نواز شریف صاحب کا دورہ امریکہ۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

اس دورے پہ نواز شریف صاحب کے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے بعد سے پاکستان کے لال بجھکڑ روزانہ مو شگافیاں کر رہے ہیں۔ کہ صاحب منموہن سنگھ سے تو صدر ابامہ ملے، مگر ہمارے وزیر اعظم سے نہیں ملے! اب انہیں نہیں جانا چا ہیئے۔ انہیں پہلی بات تو یہ سمجھنا چا ہیے کہ امریکہ کا صدر پاکستان کاصدر نہیں ہے وہ ایک سپر پاور کا صدر ہے اور عملی طور پر تمام دنیا کا واحد چو دھری بھی ۔ جبکہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقعہ پر ایک محتاط اندازے کے مطابق سو سے زیادہ ملکوں کہ وزر ا ئے اعظم یا صدور آتے ہیں۔ جبکہ باقی ممالک کے وفود یا ان کے کم تر درجے کے لیڈریا پھر انکے مستقل مندوب نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسے میں صدر امریکہ تمام آنے والوں سے ملا قات کریں اور دن رات بغیر کھائے پیئے بھی کام کریں اور ایک ایک گھنٹہ ہر ایک کو دیں تو چار دن چاہیئے جو ناممکن ہے۔ جبکہ یہ نواز شریف صاحب کی پہلی ملا قات تھی اور مسائل بہت تھے، وہ وقت زیادہ مانگ رہے تھے؟ اور اتنا وقت ان کے پاس تھا نہیں ۔ لہذا یہ شکایت ہی بے جا تھی کہ ان کو وقت نہیں دیا گیا اور ان کوبطور احتجاج سرکاری دورے پرنہیں جانا چا ہیئے تھا۔ اس کے بعد پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا دورہ زیر بحث رہا جہاں سے امریکہ پاکستان دوستی کی داستان شروع ہو ئی؟ اس پر ایک اینکر نے سوال کیا پہلے تو انہیں روس جانا تھا کیونکہ پہلا دعوت نامہ وہاں سے ملا تھا؟ اس کا تجزیہ نگار نے جو جواب دیا وہ بہت اہم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس ہندوستان دوستی کے مرض میں مبتلا تھا لہذا ہماری قیادت نے پاکستان بننے سے پہلے سے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ ہمیں کس طرف جانا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی چار ہ کار ہی نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ امریکہ کی طرف جائیں؟  پھر جنرل ایوب کا دورہ امریکہ زیر بحث آیا کہ ان کا تو صدر امریکہ نے خود استقبال کیا تھا جبکہ اب وہ بات نہیں ہے؟ یہاں پر وہ تاریخ کو تھوڑا دبا گئے، جبکہ لیاقت خان کا عطیہ ہی ایوب خان تھے؟ کیوں کہ اس پر ہم بہت دفعہ بات کرچکے ہیں لہذا اس کی تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ آج صرف اس کے نتائج پر بات کرتے ہیں وہ بھی انہیں کی زبانی ۔ کہ ً اب پاکستان اپنی کلیدی اہمیت کی وجہ سے روس امریکہ سرد جنگ میں اہمیت اختیار کرچکا تھا وہ ایک طرف مشرق بعید میں سیٹو کا اور دوسری طرف مشرقِ وسطہ میں سینٹو کا ممبر تھااور یہ کہ اس سے پہلے امریکہ کواسکندر مرزا اور ایوب خان یہ باور کرا چکے تھے کہ پاکستان کے مسائل کا حل سیاسی لوگوں کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ سب بد عنوان ہیں؟جبکہ یہ بات حقیقت سے بہت دور تھی اصل بات یہ تھی کہ صدر آئزن ہاور نے ورلڈ آرڈر تبدیل کر دیا تھا اور ان کا خیال تھاکہ تمام دنیا کو آمروں کے ہاتھ میں دیدیاجائے کیونکہ ایک آدمی سے معاملہ کر نا آسان ہو تاہے؟ ورنہ لیاقت علی خان سے لیکر جتنے بھی فیروز خان نون تک وزرائے اعظم گزرے ان کا دامن مالی بد عنوانیوں سے پاک تھا۔ اور کسی کے خلاف کوئی سکینڈل نہیں بنا؟ جبکہ اسکینڈلز کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے شروع ہوا اور انہ ہی کے دس سالہ دور حکومت میں پروان چڑھا ،پھر بتدریج بڑھتاچلا گیا ؟ حتیٰ کہ بعد میں یہ پاکستان کی پالیسی بن گئی امریکہ سے مال لاؤ اور اڑا ؤ ؟ یہ ایک طویل داستان ہے جو ہر نئے مارشلاءکے بعد بڑھتی ہی رہی؟ وجہ یہ تھی کہ جس طرح پولس بد نام ہے کہ کو ئی پولیس والا اپنے پیٹی بند بھائی کے خلاف کاروائی نہیں کرتا! اسی طرح فوج نے یہ عملی طور پر ہمیشہ ثابت کیا کہ ان کے کسی پیٹی بند بھائی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی اور آج تک وہ پالیسی جاری ہے اور جب تک جارہے گی، کوئی حکومت کتنی ہی کوشش کرلے پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکتی ؟ ایوب خان اورا سکندر مرزامل کر ایک اور ایک گیارہ بن گئے تھے اور انہوں نے بقول ان تجزیہ نگار کے مسلم امہ کے زوال کی وجہ امہ کی فوجی کمزوری سمجھی اور اس کا حل فوجی طور پر طاقتور ہونا ان کی سمجھ میں آیا؟(کاش کے انہوں نے اسلامی تاریخ پڑھی ہوتی تو وہ جانتے کہ زوال کی اصل وجہ جہالت، اندھی تقلید، عدل کا فقدان اور اپنوں کی غداری ہے) جبکہ یہاں بھی حقیقت یہ ہے کہ وہ دونوں فوجی ذہن رکھتے تھے اور پاکستان کے لیے یہ پالیسی بنا گئے کہ راج بالواسطہ یا بلا واسطہ فوج ہی کر ے گی؟ سیاسی لیڈروں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس میں تبدیلی لا سکیں مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکے؟ پچھلے دستور کے بعد دیگرے دستور بنتے اورفوجی جنرلوں کے ہاتھوں ٹوٹتے رہے ۔حتیٰ کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور اس کے توڑنے والے جنرلوں کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہیں ہو ئی۔ بھٹو صاحب جو بہت طاقتور تھے انہوں نے اتنا کیا کہ ایک دن میں چوبیس پچیس میجر جرنلو ں کو فوج سے فارغ کردیا کہ یہ فوجی وڈیرے ہیں ان کے گاؤں کے گاؤں فوج میں ہیں ،مگر سزا کسی کو نہیں دے سکے ،وہ بھی جنرل ٹکا خان ، نیازی اور یحییٰ خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ جنکا نعرہ تھا کہ ہمیں مقامی باشندے نہیں زمین چا ہیئے؟  پھر انہوں نے قوم کو نیا دستور دیا اوراس میں سیکشن ٦۔ اے شامل کر کے مطمعن ہوگئے ،اس دن وہ بہت خوش تھے کہ اب کوئی جنرل انقلاب نہیں لا سکے گا ؟ حتیٰ کہ انہیں کا پروردہ جنرل انقلاب لے آیا جبکہ وہ وزیر اعظم تھے اور ان کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ پھر اسی جنرل کی پیدا کردہ قیادت ایک عرصہ تک خود کو نام و نہاد وزیر اعظم کہلاتی رہی ؟ حتیٰ کہ وہ یہ سمجھ بیٹھی کہ ہم اونٹ کو قابو کر چکے ہیں اور وہ بہت تیزی سے ہندوستان پاکستان دوستی کی طرف بڑھی؟ یہ نواز شریف صاحب کی عظیم کامیابی تھی کہ وہ بی جے پی جیسی کٹر جماعت کے رہنما کو یہاں تک لے آئے کہ وہ کشمیر پر بات کرنے کے لیے طیار ہو گیا ؟ پھر کیا ہواکہ عین وقت پر ان کا ہی پروردہ جنرل گلیشر پر چڑھ دوڑا؟کیونکہ اگر ہندوستان سے معاملات طے ہو جاتے توپھر اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت رہ جاتی؟اور یہ مزے کہاں سے آتے جو اس نے بعد میں اڑائے ؟ ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ بمشکل سعودی عرب کی مداخلت سے اپنی جان بچا سکے ؟ اب اللہ نے دوبارہ موقعہ دیا ہے؟ مگر کامیابی کے بعد ان کے چہرے کا تناؤ بتا رہا کے وہ بری طرح ذہنی کرب میں مبتلا ہیں؟ کیونکہ وزیر اعظم ہاؤس میں بوٹوں دھمک ہمیشہ کی طرح سنائی دیتی ہے اور یہ سوچ ان کے لیئے سہان ِ روح ہے کہ وہ کوئی کام ان کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے جن کے پاس ڈنڈا ہے ؟ اب جبکہ سیاستدان بھی اکثر بد عنوان ہیں ؟ غیر مر ئی ہاتھ ہر ایک کی گر دن پر پہونچ سکتے ہیں لہذا قانون کتنے ہی اچھے ہوں؟ مگر وہ بوٹوں کی دھمک نہیں روک سکتے ؟  ۔جس طرح پولیس کے بغیر عدلیہ کچھ نہیں کرسکتی جب تک کہ حکومت سے پوراتعاون نہیں ملے ،کیونکہ پولس اور نتظامیہ اس کے پاس ہوتی ہے؟ ایسے میں کوئی حکومت حاضرجنرل تو بڑی بات ہے ریٹائرڈ جنر پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی ؟ جبکہ جنرلوں نے اپنی پارٹیاں بھی بنا ر رکھیں ہیں ان کے پروردہ لیڈر بھی میدان میں ہیں۔اگر کسی وزیر اعظم کاضمیر جاگ بھی جا ئے تو بھی وہ پاکستان کی حالت نہیں بدل سکتا ؟جبکہ اب دنیا کے تمام ادارے کہہ رہے ہیں کہ تمہارا سارا پیسہ بدعوانیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔اس کو روکو ؟کیونکہ ہم اگرکچھ تمہاری جھولی میں ڈال بھی دیں ، تو چھنی میں اتنے سوراخ ہیں کہ اس میں کچھ نہیں بچے گا اور سب جیبو ں میں چلا جائے گا بجائے تعمیری کاموں کے؟ اس مرتبہ انہوں نے پہلی دفعہ کچھ رقم مانگنے کے بجائے ایک نیا نعرہ دیا ہے جو بہت اچھا ہے وہ ہے ہم ایڈ نہیں ٹرید چاہتے؟ اور امریکن سرمایہ کارو ں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ؟ مگر ان کے کے لیے وہ ماحول کون بنا ئے گا، جس میں رشوت ستانی ، بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان نہ ہو ، وقت پر ضرورت کے مطابق بجلی اور گیس ملے تاکہ سرمایہ کاری ہوسکے؟ رہی ٹریڈ اگر آرڈر مل بھی جا ئیں تو ان بیو پاریوں کو نیک کون بنا ئے گا کہ سیمپل کے مطابق وقت پرمال سپلائی کر سکیں؟ جبکہ وزیراعظم اب سیاستدانوں کی صرف ناز برداریوں کے لیے رہ گیا کیونکہ تمام لیڈروں کے اپنے کئی کئی گھر باہر بھی ہیں سرمایہ بھی باہر منتقل کیا ہو ا؟ وہ کیسے ہو تا ہے سب ممالک جانتے ہیں؟ مگر مال آتے برا کسے لگتا ہے اور اس کے ذریعہ ان کے بھی یہاں اثر رسوخ قائم ہیں؟ جب تک یہ صورت حال ہے کسی کے پاس کوئی حل ہے نہیں۔ بقول ایک صاحب کہ ہمیں ان ریاستوں سے بھی ڈرنا پڑتا ہے جنکا کل رقبہ میلوں میں گنا جاسکتا ہے اور سائیکل پر بیٹھ کر پلک چھپتے سرحد تک کا فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے؟ ایسے میں خود مختاری کی باتیں جمہوریت کی باتیں کر نا ایک خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس صورت میں دنیا کا کوئی با ہوش انسان کبھی اقتدار قبول نہیں کرے گا؟ نواز شریف صاحب نے کیوں کیا ہے !جبکہ وہ ایک دفعہ تجربہ بھی کر چکے ہیں پتا نہیں؟ یہ وہ ہی بتا سکتے ہیں بظاہر ان تلوں میں تیل بھی نظر نہیں آتا کہ کوئی مزید کما سکے ،جبکہ شراکت دار بہت ہیں ؟ اگر کوئی ایسے میں کوشش بھی کرے تو کچھ نہیں کرسکتا ، کیونکہ جو عیبی ہوتے ہیں ان میں ہمیشہ ایکا ہو تا ہے وہ سب مل کے اس کو اٹھا کے پھنکدیں گے ؟ آگے کیا ہوگا ملک کا کیا بنے گا کوئی نہیں جانتا ؟ اب ایک ہی در وازہ باقی رہ جاتا ہے وہ ہے اجتماعی توبہ !اس صورت میں اللہ کا مشروط وعدہ ہے کہ پہلے سب توبہ کریں وہ تمہاری مشکلات دور فرمادیگا اور گناہ بھی معاف کردے گا؟ جبکہ توبہ صرف وہی کرتے ہیں جو برائی کو برائی مانیں؟ حالانکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ قر آن میں فرماتا ہے کہ میں بندے کو سزا دیکر خوش نہیں ہوں مگر میری بات مان لیا کرو ؟ اور بات ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حاکم مان کر اس کے قوانین پر عمل کرنا ،جن سے ہماری جان نکلتی ہے !ہم چلا پڑتے ہیں کہ ہم امین نہیں بن سکتے ؟ خدارا ہمیں ان اسلامی قوانین سے بچاؤاس پر صرف مولوی ہی پورے اتریں گے؟ جبکہ وہ انہیں بھی جانتے ہیں؟اب نبی (ع) کوئی آنا نہیں ہے صرف علما ءہی کا طبقہ تھا جو ہمیشہ حکمرانوں اور مفاد پرستوں کے آڑے آیا، اب وہ بھی بے بس دکھائی دیتاہے کیونکہ ا ن میں بھی علمائے حق پہلے ہی کم رہ گئے تھے ،مزید کم ہو تے جارہے ہیں،کیونکہ ان کے بھی پیٹ ہیں، بال بچے ہیں۔ جبکہ ان کے لیے ماحول بھی سازگار نہیں ہے۔

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.