اسلامی جمہریہ پاکستان میں عدل کی حالت۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدل کی حالت۔۔۔ازشمس جیلانی
اسلام وہ دین ہے جس نے سب سے زیادہ زور عدل پر دیا ہے اور دیا ہی نہیں بلکہ حضرت عمر (رح) بن عبد العزیز جن کا دور خلافت راشدہ میں شامل کیا جاتا ہے انہوں نے ان آیات کو جمعہ کے خطبہ کا حصہ بھی بنادیا تھا تاکہ ہفتے کہ ہفتے یاددہانی کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری ر ہے؟ لیکن ہم تو رسمی مسلمان ہیں، پورے قر آن پر ہی غور نہیں کرتے تو جمعہ کے خطبے میں دی گئی ایک آیت کیا اثر کریگی۔  پھرحضور (ص) کا عدل کے بارے میں یہ ارشاد کہ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے بڑے چھوڑ دیئے جاتے تھے اور چھوٹوں کو سزا دیجاتی تھی؟ اور اس سلسلہ میں دیگر ارشاداتِ عالیہ کیا ہمارے دل پر اثرکریں گے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ ارشاد کیا اثر مرتب کریگا کہ انسان بھوکا تو زندہ رہ سکتا ہے مگر بغیر عدل کے  زندہ نہیں رہ سکتا؟ یہ دراصل اسی عمل کا نتیجہ ہے کہ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں، میں نے لکھا تھا کہ ہم میں دور ِ جاہلیہ کی طرح عصبیت اتنی سرائیت کر گئی ہے کہ اب کسی بڑے آدمی اور اس کے بیٹے کوپاکستان میں ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ اس کو اس کے کیے سزا ملے گی؟ اور مظلوم کو کہیں سے بھی انصاف مل سکے گا؟ ساری سرکاری مشینری صرف غریبوں کو سزا دینے کے لیئے ہے ،ان بیچاروں  کے بڑے لوگوں کی دہلیز عبور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔
جبکہ موجودہ آزاد عدلیہ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں اپنی حتیٰ لمقدور کوشش کر رہی لیکن انصاف کی حالت سدھار نے میں وہ بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی؟ ہر بڑا آدمی اور بڑے باپ کا بیٹا جب عدالت میں پیش ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عدالت میں نہیں ہے بلکہ پکنک پر آئے ہیں یا پھر کوئی جنگ فتح کر کے آئے ہیں اس لیے دوستوں اور مدح خواہوں کی فوج کے ساتھ  ہوتےہیں، کبھی با قاعدہ کبھی ہار پھول پہنے اور کبھی اس فوجِ ظفر موج کی قیادت کرتے ہوئے اور وکٹر ی کانشان دو انگلیوں سے بنا تے ہوئے با الفاظِ دیگر نظام ِ عدل کا منہ چڑاتے ہوئے کہ ً تم سب ملکر زور لگا لو ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ؟ ہمارے ہتھکنڈے اتنے ہیں کہ تم چار پانچ سال کی مدت کیا اگر پانچ ہزار سال کی مدت بھی لیکر آؤ تو ہم اپنے ہتھکنڈوں سے شکست دیدیں گے؟
یہ سب کیوں ہے ؟ پہلے تو کوئی بڑا یا بڑے باپ کا بیٹا کسی جرم میں پکڑا جائے تو اسے پناہ ایسے ایسے ایوانوں ملتی ہے جو اقتدار کی علامت ہیں، پھر وہاں کے کارندے اس کو وی آئی پیز کی طرح ملک سے باہر بھیجددیتے ہیں۔ اور جب عدالت وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑے اور ٹال مٹول سے کام نہ چلے تو مجبورا ً اسے اسی شاہی انداز میں قوم کے ہزارو ڈالر خرچ کر کے واپس لا یا جاتا ہے۔ پہلے تو دولت کدے کوہی جیل قرار دیا جاتا ہے، با امر مجبوری جیل جانا پڑجائے تو وہاں گھر سے بھی زیادہ ان کی راحت کا انتطام ہو تا ہے، پھر کہیں جاکر مقدمات کا آغاز ہوتا ہے۔ اورقانونی مو شگافیوں کا دور شروع ہوتا ہے کہ ً عدالت کو یہ حق نہیں ہے وہ حق نہیں ہے ً جب عدالت ان کی نیت جانتے ہوئے کہ یہ وقت ضائع کر رہے ہیں کوئی توڑ کرنا چاہتی ہے تو پھر میڈیا میدان میں آجاتا ہے کہ یہ اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ملزم کو پورا سنا نہیں گیا صفائی کاموقعہ نہیں دیاگیا ؟ وہیں بہت سے لوگ اور وہ ادارے جو انسانی حقوق کی علمبردار ہیں وہ ساری تعزیرات پاکستان اٹھا کر ٹی وی پر آجاتے ہیں۔عدالت اس پروپگنڈے کے آگے زچ ہو جاتی ہے۔ مقدمات کو نپٹانے کی وہ رفتار جاری نہیں رکھ سکتی جو فوری انصاف کے لیئے ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ عدالت کے باہر کے ہتھکنڈے الگ ہیں؟ اب گواہوں پر دبا ؤ شروع ہوتا کے وہ شناخت نہ کریں، ورنہ ان کی بہنوں بیٹوں اورخود ان کی جان کے لالے پڑ جا ئیں گے؟ پھر بھی ا گر کوئی مائی کا لال ڈٹ جا ئے توکوئی اندیکھی گولی چاٹ جا تی ہے؟ جبکہ ملزم اور ان کے وکیل چو طرفہ جنگ لڑ رہے ہو تے ہیں؟ مال ہر طرف چل رہا ہوتا ہے؟ لہذا پہلے تو ایف آئی آر میں دفعہ ہی کمزور لگتی ہے، اگر عدالت کے حکم پر لگ بھی گئی تو کبھی وکیل صاحب کسی اہم مقدمہ میں کسی اور جگہ مطلوب ہو تے ہیں ، پھرپولس آفیسر کسی اور جگہ مصروف ہوتے ہیں؟ تو اب مسئلہ یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ گواہ کو مارنے کے بعد شہادت کہاں سے آئے گی عدالت کے پاس چارہ کیا رہے گا سوائے اس کے کہ وہ بھی اسے چھوڑ دے پھر بھی سزا دیدے تو ہمارے یہاں اسلامی حدود موجود ہیں جو ضیاءالحق کے زمانے سے پہلے پولس اپنی کمائی کے استعمال کر تی رہی کہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہو گا ؟ اگر ملزم کو بچانا ہے! سزا یا پھانسی سے تو ہم مروجہ قانون جو اپ پاکستان کریمنل ایکٹ کہلاتا ہے وہ لگا دیں گے ورنہ اسلامی دفعات لگا دیںگے۔ چلیے یہ تمام مرحلے عدالت کے ذاتی طور پر بار بار نوٹس لینے سے گزر بھی گئے سزا سنا بھی دی گئی ؟ پھر اسلامی قانون موجود ہے اسلام اور خدا یاد آجاتا ہے وہ مطلب نکالنے کے لیے؟ کہ اس کے ذریعہ معاوضہ دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے؟ اب نئے سرے سے دباؤ شروع ہوتا ہے کہ ورثا کو جو وہ بھیک دیں اسے مجبور اً قبول کر لیں؟ اس کے لیے پھر نیادور شروع، سفارشیں، دباؤ زور اور دھمکیا ں؟ اگر ورثا میں صرف ماں باپ  ہیں  اورابھی زندہ رہنا چاہتے ہیں توجو رقم ملے لیکر پہلے لاپتہ ہوجائیں ہیں!پھر عدالت میں حلف نامہ آجاتا ہے کہ انہوں نے دیت معاف کردی ۔ اگر ملزم شادی شدہ نہیں ہے اس کے بیوی بچے نہیں تو والدین بظاہر فی سبیل للہ معاف کردیتے ہیں اس لیے کہ اس کے اور وارث بھی ہوتے ہیں۔او رقم سب میں بٹے گی اس لیے یہ کاروائی بظاہر اللہ کے نام پر ہوتی ہے ورنہ خدشہ ہے کہ کوئی ایک وارث نہ مانے اور معافی دینے سے انکار کردے تو معافی کھٹائی میں پڑجائے گی ۔ میں نے جو پہلی مثال دی وہ ایک امریکی ایجنٹ کے مقدمہ میں استعمال ہو ئی ۔ دوسری مثال آپ سب جانتے ہیں؟ چونکہ عدالت اس  مقدمہ کودوبارہ سن رہی اس کے انجام کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گاکہ نمعلوم نیتجہ کیا نکلے ؟ انتظار کیجئے ؟ اگر سزا بر قرار رہی تو بھی  مجرم فکر نہ کریں ؟ پہلے بھی سابقہ صدر نے پانچ سو کے قریب پھانسی کے مقدمات التواءمیں رکھے ہو ئے تھے کیونکہ بین الاقوامی دبا ؤ تھا ؟ان کو اس حکومت کے آنے بعد دوبارہ سامنے لایا گیا، مگر اس حکومت نے بھی انہیں کی سنت پر عمل کیا اور وہی عذر پیش کر کے کہ بین الاقوامی دبا ؤ کا سامناہوا تو پھر ملتوی  کرنا پڑگئے ؟ کیونکہ ہم اسلامی قوانین استعمال کر تے ہوئے ویسے ہی شر ماتے ہیں؟ جب کوئی شرم دلائے تو اور زیادہ شرماجاتے ہیں، مگر جب مطلب ہو تو بے دریغ انکا غلط استعمال بھی کرتے ہیں ،کہلاتے پھر بھی مسلمان ہیں؟
جبکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جہاں سے سب سے زیادہ ایڈ لیتے ہیں وہ اپنے یہاں سزائے موت برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ با لکل قاتلوں کو سزائے موت دیتے ہوئے نہیں شرماتے ؟ تو ہم پر دبا ؤ کس کا ہے جو وزیر اعظم صاحب کے حکم پر پاکستان میں سزائے موت پر عمل در آمد پھر روکدیا گیا ؟ اوپر میں نے دو کیس پیش کیئے ہیں؟ ابھی حال میں تیسرا تازہ مقدمہ بھی آگیا اس کو بھی سن لیجئے، وہ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
کہ کراچی میں دو پولس والے شہید ہو ئے اور اس کے نتیجہ میں با عجلت ایک سیاسی جماعت کے رکن کو گرفتار کر لیا گیا یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں وہ ثبوت عدالت میں پیش ہو ئے اور عدالت نے مطمعن ہوکر سات دن کا ریمانڈ بھی دیدیا ؟ ابھی ریمانڈ کا دور ختم نہیں ہو ا تھا کہ وہ صاحب جو پہلے باعزت گرفتار ہو ئے تھے چیف منسٹر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے با عزت گھر بھی چلے گئے؟جبکہ ماتحت عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اس حد تک ہو نے لگے کہ بندرکھنے لیے تو ریمانڈ لیا جا ئے مگر چھوڑنے کے لیے انہیں پوچھا بھی نہ جا ئے تو آئندہ کونسی عدالت اس جرا ءت کا مظاہرہ کرے گی ؟ پھر ان پر یہ الزام ان حالت میں کہا ں تک مناسب ہے کہ ہم پکڑتے ہیں اور عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں ؟ اب دو نئی خبریں ہیں۔ جن پر بات کرکے ہم کالم ختم کر تے ہیں؟
ایک خبر تو ہے یہ کہ سندھ اسمبلی میں قانون سازی ہورہی ہے کہ گواہوں کو تحفظ دیا ئے ؟ جہاں خود حکومت اوروزراءسڑک پر آتے ہو ئے ڈرتے ہوں وہاں ان کی اس یقین دیہانی پر کونسا گواہ اعتبار کرنے کو تیار ہو جا ئے گا کہ وہ ملزم کے خلاف گواہی دے؟
اسی طرح ایک قانون اسلامی نظریاتی کونسل نے بنا نے کا مطالبہ کیا ہے ؟ وہ ہے توہین رسالت کا قانون کا غلط استعمال روکنا ؟ جو ضیاءالحق کے زمانے سے غلط استعمال ہو رہا اس سلسلہ میں بھی اب تک ہزاروں آدمی کام آچکے ہیں ۔لوگ ذاتی عداوتوں یا کسی علاقے کوبلڈرز مکینوں سے خالی کرانے کے لیئے بخوبی استعمال کر تے رہے ہیں؟اس کے مختلف طریقہ وارردات میں ایک یہ بھی ہے کہ توہین رسالت کاملزم جیل جب چلا جا تا ہے تو قیدیوں کو اتنا مشتعل کیا جاتا ہے وہ اس کو قتل کر دیتے ہیں؟ اب تجویز یہ ہے کہ غلط رپورٹ در ج کرانے والے کے خلاف کاروائی کرکے اسے بھی سزاے موت دی جا ئے؟ ہم ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ جبکہ ہمیں اسلامی قوانین پرعمل کرتے ہو ئے شرم آتی ہے؟ جبکہ قر آن کا تقاضہ یہ ہے کہ ملزموں کو سزا دیتے ہوئے ان پر ترس بھی مت کھاؤ ؟ اب یاتو ہم عاقبت بچالیں یا دنیا کی نظر میں عزت ؟ جن قوانین کے استعمال کرنے کاارادہ نہ ہواور راہ میں مشکلات بہت ہوں تو نئے قوانین بنانے کا کیا فائدہ وہ تو پہلے سے سارے موجود ہے؟ ً ًجبکہ قرآن کہتا ہے کہ “ مومنوں ایسی بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو “عمل نہ کرنے میں تو پھر بھی کچھ بچت ہے مگر اسلامی قوانین کا مذ اق اڑانا ، اپنے عمل اور زبان سے قطعی فرعونیت ہے ؟ ایسی قوموں کا جو انجام ہوا جنہو ں نے خدا کے قوانین کو ہنسی کھیل بنالیا وہ ہماری تاریخ کے موجود دور سے مماثل ہے اور ہم آجکل اسی سے گزر رہے ہیں؟ کیونکہ فرعونیوں کو ڈبونے سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے گئے تھے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.