پاکستان میں عدلیہ اور عدل کی تاریخ۔۔۔از ۔۔۔شمس جیلانی

پاکستان بننے کے بعد جسٹس سر عبد الرشید پاکستان کے پہلے چیف جسٹس بنے ،اس وقت یہ عدالت “پاکستان فیڈرل کورٹ “ کہلاتی تھی انہیں یہ فخر حاصل ہوا کہ ان سے قائد اعظم نے حلف لیا۔ چونکہ وہ برطانوی دور کےجج تھے ، وہ اسی طرح الگ تھلگ رہتے تھے جس طرح کہ بر طانیہ کے دور میں عدلیہ رہتی تھی کہ جج اخبار تک نہیں پڑھتا تھا کہ کہیں خبر اس کی رائے پر اثر انداز نہ ہوجائے؟ لہذا وہ اتنے مشہور نہیں ہوسکے جیسے کہ باقی اداروں کے سربرا ہ ہوئے جوکہ ان کے ہم عصر تھے ۔ فیڈرل کورٹ اور چیف جسٹس کو اس وقت شہرت حاصل ہو ئی جب غلام محمد نے جوکہ پاکستان کے گورنر جنرل تھے، اختیار نہ ہوتے ہوئے! پاکستان کی ہی پارلیمنٹ کوجو کہ دستور ساز اسمبلی کہلاتی تھی برطرف کردیا  اوراسپیکر مولوی تمیز الدین خان  مرحوم سندھ چیف کورٹ میں گئے اور اس نے گورنر جنرل کے حکم کوکل عدم قرار دیا ،پھر اس کی اپیل لیکر غلام محمد کی حکومت فیڈرل کورٹ میں گئی جبکہ اس وقت چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر تھے؟ انہوں نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو نظریہ ضرورت کے تحت منسوخ کر دیا۔  ان کی اس ایجاد پر پاکستان ہی کیا پوری دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی اور ان کو ان کی اس ایجاد پر دائمی نیک نامی حاصل ہوئی ؟ اس کے بعد طالع آزماؤں کے لیے دروازہ کیا کھلا! مارشلا ؤں کا لامنتاہی سلسلہ شروع ہوگیا ا ور ہر طالع آزما نے جب چاہا دستور ٹوڑ ڈالا اور عدالتیں اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی رہیں۔یہ سلسلہ ١٢ نومبر ١٩٩٩تک چلا اور اسوقت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے جسٹس چودھری افتخار محمد نے اس پر نہ صرف مہر ِ تصدیق ثبت کی بلکہ ایک قدم اور آگے چلے گئے کہ مارشلاءایڈمنسٹریٹر جنرل مشرف کو قانون سازی کرنے اور دستور میں ترمیم کی بھی اجازت دیدی۔    لیکن وہی پہلے جج بھی تھے کہ کسی بات پر ان کاضمیر جاگ اٹھا انہوں نے چند فیصلے اور حکم امنتاعی دیئے ۔ ان سے پہلے کسی نے جنرلوں کاسامنا نہیں کیا البتہ استعفیٰ دے کر میدان چھوڑدیا۔ لیکن انہوں نے جب  حاضرجنرل کو للکارا تو ان کے ساتھ  مشرف نے بھی وہی کیا جو کہ جنرل پہلے  اپنےمحسنوں کے ساتھ کر تے آئے تھے کہ پہلے انہیں ملٹری ہیڈکوارٹر بلا کر استعفیٰ دینے کوکہا اور جب وہ نہیں تیار ہوئے تو انہیں بر طرف اور نظر بند کردیا؟ مگر اب عوام اس کھیل سے تنگ آچکے تھے ۔لہذا وکلاء اور عوام نے ان کی پشت پناہی کی اور  چودھری صاحب بہادر آدمی تھے اس کے مقابل ڈٹ گئے، عوام سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنے چیف جسٹس کی پشت پر کھڑے ہوگئے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستاں کی عدلیہ کو دنیا میں ایک مرتبہ پھر عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور سراہا گیا ، چیف جسٹس صاحب کو بھی کئی اعزازوں سے نوازا گیا۔ جب کہ مشرف کو ملک سے جانا پڑا؟ یہ ہے اس ملک میں عدل کی مختصر سی تاریخ جوکہ اسلام کے نام پر بنا تھا اور ابھی تک اس کانام وہی ہے یعنی  “اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ۔ جبکہ اسلام کی اساس عدل پر ہے قر آن نے اس پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اسکے بعد حضور  (ص) کی بہت سی احادیث عدل کے سلسلہ  میں موجود ہیں ، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ “ انسان بھوکا رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیرزندہ نہیں رکھ سکتا“  مختصر یہ کہ اسلام کا اصول ہے کہ عدل سب کے ساتھ وہ بھی بلا تفریق اور بلا امتیاز ، اور اسکا ثبوت “ میزان “  عدلیہ کانشان  ہوناجوکہ قیامت سے ماخوذ ہے اور اس آیت کابطور رہنماہونا جوکہ عدلیہ دروازے پر لکھی ہوئی ہے ۔ “ فاحکم بین الناس بالحق“ اردو ترجمہ اس کایہ ہوگا کہ انسانوں کے درمیان غیر جانبداری (حق) کے ساتھ انصاف کرو ۔ اس حکم ِ خداوندی ہر کسی کے لیئے بھی اگر وہ واقعی مسلمان ہے تو کوئی بھی رتبہ رکھتا ہو ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ کیونکہ یہاں قر آن خواص کی بات نہیں کر رہا ہے مومنیں کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ بلا تفریق ِ مذہب و ملت عوام الناس کی بات کر رہا ہے؟ وہ جہاں منصف کے لیے بے انتہا ثواب کی بات کر رہا ہے وہیں اگر کوئی نا انصافی کرے توشدید عذاب کی وعید سنا رہا ہے ۔ جبکہ انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کا اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرہ ہے۔ جہاں قسم قسم کی مافیہ ہے ۔ ہر قسم کے قبضہ گروپ ہیں۔ زیریں عدالتوں کاعملہ ہے ، کالی بھیڑیں ہیں ،وکلاءہیں اور ان کے تاخیر ی ہتھکنڈے ہیں کہ کبھی گواہ پیش نہیں ہوتا کبھی مدعی یا مدعا علیہ بیمار ہو جاتا ہے کبھی وکیل کو کوئی کام ہو جاتا ہے اور سب کچھ ٹھیک ہو تو پھر فائل کو پیش کار اپنی کرسی کی گدی کے نیچے رکھ کر اس کے اوپر بٹھ جاتا ہے؟  یہاں چیف جسٹس صاحب کے ہر حکم کے استقبال کے لیے قسم قسم کے حکومتی ہتھکنڈے تھے ۔ لہذا ہم اگر چیف جسٹس چودھری افتخار محمد صاحب کے دور کا جائزہ لیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ وہ عوام کو انصاف دینے میں با لکل ناکام رہے جبکہ وہ اس سمت میں بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں اس طرح الجھا دیاگیا کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکے؟ سوائے ان چند مقدمات کے جن میں بڑے بڑے لوگ جوابدہ تھے اور ان میں سے کچھ بین الاقوامی شہرت کے  بھی حامل ہوئے ؟ جب کہ اس جانب انہوں نے پیش رفت کرنے کے لیے ایک کمیشن بھی بنایا تھا، جس کے اعلان کے بعد اس کے پاس آنکھ جھپکتے ہی درخواستیں ہزاروں سے  بھی تجاوز کر گئیں تھیں۔  البتہ حکومت اور نوکر شاہی کو جو بے لگام تھی انہوں نے لگام دینے کی کامیاب کوشش کی جس کے نتیجہ میں حکومت کے تاخیری ہتھکنڈوں نے انہیں اتنا الجھادیا کہ وہ ان کے پورے پانچ سال کھا گئی؟لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری صبح سے لیکر رات کے ایک ایک بجے تک کام کیا اور عدلیہ کی عزت بحال کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے؟ کہ کوئی بھی وزیر اعظم یاوزیر ، فوجی یا سرکاری افسر کام کر نے سے پہلے سوچنے لگا تھا کہ ملک میں ایک ادارہ عدلیہ بھی ہے ۔ اب یہ ان کے بعد آنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ یہ خوف باقی رکھتے ہیں یا پھر پرانے  “پرعافیت دور میں “ واپس چلے جاتے ہیں ۔   ان کے دور میں قومی انتخابات ہو ئے اتفاق سے الیکشن کمشنر ایسے آگئے کہ جنکی زندگی بے داغ تھی اور پہلی دفع امید بندھی کہ منتخب نمائندے جو اسمبلیوں میں پہونچیں گے وہ کچھ بہتر ہونگے، شروع میں بھڑکیں بھی بہت ماری گئیں کہ ہم ان کے کھاتے چیک کریں نادہندگان کو نہیں آنے دیں گے۔ مگر بعد میں نہ جانے کیا ہوا؟ وہی تجربہ دہرایا گیا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں صوبہ سرحد میں پہلی دفعہ قیوم خان نے کامیابی سے آزما تھا اور پھر جب بھی  اس کے تحت انتخابا ت کرا ئے گئے ، نتائج حسب منشاءنکلتے دیکھے؟ اس موڑ پر چیف جسٹس صاحب نے جب کوئی نوٹس نہ لیا تو نمائندے وہی پرانے یا ان کی نئی نسل آگئی جس کی قسمت میں اللہ نے ٦٦ سال سے پاکستان کی حکومت لکھی ہو ئی جو یہاں  کے بینکوں سےادھار لیکر کام چلاتے ہیں اور کمائی اور رشوت باہر کے ملکوں میں لے جاکر جمع کرتے رہتے ہیں۔  اس میں عادی مجرموں کی معاونت میں میڈیا نے بھر پور کردار ادا کیا کیونکہ اس کے پیش نظر اشتہار تھے نہ کے کردار؟ اور یہ ٹھیک بھی ہے کہ کردار سے بھوک نہیں مٹائی جا سکتی جبکہ بھوک جوع الارض اور جوع البقر میں تبدیل ہوچکی ہو ؟کیونکہ میڈیاانصاف کی علم بردار تو ہے مگر وہ ان مجرموں اور ملزموں کے خلاف کبھی کچھ نہیں کہتی اور کچھ نہیں لکھتی جو انصاف کی راہ میں اپنے معروف ہتھکنڈوں کے ذریعہ کسی کو کچھ نہیں کرنے دیتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقدمہ اگر دادا، درج کراتے ہیں تو اگر انصاف پوتوں کو مل جائے تو بڑی بات ہے۔ اور دادا کی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ پہلے کچھ جی سکتے تھے تو اب جلد ی مرنے کی دعا کرنے لگتے ہیں اپنی بے عزتی دیکھ کر، یا نادیدہ ہاتھ انہیں دنیا سے ہی چلتا کردیتے ہیں  جو کبھی پکڑے نہیں جاتے؟  ایسے میں یہاں کسی سے بھی انصاف کی توقع کرنا بہت مشکل کام ہے؟ پھر مافیہ ہر ایک کی نازک رگوں کو ڈھونتی رہتی ہے اور بروقت استعمال کے لیے لائین میں لگائے رکھتی ہے؟ جیسے کہ اسے یہاں ارسلان افتخارمل گئے ؟ پھر میڈیا کی شکل میں اشتہارات اتنے بولے کہ چیف صاحب نے ان مقدمات کونہ چلانے میں ہی عافیت سمجھی جہاں کسی “ ملک صاحب “ کی داداگیری اور ملکیت متاثر ہوتی ہو؟ ایسے میں یہاں کسی سے انصاف کی توقع رکھنا دیوانے کاخواب ہو سکتا حقیقت نہیں ۔ کیونکہ عدلیہ کے پاس ڈنڈا تو ہے نہیں! وہ صرف سفارش کرسکتی ہے ہدایات دے سکتی ہے یا پھر صبر کر سکتی ہے؟لہذا ہم چیف صاحب کے بارے میں یہ کہہ کر بات ختم کرتے ہیں کہ انہوں نے عدلیہ کی نئی تاریخ رقم کی اور وہ ہمیشہ عدل کی تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد کیئے جا ئیں گے؟

 

 

 

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.