اخبارات کی دنیا کے موقر عالمی اخبار کے پانچ سال۔۔۔ از ۔۔۔شمس جیلانی

 

پہلے تو معذرت خواہ ہوں کے مجھے یہ کالم یکم نومبر کو لکھنا چاہیئے تھا، مگر آج لکھ رہا ہوں اس کی وجہ یہ تھی کہ یکم نومبر میرا دن نہیں تھا وہ ٢نومبر تھا اور میں اس دن لکھتا تو کسی اور حق مارتا جو مجھے کسی حالت میں بھی گواراہ نہیں ہے میں نے سوچا کہ جب عید کے بعد ٹرکرنی ہے تو اپنے وقت پر ہی کی جائے؟ لہذا اس معذرت کے ساتھ کالم پیش خدمت ہے ۔
قوموںکی زندگی میں اخبار کی کیا اہمیت ہے یہ راز جس قوم نے سب سے پہلے جانا وہ کم ازکم سو سال سے پوری طرح اس سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ یہ اسی ادراک کا کرشمہ ہے کہ آج پوری دنیا کو وہ کنٹرول کیئے ہوئے ہے وہ بھی اپنی جیب سے نہیں ہے؟ بلکہ جیب آپکی ہے اور فائدہ وہ اٹھارہے ہیں جس طرح خارجیوں اور ان کے بعد فدائین سے دنیا ڈرتی تھی آج ان کا بھی رعب غالب ہے وہ تو سراتار لیتے تھے  لہذا بدنام بھی تھے ۔ مگر یہ سر سے پگڑی اتار لیتے ہیں اور نظر بھی نہیں آتے؟ اس کی وجہ سے دنیا کی واحد سپر پاور کو بھی اپنی کھال میں رہنا پڑتا ہے ورنہ  کسی بیڈ روم سے مونیکا ثانی نکل سکتی ہے؟ انہیں جب اس  کی اہمیت کا ادراک ہوا توانہوں نے سب سے پہلے کام یہ کیا کہ دنیا کے سارے قابلِ ذکر اخبار خرید لیے جو نہیں فروخت کرنا چاہتے تھے انہیں فروخت کرنے پر مجبور کردیا گیا؟ جو ان کے کاروبار کو فروغ دینے میں معاون بھی ہوئے، کیونکہ اخباری اشتہار ایک مدت تک ذریعہ تشہیر رہے اور جیسے جیسے نئے ذرائع نکلتے گئے ان کا رسوخ بھی بڑھتا گیا، وہ ریڈیو پہ چھا ئے، ٹی وی چھا ئے پھر انٹرنیٹ پر چھاگئے؟ مگرہم اس راز پر ١٩٠٥ء میں مطلع ہوئے وہ بھی  جب جبکہ بنگال کو مغربی بنگال اور مشرقی بنگال میں تقسیم کر دیا گیا۔ جو کہ ہندو اکثریت کو پسند نہ تھا؟ کیونکہ مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت تھی؟
حالانکہ مشرقی بنگال بھی اسی طرح عظیم تربنگال سے علاحدہ ہوا تھا جس طرح کہ برما، اڑیسہ ، آسام اور بہار پہلے  ہی علاحدہ ہوچکے تھے کیونکہ ایسٹ انڈیاکمپنی میکاویلی سیاست کو جب بروئے کار لائی اور جو علاقے بھی اس کے نتیجے میں فتح ہو ئے اس کو وہ گورنر جنرل کے تسلط میں دیتے چلے گئے جو کلکتہ میں رہتا تھا اور صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈآف ڈائریکٹر زکو جواب دہ تھا۔ سوسال کے بعد جب دلی فتح ہو اور ایسٹ انڈیا کے خلاف شکایات پیدا ہوئیں تو اقتدار تاجِ برطانیہ نے سنبھال لیا ، گورنر جنر ل کا عہدہ ختم ہوااور و ہ وائسرائے کہلانے لگا اور اس کا دفتر بھی دلی چلا گیا کیونکہ وہ مغلوں کا پایہ تخت تھا اور ہندوستان کی راجدھانی سمجھا تھا، اس وقت بھی جبکہ  “بہادر شاہ ظفر شہنشاہ عالم از دلی تاپالم “ کی طنزیہ اصطلاح مشہور ہو چکی تھی، کیونکہ دلی تا پالم  کاعلاقہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بادشاہ سے ٹھیکے پر لیا ہوا تھا جب اس نے تمام ہندوستان فتح کرلیا تو اس کی بھی چھٹی کر دی اورہندوستان  تاج برطانیہ کے زیر انتداب آگیا۔چونکہ اس دور میں و ائسرائے کے لیے اتنا بڑا علاقہ سنبھالنا مشکل تھا، جبکہ کلکتہ کی مرکزیت بھی ختم ہو چکی تھی، ملک کوانتظامی ضرورت کے تحت  صوبوں میں تقسیم کرنا پڑا لہذا ہندوستان میں بارہ صوبے بنا ئے گئے اور ٦١٣ریاستیں ،جنہیں جو ں کا توں رکھا گیا؟
اس تمام تقسیم پر  کہیں کوئی اعتراض نہ ہوا اعتراض ہوا تو بنگال کی تقسیم پر (جو بعد میں ختم کردی؟) اس وقت کیفیت یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس کوئی اخبار نہ تھا اور جن کا میڈیا پر قبضہ تھاوہ یہاں بھی وہی کام کررہے تھے جو یورپ میں، وہ قوم کررہی  تھی جو اس کی موجد تھی اس قوم نے ہندوستان میں سب سے پہلے اخبار کی اہمیت پہچانی اور مصروف ِعمل ہوگئی، لہذا انہیں کی طرح وہ بھی اسے اپنے قومی مفاد میں استعمال کرنے لگی؟ اور اپنے قومی مفاد کے خلاف کوئی خبر شائع کرنے کو تیار نہ تھی۔ اس صورت ِ حال نے پہلی دفعہ مسلم امہ کو ہندوستان میں اخبار کی اہمیت کا احساس دلایا اور پہلا مسلم اخبار ڈھاکہ سے بنگلہ میں زبان میں نکلنا شروع ہوا۔ جبکہ اردو ابھی بہت پیچھے تھی کیونکہ مسلم والیان ریاست اسے شاعری کے لیے تو استعمال کرتے تھے جبکہ حکومت کے لیے اس وقت تک فارسی استعمال ہو تی رہی جب تک کہ انگریزوں نے اس کی اہمیت محسوس نہیں کی اور فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم نہیں کیا۔
ااس کے بعد بھی ایک عرصہ دراز تک صرف کچھ ہفت روزہ تھے وہی مسلم امہ کی ایک عرصہ تک ترجمانی کرتے رہے۔جن کی سرپرستی مسلم امراءاوروالیان ریاست کر رہے تھے ،لہذا وہ بھی آزاد تو نہ تھے مگر نہ ہو نے سے کچھ ہونا بہترتھا۔ پھر چند اخباروں کا اضافہ پاکستان بننے سے چند سال پہلے ہوا۔ جن کی آئے روز ضمانتیں ضبط ہو تی رہیں۔ چونکہ مسلم امہ کو اب اخبار کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا لہذا وہ چندہ کر کے ادا کر تی رہتی تھی۔ جیسے مولانا ظفر علی خان کا پیسہ اخبار لاہور سے؟
یہاں یہ میڈیا کی مختصر تاریخ بیان کر نے کا میرا مقصد یہ تھا کہ قوم جان جا ئے کہ میڈیا کی اہمیت کیا ہے؟ اور اس پر جب اپنوں کا تعاون بھی نہ ہو تو اخبار نکالنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس پر ایک مشکل اور  یہ کہ وہ سچ بھی لکھتا ہو، گروہ بندی اور فرقہ واریت میں بھی ملوث نہ ہو یہ اس سے بھی مشکل تھا۔ جبکہ قوم بھی اب پہلے کی طرح اخباروں کے پیچھے نہیں ہے؟ جب قوم نے انہں چھوڑا تو انہوں نے کہانے کمانے کے نئے راستے ڈھونڈلیے اب وہ بھی اپنے لیے جی رہے ہیں قوم کے لیے نہیں؟اور اربوں میں کھیل رہے ہیں۔
ایسے میں اب سے پانچ سال پہلے چند لوگوں نے عالمی اخبار کی ابتداءکی جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی جسکا مقصد تھا “ اتحاد بین المسلمین  “جو آج کے دور میں سب سے مشکل کام ہے کہ اپنے  بھی مخالف ہیں اور غیر بھی لہذا کسی طرف سے بھی پذیرائی کی امید نہیں تھی سوائے مخالفت کے،ایسے میں میر کارواں کی شکل میں ایک دردمند دل کے مالک اور عالمی شہرت کے حامل جناب صفدر ھمدانی جو کہ اس وقت بی بی سی لندن سے وابستہ تھے کمر بستہ ہوئے؟
یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ قوم جن کی میڈیا کے میدان میں شہنشاہیت قائم ہو وہ ا نہیں تنخوا ہ بھی دے؟ اور اپنا ایک حریف خود ہی پیدا کرے، جبکہ لگائی بجھا ئی کرنے والے ہمارے اپنے ہی کافی ہوں ؟ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چا ئیے تھا کہ انہیں اپنی ملازمت قر بان کر نا پڑی۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اصول پرستی بھی نہیں چھوڑی، کسی سے ایک کوڑی بھی قبول نہیں کی؟ ایک ملک مدد کرنے کو تیار تھا، کچھ لوگ رقم دینے کو تیار تھے ،اشتہار دینے کو تیار تھے مذہبی ٹی وی والے ان کی اچھی شہرت دیکھتے ہو ئے انہیں ملازمت دینے کو تیار تھے۔ مگر جب انہوں نے اصول پسندی دیکھی! جو ہمارے مسٹر اور ملا دونوں طبقوں کو پسند نہیں ہے۔ تو انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ان سے دور رہو ۔
پھر صفدر بھائی کی یہ ضد کہ میں ایسے کسی ادارے کا اشتہار بھی نہیں لونگا نہ شائع کرونگا جوکہ ذرا سا بھی مشکوک ہو؟ جو کہاں سے ملتا یہاں تو زکات کھاجاتے ہیں ،حاجیوں کو لوٹ کر فرارہوجاتے ہیں۔
جبکہ ایسا ادارا ہ شاید آج کی دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ لہذا اشتہار تو بہت ملے مگر وہ ان کے معیار پر پورے نہیں اترے اس لیے شائع نہ ہوسکے؟ اس کے باوجود یہ اخباراپنے پانچ سال پورے کر گیا۔ جو میرے خیال میں اللہ کے فضل کے بغیرممکن نہ تھا۔ شروع میں جوکہ رضاکارانہ طور پر لوگ شامل ہو ئے وہ  بھی ساتھ چھوڑتے چلے گئے  ۔ یہ چند لوگوں سے ہی شروع ہوا تھا ہنوز تعداد چند ہی رہی ؟ جن میں پہلے دن سے آج تک میڈیا کی جوجان ہیں وہ ویب ماسٹر جناب امجد شیخ تھے اور ہیں، جنہوں نے اسکو قابل ِ رشک بنایا ،پھرادارت کے شعبہ میں ڈاکٹر نگہت صاحبہ نائب مدیرہ شروع سے ہیں ان کی لگن دیکھتے ہو ئے یہ کہنا پڑے گا کہ وہ انشا اللہ ہمیشہ رہیں گی جو کہ ہم سب کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں،
صفدر بھائی کی اہلیہ ماہ پارہ جو پاکستان ٹی وی اور بی بی سی کے حوالےسے ایک موقر اور معروف نام ہے وہ بھی اس قافلے میں شامل ہیں
پھر بہن زرقہ مفتی ہیں جو ادبی شعبہ کی مدیرہ ہیں اور ہنوز وابستہ ہیں۔ ان کے بعد اکمل سید صاحب بھی کئی سال سے ہیں ان کی لگن دیکھ کربھی یہ یقین ِ واثق ہے کہ وہ چلتے رہیں گے۔ کچھ وہ ہیں جو آتے اور جاتے رہتے ہیں ان ایک بہت پیارا نام مصباح جیلانی صاحب کا ہے جن کی صحت وغیرہ کے مسائل رہے مجبوری تھی۔ پھر ہمارے کالم نگار ، نامہ نگار جو کہ دنیا بھر میں پھیلے ہو ئے ہیں اور بلاگرہیں جن کی تعداد اتنی ہے کہ پھر یہ مضمون بہت طویل ہو جائے گا دوسرے مجھے ڈر ہے کہ اگر کوئی نام رہ گیا تومیں پکڑانہ جاؤں اس لیے نام نہیں لے رہا ہوں، مگر ان  سب کے جذبہ خدمت کے بغیر یہ اخبار چلانا ناممکن تھا کہ یہ ہی تو اخبار کی جان ہوتے ہیں؟ اسکے بعد مجھ جیسے نکمے ہیں جنہیں کوئی اورکام نہیں ہے لیکن بیاسی سالہ بو ڑھا کب تک چلے گا ؟ یہ اللہ کو ہی پتہ ہے ۔جسے ازراہ محبت صفدر بھائی با اصول اور عالم ِ با عمل کہتے ہیں جبکہ یہ فقیر نہ با اصول ہے نہ عالم ہے اور نہ با عمل ہے۔ کیونکہ فقیر تو فقیر ہوتا ہے مگر اِس کو لوگ فقیر ماننے کے لیئے بھی تیار نہیں کیونکہ یہ نہ تو کسی سے نوٹ قبول کرتا ہے نہ ووٹ مانگتا ہے ؟جبکہ فقیر نذرانہ لیے بغیر آج کے دور میں کامل نہیں ہوتا ؟ آپ سب لوگ اللہ سبحانہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا کر تے رہیں کہ وہ مجھے ساتھیوں اور قارئین کی توقعات پر پورا اتر نے کی توفیق عطا فر ما ئے اور میرا بھی بھرم اللہ سبحانہ تعالیٰ قائم رکھے۔( آمین)  اب آئیے اس نے اب تک قوم کو کیا دیا ؟ سب سے پہلے تو اس نے ایک ایسا پلیٹ فارم دیا جھاں لوگ بے دھڑک لکھ سکیں۔ دوسرے یہ ایک ایسا منفرد اخبار  ہےجس کی پچھلے پانچ سال میں شاید ہی کوئی خبر غلط نکلی ہو جبکہ بڑے بڑے ادا روں کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں خبر غلط ہو جاتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود کہ یہ اخبار بھی اس دوڑ میں شامل ہے۔ اس سے الحمدللہ بچا رہا یہ بھی صفدر کی کرامت اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اعانت کا بین ثبوت ہے۔ اس کے بعد میں کالم نگاروں ، پوری دنیا میں پھیلے ہو ئے تمام رضاکار نمائندو ں اور بلاگر کا شکر گزار ہوں کہ بغیر کسی لالچ کے حق سمجھ کر وہ اس اخبار کی خدمت کر رہے ہیں اخبار کی نہیں اپنے دین خدمت کر رہے ہیں اور اس کو تمام تعصبات سے با لا تر رکھے ہو ئے ہیں اللہ انہیں مزید استقامت عطا فر ما ئے آمین۔
گو کہ یہ چھوٹا سا کام لگتا ہے لیکن میری دعا ہے کہ اتحاد بین مسلمین کے داعی کے طور اس اخبار اور اس میں کام کرنے والوں کا نام تاریخ میں زندہ رکھے سب کو روز قیامت جزا عطا فرما ئے۔ آمین

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.