آج امت ِ مسلمہ میں سب سے بڑی ضرورت جس چیز کی ہے وہ ہے اتحادجو کہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، کیا ملت ہمیشہ سے ہی ایسی تھی! قر آن کہتا ہے نہیں،تاریخ کہتی ہے نہیں۔ ؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ حضور (ص) کو مخاطب کرکے فرما تا ہے کہ“ تم اگر سارے جہان کی دولت بھی خرچ کردیتے تو بھی یہ الفت پیدا نہیں ہوسکتی تھی جو کہ ہم نے تمہارے دلوں میں ڈالدی “ وہ تبدیلی کیا تھی جس کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن پاک میں سراہا ہے؟ اسے واضح کرنے کے لیے صرف تاریخ سے دو واقعات پش کر تا ہوں۔ پہلا تو یہ کہ مکہ معظمہ سے مدینہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو آنے کی دعوت اور جب وہ آگئے تو ہر ایک نے ایک دو دن نہیں مہینوں ان کی میزبانی کی، پھر حضور (ص) نے اپنی آمد کے بعد مہاجر اور انصار کے در میان مواخات قائم کردی یعنی مہاجر خاندان کو دوسرے انصار خاندان کے ساتھ اس طرح جو ڑ دیا کہ وہ سگے بھائیوں سے بڑھ کر شیر وشکر ہوگئے اور یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک چلا ۔انصار(رض) نے بغیر کسی دبا ؤکے ہر چیز آپس میں نصف بانٹ لی، یہ نصف انصار بھائی نے اپنے مہاجر بھائی کو نہ صرف بخوشی دیدی بلکہ مہاجر بھائی کوحق دیا کہ یہ دو حصے ایک جیسے ہم نے کر دیئے ہیں تم پہلے پسند کرلو کہ تمہیں کونسا چا ہیئے ہے؟
اب مہاجرین (رض) کی حمیت دیکھئے کہ جو واقعی مفلوک الحال تھے انہوں (رض) نے تو اس میں سے کچھ قبول کر لیا، لیکن جنہیں کوئی ہنر آتا تھا انہوں نے کہا کہ نہیں ! ہمیں کچھ نہیں چاہیئے صرف بازار دکھادو یعنی ہمیں بازار میں روشناس کرادو ؟ چونکہ اکثریت ایسی تھی کہ جن کے کپڑے تک کفار مکہ نے اتروالیئے تھے تب ان کویہاں آنے دیا تھا لہذا اکثریت نے کچھ نہ کچھ قبول کیا جن میں جائداد ِ منقولہ اور غیر منقولہ دونوں شامل تھیں؟ وہ مہاجروں (رض)کے پاس چار سال تک رہیں جب غزوات سے مال ِ غنیمت آنا شروع ہوااور اس سے انکی گزر بسر کاسامان ہواتو انہوں(رض) نے حضور (ص) کے حکم پرواپس کیں۔
دوسرا واقعہ غزوہ احد کا ہے کہ وہاں جنگ کے دوران مسلم تیر اندازوں کی اکثریت نے حضور (ص) کی نا فرمانی کی نتیجہ یہ ہوا کہ فتح، شکست میں بدل گئی۔ اور ٧٢ انصار (رض) و مہاجر (رض) شہید ہو ئے۔ جبکہ لا تعداد زخمی ہو ئے میدان میں پڑے ہوئے تھے اور پیاس سے نڈھال تھے۔ ایک صحابی (رض)جو پانی پلا رہے تھے وہ ایک آواز کی طرف بڑھے اسے پانی پیش کیا کہ اتنے میں دوسرے کی آواز آئی! پہلے والے نے پانی کابرتن لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ پہلے میرے بھائی کو دو ؟ اور یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے چلتا ہوا سات لب ِ دم پیاسوں تک گیا جب وہ ساتویں کے پاس پہونچے تو وہ شہید ہوچکے تھے(رض) ۔ وہ (رض) جب پلٹے اور ہر ایک کے پاس پہونچے تودیکھا کہ وہ سب کے سب شہید ہو چکے ہیں۔( رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین)
یہ فرشتہ صفت لوگ کون تھے؟ کیا یہ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے اس کا جواب تاریخ پھر دیتی ہے، نہیں! ان میں مہاجر بھی وہ تھے جو ایمان لانے سے پہلے ایک ہی باپ دادا کی اولاد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے ، بات بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور قتل اور غارت گری کابازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسرے اپنےمہاجربھائیوں (رض) مدد کرنے کر نے کی وجہ سے جو انصار (رض) کہلا ئے وہ بھی کوئی آسمانی مخلوق تھے! اس کاجواب بھی تاریخ میں نفی میں ہے؟ یہ بھی نوح ٰ(ع) کے صاحبزادے حضرت سام (ع) کی اولاد تھے حضرت ہود (ع) کی امت تھے۔ جب یمن میں نافرمانیاں بڑھیں اور عذاب کے آثار ظاہرہو ئے تو تین قبیلے وہاں سے نقل مکانی کرکے اس طرف آئے ایک مکہ کے اطرف میں ٹھہر گیا اور دو یثرب میں آکر آباد ہو گئے، جن میں سے ایک کانام اوس اور دوسرے کاخزرج تھا۔ جبکہ یہودی یہاں پہلے ہی سے آباد تھے۔ وہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر تے اور لڑاتے رہتے اور یہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہتے۔ اوس مکہ گئے تھے اپنا ایک قضیہ چکانے کے سلسلہ میں لیکن وہ وہاں سے اسلام لیکر لوٹے ؟ مگروہ دور بدامنی کا دور تھا ان میں سے دو اشخاص جو اسلام سےمتاثر ہو ئے تھے وہ خزرج کے ہاتھوں شہید ہو گئے مگر اسلام ان کے ذریعہ مدینہ منورہ میں پہونچ گیا ۔ اس مارکے کے بعد خزرج کو ان کے انتقام کا ڈر ہوا تو وہ اپنی مدد کے لیے کفارَ مکہ کے پاس گئے؟ مگروہاں ابو جہل نے انہیں ٹکا سا جواب دیدیا حضور (ص)کو جب پتہ چلا توان کے پاس تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے نتیجہ میں ان کے یہاں اسلام پہونچا اور بعد میں یہ حضور (ص) کے تزکیہ نفس کا کمال تھا کہ وہ دونوں قبائیل بھی شیکر و شکر ہو گئے اور مہاجر بھی شیر شکر ہو گئے، سوائے تھوڑے سے منافقوں کے۔ یہ صرف خدا کے وجود پر یقین اور حضور (ص) کی اس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ً جو تم اپنے لیے چاہو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی چاہو؟ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان مٹھی بھر لوگوں (رض) کو دنیا کا پیشوا کئی نسلوں تک بنا ئے رکھا؟
حتیٰ کہ وہ طبقہ جس (رض) کی تربیت حضور (ص) نےکی تھی ان کی اکثریت یاتو بوڑھی ہوکر غیر موثر ہوگئی یا اللہ کو پیاری ہو گئی۔ دولت اور حکومت نئی نسل میں وہ تمام خرابیاں واپس لے آئی جو ان میں پہلے تھیں اور وہ اللہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ پھر سے ایک دوسرے کی جان ، مال، عزت اور ناموس کے دشمن ہوگئے جو کہ مسلمان ہو نےکے ناطے اللہ اور اس کے رسول (ص)نے حرام کی تھیں۔ ایک جماعت جن کی قیادت حفاظ کر رہے تھے پہلے صوبوں کے گورنروں اور حضرت عثمان (رض) کے داماد اور سکریٹری مروان بن الحکم کے خلاف شکایتیں لے لیکر آئی، جو سازشوں کی وجہ دور نہ ہوسکیں؟ وہ نا امید ہوئے تو خود مذہبی جنون میں مبتلا ہو گئے جوکہ بعد میں تاریخ میں خارجی کہلائے؟ وہ اس حد تک چلے گئے کہ اپنے علا وہ کسی اور کو مسلمان ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔اور انہوں نے بھی آج کی طرح لوٹ مار، قتل اور غارت گری کا بازار مدتوں تک گرم کیے رکھا؟
میرا یہاں تاریخ دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں یہ ادراک پیدا ہو کہ ہم جتنے خدا سے دور ہوتے جا ئیں گے اتنے ہی مشکلات میں گھر تے جا ئیں گے اور اجتماعی سزا کے مستحق ہونگے کیونکہ خدا اور رسول (ص) سے دوری عذاب کا مستحق قرار دیتی ہے اور جب عذاب آتا ہے تو اس کی لپیٹ میں خاموش تمشائی بھی آجاتے ہیں۔ جو سبق ہے پچھلی قوموں کے حالات میں اورغزوہ احد میں ؟ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) نے ہمیں پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ یہ جوکچھ تم میں تبدیلی آئی وہ تقویٰ یعنی خوف ِ خدا کی وجہ سے ہے۔ اور خوف خدا اس عقیدے کی بنا پر قائم رہتا ہے کہ اللہ حاضرو نا ظر ، خبیر اور بصیر ہے؟ جہاں یہ نظریہ کمزور پڑا اور یہ گھمنڈ دوسری قوموں کی طرح آیا کے ہم اللہ کے مخصو ص بندے ہیں جو چاہیں کریں؟ تو تم میں وہ تمام خرابیاں آجائیں گی جو ان میں تھیں ۔ پھر تم بھی سابقہ امتوں کی طرح زیر ِ عذاب آجا ؤگے یعنی تکڑیوں میں بنٹ کر آپس میں لڑ نے کے عزاب میں مبتلا کر دیے جاؤگے ،تمہاری دعائیں بے اثر ہونگی تمہاری فریاد بے اثر ہو گی اور اسی قعر مذلت میں جاگروگے جس میں پہلے گمراہ قومیں گریں ۔ آج ہم بھی اسی دور سے گزر رہے ہیں ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں نہ مسجدیں محفوط ہیں نہ درگاہیں محفوظ نہ امام با رگاہیں ، محفوظ ہیں۔ نہ سڑک اور بازار محفوظ نہ گھر محفوظ؟
اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو ؟ پہلے صرف ہمارے دو فرقے اغیار نے لڑائے وہ تھے اہل ِ تشیع اور سنی اب اتنے فرقے ہیں جن کی تعداد ہی معلوم نہیں ہر ایک کا اپنا اسلام ہے۔ ایسے موقعہ پر کیا ، کیاجا ئے؟ جواب قر آن دیتا ہے کہ اللہ اور رسول (ص) کی طرف لوٹو؟ اور اس کے لیے وہی طریقہ اپنالو جو اسلام آنے پر تھا کہ سب کو اپنے راستہ پر رہنے دو اور ان سے کہو کہ تم سب اس پر تو متفق ہو جاؤ جس پر سب کا اتفاق ہے ؟کیونکہ یہ ہی راستہ اس وقت جب واسطہ اہل ِ کتاب سے تھا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ! نےدکھایا تھا کہ ً اے نبی! آپ اہلِ کتاب سے فرما دیجئے کہ تم ان تعلیمات پر تو متفق ہو جاؤ جو ہم اور تم میں مشترک ہیں۔ یہ ہی ہم اب اپنے مسلمان بھائیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ان بنیادیات پر تو متفق ہو جاؤ جو ہم میں اور تم میں مشترک ہیں۔
گزشتہ صدی میں اس کی مثال علامہ خیمینی (رح) کے یہاں ملتی ہے کہ ا نہوں نے پہلی دفعہ اہل ِ تشیع کو کہا کہ تم ہر مسجد میں ہر ایک کے پیچھے نماز پڑھے سکتے ہو جو انکے ہاں آسان بات نہ تھی مگر انہوں نے جراءت دکھائی؟ دوسری بات تاریخ کے بارے میں تھی کہ سنی ١٢ ربیع الاول کو حضور (ص) کی پیدا ئش کادن منا تے ہیں اور اہلِ تشیع ١٧ربیع الاول کو مناتے ہیں۔خمینی صاحب (رح)نے کہا کہ چلو پورا ہفتہ ہی منا لیتے ہیں۔ اس سال یہ بات خوش آئند ہے کہ نہ جانے کس کی کوششوں سے عید ِمیلاد النبی کا اعلان پاکستان میں توپوں کی سلامی سے ہوا اور اس فعل پر سے بدعت کی تہمت ہٹی ، پرامن جلوس نکلے جلسے ہوئے سب نے نعتیں پڑھیں انہوں نے بھی جنہوں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی تھیں، اس دن امن رہاجوکہ پاکستان میں پچھلے کئی عشروں سے ناپید تھا؟ ورنہ کہیں نہ کہیں ایک آدھ بم عید ِ میلاد النبی پر پھٹ ہی جا تا تھا۔ چونکہ میں وطن ِ عزیز سے بہت دور ہوں میں نہیں جانتا کہ یہ کس کی کوششوں سے ممکن ہوا اورکس کی پالیسی کی وجہ سے ہوا؟ بظاہر اس کا کریڈٹ موجودہ قیادت کو ہی جا ئے گا کیونکہ وہ برسر ِ اقتدار ہے مگر اس سے ایک بات ظاہر ہو گئی کہ اس کا کوئی بٹن کہیں نہ کہیں موجود ہے جس تک حکومت پہونچ گئی ہے؟ وہ چاہے تو امن قائم ہو سکتا ہے؟ اللہ ہم کو سب توبہ کی توفیق دے تاکہ ہم کو ہدایت ملے اور یہ عذاب ٹلے (آمین)
آج امت ِ مسلمہ میں سب سے بڑی ضرورت جس چیز کی ہے وہ ہے اتحادجو کہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، کیا ملت ہمیشہ سے ہی ایسی تھی! قر آن کہتا ہے نہیں،تاریخ کہتی ہے نہیں۔ ؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ حضور (ص) کو مخاطب کرکے فرما تا ہے کہ“ تم اگر سارے جہان کی دولت بھی خرچ کردیتے تو بھی یہ الفت پیدا نہیں ہوسکتی تھی جو کہ ہم نے تمہارے دلوں میں ڈالدی “ وہ تبدیلی کیا تھی جس کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن پاک میں سراہا ہے؟ اسے واضح کرنے کے لیے صرف تاریخ سے دو واقعات پش کر تا ہوں۔ پہلا تو یہ کہ مکہ معظمہ سے مدینہ کے لوگوں نے مسلمانوں کو آنے کی دعوت اور جب وہ آگئے تو ہر ایک نے ایک دو دن نہیں مہینوں ان کی میزبانی کی، پھر حضور (ص) نے اپنی آمد کے بعد مہاجر اور انصار کے در میان مواخات قائم کردی یعنی مہاجر خاندان کو دوسرے انصار خاندان کے ساتھ اس طرح جو ڑ دیا کہ وہ سگے بھائیوں سے بڑھ کر شیر وشکر ہوگئے اور یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک چلا ۔انصار(رض) نے بغیر کسی دبا ؤکے ہر چیز آپس میں نصف بانٹ لی، یہ نصف انصار بھائی نے اپنے مہاجر بھائی کو نہ صرف بخوشی دیدی بلکہ مہاجر بھائی کوحق دیا کہ یہ دو حصے ایک جیسے ہم نے کر دیئے ہیں تم پہلے پسند کرلو کہ تمہیں کونسا چا ہیئے ہے؟
اب مہاجرین (رض) کی حمیت دیکھئے کہ جو واقعی مفلوک الحال تھے انہوں (رض) نے تو اس میں سے کچھ قبول کر لیا، لیکن جنہیں کوئی ہنر آتا تھا انہوں نے کہا کہ نہیں ! ہمیں کچھ نہیں چاہیئے صرف بازار دکھادو یعنی ہمیں بازار میں روشناس کرادو ؟ چونکہ اکثریت ایسی تھی کہ جن کے کپڑے تک کفار مکہ نے اتروالیئے تھے تب ان کویہاں آنے دیا تھا لہذا اکثریت نے کچھ نہ کچھ قبول کیا جن میں جائداد ِ منقولہ اور غیر منقولہ دونوں شامل تھیں؟ وہ مہاجروں (رض)کے پاس چار سال تک رہیں جب غزوات سے مال ِ غنیمت آنا شروع ہوااور اس سے انکی گزر بسر کاسامان ہواتو انہوں(رض) نے حضور (ص) کے حکم پرواپس کیں۔
دوسرا واقعہ غزوہ احد کا ہے کہ وہاں جنگ کے دوران مسلم تیر اندازوں کی اکثریت نے حضور (ص) کی نا فرمانی کی نتیجہ یہ ہوا کہ فتح، شکست میں بدل گئی۔ اور ٧٢ انصار (رض) و مہاجر (رض) شہید ہو ئے۔ جبکہ لا تعداد زخمی ہو ئے میدان میں پڑے ہوئے تھے اور پیاس سے نڈھال تھے۔ ایک صحابی (رض)جو پانی پلا رہے تھے وہ ایک آواز کی طرف بڑھے اسے پانی پیش کیا کہ اتنے میں دوسرے کی آواز آئی! پہلے والے نے پانی کابرتن لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ پہلے میرے بھائی کو دو ؟ اور یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے چلتا ہوا سات لب ِ دم پیاسوں تک گیا جب وہ ساتویں کے پاس پہونچے تو وہ شہید ہوچکے تھے(رض) ۔ وہ (رض) جب پلٹے اور ہر ایک کے پاس پہونچے تودیکھا کہ وہ سب کے سب شہید ہو چکے ہیں۔( رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین)
یہ فرشتہ صفت لوگ کون تھے؟ کیا یہ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے اس کا جواب تاریخ پھر دیتی ہے، نہیں! ان میں مہاجر بھی وہ تھے جو ایمان لانے سے پہلے ایک ہی باپ دادا کی اولاد ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے ، بات بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور قتل اور غارت گری کابازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسرے اپنےمہاجربھائیوں (رض) مدد کرنے کر نے کی وجہ سے جو انصار (رض) کہلا ئے وہ بھی کوئی آسمانی مخلوق تھے! اس کاجواب بھی تاریخ میں نفی میں ہے؟ یہ بھی نوح ٰ(ع) کے صاحبزادے حضرت سام (ع) کی اولاد تھے حضرت ہود (ع) کی امت تھے۔ جب یمن میں نافرمانیاں بڑھیں اور عذاب کے آثار ظاہرہو ئے تو تین قبیلے وہاں سے نقل مکانی کرکے اس طرف آئے ایک مکہ کے اطرف میں ٹھہر گیا اور دو یثرب میں آکر آباد ہو گئے، جن میں سے ایک کانام اوس اور دوسرے کاخزرج تھا۔ جبکہ یہودی یہاں پہلے ہی سے آباد تھے۔ وہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر تے اور لڑاتے رہتے اور یہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہتے۔ اوس مکہ گئے تھے اپنا ایک قضیہ چکانے کے سلسلہ میں لیکن وہ وہاں سے اسلام لیکر لوٹے ؟ مگروہ دور بدامنی کا دور تھا ان میں سے دو اشخاص جو اسلام سےمتاثر ہو ئے تھے وہ خزرج کے ہاتھوں شہید ہو گئے مگر اسلام ان کے ذریعہ مدینہ منورہ میں پہونچ گیا ۔ اس مارکے کے بعد خزرج کو ان کے انتقام کا ڈر ہوا تو وہ اپنی مدد کے لیے کفارَ مکہ کے پاس گئے؟ مگروہاں ابو جہل نے انہیں ٹکا سا جواب دیدیا حضور (ص)کو جب پتہ چلا توان کے پاس تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے نتیجہ میں ان کے یہاں اسلام پہونچا اور بعد میں یہ حضور (ص) کے تزکیہ نفس کا کمال تھا کہ وہ دونوں قبائیل بھی شیکر و شکر ہو گئے اور مہاجر بھی شیر شکر ہو گئے، سوائے تھوڑے سے منافقوں کے۔ یہ صرف خدا کے وجود پر یقین اور حضور (ص) کی اس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ً جو تم اپنے لیے چاہو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی چاہو؟ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان مٹھی بھر لوگوں (رض) کو دنیا کا پیشوا کئی نسلوں تک بنا ئے رکھا؟
حتیٰ کہ وہ طبقہ جس (رض) کی تربیت حضور (ص) نےکی تھی ان کی اکثریت یاتو بوڑھی ہوکر غیر موثر ہوگئی یا اللہ کو پیاری ہو گئی۔ دولت اور حکومت نئی نسل میں وہ تمام خرابیاں واپس لے آئی جو ان میں پہلے تھیں اور وہ اللہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ پھر سے ایک دوسرے کی جان ، مال، عزت اور ناموس کے دشمن ہوگئے جو کہ مسلمان ہو نےکے ناطے اللہ اور اس کے رسول (ص)نے حرام کی تھیں۔ ایک جماعت جن کی قیادت حفاظ کر رہے تھے پہلے صوبوں کے گورنروں اور حضرت عثمان (رض) کے داماد اور سکریٹری مروان بن الحکم کے خلاف شکایتیں لے لیکر آئی، جو سازشوں کی وجہ دور نہ ہوسکیں؟ وہ نا امید ہوئے تو خود مذہبی جنون میں مبتلا ہو گئے جوکہ بعد میں تاریخ میں خارجی کہلائے؟ وہ اس حد تک چلے گئے کہ اپنے علا وہ کسی اور کو مسلمان ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔اور انہوں نے بھی آج کی طرح لوٹ مار، قتل اور غارت گری کا بازار مدتوں تک گرم کیے رکھا؟
میرا یہاں تاریخ دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں یہ ادراک پیدا ہو کہ ہم جتنے خدا سے دور ہوتے جا ئیں گے اتنے ہی مشکلات میں گھر تے جا ئیں گے اور اجتماعی سزا کے مستحق ہونگے کیونکہ خدا اور رسول (ص) سے دوری عذاب کا مستحق قرار دیتی ہے اور جب عذاب آتا ہے تو اس کی لپیٹ میں خاموش تمشائی بھی آجاتے ہیں۔ جو سبق ہے پچھلی قوموں کے حالات میں اورغزوہ احد میں ؟ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) نے ہمیں پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ یہ جوکچھ تم میں تبدیلی آئی وہ تقویٰ یعنی خوف ِ خدا کی وجہ سے ہے۔ اور خوف خدا اس عقیدے کی بنا پر قائم رہتا ہے کہ اللہ حاضرو نا ظر ، خبیر اور بصیر ہے؟ جہاں یہ نظریہ کمزور پڑا اور یہ گھمنڈ دوسری قوموں کی طرح آیا کے ہم اللہ کے مخصو ص بندے ہیں جو چاہیں کریں؟ تو تم میں وہ تمام خرابیاں آجائیں گی جو ان میں تھیں ۔ پھر تم بھی سابقہ امتوں کی طرح زیر ِ عذاب آجا ؤگے یعنی تکڑیوں میں بنٹ کر آپس میں لڑ نے کے عزاب میں مبتلا کر دیے جاؤگے ،تمہاری دعائیں بے اثر ہونگی تمہاری فریاد بے اثر ہو گی اور اسی قعر مذلت میں جاگروگے جس میں پہلے گمراہ قومیں گریں ۔ آج ہم بھی اسی دور سے گزر رہے ہیں ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں نہ مسجدیں محفوط ہیں نہ درگاہیں محفوظ نہ امام با رگاہیں ، محفوظ ہیں۔ نہ سڑک اور بازار محفوظ نہ گھر محفوظ؟
اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو ؟ پہلے صرف ہمارے دو فرقے اغیار نے لڑائے وہ تھے اہل ِ تشیع اور سنی اب اتنے فرقے ہیں جن کی تعداد ہی معلوم نہیں ہر ایک کا اپنا اسلام ہے۔ ایسے موقعہ پر کیا ، کیاجا ئے؟ جواب قر آن دیتا ہے کہ اللہ اور رسول (ص) کی طرف لوٹو؟ اور اس کے لیے وہی طریقہ اپنالو جو اسلام آنے پر تھا کہ سب کو اپنے راستہ پر رہنے دو اور ان سے کہو کہ تم سب اس پر تو متفق ہو جاؤ جس پر سب کا اتفاق ہے ؟کیونکہ یہ ہی راستہ اس وقت جب واسطہ اہل ِ کتاب سے تھا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ ! نےدکھایا تھا کہ ً اے نبی! آپ اہلِ کتاب سے فرما دیجئے کہ تم ان تعلیمات پر تو متفق ہو جاؤ جو ہم اور تم میں مشترک ہیں۔ یہ ہی ہم اب اپنے مسلمان بھائیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ان بنیادیات پر تو متفق ہو جاؤ جو ہم میں اور تم میں مشترک ہیں۔
گزشتہ صدی میں اس کی مثال علامہ خیمینی (رح) کے یہاں ملتی ہے کہ ا نہوں نے پہلی دفعہ اہل ِ تشیع کو کہا کہ تم ہر مسجد میں ہر ایک کے پیچھے نماز پڑھے سکتے ہو جو انکے ہاں آسان بات نہ تھی مگر انہوں نے جراءت دکھائی؟ دوسری بات تاریخ کے بارے میں تھی کہ سنی ١٢ ربیع الاول کو حضور (ص) کی پیدا ئش کادن منا تے ہیں اور اہلِ تشیع ١٧ربیع الاول کو مناتے ہیں۔خمینی صاحب (رح)نے کہا کہ چلو پورا ہفتہ ہی منا لیتے ہیں۔ اس سال یہ بات خوش آئند ہے کہ نہ جانے کس کی کوششوں سے عید ِمیلاد النبی کا اعلان پاکستان میں توپوں کی سلامی سے ہوا اور اس فعل پر سے بدعت کی تہمت ہٹی ، پرامن جلوس نکلے جلسے ہوئے سب نے نعتیں پڑھیں انہوں نے بھی جنہوں نے پہلے کبھی نہیں پڑھی تھیں، اس دن امن رہاجوکہ پاکستان میں پچھلے کئی عشروں سے ناپید تھا؟ ورنہ کہیں نہ کہیں ایک آدھ بم عید ِ میلاد النبی پر پھٹ ہی جا تا تھا۔ چونکہ میں وطن ِ عزیز سے بہت دور ہوں میں نہیں جانتا کہ یہ کس کی کوششوں سے ممکن ہوا اورکس کی پالیسی کی وجہ سے ہوا؟ بظاہر اس کا کریڈٹ موجودہ قیادت کو ہی جا ئے گا کیونکہ وہ برسر ِ اقتدار ہے مگر اس سے ایک بات ظاہر ہو گئی کہ اس کا کوئی بٹن کہیں نہ کہیں موجود ہے جس تک حکومت پہونچ گئی ہے؟ وہ چاہے تو امن قائم ہو سکتا ہے؟ اللہ ہم کو سب توبہ کی توفیق دے تاکہ ہم کو ہدایت ملے اور یہ عذاب ٹلے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے