جب تک نظریہ بدعت کو من پسند معنی نہیں پہنا ئے گئے تھے، اس وقت تک سب شیرو شکر تھے؟ مسلمانوں کی تو بات کیا ،ہندو بھی ننگے پیرمحرم اور چہلم کے جلوس میں شامل ہو تے تھے؟
بدعت کے معنی کیا بدلے کہ زمانہ بدل گیا! مسلمانوں کویکایک یکایک یہ ادراک کرایا گیا کہ تعزیہ ،تخت اور جلوس نکالنا سب بدعت ہے؟ جبکہ پہلے یہ بدعت اہلِ تشیع کم اور سنی مسلمان زیادہ کیا کرتے تھے ہر برادری کا تعزیہ اور تخت ہو تے تھے کہ یہ سبزی فروشوں کا تخت ہے، وہ قصائیوں کا تعزیہ ہے یہ اس کا وہ اس کا وغیرہ وغیرہ؟ وہ اب بھی اسی طرح نکلتے ہیں کیونکہ عشق ِ اہل بیت انہیں صدیوں پہلے جوملا تھا وہ وراثت میں منتقل ہوتا ہوا ابھی تک چلا آرہا ہے۔ وہ بیچارے ہنوزمعنوں کی تبدیلی سے بیخبر ہیں؟
جبکہ گزشتہ صدی کے تیسری دہائی سے بجائے لفظ “ بدعت “کے اسلامی معنی لینے کہ لغوی معنی لیے جانے لگے۔ ظاہر ہے کہ اس تبدیلی سے کا اس کا محدود دائرہ لامحد ود ہونا تھا جو کہ ہو کر رہا، کیونکہ عربی میں بدعت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو نو ایجاد ہو؟ جبکہ مذہبی اصطلاح میں بدعت وہ تمام افعال ہیں ۔ جو حضور (ص) کی سنت تواترہ کے خلاف ہو ں؟ یہاں میں نے لفظ “ تواترہ “ اس لیے استعمال کیا جوکہ متواتر سے ماخوذ ہے اور ضروری ہے؟ مثلا ً حضور (ص) پانی کا برتن سیدھے ہاتھ میں پکڑ کر پانی تین سانسوں میں پیتے تھے۔ اب کوئی شخص الٹے ہاتھ سے جان کر پانی غٹاغٹ ایک سانس میں پی جائے تو اس کایہ فعل بدعت ہوگا؟اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ہیں؟
معنوں کی تبدیلی کے بعد ہمارے علماءکرام کو سب سے زیادہ جس ایجاد نے تنگ کیا وہ تھا لاوڈ اسپیکر کوئی ایک صدی تک انہوں نے اس کا بائیکاٹ کیئے رکھا ، پھر مساجد میں پہلے جزوی طور پر استعمال کی اجازت ملی، پھر کہیں جاکر رواجِ کلی ہوا، جبکہ ابھی بھی علماء کرام کے کچھ مکاتیب فکر ایسے ہیں جو آذان اور تقریر کے لیے تو استعمال کرلیتے ہیں مگر نماز پڑھاتے ہو ئے بند کر دیتے ہیں۔ اور کچھ کا یہ عالم ہے کہ ہمیں ایک واقعہ پولس کے صوبہ دار نے سنایا کہ “ مجھے رات کے ایک بجے کسی نے فون کیاکہ فلاں مسجد سے لاوڈ اسپیکر کی آواز اتنی زور سے آرہی کہ ہمارا سونا حرام ہو گیا ، میں مسجد گیا اندر جاکر دیکھا کہ وہاں بندہ نہ بندے کی ذات مگر مولوی صاحب پو را زور لگاکر سونے والوں کو جگائے رکھنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کی تہجد قضا نہ ہو جائے“ یہ ہے اس کی دوسری انتہا۔
یہ ہی حال تصویر کا، پھر ٹی وی کا ہوا؟پہلے لوگ منہ چھپا ئے پھرتے تھے کہ کیمرہ تصویر نہ اتار لے کہ حرام ہے؟ اب صورت ِ حال یہ ہو گئی ہے کہ اکثر تقریبات کی برقی میڈیا میں کورج ہو تی ہے اور وہاں کوئی پردہ نشین اب نظر نہیں آتا؟ خیر وہاں تو مجبوری ہے لیکن ٹی وی شو میں جو نظر آتے ہیں وہ تو خود اختیاری ہے۔ ویسے اس میں کچھ حرج بھی نہیں ہے کیونکہ ہر وہ نئی ایجاد جو اسلام کے دائیرے میں سماجائے اور علما کو دلیل مل جائے تو شرع میں رجعت کی گنجا ئش ہے ۔ اب یہ کرنے والے کی مرضی پر ہے وہ جلدی رجوع کرلے تو بات آسان رہتی ہے، ورنہ پھر رجعت قہقری کر نا پڑ تی ہے ؟ آپ میں سے بہت سے لوگ “رجعت قہقری نہیں سمجھے ہونگے “۔ رجعت کے معنی ہیں واپسی کہ اور یہ واپسی کی وہ قسم ہے جس میں لوگ الٹے پاؤں لوٹتے ہیں جیسے کہ آپ نے بڑے آدمیوں کو اقتدار ملنے کے بعد وعدوں سے پھررتے اور الٹے چلتے ہو ئے دیکھا ہوگا یا جو ہمارے یہاں رائج ہے اور اس کو فوجی اصطلاح میں “ابا ؤٹ ٹرن کہتے ہیں “ یہ نہیں دیکھاتو آپ نے لوگ بڑے آدمیوں کے محلوں یا پھر مزاروں سے الٹے پاؤں واپس آتے ہوئے تو دیکھے ہی ہونگے ۔
پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وقت گزرتا گیا اور بد عتوں کی فہرست اتنی طویل ہوتی گئی کہ ان سے بے اعتنا ئی برتنا ان کے بس کی بات نہیں رہی ؟ اور کچھ پرانی اور کچھ نئی ایجاد ا ت انہیں پریشان کرنے لگیں پہلے سوکھی روٹی جگہ اب قورمہ بر یانی نے لی ،بوریہ کی جگہ چھپر کھٹ پھر مسہریاں آئیں اس کے بعد حجروں کے بجا ئے محلات نے لے لی گاؤ تکیئے اور چادنیوں کی جگہ صوفے اور کرسیاں آگئیں ،مگر احتیاط ملحوظ رہی ہم نے ایک مولوی صاحب کو صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے دیکھا تو پوچھا حضر ت یہ کیا! تو انہوں نے بتایا کہ میں اس طرح بیٹھتا ہوں کے پیر زمین میں نہ لگیں کہ اس طرح صوفے پر بیٹھنا جائز ہے کہ دوسری قوموں کی مماثلت نہیں ہوتی۔
پھر بات اور آگے بڑھی کبھی کار تنگ کرتی تو کبھی ہوائی جہاز لہذا ان کی مخالفت اتنی نہیں ہوئی کہ کوئی کہتا کہ“ میرے لیے صرف گھوڑایا اونٹ بھجوایا جائے ، اس کے بجا ئے یہ کہنے لگے آپ کار بھجوادیں میں آجاونگا “میرا تفصیل میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ بقیہ چیزیں بھی بد عت سے نکل جا ئیں گی؟ تھوڑا وقت لگے گا۔
لیکن رہنما اصول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جس فعل کو حضور نے (ص) منع نہیں فرمایا، یا خاموشی اختیار فرمائی اور نہ ہی قر آن نے اسے حرام قرار دیا؟ اسے اسلامی اصطلاح میں نہ حرام قرار دیا جا سکتا ہے نہ بدعت قرار دیا جا سکتا ہے؟انہیں میں یہ محرم کا جلوس اور عید میلاد النبی بھی آتا ہے؟جبکہ اس کی آمد کے ساتھ ہر ایک کانپ اٹھتا ہے کہ خدا خیر کرے ؟ اللہ یہ دن اور مہینہ خیریت سے گزاردے؟ جب تک انگریز رہے یہ مثلا طے شدہ تھا اور جلوس کاراستہ بھی اسی دور سے طے شدہ ہے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمراں دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنا چاہتے ہیں لہذا جو شر پسند ہیں انہیں بھی کچھ نہیں کہتے کہ کون جانے کب ان کی ضرورت پڑجا ئے ؟ یا ان کو چھیڑنے سے ہمارا کوئی مربی نہ ناراض ہو جائے ؟ لہذا شر پسندوں کے رہنما ؤں کو دودھ پلاکر پالا جاتا ہے ان کو لاؤڈ اسپیکر بھی جیسے چاہیں استعمال کرنے کی اجازت ہے، ان کو حفاظت کے نام پر سکوریٹی بھی فراہم کی جاتی ہے جس سے کھلا تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ حکومت کے منظور نظر ہیں؟ اور جس کو یہ سرٹیفکٹ مل جا ئے اس کے خلاف ہمارے یہاں کوئی کاروائی کر نے کا رواج نہیں ہے؟
اس افسر کی کیا مجال کہ ایک طرف تو ان کو سکوریٹی فراہم کرے دوسری طرف وہ ان کو یا ان کے کسی چیلے کو گرفتار کر سکے لہذا وہ اس کام پر وقت صرف یوں نہیں کرتے کہ پکڑا جا ئے گا توچھٹ جا ئے گا؟ اور وہاں سے نہیں چھٹا !تو ان کا خوف اتنا طاری ہے کہ کوئی افسر چالان سخت بنا ئے گا ہی نہیں اور بنا ئے گا تو دفعہ ہلکی لگائے گا، اور پھر بھی نہیں مانا تو اپنا سر ضرور ایک دن گنوائے گا۔ پھر اس کے بعد گواہ نہیں ملیں گے؟ ان کو دھمکا یا جائے گا اور وہ یا توپہلی پیشی پر ہی مکر جائیں گے؟ ورنہ ملک سے بھاگنا ہو گا اور اگر اتنی گنجائش نہیں ہے تو روپوش ہو نا پڑے گا ؟
اور اگر یہ سب بھی ٹھیک ٹھاک رہے تو پھر عدالت کی باری آتی ہے ؟ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے اس کا حل اپنی ایک حالیہ تقریر میں یہ نکالا کہ ججوں کو چاہیئے کہ مقدمہ چلاتے وقت نقاب استعمال کریں تاکہ شناخت نہ ہو سکے؟ یہ انتہائی مضحکہ خیز تجویز تھی؟ جبکہ ہمارے یہاں ملزموں کو منہ ڈھاک کر لایا جاتا ہے، اگر جج گواہ اور آفیسروں بھی منہ ڈھانک کر آنے لگے تو کوئی بھی کسی کی جگہ لے سکتا ہے؟ کیونکہ پردہ نشینوں کے نقاب اٹھانے کا رواج نہیں ہے۔ لہذا پورا نظام ہی چو پٹ ہو جائے گا؟ یہ تو ہیں حکومت کی مجبوریاں؟
دوسری طرف اس سلسلہ میں میڈیا ٹاک شو جاری ہیں؟ علماءکو بلاکر اس پر بحث کرائی جارہی کہ جلوس ادھر سے گزرے ہی نہ، جدھر گڑ بڑ کا اندیشہ ہو ؟ ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ جگہ پاکستان میں کہاں ہے جہاں امن ہو اور کسی کے پھٹ پڑنے کا خطرہ نہ ہو؟ پھر یہ جلوسوں کے راستے بنے ہوئے بھی کچھ تومغلوں کے دورکے ہیں ان کو انگریزوں کے دور میں بھی نہیں تبدیل کیا گیا سوائے ان شہروں کہ جو بعد میں آباد ہوئے ۔ لہذا اس کی ایک ہی صورت ہے کہ جلوس زمین پر نہ نکالا جائے؟ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کوکرفیو لگاکر گھروں میں بند کر دیا جائے مگر اس سے مسئلہ اس لیے حل نہیں ہو گاکہ گھر بھی محفوظ نہیں ہیں؟جو با اثر لوگ ہیں ان پر کرفیو کی پابند لازمی نہیں ہے لہذ ا ان سے کون پابندی کرائے گا؟ اس لیے یہ بھی قابل عمل نہیں ہے کیونکہ جو بے اثر ہیں وہ آسانی سے با ثروں کے ہاتھوں گھروں میں بیٹھے یاسوتے ہوئے شکار ہوجا ئیں گے؟
دوسرےاس سے پہلے ہم جانے والی حکومت کے دور میں دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے بندشوں کے ذریعہ اس مسئلہ کوحل کر نا چاہا ۔ دفتر بند، اسکول بند ٹریفک بنداور ٹیلیفوں بند مگر نتیجہ کیا نکلا کہ معاشی حالات بد سے ب تر اور ہلاکتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی گھٹی نہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کاحل کیا ہے؟ حل صرف یہ ہے کہ دو عملی چھوڑ کر حکومت ایک راستہ اختیار کرلے۔ ورنہ یہ ہی ہوتا رہے گا اور لوگ مرتے رہیں گے۔ اگر اس سے حکمراں یہ سمجھتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل ہو جا ئے گا تو اور بات ہے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے