کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے؟ اس محاورے سے بہت سی باتیں ظاہر ہوتی ہیں، دودھ اور چھاچھ کامنبع تو ایک ہی ہے رنگ بھی ایک ہے رہا مزہ تو وہ چکھنے کے بعد ہی معلوم ہو تا ہے؟ جبکہ دودھ کا مزہ اگر وہ کراچی کی ہول سےل مارکیٹ نہ لیا ہو یعنی اس میں انسانی صنعت کا دخل نہ ہو تو قدرت نے اسکو بہت ہی لذیذ بنایا ہے، جبکہ یہ بات چھاچھ کے بارے میں حتمی طور پر اس لیئے نہیں کہی جاسکتی کہ وہ روزانہ اپنا مزہ بدلتا رہتا ہے۔ دودھ کے جلانے کی صفت آہستہ سے چھو کر معلوم کی جاسکتی ہے مگر چھاچھ کی نہیں کیونکہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صفت بدلتا رہتا ہے؟ لذیز بھی ہوسکتا ہے ، کسیلا بھی ہوسکتا ہے ، کھٹا ،کڑوا زہر اور زہریلا بھی۔ چونکہ دیکھنے میں دونوں ایک سے ہوتے ہیں جیسے کہ سیاست دان سب ایک سے بظاہر نظر آتے ہیں سفید کلاہ سفید کرتا اور شلوار پہنے ہوئے اور بے داغ ؟
یہاں مزہ معلوم کر نے کے لیئے انہیں پرکھنا ضرور ی ہوتا اور ہر وہ دفعہ اتنی چابک دستی سے نئے نعرے اور نیا لباس بدل بدل کر آتے ہیں کہ بیچارے عوام اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ہر دفعہ مونڈ لیئے جاتے ہیں، بھیڑ جو ہوئے جس کے لیے مشہور ہے کہ “ بھیڑ جہاں جائے گی منڈے گی “ یہ ہر دفعہ منڈتے ہیں مگر سرپھر انہیں کے سامنے جھکادیتے ہیں جو چکنے چپڑے دعوے اور وعدے کریں؟ اس سادہ لوحی پر نہ جانے کیوں ہمیں یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ ع ً پھول کے دھوکے میں ہم نے رکھدیئے کانٹوں پہ ہونٹ کس قدر دھوکا دیا رنگ ِ گلستاں نے ہمیں ً عوام بیچارے گو کہ یہ جانتے تھے کہ اٹھارویں ترمیم مک مکاؤ کی ترمیم تھی مگر اس سلسلہ میں وہ اسے تخلیق کرنے والوں کی نیت پر شک کی نگاہ اس لیے نہیں ڈال سکے کہ بظاہر حکومت اور حزب اختلاف لڑے ہو ئے نظر آتے تھے؟
جبکہ وہ آج بھی لڑے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی لڑے رہیں گے تاکہ میثاق ِجمہوریت کے تحت وہ باری باری حکومت کرتے رہیں اور کسی پر آنچ نہ آنے دیں؟ نیب کے چیر مین کی کرسی پہلے بھی خالی تھی اور کئی عشروں سے خالی تھی ، کیونکہ یہ محکمہ بنایا تو احتسا ب کے نام پر تھا مگر کام اس کا سیاست دانوں کو حکمرانوں کی ماتحتی لانا تھی جب وہ آجاتے تھے تو ان کی کھلی ہوئی فائل پر لال فیتہ لگ جاتا تھا؟اور جو صاحب اس کرسی پر بظاہر بیٹھے ہو ئے نظر تھے وہ توجہ کسی اور فائل کی طرف اسی مقصد سے مبذول فرما دیتے تھے ؟ اب وہ تصویر بھی ہٹ گئی ہے۔ حالانکہ ایک فلمی شاعر بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ ع ً تصویرتیری دل میرا بہلا نہ سکے گی پرچھائیں تو انسان کے کام آنہ سکے گی؟ آپ صاحب ِ تصویر کو روبوٹ سمجھ لیں کہ اس کا ریموٹ بھی نہ جانے کس کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے؟ اسی لیے وہ بیچارا کبھی آگے چلتا ہے کبھی پیچھے ؟ نیا دور آنے سے پہلے وہ تصویربھی رخصت ہو گئی ۔ جب نئی حکومت آئی تو اس کومک مکاؤ کی پالیسی پر چلنا تھا چونکہ اس کے سامنے مسائل کے انبار تھے لہذا یہ محکمہ اس کے لیے غیر اہم تھا اس لیے اس کا چیر مین مقرر کرنا اسے یاد نہیں رہا؟ یاد جب آیا جب عدالت نے یاد دلایا کہ اس کی وجہ سے سارے مقدمات رکے ہوئے ہیں کیونکہ ہر چالان پیش کرنے سے پہلے نہ جانے کیوں ایک نقص ہر قانون میں رہ جاتا ہے کہ کسی نہ منزل پر معاملہ اٹک جائے اور افسر کسی سے پوچھ کر آگے بڑھے؟ جب سے نیب کے چیر مین کے لیے نام آجا،رہے ہیں۔ عدالت عالیہ کئی بار حتمی تاریخیں بھی دے چکی ہے؟ وہ گزرتی جارہی ہیں۔ مگر اس ترمیم کا فائدہ یہ ہے کہ وہ جب تک چاہیں اس کے تحت نیب کے سربراہ کے تقرر کو لٹکائے رکھیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں کہ کو ئی ایسا اللہ والا مل جائے جو بے ضرر ہو؟
ورنہ اب تک کاتجربہ یہ رہا ہے کہ جو بھی آتا ہے اسے انصاف کے تقاضے پو رے کرنا پڑتے ہیں؟ ورنہ آزاد عدلیہ اور چوکس میڈیا اسے چین نہیں لینے دیتی ؟ جبکہ مشکل یہ ہے کہ جس نمبر کی چھنی میں بھی آپ چھانیں ارباب ِسیاست اپنے لحیم شحیم قدو قامت کی وجہ سے گزرنے نہیں پاتے ؟اس میں سے گھوڑے کی تو بساط ہی کیا ہے اونٹ نکل سکتے ہیں ہاتھی نکل سکتے ہیں۔ مگر نہیں نکل سکتے ہیں تو بیچارے ارباب سیاست کیونکہ انہیں شفافیت کی چھلنی سے الرجی ہے۔ یہ ہی پریشانی ہے کہ و ہ کسی پر ابھی تک متفق نہیں ہو سکے ؟ چونکہ حکومت کے پاس اکثریت ہے لہذا چاہے تو ترمیم کر سکتی ہے مگر کرے گی نہیں اس سےبہتر ہے کہ جیسے اس جیسے اور محکمے اپنی افادیت کھونے کی وجہ سے بے کار ہوگئے تھے مگر ان کو بے روزگاری کے خوف سے باقی رکھا گیا اسے بھی باقی رکھا جا ئے جس کی دلیل یہ ہے کہ وہ کیوں باقی رکھے گئے ؟ جن میں مشہور نام تو بہت ہیں جیسے کہ ا سٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ وغیرہ؟
مگر ان کے کام کی نو عیت مختلف ہے لہذا انہیں چھوڑیں! حالانکہ ہم جس پوزیشن میں ہیں وہ اس شعر کے مصداق ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تب بوجھ اتارا کرتے ہیں؟ اسکو جانے دیجئے کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور یہ شاعری ہے اور بے مقصد شاعری اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے؟ البتہ تھوڑی تاریخ بد عنوانیوں کی اور محکموں کی بتا کر ہم بات ختم کرتے ہیں؟
جب تک انگریز تھے نہ چوری چکوری تھی نہ بد عنوانی تھی اور نہ ہی انسداد بدعنوانی کا محکمہ، جب ہم آزاد ہو ئے تو ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی آزاد ہو گئے؟تب سب سے پہلے سرکاری محکموں میں بد عنوانی نے اپنے ہاتھ پیر نکالے اور محکمہ انسداد بد عنوانی قائم ہوا اس میں یہ دفعہ رکھی گئی اسکو مزید کار آمد بنا نے کے لیے کہ نشانزدہ نوٹ جب مجسٹریٹ کے چھاپہ مارنے پر بر آمد ہوں تو ملزم کی ذاتی تحویل سے بر آمد ہوں؟ ملزموں نے اس کا توڑ یہ نکال لیا کہ دفتر کی الماریوں کے پیچھے رقم لفافے میں ڈال کر پھینک دو اور کام کرا لے جاؤ؟ چھاپہ پڑا تو وہ لے جائیں، نہیں پڑا تو خیر ہے کیونکہ وہ لفافہ کس تھا صرف عملہ کو ہی معلوم تھا وہ شام کو اپنا اپنا لفافہ اٹھا لے جاتاجبکہ اگر چھاپہ پڑتا تو کورٹ میں چھٹ جاتے کہ ان کے پاس تو نکلے ہی نہیں الماریوںکے پیچھے تو کوئی بھی دشمنی میں ڈال سکتا ہے اس کے بعد بہت سے محکمے اس سلسلہ میں بنے مگر یکے بعد دیگرے ناکام ہوئے ؟وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جھوٹ بولنا شر عا ً تو اس حد تک منع ہے کہ کہ جھوٹا مسلمان نہیں ہو سکتا ؟ اور یہ بھی ہے کہ شہادت مت چھپاؤ چاہیں وہ اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو؟ اور یہ بھی قر آن میں لکھا ہوا ہے کہ“ مسلمانوں وہ بات کہتے کیو ں ہو جو کرتے نہیں اور اس سے اگلی آیت میں یہ بھی ہے کہ یہ بات اللہ سبحانہ تعالی کو سخت ناپسند ہے؟ لیکن ہماری پوزیشن یہ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں اور مسلمان کہلاتے ہیں مگر اللہ اور رسول (ص) احکامات مان نے کا رواج نہیں ہے ؟
وہ محکمہ ابھی تک باقی ہے اور جہاں تک ہمیں علم ہے یہ دفعہ بھی موجود ہے ؟ کیونکہ ہم ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں اپنے آدمیوں کے بچانے کے لیےجو ہم کر سکتے ہیں؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے