے؟ اور مسلمان کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد اس کی اولین ترجیح یہ ہو کہ وہ حتیٰ المقدور اللہ اور رسول (ص) کی بات بھی مانے گا ؟ بات ماننے میں احکامِ خداوندی اور اسوہ حسنہ (ص) دونوں آجاتے ہیں۔ ایمان کا اثر جب ہی مرتب ہوتاجب وہ مومن مسلمان بھی بنے؟ جنہیں (رض) کلمہ حضور (رض) نے پڑھایا تھا تو ان کی کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ ہر بات وہ حضور (ص)سے پوچھ کر کر نے لگے تھے؟ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ تقویٰ کے اعتبار سے اتنی بلندی پر چلے گئے کہ اپنے مال میں سے نصف مال، اپنے مسلمان بھائیوں کو دیدیا ؟ جوکہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں؟ اور لینے والوں کا یہ عالم تھا کہ کچھ نے کچھ بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، صرف یہ کہا کہ ہمیں بازار کا رستہ دکھا دو ؟ یہاں سطحی لفظوں میں اگر مفہوم لیا جا ئے تو معنی یہ نکلتے ہیں کہ ہمیں بازار رستہ بتادیں ؟ مگر جن لوگوں نے کبھی نقل مکانی کی ہے انہیں یہ تجربہ ہو گا کہ جب انہوں نے وطن چھوڑا تو اپنی پہچان بھی کھوئی اور جب پہچان چلی جائے تو ساکھ خود بخود ختم ہو جاتی ہے ۔لہذا اس سے مراد انکی یہ تھی کہ ہمیں بازار میں رو شناس کرادو؟ تاکہ ہم تمہاری ساکھ استعمال کرسکیں؟ یعنی باالفاظ ِ دیگر تم ہمارے ضامن بن جاؤ؟ جبکہ ان جانے لوگوں کی ضمانت دینا نقد دینے کے ہی برابرتھا اور وہ انہوں نے دی جبھی تو مہاجرین میں بہت سے دوبارہ بے انتہا مال کما سکے ؟ ورنہ مکہ سے تو جو خوش قسمت کچھ چھپاکر لے آئے وہ لے آئے ورنہ انہوں نے مال اور اسباب کے ساتھ گھر اور بیوی بچے تک چھین لیے؟اس سے تاریخ بھری پڑی ہے؟
آپ کہیں گے کہ آپ اس دور کی بات لے بیٹھے ان میں حضور (ص)خود موجود تھے، اس لیے ان کی فکر بدل گئی تھی؟ یہ سچ ہے کہ ایسا ہی تھا؟ مگر حضور (ص) ہمارے بارے میں یہ پیش گوئی فرما گئے ہیں، انہیں (رض) کے سامنے کے تمہارے بعد آنے والے جو میری راہ پر چلیں گے ان کے رتبے بھی سوا ہونگے؟ کیونکہ تم میں ،میں (ص) موجود ہوں تم نے مجھے دیکھا معجزات دیکھے اور عمل دیکھا پھر تم ایمان لا ئے مگر وہ بغیر دیکھے ایمان لا ئیں گے؟
میں نے اپنے بچپن میں وہ مظاہرے تیرہ سو سال کے بعد پھر دیکھے جوآپ نے بھی تاریخ میں پڑھے ہو نگے یا بزرگوں سے سنے ہونگے ؟ کہ مسلمانوں کی مہمان نوازی مشہور تھی؟ جن میں عرب بھی تھے عجمی بھی تھے ۔ ہندی بھی تھے اور ہند میں خاص طور پر پٹھانو ں کی مہمان نوازی بہت مشہور تھی اور اس کے قصے بھی مشہور تھے کہ وہ مہمان پر جان دیدیتے تھے ۔ جبکہ ان کے بارے میں ،میں نے صرف پڑھا ہے ذاتی تجربہ نہیں ہے؟ اسی طرح میں پنجاب میں میں بھی نہیں رہا؟ مگر ان سے دوستی رہی ان کی روایات بھی سنیں اور پڑھی ہیں جو کہ وہی تھیں جو مسلمانوں کی ہو نا چاہیئے ۔لیکن میں نے بنگالیوں اور سندھیوں کی مہمان نوازی کا ذاتی تجربہ بھی کیا ہے ان کا نمک چکھا ہے لہذا میں ان کا ذکر تفصیل سے اس لیئے کررہاہوں ۔ میں نے ان کے بارے صرف پڑھا اور سنا ہی نہیں بلکہ آنکھوں سے بھی دیکھا ہے کہ وہ کیسے لوگ تھے؟
پہلے بنگالیوں کو لیتے ہیں وہ بیچارے غربت کے مارے ہو ئے تھے وہ ان مارواڑی سیٹھوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے جو ان پر ظلم کر رہے تھے ۔ انہوں نے مسلم لیگ کی بنیاد اپنی ضرورت کے لیے رکھی کہ انہیں زمین کا ایک حصہ توعظیم تر بنگال ٹوٹنے کی وجہ سے مل گیا تھا؟ مگر ہندو اکثریت اس پر ناراض تھی وہ بنگال کی تقسیم کو ختم کرانا چاہتی تھی اور وہ تقسیم ختم کرا نے میں کامیاب ہوگئی؟ لیکن جو جماعت بن گئی تھی اسی مسلم لیگ نے وہ پاکستان حاصل کر لیا جس میں ان کی اکثریت ٥٤فیصد تھی؟ انہوں نے گورنرجنرل اور وزیر اعظم اور پہلی کابینہ کی اکثریت جو مغربی پاکستان سے تھی انکے اقلیت میں ہونے کے باوجود قبول کرلی ؟ صرف اسی چودہ سو سالہ پرانے اسلامی جذبہ کے تحت ؟ اور نہ صرف یہ انہوں نے اپنی سرحدیں سن ٥٤تک ہندوستان کے مہاجرین کے لیے کھلی رکھیں جبکہ ویسٹ پاکستان کی پنجاب والی سر حد ٤٧میں ہی بند ہو گئی تھی۔
جبکہ سندھیوں نے سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے اپنا صوبہ بنا یا اور پاکستان میں شامل ہو ئے؟ انکا بھی مسئلہ وہی تھا کہ ہندو سرمایہ دار انکا استحصال کر رہا تھا؟ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے اپیل کی کہ آؤ اور ہماری مدد کرو؟ جب بہار میں فسادات ہوئے تو انہو نے بہار کالونی سن ٤٦میں ہی بنا دی کہ آؤاور آباد ہو جا ؤ؟ جب پاکستان بن گیا جو ہجرت کر کے آئے ان کی مہمان نوازی اسٹیشنو ں سے لیکر اور آباد کاری تک کی؟مہاجر جس سندھی کے دروازے پر چلا گیا اس کامرد بھی گھر پر ہوا یا نہ ہوا ؟ خاتونِ خانہ پردے میں چلی گئی اور کہا کھاٹ باہر ڈالومیں تمہیں کھانا دیتی ہوں؟
اب کیا صورت حال ہے آپ خود جانتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ میرے نزدیک تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے پاکستان بننے کے بعد قرآن اور اس کی تعلیمات کو ماننا چھوڑدیا؟ جس میں کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کہ اور تقویٰ کیا ہے کہ ہر کام کر نے سے پہلے اللہ سےڈرتے رہنا کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ پھرقر آن کےدوسرے قانوں کو جھٹلایا جو تھا کہ “احسان کا بدلہ احسان “پھر تیسرے قانون کو جھٹلایا کہ ہم ایک قوم ہیں ۔ شیطان نے ہمیں بہکادیا اور ہم نے عصبیت کاچشمہ لگا کر سب کچھ دیکھنا شروع کردیا؟ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ آ ج ہم اس بے تکلفی سے نہ سندھ جا سکتے ہیں نہ بلوچستان اور نہ ہی خیبر پختونخواہ میں جا سکتے ہیں صرف پنجاب بچا ہوا جہاں کہ ابھی تک آمد ورفت ممکن ہے؟ ہم اتنی پستی میں کیسے چلے گئے وہ اسلامی اخوت کیا ہوئی جس نے پاکستان بنا یا تھا۔ وہ بھائی چارہ کیا ہوا۔ ایک مسلمان کی مثال تو ایسی تھی کہ ً اسلام ایک قلعہ ہے اور ہر مسلمان اینٹ ،ہونا تو یہ چاہئئے تھا کہ جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو تقویت دیتی ہے ، اسی طرح مسلمان بھی ایک دوسرے کو تقویت دیتے؟ مگر ہو کیا رہا ہے؟ کہ ہر آدمی خود سے ہی نہیں اپنی پرچھا ئیں سے بھی ڈرتا ہے؟ یہ اس لیئے ہوا کہ وہی قبائلی عصبیت اپنا الوسیدھا کرنے اور ہمیں بہکانے میں کامیاب ہو گئی؟ جس کا نتیجہ یہ ہے جو آج ہمارے سامنے ہے کہ ہر ایک دوسرے کادشمن ہے پھر بھی ہم کہلاتے مسلمان ہیں؟ خدارا پیچھے کی طرف لوٹئے ، تاکہ اعتماد کی فضا بحال ہو اس سے پہلے کہ ملک مزید تکڑوں میں بٹ جا ئے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے