تو پہلے وہ چھوٹی پھر بڑی بلائیں بھجتا ہے خبردار کرنے کے لیے، پھر عزاب آتا ہے؟ یہ اس کی کریمی ہے کہ اس امت کو حضور (ص) کے طفیل مکمل تباہی سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ جبکہ آپس میں گردن کاٹنے کاعزاب ان کا مقدر کیا ہوا ہے؟ ایک آیت یہ بھی ہے کہ جس قوم پر ہم عزاب بھیجنا چاہتے ہیں سب سے پہلے اس کے امراء کو گمراہی میں مبتلا کرتے ہیں؟ یہ وہ صورت َ حال ہے جس سے کہ ہم آج کل گزر رہے ہیں۔ مگر ہمارے نہ علما ئے کرام یہ ماننے کو تیار ہیں نہ مسلمان اللہ کی طرف لوٹنے اور توبہ کرنے کو تیار ہیں بلکہ عدم واقفیت کا سہارا لیتے ہیں کبھی تو کہتے ہیں ہمیں عربی نہیں آتی کبھی کہتے ہیں ان بیچاروں کا کیا قصور جن کے پاس دین پہونچا ہی نہیں؟ آج ہم نے سوچا کہ ان سوالوں کاجواب دیدیں
(١) ، پہلےسورہ اعراف کی آیت نمبر ١٧٢ کو لیں جو اللہ اور بندے کے درمیان عہد کے بارے میں ہے (٢)دنیا میں مسلمانوں میں یہ ابتری کیوں ہے (٣) پھراس پر بات کریں گےکہ جنت کی زبان احادیث کے مطابق عربی ہے تو جن کو عربی نہیں آتی ہے وہ وہاں کیا کریں گے؟
یہاں ہم اسی سورہ کی اس سے پہلے کی آیات کو لے لیتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ سبحانہ تعالیٰ ایک شہر کاذکر فرمارہا ہے جنہوں نے پہلے خود اپنے لیے سبت کے دن کو کام کاج کے لیے حرام کرلیا ۔ (نوٹ ۔ ہمارے یہاں بھی یہ تصور عام ہے کہ یوم سبت اللہ نے یہودیوں کے آرام کے لیے بنا یا تھا اور اس دن کام کرنا منع تھا؟ جبکہ یہ بات غلط ہے اور ثبوت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) نے اس کے خلاف کیا کہ انہوں ایک بوڑھی جوسردی سے مر رہی اس کی آگ جلا کر زندگی بچائی ، ایک بچہ بھوکا تھا اس کو ان کے گودام سے لاکر کھانا دیا اور انہیں الزام کے تحت یہودیوں نے ان پر مقدمہ چلا یا۔ اگر کام کرنے کی منادی اللہ کی طرف سے ہوتی تو وہ کبھی خلاف ورزی نہ کرتے؟۔۔ ۔شمس) ہاں ! جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بعد میں اس کو ان پر نافذ کردیا اور پھر ان کا امتحان لیا تو وہ مشکل میں پڑگئے ،نتیجہ ہوا کہ وہ تین گروہ میں بٹ گئے ۔ایک نافرمانوں سے قطع تعلق کرنے والا بنا ، دوسرا صرف نا فرمانی پرمنع کرنے والا تھااور تیسرا حیلہ کے ذریعہ نافرمانی کرنے والا تھا۔
یہ گروہ بندیاں اس بنا پر ہوئیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے چونکہ انہیں کی قائم کردہ پابندیوں کے سبب ان کا امتحان لینے کے لیئے یہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ سنیچر کے دن کوئی کام نہ کریں اور اس دن مچھلیوں کو حکم دیدیا کہ وہ با کثرت نظر آئیں؟ جب کہ وہ باقی دن نظر نہیں آتی تھیں؟ اس کے توڑ کے لیئے انہوں نے حیلے بنا لیئے کہ سنیچر کو وہ انہیں گڑھوں میں روک لیتے اور پھر دوسرے دن پکڑ لیتے ۔ اس پر کچھ لوگوں نے سختی سے منع کیا کہ اللہ تعالی کی نافر مانی مت کرو ، کچھ خاموش رہے ؟ ایک دن جب اس طرف سے کوئی آواز نہ آئی جہاں برائی پر خاموش رہنے والے اور نا فرمان رہتے تھے تو جولوگ منع کرتے تھے انہوں نے دیوار پر سے جھانک کر دیکھا تو سوائے بندر اور خنزیروں کے وہاں کچھ نہ تھا؟اور وہ انہیں دیکھ کر رورہے تھے اور اپنے کیئے پر شرمندہ تھے؟ مگر اب کیا ہوسکتا تھا جب چڑیاں جگ گئیں کھیت؟
اسی سلسلہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ بات شروع کرتا ہے اور اس قوم ساتھ اپنے احسانات گناتا ہے پھر اسکی نافرمانیاں گناتا جاتا ہے اور پھر آیت نمبر١٧٢ پر آتا ہے کہ ً ہم نے تو تمام اولاد آدم سے عہد لیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ً سب نے کہا کہ بے شک آپ رب ہیں ؟ اس پر آگے احادیث ہیں کہ اللہ نے کس طرح اولادِ آدم کو خود ان پر گواہ بنا یا۔ جو انہیں ہمیشہ تحت الشعور میں رہ کر یہ یا د دلاتا رہتا ہے کہ خدا واحد ہے جس نے ہر چیز بنائی ہے اور اس کانہ کوئی ہم سر ہے نہ شریک؟ ( جب کوئی بھولنے لگتا ہے تو اس کو کوئی اندرونی جذبہ ہے جو بار بار کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ دیکھو تم بد عہدی کر ر ہے نا فرمانی کر رہے ہو؟ اسے آپ ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں جس کی بات پر ہم نے اب کان دھرنا چھوڑ دیا ہے؟ جبکہ اس عہد کا ایک عملی ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بزرگی پر تمام مذاہب متفق ہیں، البتہ وہ شرک میں مبتلا ہیں اوریوم قیامت جس طرح ہمارے روز مرہ مشاہدہ ہے کہ بھولی باتیں یاد آجاتی ہیں ، اسی طرح روز قیامت سب کو یہ عہد بھی یاد آجائے گا۔
جبکہ ان کے ہاں تو تین گروہ تھے بھی، اور انہوں نے اپنا فرائض ادا بھی کیے یعنی جب سختی سے منع کرنے والوں کی نہیں سنی گئی تو انہوں نے قطع تعلق کرلیا، اپنے اور ان کے بیچ میں دیوار کھینچ لی دوسرے ان کے ساتھ رہے مگر خاموش رہے۔ جبکہ ہمارے یہاں تو اب کوئی منع کرنے والا ہی نہیں ہے؟ لہذا بلا شبہ عزاب کے مستحق ہیں! لیکن میں نے جو اوپر سورہ الانعام کی آیت نمبر٦٥ ذکر کیا ہے جو میں پہلے بھی کرتا رہاہوں کہ رب نے حضور (ص) سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ حضرت لو ط کی امت کی طرح اوپر سے بتھر برسا کر! یا حضرت نوح (ع) کی امت طرح سیلاب لاکر پوری امت کو تباہ نہیں کریگا؟ مگر ہمارا آپس میں لڑنا مقدر ہو چکا ہے؟ یہ ہی آجکل ہم پر اب عزاب کی شکل میں مسلط ہے؟
جبکہ ان کے یہاں کچھ لوگ ایسے تھے جو منع کرتے تھے مگر ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم مصلحت پسندی اور منفعت زر میں اتنے مبتلا ہیں کہ اب حرام کو حرام کہنے والا بھی کوئی نہیں ہے؟کیونکہ انہیں چندوں سے سارے ادارے چل رہے ہیں جو ظالم ہیں جو رشوت خور ہیں جو چور ہیں جو ڈاکو ہیں۔ پاک مال آئے کہاں سے؟ لہذا مجبوری ہے اور حیلہ یہ کہ مجبوری میں سب کچھ جائز ہے؟
آپ تارخ اسلام کو دیکھ جائیے جب بھی ایسی صورت ِ حال پیدا ہوئی تو کیا ہوا اور کشت خون کن کے ہاتھوں ہوا ؟ جو بقول سر کار ِ دو عالم محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ (ص) ً وہ تم سے بہتر قرا ءت کرتے ہونگے ً جب یہ جملے حضور (ص) ادا فرمارہے تھے تو مخاطب تھے امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے! سوچیئے جن کی تلاوت قطع وضع حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بہتر ہو وہ بظاہر کیسے لوگ ہونگے؟ مگر ان کے کردار کیا تھے؟ کہ انہوں نے لوٹ مار کا بازار تمام مملکت ِ اسلامیہ میں گرم کر رکھا تھا۔ باقی لوگ غیر جانبدار بنے سوچ رہے تھے؟ جبکہ آپ ان کے بھی کردار جاننا چاہیں تو ان کے کر دار بھی یہ تھے جو کوفہ چھاؤنی میں رہتے تھے؟ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ “ اگر میں تمہیں ایک جانور دوں کسی کو پہنچانے لیئے تو تم جانور تو جانور اس کی رسی بھی کھا جا ؤگے “ جب ہوس زر اس قدر بڑھ جا ئے تو کیا ہو تا وہی ہوا جو ہونا چاہیئے تھا ۔
جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فلسطین کی پہلی تباہی سے پہلے حضرت ایرامیاں کنعانی (ع)کے ذریعہ پیغام بھیجا تھا کہ فلسطینیوں سے کہدو کہ اگر تم باز نہ آئے تومیں تم پر ایسے حاکم مسلط کردونگا جو کہ مجھ سے بھی نہیں ڈرتے؟ وہ نہیں مانے پھراس نے ایسا ہی حاکم مقرر کردیا جس نے ان کی کتاب ِ مقدس ، معابد ،مکاتب عورتیں ، بچے، بوڑھے اورگھر بار کچھ نہیں چھوڑا اور وہاں سے چھ لاکھ وہ قیدی بنا کر عراق لے گیا۔
آگے اب اسلامی تاریخ دیکھئے کہ یہاں بھی ایسا ہی ہوااور حاکموں نے وہی کیا ؟ اوروں کو تو جانے دیجئے صرف اہلِ بیت آڑے آئے اور راہ خدا میں جان دیدی۔ اس کے بعد حکمرانوں نے مدینہ تک کو نہیں بخشا مکہ معظمہ کو بھی نہیں بخشا؟
پھر آگے بڑھ جائیے !عباسیوں کادور ہے؟ پھروہی صورت حال پیدا ہوئی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے چنگیز اور ہلاکو کو بھیجدیا؟ اس نے وہ کیا کہ سروں کے پہاڑ بنا دیئے عباسی خلیفہ منتصر باللہ کو پہلے تو ایک طشت میں اسی کے خزانے سے لوٹے ہو ئے ہیرے اور جواہرات اسے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پیش کیئے جب اس نے کہا کہ یہ کھانے کی چیز نہیں ہے؟ تو اسے یاد دلایا کہ اگر تم یہ عوامی فلاح و بہبود اور ملک کے دفاع پر خرچ کرتے تو آج تم اس نوبت کو نہیں پہونچتے؟پھر اسے چٹائی میں لپیٹ کر ہاتھی کے پاؤں سے باندھ دیا اور سارے بغداد میں جلوس کی شکل میں گھمایا حتیٰ کہ اس کا جسم تکڑوں اور پارچوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو گیا؟
اب پھر ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں؟ وہی “جن “ جو کہ ہلاکو نے بوتل میں بند کر دیا تھا اسی کی تخم ریزی اورآبیاری دوبارہ ریگستان ِ عرب میں سلطنت ِ عثما نیہ کے حریفوں نے دوبارہ کردی ؟اب اس کے بیلیں تمام دنیا میں پھیل چکی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں وہ بھی اسلام کے نام پر ؟ ہمیں نہ اللہ سے کیا ہوا پہلا عہد یاد ہے نہ ہی نبی (ص) سے کیا ہوا یہ عہد یاد ہے کہ دیکھو میرے بعد لڑنا نہیں ؟ نہ قر آن نہ سنت یاد ہے نہ اب کوئی برو ں کو برائیوں سے روکنے اور ان سےقطع تعلق کرنے والا باقی بچا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق عزاب نہ نازل کر ے تو کیا کرے ؟ لہذا وہی ہو رہا ہے جو نا فر مانوں کے ساتھ ہو ناچاہیئے؟
اب آخری عذر لیتے ہیں کہ سرکاری زبان توعربی ہو گی تو جو عربی نہیں جانتے ہیں وہ کیا کریں گے؟اس کا جواب خود پہلے سوال میں موجود ہے کہ اس نے جب یہ پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سننے والی روحوں سنا سمجھا اورجواب دیا وہ عربی میں تھا۔ اس وقت چونکہ سائنس اتنی آگے نہیں گئی تھی لہذا جواب اتنا آسان نہیں تھا ! مگرآج تو جواب مشکل ہی نہیں ہےِ ؟جب گوکل کا انسانوں کابنایا ہوا ایک سافٹ ویر ہر زبان میں کچھ بھی ترجمہ کر سکتا ہے؟ تو وہ قادر مطلق جب مجرموں کے ہر عضو کو گواہی کے لیئے صلاحیت عطا فرما سکتا ہے تو اس کے لیئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ انسان کے جسم میں کوئی ایسا نظام پہلے سے ہی علم لدنی کی شکل میں بندے کو عطا فر ما چکا ہو یافرمادے کہ ہر شخص فر فر عربی بولنے لگے؟ اب رہا نا واقفیت کا عزر وہ بھی اب ختم ہوچکا ہے کہ اول تو ٩١١ کے بعد کے کان پہاڑ پرو پیگنڈے کے بعد اب کوئی کان نہیں بچا ہےجہاں اسلام نہ پہونچا ہو؟ پھر جدید ٹیکنالوجی نے یہ عذر بی “عذر ِلنگ کردیا ہے “
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے