وقت بدلا اس طرح کہ اب پولیس پردے میں ہے۔۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

پاکستان ابھی تازہ تازہ بنا تھاابھی تک صرف اشرافیہ پردہ کر تی تھی جو پہلے سے چلا آرہا تھا ، رہیں عام خواتین وہ نہ پہلے پردہ کرتی تھیں نہ اب کیونکہ انہیں ہمیشہ سے کھیتوں اور باغوں اور گھروں میں مزدوری کرنا ہوتی تھی؟ نہ ابھی اپوا بنی تھی نہ ترقی پسندمسلمانوں نے ہاتھ پا ؤں نکالے تھے جو سب خواتیں آجکی طرح ایک جیسی ہوجاتیں!  بس جو علماءنے بتا دیا اسی کو ہی اشرافیہ پردہ مانتی تھی اور اس پر عامل تھی۔ ایسے میں ایک دوروزہ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی خوبی یہ تھی ایک دن خواتین پردے میں تھیں اور دوسرے دن مرد حضرات اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ جناب ہاشم رضا( مرحوم) جو اس وقت کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تھے اس کی صدارت فرمارہے تھے وہ بھی شاعر حضرات کے ساتھ پردے میں تھے۔ چونکہ بزرگ شعراء مردوں میں زیادہ تھے لہذا تقدیم اور تقد یس کے اصول کے تحت پہلے انہیں شاعرات کو سننا تھا اور بعد میں شعرا ء حضرات کو خودسنانا تھا، اس دوران جناب ظریف جبل پوری مرحوم نے اپنی بد ذوقی کامظاہرہ کیااور بجائے شاعرات کو غور سے سننے کے ایک فل البد یہہ نظم کہہ ڈالی۔ جس کا مطلع تھا کہ “ شعر سننے اور سنانے کی سزا پردے میں ہے “ نظم بہت طویل تھی اور ہمیں پوری طرح اب یاد بھی نہیں ہے کہ اس واقعہ کو وقوع پزیر ہوئے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گذرگیا ہے ۔اس میں انہوں نے وہاں موجود شعرا ئے کرام کا ذکر نام بنام کیا تھاجن میں سے ایک مصرع بطور نمونہ پیش خدمت ہے ۔
“ جگر ساغزل خواں پردے میں ہے  “ پھرتما م شاعروں کے نام گنانے کے بعد جس شعر پر سب سے زیادہ انہیں داد ملی وہ ہم پیش کر کے بات کو آ گے بڑھاتے ہیں؟ وہ تھا
“ ہم تو شاعر ہیں ہمیں چاہو بٹھالو تم جہا ں    حیف ہے ہاشم رضا پردے میں ہے “ اس وقت اچنبھے کی بات ان کی لیے یہ تھی کہ ایک سی ایس پی آفیسر پردے میں ہے؟ جب کہ اس دور تک بڑے گھروں کی خواتین تو پردے میں رہتی تھیں ،مگر بڑے گھر کے مردوں کے پردے کا تصور تک نہیں تھا۔ گوکہ اس وقت بھی دہرا معیار تو تھا مگر آج کی طرح نہیں ؟ مثلا ً بڑے گھر کی خاتون ہونا تو اعزاز کی بات تھی مگر بڑے گھر کامرد کو مکین  ہونااعزاز کی بات نہیں تھی اور بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ محاورے میں بڑاگھر “ جیل “ کو کہتے تھے۔اس دور میں جرائم پیشہ اور بد عنوان ہونا معاشرہ میں انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ لہذا کوئی سیاست داں ٹی وی پر آکر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اگر میں چور ہوں تو کیا ہواتو مجھ سے بڑا چور ہے اگر میں نے ایک ارب کا گھپلا کیا تو تونے سیکڑوں ارب کا گھپلا کیا ہے؟
اس وقت چور اچکے ایوانوں میں نہیں بیٹھتے تھے لہذا وہاں پردے کے ضرورت نہیں تھی اور ہرآدمی ایوان ِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں اگر کارکن ہے تو یونہیں ٹہلتا ہوا؟ اور اگر فریادی ہے تو اپنی شناخت کراکر اندر چلاجاتا تھا کیونکہ سیاستداں اندر اور باہر سے ایک ہو تے تھے لہذا انہیں پردے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بلکہ ہم نے تو ایک وزیر اعظم ایسے بھی دیکھے کہ ان کی بیوی نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بیڈ روم میں کارکن بیٹھے رہتے تھے اور وہ جب گیارہ بارہ بجے تک امور سلطنت سے فارغ ہوتے تو تشریف لاتے اورکہتے کہ آؤ اب اپنی باتیں کرتے ہیں اب اپنا ٹائم ہے ؟
جبکہ فریادیوں کے لیے ہر وقت ان کے پاس ٹائم تھا اس لیے کہ اسوقت فریادی کمیاب تھے اور سیا سی کارکنوں کی بہتات تھی۔ ان کانام تھا جناب حسین شہید سہروردی مرحوم۔ نئی نسل  تو ہماری ان انہونی باتوں کو جھوٹ سمجھ رہی ہو گی۔  مگرابھی بھی اکا دکا سہی مگر اسکے لیے  ہم گواہ پیش کر سکتے ہیں۔
ہم بھی کہاں سما خراشی کرنے بیٹھ گئے ۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے کل ایک خبر ٹی وی پر سنی کہ دنیا ٹی وی کے ایک فوٹو گرافر کا کیمرہ ایک پولس آفیسر نے اس لیے توڑ دیا ! اس کاجرم یہ تھا  کہ اس نے ان کی جعلی نمبر پلیٹ کی ویڈیو بنالی تھی جبکہ وہ گاڑی ایک پولس آفیسر کی تھی اور پولس نے غلطی سے روک لی تھی اور جب ا نہوں نے شیشہ کھولا اور شکل پہچانی تو حسب روایت سلوٹ دےکرآگے جانے کی اجازت دیدی، دنیا کے نمائندے نے بجائے سلوٹ مارنے کے کچھ گستاخی  کی تو وہ گاڑی سے ہی باہر نہیں بلکہ آپے سے باہر ہوگئے اور شلوار قمیص پہنے گاڑی سے پاہر نکل آئے، پہلے تو پولس کی زبان میں بات کی پھر ان کاکیمرہ اور اسٹیند توڑڈالا۔ ہم نے اس گاڑی کو غور سے دیکھا تھا تو اصل وجہ ہمارے سامنے آگئی؟ وہ اوروں کو اس لیے نظر نہیں  آئی کہ اس گاڑی کے شیشے رنگین کے رنگین ہی رہے جبکہ اور وں کی گاڑیاں روک کر وہ نوچے جارہے تھے؟  نمائندے کاسب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس میں ایک پردہ نشین بیٹھے تھے جن کا انہوں نے اپنی نا تجربہ کاری کی وجہ سےنام پوچھ لیا! جو انہوں نے نہیں بتایا؟ غالبا ً یہ ہی حرکت صاحب کو پسند نہیں آئی کیونکہ یہ تو روز مرہ میں شامل ہے کہ بہت سے لوگ کہیں دھندلے شیشے والی گاڑیوں میں لائے اور لے جائے جاتے ہیں مگر نہ ان کے نام بتائے جاتے ہیں نہ شکل دکھائی جاتی ہے؟ جبکہ اخباری نمائندوں کی یہ نئی نسل نہیں جانتی کہ پردہ نشینوں کے نام نہیں پوچھے جاتے ؟ اور گاڑیوں کے شیشے رکھے بھی اسی لیے رنگین جاتے ہیں کہ اس میں سوار آفیسر اور دوسرے مسافروں کی ویڈیو نہ بن سکے او ر بے پردگی نہ ہو؟
پہلے مجرم پولس سے چھپتے پھرتے تھے اب قدریں بدل گئیں ہیں، اب مجرموں سے پولس چھپتی پھرتی ہے (جیسے مشرف کے زمانے میں آرمی کی حالت ہوگئی تھی کہ وہ سادے کپڑوں میں رہنا پسند کرتی تھی) اس لیئے کہ مجرموں کی پہونچ  توہر ایوان تک ہے اور اِن بیچاروں کی پہونچ منزل بہ منزل آگے بڑھتی ہے یعنی ( تھرو پروپر چینل )؟ جبکہ یہ اس کی خلاف ورزی کریں تو ان کو “ پھرا “مل جائے گا، پھر بھی نہ مانے تو نوکری چلی جائے گی اور وہ رقم بھی ڈوب جائیگی جو پہلے نوکری خریدنے پر خرچ ہوئی، پھر تھانے ٹھیکے پر لینے پر صرف ہوئی ۔ لہذا ان کے زندہ رہنے کاراز صرف اورصرف پردے میں رہنے میں ہے کیونکہ پولس اور پردہ دونو میں ً پ ً مشترک ہے۔ اگر پولیس سے پر دہ چھین لیا تو لوگ انہیں پہچان لیں گے اور یہ کسی اجنبی گولی کا شکار ہو جا ئیں گے؟ یا پھر انہیں تھانہ چھوڑ کر بھاگنا پڑیگا جوکہ اس خبر کے بعد کی خبر سے ظاہر ہے کہ فیصل آباد میں ایک تھانہ ہے محمد آباد جوکہ بیچ شہر میں ہے ،انہیں اطلاع ملی کہ اسے بم  سےاڑا دیا جائے گا؟ تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ وہ تھانہ بند کرکے چلے گئے اور تھانے کے چاروں طرف رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور خاردار تار لگادیئے کہ کوئی اسے اڑا نہ دے ، اس کا ذکر ہمیں کہیں نہیں ملا کہ تھانہ جو کام اس علاقہ میں کام کر رہا تھا وہ اب کس تھانے کو سونپا گیا اور فریادی کہاں جائیں؟ ممکن ہے کہ وہ حفاظت کے پیش نظر صیغہ راز میں ہو اور داد رسی کے لیئے کوئی سینہ بہ سینہ نظام بھی ہو جس کا عام کرنا قومی مفاد نہ ہویا عوام کے لیے مناسب نہ ہو؟ لیکن ہم اس پر پریشان ہیں کہ اگر اس پہلی کوشش کی یہاں کامیابی کے بعد ہر شہر کے جرائم پیشہ لوگوں نے یہ ہی عمل شروع کردیا تو تھانے تو سب بند ہو جائیں گے پھر پولس کیا کرے گی اور کہاں بیٹھا کریگی ؟ جبکہ یہ مسئلہ گھمبیر صرف شہروں کی حد تک ہے دیہاتوں میں تو تھانہ ہوتا ہی کسی وڈیرے یا چودھری کے گھر میں ہے یا پر تھانہ اس کادفتر ہوتا ہے ،کیونکہ وہ صبح سے لیکر شام تک رہتا ہی وہیں ہے ؟ اس کی بھی کل ایک ویڈیو ہم نے دیکھی کہ پولس کی موجودگی میں تھانے میں اس علاقہ کا ایک با اثر آدمی ایک شخص کے کپڑوں کی دھول جھڑوارہا ہے اور جب اس کی حالت خراب ہو ئی تو اس پر بھی با ضد ہے کہ اس کو اسپتال بھی مت لے جاؤ؟
چونکہ آجکل میڈیا فورس ،پولس  فورس کا کام کر رہی ہے لہذا ہمارا مشورہ ان کے مالکوں کو یہ ہے کہ وہ بھی لیڈروں اور آفیسروں کی طرح اپنے کارکنوں کے لیے پردے کا بندوبست کریں اور انہیں ایسے کیمرے دیں جو کہ پردے کے پیچھے سے تصویر لے سکیں، ورنہ کارکن بھی کچھ تو عبرت کے لیئے پہلے ہی شہید کیے جاچکے ہیں ۔ باقی کی خیر نہیں ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.