کیا تہران مشرق کا جینوا بننے جارہا ہے۔۔۔از ۔۔۔شمس جیلانی

کیا تہران مشرق کا جینوا بننے جارہا ہے۔۔۔از ۔۔۔شمس جیلانی ہمیں آج علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر“ تہران گر جو ہو مشرق کا جینوا   شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے“  نہ جانے کیوں بار بار یاد آرہا ہے اس میں ان کی یہ عجیب پیش گوئی تھی کہ ایک دن تہران مشرق کا جنیوا بنے گا؟ ہمارے مذہب کے ٹھیکیدار حضرات یہ کہیں گے کہ شاعری تو شاعری ہوتی ہے اس کا حقیقت سے کیا واسطہ  اورشاعر ، شاعر ہے جو چاہے کہدے؟ یہ بات درست ہے کہ سورہ الشعراءمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے شاعر اور شاعری کی مذمت کی ہے لیکن ان آیات کے نزول کے بعد جب پہلے شاعر اسلام حضرت حسان (رض) بن ثابت اور ان کے ساتھی حضور (ص) کے دربار میں پہونچے کہ ہم تو تباہ ہو گئے کہ اب تک ہم شاعری کرتے رہے ؟ حضور (ص) نے فرمایا تمہارے لیے ان آیات میں سے آخری آیت کا یہ حصہ ہے کہ“ سوائے ان کہ جو ایمان لا ئے اور جنہوں نے نیک کام کیئے  “ یہ ہے تو بڑی چھوٹی سی بات مگر اسکی جو تفسیر ہے وہ بہت بڑی ہے۔ کیونکہ ایمان لانے کے فوراً  بعد ہر مومن پرعمل صالح لازمی ہوجاتے ہیں؟  اس لیئے کہ مومن کا ہر کام تابع قر آن و سنت ہونا چاہیئے؟ لہذا وہ شاعری جو قر آن و سنت کے مطابق ہو وہ مستحسن ہے؟ جس کے لیے حضور (ص) کی حدیث ہے کہ“ شاعری نبوت کا چا لیسواں حصہ ہے “ اور الحمد للہ اقبال  (رح)نے کبھی بے مقصد شاعری نہیں کی انکی شاعری چونکہ با مقصد تھی لہذا وہ الہامی ہو نا چاہیئے تھی جو یہ شعر ثابت کر رہا؟ حالانکہ یہ وہ وقت تھا کہ جب ایران پر شاہ کی بادشاہی تھی جو کہ مسلمان ہو نے پر کم اور اپنے شاہی آتش پرست اجداد پر زیادہ فخر کرتا تھا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، وہ اس کے اس عمل سے ثابت تھا جو بعد میں اس نے عظیم جشن منا کر ثابت کیا ۔ مگر اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے مگر وہی جشن شاہ کو  کچھ راس نہ آیا اور جو اس کے پشت پناہ تھے اور ایک دفعہ پہلے بھی اسے واپس لا چکے تھے خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے اور شاہ کواپنے ہی ملک میں دو گز جگہ بھی نہ مل سکی؟ اس میں سبق ہے ان تمام شاہوں،آمروں کے لیے خواہ وہ فوجی ہوں یا جمہوری ( آخر الذکر آمروں کی نئی قسم ہے اس پر بات پھر کبھی)  کہ جب اس کی نگاہ بدلتی ہے تو پھر کوئی کام نہیں آتا؟ اسی ایران کو خمینی صاحب کے اسلامی انقلاب نے اتنا طاقتور بنا دیا اور اسکا اللہ کی نصرت پر بھروسہ اتنا بڑھا کہ وہ یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے لگا اور ابھی تک کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ حتیٰ کہ سالوں پرانی قد غن فل الحال نرم کرنے پر وہی لوگ مجبور ہوگئے جنہوں نے لگائی تھی ،سپر پاور سے بھی پینتیس سال بعد تعلقات دو بارہ بحال ہو گئے۔ اب جو تھوڑی سی گرد باقی ہے وہ بھی وقت کے ساتھ انشاللہ بیٹھ جا ئے گی۔ ایک زمانے میں یورپ نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کر نے کے لیے جو بادشاہتیں پیدا کی تھیں ان میں ایک پیدا ہونے سے پہلے ہی بیدخل ہو گئی اور شام میں پنجے نہیں جما سکی، دوسری عراق میں اپنے عبرت ناک انجام کو پہونچی کہ نابالغ شاہ اسکے  سرپرست اوروزیر اعظم کی لاشیں سڑکوں پر پڑی رہیں جبکہ تیسری کا عدم اور وجود برابر ہے وہ ہے اردن کی بادشاہت۔ ان میں سب زیادہ کامیاب جو گئی وہ نجدیوں کی عرب پر بادشاہت تھی جو کہ خادمین حرمین کہلانے کی وجہ سے بے انتہا اثر ورسوخ حاصل کر گئی؟ جس کو اسی سال تک ایک سپر  پاورکی پشت پناہی بھی حاصل رہی کیونکہ اسوقت تک ان کو اس کی ضرورت تھی !وقت بدلا جب انہیں کی بنا ئی ہوئی توپوں کارخ ساری دنیا کی طرف گھوم گیا تو اُسی دنیا کو احساس ہوا ہے کہ ان کی پالیسی غلط تھی؟ اب وہ تمیز کرنے لگی ہے کہ وہابی یا سلفی اسلام اور اصل اسلام میں کیا فرق ہے؟ یہ تو ہے مشرق ِ وسطیٰ کی صورت حال دوسری طرف یہ ہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا کہ اس نے افغانستان کے لیے طالبان پیدا کیے اور اب ان کی توپوں کا رخ خود اسلام آباد کی طرف ہے؟ پہلے تو کچھ ہچکچاتے تھے مگر اب کھل کر سب کہنے لگے ہیں کہ ہمیں خطرہ اندر سے ہے باہر سے نہیں ؟ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مرض تشخیص ہوگیا اب علاج آسان ہے۔ جو لوگ اتمام حجت کے لیئے طالبان سے بات کرنے کے حق میں ہیں وہ بھی غلط نہیں ہیں کہ یہ عین اسلام ہے ؟ حکم یہ ہے کہ بغیر گھرے ہو ئے کوئی شر پسند جس نے ملک میں فساد برپا کر رکھا ہو اگر توبہ کرلے اور ہتھیار پھینکدے تو اسکو معاف کیا جاسکتا ہے؟ ورنہ پھر اسکے خلاف طاقت استعمال کی جائے؟ پاکستان میں نواز شریف صاحب کا اتنی بڑی اکثریت سے آنااور جاتے جاتے انہیں مشکل میں ڈالنے کے لیے ایران سے زرداری صاحب کا معاہدہِ پاور سپلائی کرجانا گوکہ نواز شریف صاحب کو امریکہ کے ساتھ لڑانے کے لیے تھا، مگر اب حالات نے جو پلٹا کھایا وہی معاہدہ شاید باعث نجات بن جا ئے۔ اس کے لیئے انہیں پھونک پھونک کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جوکہ ان کے جنرل راحیل صاحب کے کمانڈر انچیف بنانے سے ظاہر ہو رہی ہے؟کیونکہ ہم خیال لوگ ہی ساتھ چل سکتے ہیں مختلف الخیال نہیں؟ اب تک جو کچھ میڈیا میں جنرل راحیل کے بارے میں آیا ہے اس سے یہ ہی بات  ظاہر ہو تی ہے کہ نواز شریف صاحب کے وہ بھی ہم خیال ہیں کہ “اصل خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہے “لہذا ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنا ئے جائیں؟ بغیر سپر پاور سے تعلقات بگاڑے ؟ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جوکہ چھیاسٹھ سال کے بعد بدلی جارہی ہے۔ یہ ہی سچ ہماری قیادت اگر شروع سے  بولتی اور قوم کو حقائق بتاتی تو چھیاسٹھ سال اوراتنا سرمایہ اتنے بڑے فوجی بجٹ پر ضائع نہیں ہوتا؟ اور نہ ہمیں مجاہدین کی نازبرداری کرکے اس کی یہ سزابھگتنا پڑتی ؟ چلیں دیر سے سہی مگر ادراک تو ہوا !یہ قوم اتنی بہادر ہے کہ کسی قر بانی سے یہ دریغ نہیں کرے گی بشرط ِ لگی لپٹی کے بغیر حکمراں سچ بولیں؟       چونکہ مذہب امراءکا چلتا ہے ؟ پھرقوم بھی سچ بولنے لگے گی؟ جھوٹ کے سلسلہ میں آپ سب نے یہ واقعہ سنا ہوگا جو سیرت اور احادیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ ایک شخص جس میں تمام برائیاں تھیں ،اس نے حضور (ص) کے سامنے ایک ایک کر کے بیان کردیں، صحابہ کرام  (رض)نے برا مانا کہ دیکھو کتنی ڈھٹائی سے اپنی برائیاں بیان کر رہاہے وہ بھی حضور(ص) کے سامنے ؟ مگراس نے سب  کچھ بیان کر کے حضور  (ص)سے حکم چاہا کہ حضور (ص) میں کونسی برائی پہلے چھوڑوں؟ تو حضور (ص) نے فرمایا پہلے جھوٹ چھوڑ دو ؟ دوسرے دن جب وہ مسجد میں آیا تو پریشان تھا کہ اگر حضور (ص) نے پوچھا تو گناہ کیسے بتا ؤں گالہذا بغیر سامنا کیئے واپس چلا گیا دوسرے دن  پہلےسب گناہوں سے توبہ کر کے دربار ِرسالت مآب  (ص)میں حاضر ہواتو وہ ایک بدلا ہوا انسان اور پکا مسلمان تھا۔ اس وقت سب سے بڑا ناسور ہمارے معاشرے میں جھوٹ ہے جوکہ بے ایمانی کے لیے ضروری ہے اگر اس کو ختم کردیا جائے تو پھر باقی برائیاں خود بخود ختم ہو جا ئیں گی؟اس کے لیے حکمراں سب سے پہلے خود جھوٹ بولنا چھوڑ دیں اور سچائی اپنائیں نتیجہ یہ ہوگا جھوٹی شان کی جگہ سادگی آجائے گی، یہ نہیں کہ محلات پر محلات بنا تے چلے جائیں؟ جس سے لوگوں میں ریس یا احساسِ محرومی پیدا ہو؟ اس کے لیے ہمارے سامنے نصف دنیا کے حکمرا ں حضرت عمر(رض) کی مثال موجود ہے کہ وہ عام آدمیوں کے طرح رہتے تھے۔ مگر عمال ان کے نام سے کانپتے تھے لہذا کہیں کوئی جرم نہیں ہو تا تھا ۔ ان کے بعد ان کے جانشینوں نے الدار جیسے محلوں میں اقامت اختیار کی پھر کیا ہوا وہ تاریخ میں پڑھئے ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ آج کے دورمیں  یہ ممکن نہیں ہے؟ وہ شاید سعودی حکمرانوں کو دیکھتے ہیں انہیں عرب امارات کے سر براہوں کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کتنے سادھے رہتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس محل میں کون رہ رہا ہے سڑک سے گزریں تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ شاہی سواری جارہی انہوں نے اب عوام کی مشکلات کو مزید کم کر نے کے لیے مہمانانِ خصوصی کے لیے ہوائی اڈہ ہی علاحدہ بنا دیا ہے تاکہ ٹریفک بند نہ ہو۔ اپنی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام سہولیات دیہاتوں میں ہی فراہم کردی ہیں۔ تاکہ لوگ شہروں کی طرف رخ نہ کریں؟ پھر بھی انہیں وہ بھولے نہیں ہیں بلکہ ان کے شادی یا غمی میں کوئی نہ کوئی شہزادہ ضرور شریک ہو تا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تمام مسلم دنیا میں انتشار ہے مگر ان کے یہاں نہیں؟ لہذا تمام دنیا سے ڈالر ان کے یہاں چلا آرہا ہے جبکہ عالمی کساد بازاری نے ان کے یہاں بھی اثر دکھایا مگر انہوں نے اپنی نئی پالیسیوں سے اس پر قابو پالیا۔ ایران ہم کبھی گئے نہیں مگر وہ  بھی کہتے اس کو اسلامی حکومت ہیں شاید وہاں بھی عوام اور حکمرانوں کے درمیان دیوار نہ ہو یا اتنی اونچی نہ ہو۔جیسی پاکستان میں ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.