ہم پاکستان سے تو آجکل تیرہ گھنٹے پیچھے ہیں اور لندن سے نو گھنٹے پیچھے ہیں۔ جبکہ گرمیوں میں صرف دن اور رات کا فرق رہ جاتا اور وقت برابر ہو جاتا ہے ااس لیے یہاں کام کے اوقات وہی رہتے البتہ موسم کے لحاظ سے ایک گھنٹہ گھٹا یا بڑھا دیتے ہیں یہ طریقہ یہاں کامیاب ،جب کے پاکستان میں ناکام رہا کہ وہاں وقت پر کوئی کام کر تا ہی نہیں ہے ۔
آج جمعرات کی صبح جب ہم اپنے معمولات سے فارغ ہو ئے تو ہم نے حسب عادت سب سے پہلے “ عالمی اخبار “کھولا کہ یہ ہمارا روز کا معمول ہے۔ وہاں ایک جانکاہ خبر موجود تھی کہ چودھری اسلم صاحب ایک دھماکے میں شہید ہو گئے۔ دل کو ایک دھچکا سا لگاجیسے کہ ہمارا کوئی اپنا شہید ہو گیاہو! ۔ ہونا چاہیئے تھا کہ مومن اسلامی رشتہ اخوت میں ایک دوسرے کا بھائی ہے۔
جبکہ اب زمانہ یہ ہےکہ کوئی کسی کا بھائی نہیں؟ اتنے مسلمان کبھی غیر مسلموں نے نہیں مارے جتنے کہ مسلمان، مسلمانوں نے پورے عالم اسلام میں پچھلے چند سالوں مارے ہیں۔ ہمارے لیے یہ عجیب بات یوں بھی تھی کہ جب پورا پاکستان پنجابی سندھی ،مہاجر، پٹھان اوربلوچوں میں بٹا ہوا ہے ہم ابھی تک قدامت پسند ہیں؟ اس کے بجائے ہم اگر شدت پسند ہو تے تو دودھ میں نہ سہی کم ازکم تیل میں تو نہاتے؟ ہم نے بہت سوچا کہ نہ تو ہم سے انکی کوئی رشتہ داری تھی نہ کبھی ان سے ملا قات ہوئی نہ ہمارے صوبے کے تھے پھر اس اپنا ئیت کی وجہ؟ غور کیا تو ایک بات سمجھ میں آئی وہ تھا انکا کردار کیونکہ یہ ہم میڈیا اور عوام کے ذریعہ سے جانتے تھے کہ وہ ایک انتہائی ذمہ دار آفیسر تھے۔ اور ان کو یہ الفاظ بار بار دہراتے سنا تھا ۔ کہ “ میں ان شدت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھونگا جوکہ بچوں کو یتیم بنا تے ہیں خواتین کو بیوہ کرتے ہیں، بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں اور ہر مومن کی طرح شہادت میرا مشن ہے، چاہے اس میں میری جان چلی جائے میں ہار نہیں مانونگا“
یہ الفاظ اس پولس آفیسر کے ہیں جو کہ مانسہرہ ( صوبہ پختون خواہ) میں پیدا ہوا اور کراچی کے عوام کا سکون بحال کرنے کے لیےجان دی۔ جبکہ وہاں کے بارے میں ہم میں سے بہت سے سمجھتے ہیں کہ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی جہادی موجود ہے۔ جس کو انہوں نے جان دیکر غلط ثابت کر دیا کہ نہیں وہاں ان جیسے حب الوطن بھی موجود ہیں اور کراچی کے امن اور سکون کے جان دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں میڈیا سے ہی پتہ چلا کہ وہ آج صبح بھی تین شدت پسندوں کو ہلاک کرکے ٹی وی پرآئے تھے اور اسی عزم کو دہرا یا تھا ؟ ہاں! آج اس میں ایک اضافہ ضرور تھا جو کوئی غیر مرئی طاقت یا چھٹی حس ان سے کہلا رہی تھی کہ میں اگر مر جاؤں تو بھی ان شدت پسندوں کی جان نہیں چھوڑونگا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا شہادت میری منزل ہے۔“انہوں نے اس طبقہ سے شدید جنگ کی با لآخر اپنی منزل پالی۔ ان کی کراچی پولس میں اہمیت کیا تھی کوئی ان کا خلاء پر کرسکے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتا ئے گا۔
مگر ان جیسے مرد روز نہیں، کبھی کبھی پیدا ہو تے ہیں اور کہیں کہیں ہو تے ہیں ۔ وہ ان پیغامات سے ظاہر ہےجو ہر مکتبہ فکر سے آرہے ہیں ؟ حاضر صدر کا پیغام سابق صدر جناب زرادری کا پیغام، وزیر اعظم کا پیغام ، اور سابقہ وزرائے اعظم کے پیغامات حتیٰ کہ الطاف بھائی کا پیغام جناب عمران خان کا پیغام اور نئے ابھرتے ہو ئے لیڈر بلاول بھٹوکا پیغام۔ یہ سب ان کا مسلمان اور پاکستانی ہو نا ثابت کرتا ہے کہ وہ کسی کے نہیں تھے، صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی تھےاور جو بھی ان کا سا کردار اپنا لے مرنے کے بعد بھی وہ زندہ رہتا ہے؟ آدمی دولت یا آدمیوں سے بڑا نہیں ہوتا محلوں سے بڑا نہیں ہو تا صرف کر دار سے بڑا ہو تا ، اس کے لیے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وہ جو کچھ بھی بنے اپنے کردار کی وجہ سے بنے ۔
بیچ میں انہیں ایک دھچکہ بھی لگا کہ ہمارے ہاں یہ نہیں دیکھا جاتا بعض اوقات کہ کون کیا ہے ۔ ان کی تنزلی کردی گئی۔ کہ انہیں خلاف ٹرن ترقی دے دیدی گئی ہے ،مگر وہ پھر بھی بد دل نہیں ہوئے جو عام طور پہ لو گ ہو جاتے ہیں۔ دراصل عہدہ اتنا اہم نہیں ہو تا جتنا کہ کام اہم ہو تاہے؟ ایک ہندی کہاوت ہے کہ چام پیارا یا کام پیارا؟ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ظاہری خوبصورتی پیاری نہیں ہو تی کام زیادہ پیا را ہو تاہے۔ کاش کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی راہنما اس سے سبق سیکھ لیں تو وہ بھی آنکوں کے تارے بن سکتے ہیں؟
وہ اپنی قسم کےآپ پو لیس آفیسر تھے۔ جو دفتر میں بیٹھ کر حکم چلانا ہی نہیں جانتے تھے بلکہ وہ اس کے بر عکس ہر وقت اپنے ماتحتوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتے تھے ۔ ورنہ ہمارے یہاں پولس کی روش کچھ اور ہوتی ہے۔ ہم ایک واقعہ کے خود گواہ ہیں کہ ایک جگہ ہم نے دو پولس والوں کو جھگڑتے دیکھا تو ہم نے پو چھا بھائی کیا ماجرا ہے؟ سب انسپکٹر کہنے لگا کہ یہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ جہاں جھگڑے کا خطرح ہے وہاں آپ بھی چلیں اورہمارے ساتھ رہیں؟ تو میں نے کہا کہ اس میں کا حرج ہے ؟ کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے ہیں کہ پولیس زیادہ بزدل کوئی نہیں ہوتا ۔ کہ میں اپنی جان چھڑا رہا ہوں یہ اور مجھے اپنے ساتھ گھسیٹ رہے ہیں ؟
جیسا کہ ان کے عملہ سے معلوم ہوا کہ ہماری روایتی پولس سے وہ قطعی مختلف تھے۔ اس لیے ان کا عملہ بھی ان پر جان دیتا تھا کیونکہ ان پر جان دینے کو وہ ہر قدم پر ساتھ ہوتے تھے؟ جبکہ ان کی ازدواجی زندگی میں بھی وہی بات نظر تی ہے کہ ان کی بیگم نورین صاحبہ جب میڈیا پر آئیں تو ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا مگر وہ ایک شہید کی بیوی کے طرح با وقار طریقہ سے پیش ہو ئیں، جسے کہ ایک شہید کی بیوی کو ہو نا چا ہیے تھا۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ان کی شخصیت پارس تھی جس نے چھوا سونا بن گیا جو اس سے ثابت ہے کہ وہ انہیں بھی اپنے سانچے میں ڈھال چکے تھے۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہو ئے حکومت سندھ نے جو دوکروڑ روپیہ ان کی بیوہ کو دینے کااعلان کیا ہے ۔ اسے دیکھ کر حاتم بھی یقینا ً شرما گیا ہوگا کہ ایک شدت پسند کے سر کی قیمت تو کروڑوں ڈالر تک بعض اوقات جاتے دیکھی۔ مگر ایک فرض شناس شہید کی جان کا معاوضہ صرف دو کڑوڑ؟جو کہ آسانی کے ساتھ اس رینک کاایک پولس افسر کراچی میں اپنی بد دیانتی سے ایک گھنٹے میں کما سکتا ہے ۔ اسے کہتے ہیں انصاف ؟
آخر میں اب حسب ِ عادت میڈیا سے بات کرونگا کہ خفیہ پولس کا مقصد خفیہ رہنا ہی ہو تا ہے ان کو اسی طرح برتنا چا ہیئے ۔ ان کو نہ میڈیا پر اپنی محافل سجانے کے لیے بلا نا چا ہے نہ جعلی نمبر پلیٹوں پر اعتراض ہو نا چاہیے اور نہ ان کی رنگین شیشے لگی گاڑیوں پر ۔ یہ سب چیزیں آپکی ریٹینگ بڑھانےکا با عث تو ہوسکتی ہیں مگر ان کے لیے جان لیوا ہو تی ہیں؟ ان کی وجہ شہادت کے بارے میں بھی متعدد بیانات ہیں پہلے کہا گیا کہ دو آدمی تھی جو ایک کار میں تھے جو پھٹ پڑے ۔اور ان کی شہادت کا با عث ہو ئے پھر کہانی بدلی نیلے ڈرم میں آتشگیر مادہ تھا اور اسے ریموٹ کنترول سے اڑادیا گیا ۔ جبکہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے کہ اس میں شاید کچھ گھر کے بھیدی بھی شامل تھے جنہوں نےان کے راستے سے انہیں با خبر کیا، اور کون جانے آگے کیا ہو۔ کیونکہ وہاں آجتک وجہ ِموت کے بارے میں کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی کا معمہ بھی حل نہیں ہو سکا ۔ اس کے لیے پاکستان نے اقوام متحدہ اور لندن کے سکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی بلا کر دیکھ لیا، مگر وہ پاکستان آکر ناکام ہی رہے۔
بس ہم مرحوم کے بارے میں یہ ہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فر ما ئے اور دوسروں کو ان جیسا فرض شناس ہو نے کی تو فیق اور ان کے لواقین کو صبر جمیل عطا فر ما ئے( آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے