جبکہ امت سوگ منارہی تھی گزشتہ پوراہفتہ میڈیا کو یہ طے کرنے میں لگ گیا کہ شہید کون ہے؟ بات یہاں سے شروع ہوئی کہ سب سے پہلے یہ سوال مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا گیا کہ آپ کیا پاکستانی طالبان کے لیڈر حکیم اللہ محسود کو جو ڈرون حملوں میں ہلاک ہوا شہید سمجھتے ہیں یا نہیں؟ مولانا جوش خطابت میں تھے اپنے شگفتہ انداز میں میڈیا سے یہ کہہ کر جان چھڑا گئے کہ امریکن اگر کتے کو بھی ماریں تو وہ بھی میرے نزدیک شہید ہے؟ حالانکہ ہمارے پاس انسانوں کاریکارڈ توہے نہیں! وہاں جانوروں کا کہاں سے ملے گا کہ ابتک کتنے کتے مرے؟ دوسرے ہمیں وہ زمانہ ابھی تک یاد ہے کہ مولانا جہادِ افغانستان میں مصروف تھےاور اسی امریکہ سے ڈالر لے رہے تھے اور معصوم طالب علموں کو مجاہد بنا رہے جس پر بہت سے مدرسوں کی اینٹیں تک گواہ ہیں کہ یہ ڈالر سے بنے ہیں یا ریال سے؟ جبکہ مولانا منور حسن اس کے حامی تھے کہ وہ بلا شبہ شہید ہیں؟ اور جو ان سے لڑ رہے ہیں اور پاکستان کا دفاع کر رہے ہیں وہ شہید نہیں ہیں؟ اس پر پوری قوم میں ابال آگیا پھر ہم نے ایک ٹی وی چینل پر لایئو پروگرام میں دونوں کو تشریف فرما دیکھا؟ جس میں پہلے منور حسن صاحب کی باری تھی پھر مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی انہوں نے یہ کہہ کر پہلے تو ٹالنا چاہا بڑی اپنا ئیت کےساتھ کہ اینکر کو، کہ کیوں تنگ کر رہے ہو؟ جب اس نے جان نہیں چھوڑی تو مولانا اپنے جواب پر قائم رہے اور وہی الفاظ پھر دہرا ئے۔ جب اینکر نے پوچھا کہ کیا کتا بھی شہید ہو سکتا ہے تو مولانا نے پھر اسے کھڈا لین پر ڈالنا چاہا کہ اصحاب کیف کے ساتھ بھی تو کتا ہے؟ نہ جانے ہمارے معاشرے میں کتا دشمنی کہاں سے آئی حالانکہ وہ تو اپنے مالک کا وفادار ہوتا جب کہ ہم نہیں؟ مولانا نے جو حوالہ دیا وہ سورہ کہف میں موجود جہاں وہ کتا نمعلوم کتنی صدیوں سے اپنے مالکوں کے ساتھ رہ رہاہے اور اس نے ابھی تک اپنی وفاداری تبدیل نہیں کی، جبکہ کچھ انسان آئے دن تبدیل کرتے رہتے ہیں؟
مولانا منور حسین صاحب بھی اپنے موقف پر قائم رہے اور مشرقی پاکستان میں اپنی جماعت کی خدمات کاذکر کیا اس اضافت کے ساتھ کے ہم ابھی تک اس کانتیجہ بھگت رہے ہیں اور فوج کے محکمہ اطلاعات نے جو بیان جاری کیا تھا ان سے وضاحت کرنے کے لیے اس کو رد کردیااور کہا ہم وزیر اعظم سے اس کی شکایت کریں گے کہ فوج کو کیا حق ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لے؟
انہوں نے شکایت کر بھی دی ، یہ جانتے ہوئے کہ نتیجہ کیا نکلے گا ؟ وہی جو پچھلے پیسنٹھ سال سے نکلتا آرہا ہے ، یہ کام کوئی بچہ کرتا تو ہمیں تعجب نہ ہو تا؟ مگر کسی جماعت کا رہنما اس قسم کی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرے تو اس پر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم روئیں یا ہنسیں۔
دراصل یہ کام نہ کسی مولانا کا ہے نہ کسی“ مسٹر “ کا کہ وہ طے کرے کہ کون شہید ہوا اور کون نہیں؟ کیونکہ یہ تو یوم قیامت طے ہو نا جو اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے ذاتی علم کے بنا پر کرے گا کہ کون شہید ہے اور کون نہیں ؟ کہ ہم مسلمان جسے شہادت کہتے ہیں اور جو معیار ہمارے نبی (ص) نے ہمیں بتایا، وہ اِس سے قطعی مختلف ہے جو ہم آجکل اپنا ئے ہوئے ہیں ،کیونکہ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں، غیب کا علم ہونا ضروری ہے؟ جس کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے جو نبیوں (ع) سے مختلف قسم کی اطلا عات ہم تک ان کے ادوار میں پہونچتی رہیں ، سب وہ ہیں جو ان کے فرائض ِمنصبی ادا کر نے لیے ضروری ہوئیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں بذریعہ وحی مطلع فرمادیا۔ جس میں سے ہمارے نبی (ص) کو سب سے زیادہ حصہ عطا ہوا کہ ان کے زمانے میں دین مکمل ہونا تھا اور ان کے بعد میں کسی اور نبی (ع) کو نہیں آنا تھا؟ وہی انہوں (ص) نے ہماری رہنما ئی کے لیے وقتا ً فوقتا ً ہمیں عطا فرمادیں؟
ان میں یہ شہادت کا مسئلہ بھی ہے کچھ کو اپنے علم کی بنا پر یہیں اطلاع دیدی اور بقیہ کا معاملہ وہاں کے لیے چھوڑدیا جن کا اخلاص وہاں تولا جائے گا؟ پھر فیصلہ سنایا جائے گا اخلاص کیا ہےاسکے لیے یہ ایک مجاہد کا قصہ پیش کرتا ہوں کہ “ ایک شخص دوران غزوہ بری طرح زخمی ہواجو کہ اسی دن ایمان لا یا تھا؟ صحابہ کرام (رض)اس کو سراہنے لگے کہ یہ شخص جنتی ہے؟ حضور (ص)نے فرمایانہیں! یہ دوزخی ہے۔ جبکہ ایک شخص جس نے اسی دن ایمان قبول کیا ہو ؟ وہ تو ایسا ہوتا ہے جیسے کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے؟ اور اس کے بعد اس سے کوئی برائی بھی سرزد نہیں ہوئی کیونکہ وہ جہاد میں سارے دن مصروف رہا حتیٰ کہ اسکا کو ئی بھی حصہِ جسم ایسا نہ بچا کہ جو زخموں سے چور نہ ہوگیاہو، اس کے بارے میں یہ حضور(ص) کا یہ ارشاد کیوں؟
صحابہ کرام (رض) کو تجسس پیدا ہوا کہ دیکھیں تو یہ آگے چل کر کیا کرتا ہے جو جہنم کا حقدار بنیں؟ اور وہ اس کی نگرانی کرنے لگے، بعد میں ہوا یہ کہ اس سے تکلیف برداشت نہ ہوسکی اور اس نے خود کشی کر لی جو کہ اسلام میں حرام ہے۔؟یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ صرف لڑنا اور جان دینا یالینا، جہاد نہیں ہے اور نہ کوئی اس کی بنا پر مجاہد، غازی یا شہید ہو سکتا ہے۔ جب تک کہ اس کا ہر فعل خالص اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے نہ ہو اور یہ کہ وہ اس پر آخری وقت تک قائم بھی رہے۔ اس کے دل میں نہ یہ خواہش ہو کہ لوگ مجھے بہادر کہیں یا دنیاوی معاوضے کی امید ہو یاپیشگی مل چکا ہو ؟ بس اس کی ساری جدو جہد خالص اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیے ہو نا چاہیئے ،اگر کہیں بھی ذراسی لغزش پیدا ہو ئی اور دل میں کوئی اور مقصد آیا تو وہ شہادت، وہ جہاد غیر اللہ کے لیے ہو گا یا اس کے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہو گا، اپنی حکمرانی کے لیے ہو گا مربعوں ، جاگیروں ، اور پلاٹوں کے لیئے ہو گا، وہ صرف اور صرف اللہ کے لیے نہیں ؟ لہذا وہ اردو لغت کے مطابق تو شہید ہے کیونکہ اب غیر مسلم بھی اپنے مقتولوں کو شہید کہتے ہیں جس کی بہت سی مثالیں ہیں؟ مگر وہ اللہ اور رسول (ص)کے فرمان کے مطابق شہید نہیں ہوسکتا؟
کیونکہ دلوں کا حال صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے دن ہی نشر ہوگا جبکہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جا ئے گا؟ ایسے میں جو یہ سب کچھ اپنی ملازمت کے لیے کر رہا ہو؟ افسروں کی شابا شی کے لیے کرہا ہو ،یا تمغہ بسالت اور ہلال پاکستان کے لینے لیے کررہا ہو اس کا فیصلہ تو وہیں جاکر ہو گا کہ وہ کس مد میں لکھا گیا؟
اسی طرح جس نے دنیامیں فساد بر پا کیا ہوا جو کہ امن ہو نے کے بعد کہیں فساد پیدا کر ے؟ اور اس میں بے گناہ انسان اور مسلمان لقمہ اجل بن رہے ہوں۔ جن بیچاروں کو یہ بھی علم نہیں کہ وہ کیوں تختہ مشق بنے ؟ یا وہ اپنی حلال کی ملکیت کا دفاع کرتے ہو ئے شہید ہو ئے ،تو اس کا عذاب اس کے سر ہو گا جس نے پہلی بغاوت کی بنیاد رکھی اور جب تک یہ عمل جاری رہے گا اور اس کا لگا یا ہوا زہریلا پودا پھل دیتا رہے گا، وہ اس پر عمل کر نےوالوں کے کھاتے میں بھی لکھا جا تا رہے گا اوراس کے کھاتے میں بھی ،نہ ان کا عذاب کم ہو گا نہ ان کا کم ہو گا اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک دن مقر ر فرمایا دیا ہے تاکہ تمام کھاتے اس دن بندکیے جا ئیں ، نیکیاں اور برا ئیاں میزان میں تولی جائیں ؟ جس نے جیسا کیا ہو ویسی جگہ کا وہ اس دن حقدار بنے؟ وہیں انکا بھی حساب ہو نا ہے جو خود کو مسلمان بھی کہتے رہے اور خدا کے نظام پر عامل ہونے کی سہولتیں مہیا ہونے کے با وجود عمل نہیں کرنا چاہتےاور پینسٹھ سال سے ٹال رہے ہیں یا اس میں معاون بنے ہوئے ہیں اور کہلاتے پھر بھی مسلمان ہیں۔
اوپر میں نے جو کچھ عرض کیا ہے یہ زیادہ تر تو میں نے قر آن سے لیا ہےجبکہ کچھ احادیث سے جن سے علمائ کرام سب بخوبی واقف ہیں لہذا انہیں تو حوالوں کی ضرورت نہیں ہے البتہ جو عالم نہیں ہیں وہ چاہیں تو میں حوالے پیش کرسکتا ہوں جبکہ بلا ضرورت حوالے پیش کرنا میرے نزدیک اصراف ِ بیجا میں آتا ہے ؟
جبکہ ایک حدیث اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کے لیے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے وہ یہ ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ “ ایک آدمی پوری زندگی اچھے کام کرے گا اور آخر میں اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے گی کہ جہنم کا مستحق ہو گااور ایک شخص پوری زندگی برائی کرے گا اور آخر میں اس سے کوئی بھلائی ایسی سر زد ہو جا ئے گی کہ وہ جنت میں جا ئے گا “ اس حدیث سے سبق یہ ملتا ہے کہ برائی کے نزدیک بھی مت جاو ہر وقت بھلائی ہی کرتے رہو تاکہ جب بھی جان نکلے تو ایک دوسری حدیث کے مطابق روح کویہیں سے فرشتے جنتی کفن پہنا کر آسمان تک لے جائیں اور وہاں سے واپس لاکر قبر میں لٹادیں اور حکم ِ باری تعالیٰ کے مطابق یوم حساب تک کے لیئے جنت کی کھڑکی کھول دیں؟
اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ نہ ہمیں حق پہونچتا ہے کہ یہ فیصلہ کریں کہ مسلمان کون ہے اور کون نہیں اور اس بنا پر اسے واجب القتل قرار دیں۔ نہ یہ مولوی صاحب کو حق پہونچتا ہے کو وہ کسی کو شہید قرار دیں۔