بنے اخبار کی کل جو خبر تھے ۔۔۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم کو ً مذاکرات یاقوم کے ساتھ مذاق کا ً عنوان دیا تھا۔ جس پر پہلے کی طرح ہمارے پڑھنے والوں کو اعتراض تھا کہ ہم ہمیشہ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں! مشکل یہ ہے کہ اگر باریک بینی سے دیکھا جا ئے تو آس اوریاس میں بڑا معمولی فرق ہے؟ جبکہ معنوں میں زمین ا ور آسامان کا فرق ہے۔ ہمارے پڑھنے والے ہم سے بھی یہ ہی چاہتے ہیں کہ ہم بغیرمعاملہ سمجھے دوسروں کی طرح بجائے سچائی کہ وہی طفل تسلیاں دیتے رہے ہیں جیسے اور دیتے ہیں ؟ اوروں کی بات اور ہے کیونکہ وہ آزاد ہیں پھر روٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ جبکہ جو اللہ کی بندگی کاطوق گلے میں ڈالے ہوئے ہو وہ آزاد کیسے ہوسکتا کیونکہ وہ اس کے قوانین کاپابند ہوتا ہے؟ کچھ خیر خواہوں کا خیال ہے کہ ایک سی بات پڑھتے پڑھتے لوگ اکتا جاتے ہیں لہذا ہمیں بدل بدل کر بات پیش کرنا چاہیئے ؟ مگر ہمارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کو مانتے ہیں جو کہ پورا نظام ِ حیات ہے اور وہ ہم سے تقاضہ کرتا ہے سورہ والعصر کے مطابق! ً پہلے خود عمل کرو پھر دوسروں کو تلقین کرو ً پھر جہاں ہم یہ مضمون پہلے لگاتے ہیں سب سے پہلے وہاں نگاہ پڑتی جہاں پر سورہ الصف کی پہلی آیت لکھی ہوئی ہے کہ “ مومنوں وہ بات کہتے کیوں ہو، جو کرتے نہیں ہو “جب اس پر نظر پڑتی ہے تو ہمیں اگلی آیت یاد آجاتی ہے کہ “ یہ بات اللہ کو سخت ناپسند ہے“ اس کے بعد ہمارے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں یا تو لوگوں کی پسند کے سانچے میں خود کوڈھا ل لیں اور سمع خراشی نہ کریں اور صرف وہی کہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں ۔ ورنہ پھر اس اکیلے کی بات مانیں جس کو ہم اپنا مالک اور خالق مانتے ہیں؟ جس نے اپنی کتابِ مقدس میں لکھاہوا ہے کہ یہ کروگے تو یہ ہوگا۔ اسی میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ میں اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا؟ یہ بھی بتا یا ہے کہ،مومن اور کافر برابر نہیں ہوسکتے؟ اور اس میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے منکر تو کافر ہیں ہی، مگر وہ بھی کافر ہیں جو اسکی راہ میں چلنے والوں کو روکیں ۔ ان تمام پابندیوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، کچھ لکھنا یاکہنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے؟ ہم نے مذاکرات کومذاق یو ں کہا تھا کہ یہ بیل ہمیں منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی ہے ؟ کیوں ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ وہ دین عملی طور پر دنیا میں کہیں نافذ نہیں ہے جوکہ حضور (ص) چودہ سو سال سے کچھ عرصہ پہلے لیکر تشریف لا ئے تھے۔ فرقے اتنے ہیں کہ ان کی تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں جو جس کے شیخ نے بتادیا وہی اسکا دین ہے ۔ اور وہی ایک دوسرے کو کافر کہہ کر قابل ِ گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ انہیں میں طالبان کے سیکڑوں گروہ شامل ہیں؟پہلے ان کی رجسٹریشن ضروری ہے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تعداد ہے کیااور کس گروہ کالیڈر کون ہے تاکہ اس پر پابندی لگائی جائے کہ اب آئندہ کوئی گروہ نہیں بنے گا۔ ورنہ یہ منافع بخش کاروبار ہے کوئی بھی تھوڑا سا سرمایہ لگا کر شروع کرسکتا ہے؟ اسکے لیے ملک پر حکومت کی گرفت ضروری ہے جو اگر ہوتی تو پھر یہ بات چیت کرنے کی نوبت ہی کیوں آتی ؟ قوم کو یہ لیل و نہار دیکھنا ہی کیوں پڑتے؟ اب دوسری صورت یہ ہے کہ جو بات کرنا چاہتے ہیں ان سے بات کی جا ئے؟ جو اب بات کر رہے ہیں، دونوں کمیٹیوں کے تازہ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ان میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ کہیں کھنچا ؤ نظر نہیں آیا ؟ یہ بات بڑی خوش آئندہے کیونکہ “ ایسی یکسانیت صرف ہم خیال لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے! اب آگے شرائط جو نظر آئیں ان میں بات چیت کا دائرہ کار “ صرف سورش زدہ علاقوں تک رکھا جائے ً اسکا فائدہ ہمیں یوں نظر نہیں آرہا ہے کہ جنہیں بات چیت میں شامل نہیں کیا جائے گا وہ بہ دستور بم پھاڑتے رہیں گے یا ان کے نام پر دوسرے گروہ بم پھاڑتے رہیں گے یعنی اِنہیں اور ا نہیں نئے میدان دئے جارہے ہیں تاکہ وہ تلاش کریں اور کھیلیں؟ اس صورت میں جن سے مذاکرات ہور ہے ہیں ان کے پاس معقول جواز ہو ہو جا ئےگا کہ یہ ہم تو نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہمارے نام پر کوئی اور کر رہا ہے۔ تو پھر مذاکرات کا فائدہ کیا؟ اور پھر وہ بھی ان سے جو اس ملک کے آئین کو نہیں مانتے وہ حکومت کو کیسے مانیں گے؟ جبکہ ملک پہلے ہی اسلامی ہے اور دستور بھی اسلامی ہے؟ مسئلہ ہے صرف دونوں فریقوں کی نیت کا؟ اگر حکمرانوں کی نیت درست ہوتی تو پاکستان کی پہلی پارلیمنٹ جو دستور ساز اسمبلی کہلاتی تھی اور قر آن کو دستور مانتی تھی وہ ناکام نہ ہو تی! وہ بھی اس ماحول میں جبکہ قوم اتنی بٹی ہوئی نہیں تھی ! اس کا ثبوت وہ قرارداد مقاصد ہے جو اب اُس دستور کا حصہ ہے جو کہ اس ملکِ بے آئین کو ذوالفقار علی بھٹو شہید نے١٩٧٣ میں دیا تھا جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ “ حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی ۔آئندہ کوئی قانون خلاف ِ قر آن اور سنت نہیں بنے گا،جو ہیں وہ دس سال کے اندر قرآن و سنت کے مطابق بنائے جائیں گے“ چالیس سال گذر گئے یہ اکتالیسواں سال چل رہا ہے۔ وہ ابھی تک نہیں تبدیل کیے گئے ۔ اگر کوئی مجبوری لاحق نہ ہوئی تو آئندہ سو سال کیا ہزاروں سال تک بھی یہ امید نہیں کہ وہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہو سکے؟ جبکہ اللہ کے سوا کسی کو حاکم ِ اعلیٰ ماننا شرک ہے اور شرک قر آن کے مطابق قابلِ معافی ہی نہیں ہے۔ جس کی سزا فرقہ واریت کی شکل میں بھگت رہےہیں۔ اللہ کے قانون کے نافذ کرنے میں جوسد ِ راہ ہو اس کو جہنم کی وعید ہے ( سورہ محمد آیت ١) اور سدَ راہ بننا یوں ضروری ہےکہ اللہ کا قانون! حیلوں، بہانوں، سیاسی چالوں ، جھوٹے وعدوں اور ہر قسم کے ظالموں کی حمایت سے روکتا ہے؟ جب کہ پاکستان کا پورا نظام ہی ایک دوسرے کی حمایت پر چل رہا ہے۔اس کے لیے ایسے حکمراں چاہیئے جو غلط کام کرتے ہو ں اور کراتے ہوں ، کھاتے ہوں کھلاتے ہوں؟ اور ظالموں کی حمایت کرتے ہوں؟ مظلوموں سے محلوں میں چھپ کر بیٹھتے ہو؟ چھیاسٹھ سال سے یہ ہی خلاءموجود ہے اور ہر ایک یہ کہہ کر آتا ہے کہ میں اسلامی نظام لا ؤنگایہ ہی وعدے اب طالبان کر رہے ہیں؟ مگر وہ بھی کسی ایسے اسلام پر متفق نہیں ہیں جو سب کے لیے قابل ِ قبول ہو۔ وہ اسلام صرف وہی ہو سکتا ہے جو حضور (ص) کے اسوہ حسنہ پر مشتمل ہو؟ جس کی قرآن یہ کہہ کر تصدیق کر رہا ہے کہ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص )کا اسوہ حسنہ کافی ہے؟ جبکہ ہم اس راستے پر چلنے کو تیار نہیں ؟ تو پھران میں آئیں گے ً جو کہتے تو ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے ًان کو قرآن نے جو نام دیا ہے وہ وہاں پڑھ لیں، میں صرف یہاں پر حضور (ص) کی ایک متفق علیہ حدیث مبارک بیش کر کے یہ بحث ختم کر تاہوں کہ،منافق کے اندر تین خصائل ہوتے ہیں (١) بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے (٢) امانت رکھی جا ئے تو خیانت کر تاہے (٣) وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا “ جس میں یہ تینوں صفات ملتی ہو ں اسے اسلامی اصطلاح میں کیاکہتے ہیں اور اس کامقام کہاں ہے؟ میں فتویٰ نہیں لگاتا کہ مفتی نہیں ہوں! آپ خود قرآ ن میں پڑھ لیجئے اور اس پر واقف ہوجائیے؟ اس سلسلہ میں مختلف تجاویز آرہی ہیں ان میں ایک سعودی میڈیا میں یہ گشت کر رہی ہے کہ امام ِ کعبہ کو پاکستان بلالو سارے مسائل حل ہو جائیں گے! ان کے آنے سے بے شک جوان کے ہم عقیدہ گروہ ہیں وہ تو موم ہو جائیں گے؟ مگر جو ان کے عقائد کو نہیں مانتے ان پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور ان کاردِ عمل کیا ہوگا؟ یہ غور طلب ہے؟ اس کا اسلامی حل یہ ہے کہ حکومت پہلے نیک نیتی کا ثبوت دے اوران دستوری دفعات کو نافذ کردے جو موجود ہیں، بقیہ قوا نین کو اسلامی بنانے کے لیے تبدیل کرنے کا اعلان کرے؟۔ پھرسب کو عام معافی دیدی جائے جو اس وقت مصروفِ پیکار ہیں اور انہیں بھی بشرط ِ توبہ!جو جیل میں ہیں رہا کر دیا جائے؟ بصورت ِ دیگر۔۔۔ اسلام فساد پیدا کرنے والوں کے خلاف تلوار اٹھانے کاحکم دیتا ہے؟ مگر وہ اس سے مشروط ہے کہ تلوار اٹھانے والے پہلے خود اسلام پر پوری طرح عامل ہوں۔ اس صورت میں پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ حکومت ایماندار ہو غیر جانبدارہو،مضبوط ہو، درپردہ کسی گروہ کی سر پرستی نہ کرتی ہو۔ ملک میں انصاف عام ہو، مجسٹریٹ اور جج خوف زدہ نہ ہوں ۔ تبھی انتشار ختم ہو گا اور امن قائم ہوسکتا ہے ؟ ورنہ میں پھر وہی بات دہراتا ہوں کہ موجودہ صورت ِ حال میں مذاکرات قوم کے ساتھ مذاق سے کم نہیں یہ خانہ پری تو ہو سکتی ہے۔ مگر اچھے نتائج بھی حاصل ہوں،طفل تسلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ہمارے سیکولر ذہن رکھنے والے مدبّر جو یہ دلیل دیتے ہیں۔ مذہب میں کوئی کشش نہیں ہے اور وہ اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ الیکش میں انہیں ووٹ انہیں پڑتے ؟ پہلے وہ سوچیں کیا ہمارا طریقہ انتخاب اتنا صاف ستھرا ہے جس پر ہم بحیثیت قوم فخر کر سکیں؟ پھر اس پر غور کریں کہ اب تک جو تحریکیں مذہب کے نام چلیں وہی کیوں کامیاب ہوئیں؟ جبکہ ان میں سے ہر ایک نے ایک ہی نعرہ لگا یا کہ ہم اسلامی نظام لا ئیں گے، بھٹوصاحب نے بھی اسلامی سوشیل ازم لانےکا نعرہ لگا یا تھا؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ہر روح نے قر آن کے مطابق اللہ کی حاکمیت کا اقرار کیا ہوا ہے؟ اوروں کی نہ سہی شاید مسلمانوں کے سمجھ میں یہ بات آجائے اور وہ ہر معاملہ میں اوروں کی نقالی چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہ دین اوروں سے قطعی مختلف ہے۔ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم سیکولر ازم کی بات تو کرتے ہوئے دوسری قوموں کے اتباع کی بات کرتے ہیں مگر ان کی اچھائیوں کی بات نہیں کرتے! مثلاً ہم جھوٹ عام بولتے ہیں وہ نہیں بولتے ۔ ہمارے یہاں عدل نہیں ہے جبکہ ان کے یہاں ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ سبحانحہ تعالیٰ ہم کو بصیرت عطا فرمائے (آمین)