ہم بھی آنکھ بند کر لیں گرایک ہو برائی؟۔۔۔شمس جیلانی

حضرت علامہ اقبال (رح) نے شاعر کو آنکھ سے تشبیہ دی ہے؟ کیونکہ شاعر اور ادیب بہت حساس اور باریک بین ہوتے ہیں اور جب ان کے اوپر اصلاح کا بھوت بھی سوار ہو تو سہ آتشہ ہو جاتے ہیں۔سب کی آنکھیں بند ہو جائیں مگر ان کی آنکھیں بند نہیں ہوتیں ؟پہلے سنا کرتے تھے کہ عقل اور حکمت مسلمانوں کی میراث ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے علماءخود کو حضور (ص) کی ایک حدیث کے مطابق بنی اسرائیل کے نبیوں (ع) کے برابر سمجھتے تھے اور اس مصلے پر بیٹھنے سے پہلے ان تمام علوم پر عبور حاصل کرلیتے تھے جو حضور (ص) کے کسی بھی نائب کے لیے لازمی تھے؟ مگر مسلمانوں کا زوال کیا شروع ہوا کہ انہوں نے علوم دنیا کو یہ کہہ رد کردیا کہ یہ کافروں کا ورثہ ہے! جبکہ علم، علم ہے وہ ہماراورثہ تھا ہے اور رہے گا۔ کیونکہ تمام علوم کا حصول ہم پر فرض کردیا ہے چاہیں وہ مسلمان مرد ہوں یا خواتین۔ مگرمصیبت یہ ہے کہ ہم بجا ئے دین کے رسموں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی کانام ہم نے دین رکھدیا ہے۔ لہذا بات بنے تو کیسے بنے؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہم بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ ہر سوپچاس میل کے بعد رسومات تبدیل ہو جاتی ہیں لہذا ہمیں عجیب لگتی ہیں اور انہیں کچھ لوگ بدعت کہہ کرلوگوں کا دل میلا کرتے ہیں اور بہ زعم خود ثواب کماتے ہیں۔ اگر ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو اپنی گرہ میں باندھ لیتے کہ “ تمہارے لیے تمہارے نبی کا اسوہ حسنہ کافی ہے “ اور اس پر سختی سے قائم ہو جاتے تو یہ مسائل پیدا نہ ہوتے کیونکہ ایک ہی رنگ میں سب رنگے نظر آتے، جو اللہ کا رنگ ہے کیونکہ حضور (ص) قر آن کی عملی تفسیر ہیں۔اور ہم اگر ان کا اتباع کرتے تو ہم ان ہی کا طریقہ اپناتے؟اس کا نتیجہ یہ ہو تا کہ ہم پوری طرح دین پر عامل ہو تے ،جبکہ ہم اس کی ضد ہیں؟ جیسے قرآن ہم سے تقاضہ کر تا ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں اور نماز کو صرف وقت ِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا اور حضور  (ص) زندگی بھر اسی پر عامل رہے؟ جبکہ ہم کیا کرتے ہیں؟ اس رمضان شریف کی بات لیتے ہیں۔ ایک حافظ صاحب بہت بڑی رقم خرچ کر کے مصر سے رچمنڈ برٹش کولمبیا بلوائے گئے ۔ جبکہ درجنوں کے حساب سے ہمارے پاس مقامی حفاظ موجود ہیں اور حضور (ص) کا یہ ارشاد ِ گرامی بھی موجود ہے کہ تمہاری قریبی کا مسجد کا تم پر زیادہ حق ہے۔ پھر بھی ہم حفاظ در آمد کرتے ہیں تاکہ واہ واہ ہو سکے اور بیت المال کو اس بیدردی سے خرچ کرتے ہیں کہ دینے والوں کو دکھ ہو تا؟    وہ پھر بھی  چندہ کیوں دیتے ہیں اس لیے کہ ارشاد ِ رسول (ص) کے مطابق قریبی مسجد کا حق زیادہ ہے۔ اس بات کو ہرمسلمان جانتا ہے؟ اگر ہم اسی طرح باہر سے زرِ کثیر صرف کر کے حفاظ بلاتے رہے تو ہمارے چاروں طرف جو حفاظ پیدا کرنے کے ادارے قائم ہیں انکے فارغ التحصیل سنانے کے لیے کہاں جا ئیں گے، مصر والے تو انہیں بلانے سے رہے؟اس پہ طرہ یہ کہ وہ ہمیشہ نماز کو لیٹ کرتے تھے جبکہ مسجد میں ہی موجود ہو تے تھے ؟ حتیٰ کہ اقامہ کے لیے تکبیر ہوجاتی نمازی انہیں تک رہے ہوتے تھے۔ ہم نے ایک صاحب سے پوچھا کہ یہ روز ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے آہستہ سے جواب دیا کہ شیخ جو ہو ئے؟ اگر وہ رسول  (ص)کے پیرو ہوتے تو ایسا کبھی نہ کرتے وقت کی پابندی کر تے؟ ان نمازیوں کو تکلیف نہ ہوتی جو اپنے دفاتر سے لنچ کے وقفے میں ظہر کی نماز کے لیے نکلتے ہیں اور وقفہ ختم ہونے سے پہلے پہونچنا چاہتے ہیں؟۔ اسی طرح نہ انہیں پریشانی ہو تی جو جمعہ کی نماز کے لیئے نکلتے ہیں ۔ جبکہ مولوی صاحب اول تو دیر سے خطبہ شروع کرتے ہیں اور جس سے نمازیوں کونوازتے ہیں وہ رواجی خطبہ ہو تا جو کم نہیں کیا جاسکتا جبکہ پورا سنانا بھی ضروری ہے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ لوگ بیچینی سے پہلو بد ل رہے ہیں۔ممکن ہے کہ وہ اسے رقت پر مبنی سمجھتے ہوں؟ پھر بمشکل خطبہ ختم ہو تا ہے تو ، نماز میں بڑی سورتیں پڑھنا بھی ضروری ہے جو بیچارہ پہلے ہی لیٹ ہو چکا ہے تاکہ وہ اور لیٹ ہو جائے۔ جبکہ حضور (ص) کا اس سلسلہ میں وہ واقعہ بہت مشہور ہے اور رہنما ہے کہ ایک صحابی (رض) کی نمازیوں نے شکایت کہ یہ بہت بڑی سورتیں پڑھتے ہیں؟ تو حضور (ص) نے ان کو ان الفاظ میں تنبیہ کی کہ “ کیا تم انہیں دین سے بھگانا چاہتے ہو“ یہ واقعہ ایسا کرنے والوں نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا، مگر رعب اسی سے پڑتا ہے کہ بڑی بڑی سورتیں پڑھی جا ئیں؟ کیا اسے ریاکاری نہیں کہتے؟ جب وہ وہاں سے بھاگتے ہیں تو وہ مسلمان جو دیر میں آتے ہیں اور جگہ نہ ملنے پر ان کی گاڑیاں بلاک کردیتے ہیں !ان کو کوس رہے ہوتے ہیں۔یہ تو ہمارے اپنے یہاں کے قصے ہیں ۔ ہم سمجھتے تھے کہ اور جگہ شاید ایسا نہ ہو؟ لیکن ہمیں تجربہ یہ ہوا کہ مسلمان کہیں کے بھی ہوں ایسے ہی ہوتے ہیں؟ اس دفعہ پچیس سال میں ہمیں پہلی بار عید الاضحی کی نماز نیو یارک میں ادا کرنے کا موقعہ اس لیئے ملاکہ ہماری بیٹی اور داماد حج پر گئے اور ان کی یہ خواہش تھی چونکہ اسکول کھلے ہو ئے ہیں لہذا اگر آپ نیو یارک آجا ئیں، تو ہم ذرا مطمعن رہیں گے؟ ہم نے رچمنڈ کی کمی شدت سے محسوس کی اور اہل ِ رچمنڈ نے ہماری کمی محسوس کی، کیونکہ ہماری کڑوی کسیلی باتوں کے باوجود وہاں کے لوگ ہمیں بہت چاہتے ہیں اور ہم انہیں۔     اس سال یہاں عید کی نماز کا اہتمام بجا ئے لونگ آئی لینڈ کی اسلامی سینٹر کی مسجد کے ،نا سا کمونٹی سینٹر کے قریب ایک ہال میں تھا جوکہ انڈور گیمز کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے لیے پہلی خوشخبری جمعہ کی نماز میں یہ ملی کہ اس مرتبہ عید کی نماز یہاں نہیں ہوگی بلکہ وہاں ہو گی جو کہ یہاں سے آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے؟ کیوں ؟ جواب وہی ہے کہ رعب پڑے گا؟ بڑا اچھا عمل تھا کہ حضور (ص) کی پیروی کی ایک شکل ہو تی کہ سب اکٹھا مسجد پر ہوتے اور ایک راستے سے جا تے اور دوسرے سے آتے؟ مگر لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے طور پر سیدھے وہاں پہو نچ جا ئیں نماز کا وقت دس بجے تھا ہم اپنی بری عادت کی وجہ سے ساڑھے نو بجے ہی پہونچ گئے؟دروازے پر کمیونٹی لیڈر مسٹر منگھا نا نے استقبال، با قاعدہ اسلام علیکم اور عید مبارک کہہ کر کیا؟ جب کہ ان کو متعارف کرانے کے لیے مسجد کی انتظامیہ کا کوئی فرد وہاں موجود نہ تھا؟ ہمیں دیکھ کر مسجد کے مستقل امام صاحب آگے بڑھے اور انہوں نے ہمارا میزبان سے تعارف کرایا؟ وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کی عمر پوچھ سکتا ہوں ؟ میں نے کہا بیاسی سال !کہنے لگے ابھی تو آپ بچے ہیں میرے والد زندہ ہیں جوکہ نوے سال کے ہیں! میں نے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ ابھی تک آپ کے والد کا سایہ آپ کے سر پر ہے؟ کہنے لگے بے شک۔ میں نے اجازت چاہی ،ہال کی طرف بڑھا کیونکہ میں جب مسجد پہونچ جاؤں تو مسجد کے اندر وقت زیادہ گزارنا پسند کرتا ہوں بجائے باہر کھڑے رہ کر گپ لگانے کہ، وہ ارادہ بھانپ کر کہنے لگے تشریف لے جا ئیں اور سروس میں شامل ہوں۔ ہم نے ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا ، اند ر داخل ہوئے تودیکھا دو نمازی ہم سے پہلے اور تھے ان میں ایک معذور اور سخت بیچین دوسرے ان کے ساتھی تھے جبکہ معزوروں کے لیے کرسی بھی نہ تھی، باقی ہال خالی پڑا تھا جبکہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد باہر دھوپ سینک رہی تھی۔دس بجے کے بعد ہی کہیں لوگ اندر آنا شروع ہوئے جبکہ مائک پر تسبیح وتہلیل کی رسم شروع ہوئی ؟  ہم نے اسے رسم اس لیئے کہا کہ سنت تو یہ ہے کہ جدھر سے گزرو حمد کرتے ہو، جہاں بیٹھو نماز سے پہلے حمد کرتے رہو؟پھر وقفہ وقفہ کے بعد انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہو تارہا کہ ابھی لوگ آرہے ہیں پارکنگ لاٹ بھر گئی ہے جگہ نہیں مل رہی ابھی پانچ منٹ میں نماز شروع کرتے ہیں پانچ منٹ طویل تر ہوتے گئے وقت پر آنے والے سزا سے اور لیٹ آنے والے انعام سے نوازے جاتے رہے تاکہ اس بدعت کو حیات ِ جاوداں ملے ؟ حتیٰ کہ پونے گیارہ بج گئے، کچھ اپنے اور کچھ پرا ئے لیڈر نمودار ہوئے تعارف کرا کر ان کو خطاب کی دعوت دی گئی وہی کمیونٹی لیڈرجو صبح بڑے اچھے موڈ میں تھے اب اکتائے ہو ئے سے لگ رہے تھے؟ کیونکہ اس قوم نے وقت کی پابندی اپنا ئی ہوئی ہے جبکہ ہم نے چھوڑ دی، انہوں نے بہت مختصر سی تقریر کی جو یہاں کارواج ہے اور یکجہتی پر زور دیا اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ایک نئے صاحب آگے لائے  گئےجن کا یہ کہہ کر تعارف کرایا گیا کہ اب ہماری مسجد کے امام حافظ ۔۔۔نماز پڑھا ئیں گے جبکہ ہم بیس پچیس سال سے اس مسجد میں آ تے رہے ہیں ہم نے انہیں وہاں کبھی نہیں دیکھا ؟ وہ نوجوان تھے جبکہ وہاں جو صاحب ہمیشہ ملے وہ ایک معمر آدمی ہیں جن سے صبح ہم مل بھی چکے تھے جو چند منٹ پہلے تک پیش پیش تھے مگراب موجود نہیں تھے ۔یہ یکایک تبدیلی کیوں ہو ئی ہمیں پتہ نہیں شاید یہ وجہ یہ ہو کہ یہ یہیں کی پیداوار تھے انگریزی امریکن کی طرح بولتے تھے وہ جو شرو ع ہوئے پہلے تو تلاوت طویل کی پھر خطبہ طویل  ترعطا فرمایا ؟ جبکہ ہم نے کمیونٹی لیڈر کے چہرے سے جو تاثر لیا اس سے یہ ہی ظاہر ہورہا تھا کہ وقت کی خلاف ورزی یہاں انتہائی معیوب فعل سمجھا جاتا ہے جبکہ ہم اس کے اتنے عادی ہیں کہ ہم عادت چھوڑ نہیں سکتے دنیا ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچے یہ اس کی مرضی؟ اسی لیے ہم کہیں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑپاتے؟ جبکہ ہماری تمام خوبیوں کے باوجود ان کا رویہ اور برداشت قابل ِ ستائش تھی اور ان کا حق بنتا ہے کہ ہم ان کو سراہیں ؟ اب رہا یہ کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ حدیث ہے کہ “د ین امراءکاچلتا ہے “ اور ہمارے امراءجیسے ہیں وہ تو ہیں ہی کہ گھنٹوں لیٹ ہونا عام بات ہے؟ مگر ہمارے علما ءبھی صاحب ِ امر میں آتے ہیں اور عوام الناس ان کا اتباع بھی کرتے ہیں ، جب تک وہ خود وقت کی پانبدی نہیں کریں گے توان کے ماننے والوں سے توقع ہی بیکار ہے؟

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.