اے آنکھوں والو ! دیکھو اور عبرت پکڑو۔۔۔از ۔۔۔ شمس جیلانی

اے آنکھوں والو ! دیکھو اور عبرت پکڑو۔۔۔از ۔۔۔ شمس جیلانی
مشکل یہ ہے کہ لوگ دیکھتے تو ہیں مگر طاقت کا گھمنڈ  انہیں عبرت نہیں پکڑنے دیتا؟ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بار بار قرآن میں فرمارہا ہے، سر کشوں باغیوں کے قصے بیان کرکے کہ “ دیکھو اور عبرت پکڑو “ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جنرل مشرف صاحب نے نواز شریف صاحب کا تختہ الٹا تھااور وزیر اعظم ہاؤس سے انہیں پہلے گرفتار کیا ہتھکڑی لگائی ،پھر لانڈھی جیل اور اٹک جیل میں رکھا ۔  ان پرمقدمہ چلا یا اور سعودی عرب کی مداخلت کی بناپر اس شرط پر سعودی عرب جانے کی اجازت دیدی کہ وہ اپنا سامان خاندان اور نوکر چاکر لے کر جا سکتے ہیں اور وہ آئندہ دس سال تک پاکستان کا رخ نہیں کریں گے اور نہ ہی سیاست میں حصہ لیں گے؟
اس کے بعد وقت بدلنا شروع ہوا ، پہلے انہیں علاج کے سلسلہ میں لندن جانے کی اجازت ملی اور پھر وہاں بھی انہوں نے ایک اپنے ایک بیٹے کو بٹھا دیا ؟ ان دنوں بینظیر شہید جلاوطن تھیں وہیں ملاقاتیں شروع ہوئیں باتیں شروع ہوئیں پھر ایک میثاق جمہوریت طے پاگیا ۔ مگر مشرف صاحب اس پر مصر ر ہے کہ میں ان دونوں کو پاکستان نہیں آنے دونگا۔ حتیٰ کہ نواز شریف صاحب کو ان کے والد کی میت کے ساتھ  بھی نہیں آنے دیا گیا؟ اسوقت کہیں انسانی ہمدردی کسی کودکھائی نہیں دی؟ نہ میڈیا پر مباحثے ہو ئے نہ قانونی موشگافیاں ہو ئیں؟ آٹھ سال تک وہ ایک آمرکی طرح دنداتے پھرے؟ جس میں انہوں نے پارلیمنٹ بنا لی الیکشن بھی کرادیئے خود کو صدر بھی چنوالیا؟ مگرانکے دور کے آخر تک ہر ادارے کا کام ان کے ہر ایکشن پر انگوٹھا لگانا یا مہر تصدیق ثبت کرنا رہا وہ اسی طرح دندناتے رہے بلا شرکت غیرے سرخ و سفید کے مالک رہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ انسان کہیں قناعت نہیں کرتا ، اور پھر وہ جو کہ اسلام کو ماڈرنائزڈ کرنے آیا ہو اور جس کا مشن پورا نہ ہوا ہو؟ گوانکے وزراءجلسے عام میں شراب کی بوتلیں دکھا کے کہہ رہے تھے کہ “ یہ ماڈرن اسلام ہے“ اس پر ان کی طرف سے نہ صرف خاموشی اختیار کی گئی ،  بلکہ ان کی پیٹ ٹھونکی گئی؟ کیونکہ ان کے ہیرو کمال اتاترک تھے اور بقول ان کے وہ کمال اتا ترک کے پیروتھے جبکہ مسلمان حضور(ص) کا پیرو ہوتا ہے۔  لیکن وہ اس کے بر عکس اتاترک کے پیرو تھے جنہوں نے قرآن ترکی  زبان میں کردیا، نماز اور اذان ترکی میں کردی ۔ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے لیکن وہاں ان کے الفاظ دستور کا حصہ بن گئے  تھےجس کے خلاف کچھ کہنے پر سزائے موت تھی؟
اللہ  سبحانہ تعالیٰ ہرایک کو ڈھیل دیتا ہے کہ دیکھوں ،کون کہاں تک جاتا ہے ،آخر میرے ہاتھ سے بچ کر کہاں جا ئے گا۔میں بھی لامحدود ہوں میری سرحدیں بھی لا محدود ہیں؟  اے بندے! تو بھاگ کرجا ئے گا کہاں؟ کبھی نمرود کو ایک مچھر کے ہاتھوں ذلیل کروادیتا ہے اور وہ اپنے سر پر خود ہی جوتے لگوانے کے لیئے مجبور ہوتا ہے ، کبھی فرعون کی لاش کو عبرت بنا دیتا ہے؟ اس نے اس آمر کو بھی مجبور کر دیا کے اپنا کہا خود ہی چاٹتا چلا جا ئے؟ حالات ایسے پیدا ہو ئے کہ اسے اپنی حکومت کے مزید استحکام کے  لیے ،تاکہ وہ اپنا مشن پو را کر سکے۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر نا پڑا جنہیں وہ کبھی چور کہتا تھا؟
اس کا نتیجہ ہوا کہ جو ایمانداری کا وہ بھرم جو اس نے پہلے قائم  کیاتھا کہ غیر ملکی سفیر تک اعتراف کرنے لگے تھے “ اس کے با وجود کہ احترام انسانیت کا معیار اتنا اچھا نہیں لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی کابینہ میں کوئی وزیربد دیانت نہیں ہے “ پھر کیا ہوا کہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے انہیں ایک سعودی امریکن بنک کے آفیسر موزوں دکھائی دیئے تو انہوں نے جمالی صاحب کی جگہ جو کہ خاندانی بھی تھے اور ان کے چچا جعفر خان جمالی قائداعظم کے ساتھی بھی لہذا ان میں موروثی طور پر قوم کا درد تھا۔ اس طرح یہ چھوٹی سی رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔اور اس کے بعد قومیانے کا دورشروع ہوا ؟چھوٹی موٹی چیزیں جیسے بنک وغیرہ اونے  پونے پہلے ہی بک گئے تھے، مگر جب اسٹیل ملز کا مسئلہ آیا تو چیف جسٹس صاحب کے لیے نا قابل برداشت ہو گیا اور وہ مزاحم ہوئے ! نتیجہ کے طور پر ان کے خلاف ریفرینس تیار ہوا اور ان سے فوجی ہیڈ کوارٹر بلا کر استعفیٰ مانگا گیا، جو انہوں نے نہیں دیا اس کے بعد وکلاءاورعوام ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے؟
یہیں سے بس حالات نے پلٹا کھایا، سب کے ساتھ مصالحت کر نا پڑی بے نظیر شہید آگئیں ،نوازشریف  صاحب آگئے، عوام بھی سڑکوں پر آگئے ۔ پھربینظیر شہید ہوئیں الیکشن ہو ئے مشرف صاحب کی جماعت بری طرح ہاری اور مسلم لیگ نون اور پی پی دونوں جماعتیں طاقت بن کر ابھریں ۔ پھرایوان صدر سے مشرف صاحب کو با عزت طریقہ سے رخصت کر دیا گیا ۔
اگر وہ پھر بھی قناعت کر جاتے جو انہیں مل گیا تھا اس پر اکتفا کرلیتے ،تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا جوآجکل دیکھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں تین لاکھ سے زائد کاغذی حامیوں کی حمایت اور لالچ یہاں کھینچ کر لے آیا کہ وہ یہاں ان کی کاغذی حمایت سے دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔
یہاں پہونچکر انکا خواب چکنا چور ہوگیا۔ جو اس سے ظاہر ہے کہ پہلے وہ لوگوں کو للکارتے رہے مضبوط بازو دکھاتے رہے کیونکہ وہ جدید اسلام لانے آئے تھے مگر اب وہ خدا کانام لینے لگے تھے تاکہ عوام پھر دھوکا کھا ئیں اور ان کا استقبال کریں اور پہلی کی طر ح مٹھا ئی بانٹیں؟اسی لیے وہ سیدھے اسلام آباد آنے کے بجا ئے کراچی آئے کیونکہ وہاں ان کے پرانے حلیف رشتہ مہاجرت میں جکڑے ہو ئے تھے؟ مگر انہوں نے جھنڈی دکھا دی؟ کیونکہ وہ کراچی کو اپنی اقلیم سمجھتے ہیں اور اس میں کسی کی شراکت داری پسند  نہیں کرتے، دوسرے ان دنوں وہ پورے ملک کالیڈر بننے کی سوچ رہے  تھےلہذا وہ پتے بھی ہوا دے گئے؟
ملک میں الیکشن ہو ئے اور نواز شریف صاحب کی پارٹی بر سرِ اقتدار آگئی ؟  جبکہ وہ پہلے سے ہی کہنے لگے کہ ہمیں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے دور میں انصاف نہیں ملے گا۔ یہ عدلیہ پر دباؤبڑھانے کی کو شش تھی جس میں وہ میڈیا کے ذریعہ کامیاب رہے کہ ان کو تمام مقدمات میں ضمانت مل گئی۔ لیکن جب ملک سے جانے کا وقت آیا تو حکومت کی طرف سے غداری کامقدمہ قائم کردیا گیا۔ اسی دوران کمانڈر انچیف اور چیف جسٹس بھی چلے گئے ۔ اوراللہ سبحانہ تعالیٰ نے مشرف صاحب کو اسی نواز شریف کے تنہا رحم و کرم پر لاڈالا، مگر انہوں نے وہ تیزی اور اعلیٰ ظرفی جو مشرف صاحب نے انکا تختہ الٹے نے کے بعد دکھا ئی تھی ان کی طرح نہیں دکھائی؟ نہ انہیں ہتھکڑیاں لگائیں نہ جیل میں رکھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے معاف کردیا اور مجھے انتقام نہیں لینا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں ممکن ہے کہ ان کا خیال یہ ہو کہ اگر سابق کمانڈر انچیف کی بے عزتی کی گئی تو فوج میں بے چینی پیدا ہو جا ئے گی اور اس سے مشرف صاحب فائدہ اٹھا ئیں گے؟  مگراس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور وہ لگا تار وہ عدالت میں دو پیشیوں پر غیر حاضر رہے بہانہ سیکوریٹی تھا ، یہاں  کےایسٹر طرح خرگوش کے انڈوں جیسے بم مل رہےتھے ؟انہیں رکھ کون رہا تھا اللہ ہی جانتا ہے مگر اس پر ہمیں بھٹو صاحب کے دور کا ایک لطیفہ یاد آگیا کہ ایوان صدر کی دیوار پر ان دنوں کوئی لکھ جاتا تھا کہ “ صدر کو رہائی دلاؤ “ کیونکہ ان دنوں صدر برائے نام تھے اور اقتدار کا مرکز بھٹو صاحب تھے انہوں نے نگرانی شروع کرادی تو پولس نے دیکھا کہ ایک صاحب چادر میں منہ چھپائے ایوان صدر سے باہر نکلے اور یہ عبارت لکھ کر واپس چلے گئے؟
جب  مشرف صاحب کو کہیں سے کوئی آسرا نہ ملا تو مشرف صاحب عدالت چلے تو مگر راستے میں دروغ بر گردن ِ راوی دل کا دورہ پڑ گیا؟ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ بھی وہ تاخیری حربہ ہے جو کہ وکلاءاپنے موکلوں کو سکھادیتے ہیں اور ایسے موقوں پر وہ استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ دل کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص لیت لعل سے کام لے کر خطرہ مول نہیں لیتا ،سکیوریٹی والوں کے لیے کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا سوائے اس کہ انہیں اسپتال پہونچا دیں۔  اب کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ ایک غیر جانبدار میڈیکل بورڈ بنا یا جا ئے؟ شاید وہ میڈیکل سا ئنس سے واقف نہیں ہیں؟ کیونکہ جس وقت دل کا دورہ پڑے اسی وقت جو ڈاکٹر دیکھیں گے وہ کچھ معلوم کرسکتے ہیں ورنہ اس کے بعد دل کے بارے میں کچھ معلوم کر نا مشکل ہو تا ہے؟ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی کچھ غیر ملکی مہمان پہلے سے  اسلام آباد میں موجود ہیں اور سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل ٦جنوری کو اسلام آباد آرہے ہیں افواہیں بہت ہیں جس کی وزارت ِ خارجہ سے تردید بھی آج آگئی۔ دیکھئے پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ اب انکے باقی پرانے ساتھی بھی اپنی آنکھیں پھیر رہے ہیں ؟بہر حال جو بھی ہوگا وہ مکافات عمل کے زمرے میں آئے گا۔ اور ہماری عبرت کے لیے کافی ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged . Bookmark the permalink.