سال نو مبارک۔۔۔۔از ۔۔۔شمس جیلانی
ہم پریشان ہیں کہ آپ کو سالِ نو کی مبارکباد کس سال پر دیں۔ کیونکہ ابھی جس سال کا پہلا دن آرہا وہ سن ِعیسوی کاسال ہے۔اور اس سے چنددن پہلے ہم نے جناب ذاکر نا ئک صاحب کا فتویٰ دیکھا جو کہ کسی نے ہمیں بھیجا تھا ۔ اس میں کسی قوم کا اتباع کرنے کی وجہ سے فتویٰ یہ ہے کہ جو کرسمس منا ئے، اس نے تسلیم کر لیا کہ حضرت عیسیٰ (ع)کو پھانسی دی گئی اور نعوذ باللہ وہ خدا کے بیٹے ہیں؟ پہلے تو یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ وہ فتویٰ جاری کرنے کے مجاز ہیں ؟کیونکہ جہاں تک ہمیں علم ہے پہلے تو ایک طالب علم کے سالوں قرآن، حدیث اور فقہ پڑھنے کے بعد دستار بندی ہوتی ہےاور وہ فاضل کہلاتا تھا، پھر تیس چالیس سال کے بعد علماءاپنے ایک اجلاس میں اس عالم کو فتویٰ جاری کرنے کی اجازت دیتے تھے تب وہ مفتی کہلاتا تھا؟
اب سنا ہے کہ سعودی یونیورسٹی میں کوئی تین سال کا کورس ہے جس کے مکمل کرنے پر وہ مفتی کہلانے اور فتویٰ دینے کا مجاز ہو جاتا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ ہماری یہ معلومات بھی پرانی ہو گئی ہو ں اورنظریہ ضرورت کے تحت کوئی یونیورسٹی کا صرف کا دورہ کر آئے تو وہ مفتی ہوجاتا ہو؟ واللہ عالم۔ دوسرے یہ کہ یہاں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ منانے سے کیا مراد ہے! اگر منانے سے مراد گرجوں میں جانا اور انکی عبادت میں شامل ہو نا ہے، تو پھر تو ٹھیک ہے اس پر دورائے نہیں ہوسکتیں اور ان میں کوئی مسلمان جا تا بھی نہیں ہے؟ اگر اس سے مراد دعوتوں میں شریک ہو نا ہے کیونکہ وہ زیادہ تر اسے دعوتیں کھا کر اور کھلاکر ہی مناتے،کچھ گھر سجاکر بھی مناتے ہیں ،مگر تھوڑے کیونکہ اکثریت ان کی مذہب پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ اگر آپ گرجا کے سامنے جاکرکھڑے ہو جائیں تو آپکو ٩٩ فیصد وہاں بزرگ خواتین اور مرد اندر جاتے دکھا ئی دیں گے۔ البتہ بھلائی میں وہ پیش پیش ہیں کہ کہیں بھی کچھ ہو تو وہ چندہ دیتے کو تیاررہتے ہیں۔ جو کام کبھی ہمارے تھے بھوکوں کو کھانا کھلا نا وغیرہ وہ بھی وہ زیادہ کرتے تیں۔ اس میں گرجے بھی شامل ہیں ۔ کچھ تو اپنے یہاں مفلسوں کے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں کچھ چرچ واؤچر دیدیتے ہیں ان فلاحی اداروں کے نام جو کہ اپنے کیفیٹیریا رکھتے ہیں اور وہ بعد میں ان کو ادا ئیگی کر دیتے ہیں ۔ یہ اس ملک میں ہے جو کہ فلاحی مملکت ہے۔
اور یہاں سب کو اتنی رقم ملتی ہے جتنی کہ ایک آدمی کی ضرورت کے لیے کافی ہے؟ گھر نہ ہو تو پنا گاہیں بھی ہیں۔ اب آپ پو چھیں گے کہ پھر وہ کھانا خیرات کا کیوں کھاتے ہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ حکومت کھانے کا انتظام تو کر تی ہے مگریہ بھی “غالب “کی طرح پریشان ہیں کہ حکومت پینے کا بندوبست نہیں کرتی وہ چیک لیتے ہی اپنی پیاس بھجانے چلے جاتے ہیں اور پھر اکثر پورا مہینہ اپنا ہیٹ ہاتھ میں پکڑے کبھی اس چو راہے پر تو کبھی اس کونے پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں؟ یہ تو ذکر یونہیں درمیان میں آگیا۔
ہاں تو ہم بات کر رہے تھے۔ کہ ہم مبارک باد کس سال کی پہلی تاریخ کو دیں کیونکہ اس سے پہلے ہجری سال گزرا ہے جو کہ پہلی محرم سے شروع ہوتا ہے۔ اور ہمارا ایک مکتبہ فکر جضرت امام حسین(ع) کی شہادت وجہ سے سوگ مناتا ہے ،جبکہ ہم میں سے دوسرا شدت پسند فرقہ بہت دھوم دھام سے اس دن مبارکباد پیش کرتا ہے حالانکہ وہ اس سن کے بانی کا بھی یوم َ شہادت ہے؟ اعتدال پسند طبقہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ جبکہ سن ِ ہجری کی ابتدا یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے گیارہ سال بغیر سن کے گزار لیئے تو ایک مقدمہ ایسا آگیا کہ جس میں مہینہ اور تاریخ تو لکھی تھی مگر سن نہیں تھا، اس لیے کہ سن تھا ہی نہیں جو وہ لکھتے؟ جبکہ مقروض کا دعویٰ غالبا ً وہی ہو گا کہ ہم دوسری دنیا میں جاکر دیں گے اور قرض دینے والا کہہ رہا ہوگا کہ نہیں اسی سال کا وعدہ تھا۔ تب حضرت عمر (رض)نے فرمایا کہ ہمیں کوئی سن اپنانا چا ہیے؟
اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ کس اہم واقعہ سے سال شروع کیا جائے ؟ کچھ نے کہا کہ عجمیوں کاطریقہ یہ ہے کہ وہ با دشاہ کی پیدائش سے سال شروع کرتے ہیں لہذا حضور (ص) کی پیدائش سے زیادہ کونسا دن بہتر ہوگا ، وہی رکھتے ہیں ،جبکہ ایک گروہ جس میں باب علم حضرت ِ علی کرم اللہ وجہہ بھی شامل تھے انہوں(ع) نے کہا کہ ہجرت وہ واقعہ ہے جس نے ہمیں امن دیا ،حکومت دی سب کچھ دیا ہماری کایا پلٹ گئی لہذااس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہجرت سے شروع کیا جائے؟
حضرت عمر(رض) اور باقی لوگ بھی اس پر متفق ہو گئے ؟ جبکہ اس وقت سوائے حضرت ابو بکر (رض) کےاور ان کے جو شہید ہوگئے تھے (رض) تمام جلیل القدر صحابہ کرام (رض) موجود تھے اور کسی نے بھی آج کی طرح یہ نہیں سوچا کہ کہ کوئی بات کسی دن سے منسوب کرنا یامنانا بد عت ہے ؟لیکن پھر کسی کونے سے عرب کے رسم و رواج کی بات اٹھائی گئی کہ عرب میں سال محرم سے چلتا ہے لہذا پہلا مہینہ بجا ئے ربیع الاول کے محرم کہلا ئے، بات رواج کی تھی لہذا وہ بھی مان لی گئی۔ جبکہ مہینوں کے نام وہی رہے جو عہد ِ جہالت میں تھے۔ اگر ہجرت کا مہینہ پہلا ہی رہتا تو پھر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کی کریمی دیکھئے کہ اس نے اپنے حبیب (ص) کی پیدائش اور ہجرت کا مہینہ ایک ہی رکھا جوکہ محرم میں مدغم ہوجانے کی وجہ سےکچھ مرضی سے اور کچھ ان کی ضد میں منارہے ہیں ؟
اب آپ پوچھیں گے اس سے پہلے کونسا سال رائج تھا؟ جواب یہ ہے کہ عرب میں تو حضور (ص) کی ولادت کے چارسو کچھ سال پہلے سے ایک سن رائج ہو ا تھا جو حضور (ص) عہد تک جاری تھا، مگر ہندوستان میں پانچ ہزار سال پہلے سے یہ ہی طریقہ رائج تھا اور ابھی تک ہے کہ وہ اپنے سن اور مہینوں کو ایک ہی موسم میں رکھنے لیے دورِ جاہلیہ کے عربوں کی طرح ہر تین سال کے بعد ایک سال تیرہ ماہ کا کردیتے ہیں؟عرب میں جب بت پرستی آئی اور کفار مکہ نے ہیر پھر شروع کی کہ جب چاہتے وہ حرمت والے مہینے بدل دیتے؟ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ تو بہ کی ایک آیت کے ذریعہ حکم دیا کہ ً سال بارہ ماہ کا ً۔ تاکہ ان کے اتباع سے جا ن چھٹے مگر اس کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضور (ص) کا وصال ہوگیا اور سال کا معاملہ گیارہ سال تک التوا میں پڑا رہا،پھر کہیں جاکر سن ِ ہجری جاری ہوا۔ جس کے سارے مہینے وہی ہیں اور پہلامہینہ محرم ہے البتہ اب موسم بدلتا رہتا ہے؟ لہذا اگر ذاکر نائیک صاحب کی بات مان لی جائے تو پھر اس مہینے اور سن میں مماثلت کس سے ہوتی ہے ؟ سوچیئے بات کہاں جا کر رکے گی؟ میں اس کو انہیں کے لیے بلا تبصرہ چھوڑ دیتا ہوں؟ اس لیے کہ میں مفتی نہیں ہوں؟
اور اس عقیدے کو لیتا ہوں کہ ہمارے یہاں یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہم سب اس پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور جو ہوتا ہے اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ لہذا ہر سال یہ دعا بھی ایک دوسرے کو ہر نئے سال پردیتے ہیں کہ نیا سال مبارک ہو اس امید پر کہ یہ سال کچھ تبدیلیاں لائے گا مگر ہوتا کیا ہے کہ حالات ہر سال بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں؟حالانکہ ہم یہ سب کچھ جانتے ہو ئے کرتے ہیں اور خود کو اورایکدوسرے کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بھی دعایہ کلمات ہیں اور دعاؤں کو موثر ہونےکے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کچھ شرائط رکھی ہیں؟ان میں سے پہلی شرط تویہ ہے اللہ کا راضی ہونا، اس کے بعد اکل حلال ہے پھر صدقِ مقال اور تیسری شرط ہے سعی، یعنی رزقِ حال کھانا اور سچ بولنااور جو چاہیئے ہے اس کے لیے جدو جہد کرنا؟
اب یہ سوچیے کیا ہم ایمان کے تقاضے پورے کر رہے ہیں جو اسے راضی ر کھنے لیے ضروری ہیں؟ جوکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے عمل سے ظاہر ہوتے ہیں؟ میں نے بارہا عرض کیا کہ اللہ اور اس کے نبی (ص) کوماننا اور اللہ کے احکامات اور نبی (ص) کے اسوہ حسنہ (ص) پر عمل کرنا اسلام ہے ًکیونکہ نبی (ص) کہ اسوہ حسنہ کے بارے میں قر آن میں اللہ نے یہ فرماکر ہم پر واضح کردیا ہے ، جن میں پہلی تو یہ آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “ اے نبی! ان سے کہدو کہ یہ اگر مجھ سے محبت کے دعویدار ہیں تو آپکا اتباع کریں “ پھر دوسری آیت میں فرمایا کہ “ نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے لیے کافی ہے “ پھر تیسری آیت میں فرمایا کہ ً یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے سوائے اس کہ جو انہیں وحی کیا جائے“
جبکہ آج کل لوگ انکا اتباع کر رہے ہیں کہ ہمارا یہ جنت جانے کا راستہ ہے ؟ اور لوگوں کا قتل ِ عام کر رہے ہیں وہ شاید ان آیات کو نہیں پڑھتے جن میں عمل پر زور دیا گیااور حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد پر زوردیاگیا ہے؟ یہ فرماکر خبردار کردیا گیا ہے کہ اگر تم نے کسی کے ساتھ زیادتی کی تو اللہ تعالیٰ وہ معاف نہیں کرے گا؟ البتہ اپنے گناہ سوائے شرک کرنے معاف کر سکتا ہے اگر کوئی توبہ کر لے تو؟
جبکہ ہمیں بہکانے والوں سے خبر دار کر دیا ہے ، جن میں دونوں طرح کے شیطان شامل ہیں انسانی شیطان اور جنوں میں کے شیطان؟ اور ان کے اتباع کو منع فرمایا ہے؟یہ بھی خبر دار کر دیا ہے کہ وہ قیامت کے دن انکاری ہونگے کہ انہوں نے تمہیں گمراہ کیا بلکہ تمہارے دشمن ہو جائیں گے؟
اور پھر فرمایا تم ان لوگوں جو کہ مقرب بارگاہ الہٰی ہیں انکا اندھادھند اتباع کر نا شروع کرو گے تو وہ بھی قیامت کے دن انکار کر دیں گے؟ کیونکہ تم کہیں زبانی یا تحریری طور پر یہ سند نہیں لاسکتے کہ انہوں نے اپنا اتباع کرنے کو فرمایا تھا؟لاؤ گے کہاں سےکہ انہوں ایسا کبھی کہا ہی نہیں؟ہر ایک نے ایک ہی بات فرمائی کہ تم میرااس وقت تک اتباع کرو جب تک میں خدا کے احکام پر عامل اور نبی (ص) کے احکامات کے مطابق چلوں اور اگر میں ان سے انحراف کرو ں تو میری مت مانو؟یہ سب باتیں جو میں سال بھر کرتا رہتا ہوں پھر دہرا رہا ہوں اس امید پر کہ شاید قوم کی سمجھ میں میری بات آجائے اور وہ توبہ کرلے، تو پھر وہی چین سکون واپس آجائے جو ہماری نا فرمانیوں کی وجہ سے ہم سے چھن چکا ہے؟ اورسورہ احقاف یہ رہنمائی کرتی ہے کہ تم اچھی بات کہے جاؤ ،تمہیں نہیں معلوم کہ تمہیں کون سن رہا اور کون پڑھ رہا جس کا ثواب قیامت تک تمہارے کھاتے میں لکھا جاتا رہے گا؟ اور کوئی برائی پھیلائے گا تو وہ بھی قیامت تک اسکے کھاتے میں لکھی جاتی رہے گی؟ اللہ سبحانہ تعالٰی ہم سب کو توبہ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے