تمام سانحات کی ذمہ دار مصلحت بینی ہے۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے ۔ اس کو ایک صدی بیت گئی کہ اسکا بیج سرزمین ِ عرب میں بویا گیا۔ اور اس حصہ کو جو کہ تاریخ میں قریش سے متنفر رہا ہے اسے١٩٣٢ءمیں خلافت عثمانیہ کا تیا پانچا کرنے کے لیے پہلے حرم شریف پر قابض کرا یاگیا اور پھر حجاز کواس کے ہاتھوں فتح کراکر پورے عرب کا نمائندہ بنا دیا گیا۔ جس کا نعرہ تھا کہ ہم فقہ حنبلی کو بد عت سے پاک کر نے کے لیے آئے ہیں؟جب انہوں نے دیکھا کہ ان کابا قاعدہ قبضہ عرب پر ہوگیا تو انہوں نے پوری دنیا کا لیڈر بننے کی ٹھانی اور تمام فقہ جات کوختم کرکے اپنا پانچواں فقہ جس کے سربراہ آلِ  سعودکے حلیف محمد بن عبد الوہاب تھے مسلط کرنے کا فیصلہ کرلیا اورجب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں تیل کی دولت سے نوازاتو دیکھتے دیکھتے ان کا فقہ دنیا پر چلنے لگا؟ اس سے پہلے کسی فقہ کے بانی نے اپنا فقہ جاری کرنے کی کوشش تو بڑی بات ہے ، ایسی خواہش بھی ظاہر نہیں کی کیونکہ ان میں سے کسی کامقصد فقہ کے زور پر عالم اسلام کو مطیع کر نے کا نہیں تھا بلکہ انہوں نے جو فقہ پر کتابیں لکھیں تھیں وہ غیر عربوں میں قر آن فہمی پیدا کرنے کے لیے لکھیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئی شخص کہیں یہ لکھا دکھا نہیں سکتا کہ انہوں نے کہیں لکھا ہو کہ میرا اتباع کرو ہر ایک نے حضور (ص) کے اتباع کی تلقین کی ؟
سب سے پہلے یہ سوال عباسیوں کے دور میں آیا کہ ایک عباسی خلیفہ نے چاہا کہ فقہ مالکیہ کو بطور سر کاری مذہب کے جاری کر دیا جائے مگر امام مالک (رح) نے خود اس کی مخالفت کی لہذا یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی؟ جبکہ نیا فقہ جو پیدا مسلمہ کذاب کے وطن میں ہوا تھا ؟ وہیں سے یہ تعلیمات عام ہو ئیں کہ تمہارے سوا باقی سب بد عتی ہیں اور بد عتی ہر سزا کا مستحق بھی ؟ پہلی دفعہ مجھے دنیا کا تو علم نہیں لیکن ہندوستان میں چالیس کی دہائی میں شیعہ سنی منافرت پیدا ہوئی! اس سے پہلے وہاں صورت ِ حال یہ تھی کہ بیوی سنّی ہے تو شوہر اہلِ تشیع میں سے اور کہیں اس کا الٹ بھی، مگر سب اپنے عقائد پر عامل تھے اور ان میں کسی قسم کا تنازع نہیں تھا۔ جبکہ محرم سنّی عقیدہ کے لوگ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت زور اور شور سے مناتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ماہ رجب میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوتا جہاں حضرت امام جعفر صادق (رح) کے کونڈے نہ بھرے جاتے ہوں اور سارے مہینہ یہ پروگرام چلتا رہتا جبکہ وہ فقہ جعفریہ کے امام تھے اور ہندوستان میں اکثریت حضرت امام ابو حنیفہ (رح) کے ماننے والوں کی تھی؟ جبکہ سب سے پہلے بدعت کا ادراک دار العلوم دیوبند کو ہوا جس کے بانی اول حضرت امداد اللہ مہاجر (رح) مکی  ایک صلح پسندتھے ۔ انہوں نے وہاں یہ پود اگتے دیکھا تو ایک رسالہ ہفت مسائل لکھا جس میں انہوں نے اپنے ماننے والوں سے اپیل کی کہ تفرقہ بازی میں نہ پڑیں !مگر اب ان کے ماننے والوں کی دلیل یہ تھی کہ ہم روحانیت میں انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں مگر فقہ میں نہیں ؟اسکے بعد ہر طرف بدعت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا؟ اس میں امت کی یکجہتی کیا بہی کہ ہر چیز بہہ گئی؟
میں پیلی بھیت (یو پی )سے تعلق رکھتا ہوں جہاں مسلمان ٣٣ فیصد تھے اور اہل ِ تشیع کے صرف چار گھر جامع مسجد کے پیچھے تھے جبکہ ہندو اور مسلم علاقے بٹے ہو ئے تھے؟ میں نے کبھی اہلِ تشیع کا علَم یا تعزیہ محرم میں نکلتے نہیں دیکھا جبکہ سنّی اسے بہت زور شور سے مناتے تھے اور بہت بڑا جلوس نکالتے تھے جس میں ہر برادری کی نمائند گی ہوتی۔ جلوس کا راستہ جو نواب حافط رحمت خان روہیلہ کے زمانے سے جو کہ انگریزوں سے پہلے حکمراں تھے چلا آرہا تھا؟ اور اس میں ایک محلہ رام گنج ایسا آتا تھا کہ جس میں ایک گھر بھی مسلمانو ں کا نہ تھا، مگر جلوس کو وہاں سے گزرنا ضروری تھا جبکہ راستہ بھی وہاں سے ہوکر کہیں نہیں جاتا تھااس راستے میں ایک مندر تھا جس پر اُگا پیپل کادرخت تھا جو ہر سال بڑھ جاتا جبکہ ہندو کہتے تھے کہ تعزیہ کا قد مسلمان جان کر بڑھادیتے ہیں پھر ضد کرتے ہیں پیپل کاٹے بغیر تعزیہ نہیں گزر سکتا ؟ اس پراوپر سے جلوس پر پتھر بازی ہو تی تھی اور جھگڑا ہو تا تھا ؟
اس کا حل اسوقت کے انگریز ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نیدر سول نے یہ نکالا کہ وہ خود جلوس کے آگے چلا اور جب کسی مکان سے اینٹ جلوس میں آکر گری تو اس نے توپوں سے وہ مکان اڑوادیا ۔ اس پر نہ کوئی ہنگامہ ہوا نہ ہندو ؤں کاجلوس نکلا اور اس کے بعد پھر کبھی وہاں ہنگامہ نہیں ہوا؟ ١٩٤٧ء پاکستان بن گیا ، ہم پاکستان چلے آئے گھومتے گھامتے میر پور خاص (سندھ) میں پہونچے اور وہ ہمیں ایسا پسند آیا کہ اسی کو وطن بنا لیا؟ وہاں ہمیں امن کمیٹی کا رکن بنا دیا گیا۔ یہاں ہمیں آکر معلوم ہوا کہ یہاں بھی راستے انگریزوں نے بنا ئے تھے اور وہ ہی نقشے  میں ابھی تک نافذ ہیں، جبکہ مسلمان آپس میں متصادم ہیں اور سنی اور اہلِ تشیع کا جلوس علیحدہ علیحدہ نکلتا ہے اور دونوں کو گزرنا مرکزی چوک سے ہوتا ہے۔ بس دونوں میں وقت کا فرق ہو تا ہے ، ہماری کوشش یہ ہو تی تھی کہ جلوس اپنے، اپنے وقت پر گزرجا ئیں۔ الحمد للہ ہم وہا ں تقریباً تیس سال رہے مگر کبھی جھگڑے کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ویسے تو دونوں فرقے شیر وشکر تھے اور شام غریباں میں بھی ہم شرکت کرتے تھے؟ ہم نے ہوا کا رخ بد لتے دیکھ لیا تھا تو١٩٨٨ء میں پاکستان چھوڑ دیا۔
پھر پاکستان اور سعودی عربیہ روس کے خلاف جنگ میں امریکہ کے حلیف بنے اس نے جو رہی سہی کسر تھی وہ پوری کردی کیونکہ سارے مدرسے اس استعمال ہوئے اور نو عمر اسی سانچے میں ڈھل گئے، دوسری طرف امام خمینی صاحب ایران میں اسلامی انقلاب لے آئے اور انہوں تفرقہ بازی کو کم کر نے کے لیے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ فتویٰ دیدیا کہ اہلِ تشیع سنیوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ یہ اتنا بڑا قدم تھا کہ بادشاہوں کا تخت ڈولنے لگا کیونکہ وہ تو قائم ہوا ہی نفرت کی بنیاد پر تھا؟ بس پھر کیا تھا پاکستان میں نفرت روز بروز بڑھنے لگی؟  پہلے ایک فریق نے ٹیم اورپچ تیار کی جسکا دوسری ٹیم کو بھی جواب دینا ضروری ہوگیا پھر پاکستانی حکومت کی مصلحت بینی کی بنا پر وہاں کھلا میدان پاکر دونوں ٹیمیں میچ کھیلنے لگیں؟
جب روس کو شکست ہوگئی اور وہ افغانستان سے چلا گیا تو امریکہ بھی انہیں چھوڑ کرو اپس چلا گیا نتیجہ یہ ہوا کے افغانی آپس میں لڑنا شروع ہو گئے اور جنوبی علاقہ جات جہاں اکثریت اہل ِ تشیع کی تھی وہ ایران کے زیر اثر آگئے تو پاکستان سے طالبان کو آگے بڑھا گیا اور سنی علاقہ جات پاکستان کے زیر اثر آگئے ۔ اس طرح دو پرانے دوست ایران اور پاکستان اب ایک دوسرے کے حریف بن گئے؟
جب ٩١١کا واقعہ ہوا تو امریکہ کو پھر واپس آنا پڑا؟ کیونکہ طالبان نے اپنے پرانے کرم فر ماؤں امریکہ اور پاکستان کی بات نہیں مانی اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ،جبکہ مشرف صاحب نے بقول ان کے اپنا ملک “ توڑا بوڑا ً بنوانا پسند نہیں کیا ؟
انہوں نے طالبان کے سفیر تک کو پکڑ کر دیدیا؟ ظاہر ہے افغانستان کی طرف سے جوابی کا روائی ہو نا تھی؟ انہوں نے پاکستانی طالبان پیدا کر دیئے؟ کیونکہ ان کی بقا کے لیے پاکستان پر طالبان کی عملی حکومت زیادہ بہتر تھی بہ مقابلہ اسلام کے زبانی نعرے لگانے والوں سے؟ پیسے کی انہیں کمی نہ تھی؟ عرب ملکوں سے زکات اور چندے کے حصول کے وہ راستے دیکھ چکے تھے؟ پاکستانی لوگ چونکہ ان کے ہم خیال نہ تھے لہذا ان کا مال لوٹنا جانیں لینا یہ سب کچھ ان کے نزدیک جا ئز تھا۔ وہ لوگ بندے قبائلی علاقوں میں پاکستان کے سرکاری علاقوں سے لے جاتے اور پیسے وصول کر کے چھوڑ دیتے! کیونکہ وہاں تو پہلے ہی حکومت کی رٹ نہ تھی؟ اب وہ اپنے علاقے میں بھی کمزور پڑگئی تھی۔ یہ کاروبار چونکہ منفعت بخش تھا جیسے جیسے پاکستان میں بیروز گاری بڑھتی گئی دوسرے بیروز گار بھی اس میدان میں کود پڑے اور اس منافع بخش کاروبار میں شامل ہو گئے؟ جبکہ مصالحتی پالیسی کی بنا پر سابقہ حکومتیں ان کی سرپرستی کرتی رہیں؟ کہ انہیں اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے ان کی ضرورت تھی؟
یہ تھی اب تک کی صورت ِ حال اب اس کا حل کیا ہو؟ حل یہ ہے کہ جو نعرے ہم نے آج سے ستر پچھتر سال پہلے لگا ئے تھے اور ان میں سے کچھ آئین کا حصہ بھی ہیں ان پہ عمل کیا جا ئے؟ جو لوگ قوم کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ ہم قائد اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں ان کے منھ کو لگام دی جا ئے۔ کیونکہ قاعد اعظم اپنے دور کے بہت ہی مقبول رہنما تھے، مگر وہ بنے اس نعرہ کی وجہ سے تھے جو پاکستان بننے سے پہلے ہر جلسہ اور جلوس میں لگایا جاتا تھا کہ پاکستان مطلب کیا لا الہ اللہ اور انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے کبھی اس نعرے کی تردید نہیں کی کیونکہ مسلمان اپنے زوال کے بعد سے اسلامی نشاة ثانیہ کے لیے ایک مثالی ریاست بنا نے چاہتے تھے  اور اسی کے لیے سب نے ووٹ دیئے تھے؟ کیونکہ مسلم سوچ یہ ہے کہ  چاہے وہ کتنے برے ہوں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کو اور ان کے ملک کو کیسا دیکھنا چاہتا ہے؟ یہ ہی وہ واحد صورت ہے جو اس خلا کو پر سکے گی جس سے طالبان فا ئیدہ اٹھا رہے ہیں یہ کہکرکہ ہم یہاں اسلامی نظام لا ئیں گے ؟ اگر لوٹ مار کا یہ ہی سلسلہ جاری رہا جو ہر شعبہ زندگی میں جاری ہے تو کوئی بھی اس ملک کو بچا نہیں سکتا؟ اور کوئی بھی صاحب عقل اس قسم کے مشورے نہیں دیگا جوکہ جلتی پر تیل کام کرے؟ رہی احتجاج اور جلوسوں کی بات اس کے نتیجہ میں اب تک کیا حاصل ہوا اس سے سبق لیں؟ ملک میں کام پہلے ہی نہیں ہورہا جب کہ پورے سال جلوس نکلتے رہیں گے کبھی اس بہانے کبھی اس بہانے سے تو حالت بدلنے سے رہی؟
ایک طبقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ بولنے  اور لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کاحق صرف مستند علما ء کو ہو نا چاہیے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ منافرت پیدا کرنے والے ہمیشہ مستند علماء اور ان کے ماننے والے رہے ہیں۔ جن کی بات چلتی ہے ۔ جن کی مسخ شدہ کتابیں کہیں اور سے چھپ کرآتی ہیں؟کیا حکومت ان کو روک سکتی ہے؟ جبکہ بیچارے عطائی تو پہلے  ہی مرحلے میں  پہلےعوام اور پھر بھی  نہ مانیں تو علماء کی طرف سے یہ کہہ جھٹلادیئے جاتے ہیں کہ چل چل تو کوئی عالم ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.