فارسی کا ایک مقولہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “ جوہر کی پرکھ یا تو بادشاہ کو ہوتی ہے یاپھر جوہری کو “ جناب نواز شریف صاحب اس مرتبہ بہت سوچ، سوچ کر کھیل رہے ہیں۔ وہ اپنے گزشتہ دور میں مشرف کو بے ضرر سمجھ کر لے آئے تھے اس کا جو انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا اس نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا۔ کیونکہ وہ امیر المونین بننا چاہتے تھے جبکہ مشرف صاحب اسلام کو ماڈرن بنانا چاہتے تھے اس طرح دونوں کے قبلے علیحدہ تھے۔ نتیجہ وہی ہواجو نکلنا چا ہیئے تھا۔ کیونکہ ایک جیسے پرندوں کا غول ایک اڑسکتا ہے مگر پرندے مختلف ہوں تو بات بات پر لڑجاتے ہیں اور وزن چھوڑ دینے کی وجہ سے شکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں؟ اس مرتبہ جو کچھ انہوں نے سیکھا وہ اس سے ظاہر ہے کہ صدر چودھری فضل الٰہی جیسا لائے ۔ پھر سپہ سالار ہم خیال لائے جو اس سے ثابت ہے کہ ان میں انہوں نے کیا چیز دیکھی کہ قرعہ فال جناب راحیل شریف صاحب کے نام نکلا؟ ابھی تک جو بھی سعودی عرب جاتا تھا وہ عمرہ کرنے جا یا کرتا تھا اور کام دوسرے کرتا تھا؟ مگر یہ پہلے کمانڈر انچیف ہیں کہ عمرے کانام لینے کے بجا ئے سچ بولے اور پریس ریلیز یہ آئی کہ وہ سعودی حکمرانوں سے ملنے گئے ہیں ۔ انہیں ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے سب سے بڑے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اس طرح نواز صاحب کی پسند کو انہوں نے صاد کیا؟ یعنی با الفاظ دیگر “انہوں نے ان کی جو ہر شناسی کی داد دی“ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ میڈیا کی زینت بننا چاہیئے تھا مگر میڈیا نمعلوم وجو ہات کی بنا پر خاموش رہی حالانکہ وہ ہر بات اچھالتی ہے جس میں کوئی بھی وطن عزیز کی بڑائی ہو جو کہ عموماً ڈھونڈے سے ہی ملتی ہے؟ مگریہ اتنی بڑی بات تھی کہ اس کو جتنا بھی اچھالا جاتا وہ کم تھا، مگر یہ صرف معمولی خبر بن کر رہ گئی؟کیونکہ وہ پہلے کمانڈر انچیف ہیں جن کو کسی برادر ملک نے کنگ سعود آرڈر آف ایکسی لینس دیا ہو؟ اس سے پہلے کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ پاکستانی کمانڈر انچیف کو اتنے بڑے اعزاز سے نوازا گیا ہو؟ کوئی بات تو ایسی رہی ہو گی جو اس سے پہلے کوئی سعودی اعزاز سے نہیں نوازا گیا اور وہ بھی اتنے کم عرصہ میں بغیر آزمائے ہوئے؟ چونکہ جوہر کی قدر بادشاہ ہی جانتے ہیں یا جوہری ہم نہ ان میں نہ ان میں اس لیے ہمیں عجیب سا لگا۔ ممکن ہے پہلے ایسا کوئی ضابطہ اخلاق ہو کہ کمانڈر انچیف کو کسی غیر ملک سے ایوارڈ وصول کرنے سے روکتا ہو اور اسے موجودہ حکومت نے معطل کردیا ہو ۔جیسے کہ دستور میں امانت والی دفعہ؟ جبکہ دہری شہریت والے پاکستانیوں کو جو اربوں ڈالر بھیجتے ہیں، پاکستان کا قانون اسمبلی کی رکنیت وزارت اور اب ملازمت سے بھی روکتا ہے؟ دوسرا امکان یہ ہوسکتا تھا کہ خبر غلط ہو! مگر وہ بھی غلط نہیں ہو سکتی کہ یہ ملک کے بہت ہی معتبر اینکر جناب کامران خان نے اپنے ١١ فروری کے پروگرام میں دی ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے کئی دانشوروں کی آراءسے اس مسئلہ پر قوم کو نوازا۔ جوکہ مختلف تھیں؟ ان میں سے ایک صاحب نے کہا کہ “ ہمارے سعودی عرب سے پرانے برادرانہ تعلقات ہیں “مگر یہ نہیں بتایا کہ کب سے؟ چونکہ ہم کسی کی طرفداری کبھی نہیں کرتے اور غیر جانبدار رہتے ہیں ؟ لہذا ہم یہاں دونوں ملکو ں کے تعلقات کا پاکستان کی تاسیس سے جائزہ لیں گے تاکہ حقائق سامنے آسکیں ؟ جب پاکستان بنا تو ایک عرصہ تک تمام عرب ممالک میں سوائے عراق کے یہ تاثر تھا کہ پاکستان ایک احمدی (قادیانی) ریاست ہے لہذا سب عرب ممالک مخالف تھے ؟اس غلط فہمی کی وجہ پہلی کابینہ میں چودھری سر ظفر اللہ خان کا وزیر خارجہ ہونا اور پاکستانی سفارت خانوں کا عمل تھا ؟ اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے لیے جس ملک نے پاکستان کا نام پیش کیا وہ ایران تھا اورجس مسلم ملک نے مخالفت کی وہ افغانستان تھا؟ ان دنوں پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلق بہت ہی تلخ تھے۔ کیونکہ وہاں حشر پرپا تھا مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا، حتیٰ کہ جو پاکستان کا کچھ روپیہ نکلتا تھا وہ انڈیا نے نہیں دیا اور مہاتما گاندھی کے مرن برت کے ذریعہ ملنا ممکن ہو؟اس موقعہ پر اسوقت کے سعودی باد شاہ کابیان ریکارڈ پر ہے کہ “ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہے “ اس کے برعکس ایران وہ ملک تھا جس نے رکنیت کے لیے پاکستان کانام پیش کیا۔ پھر دونوں جنگوں میں جو کردار رہا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ جبکہ سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری لانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تھے؟ جب انہوں نے بر سرِ اقتدار آکر ١٩٧٢ میں اسلامی کانفرنس بلائی۔اور وہاں اسوقت بادشاہ جناب فیصل مرحوم تھے جو اپنی ولی عہدی کے دور میں کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں آکر رہے تھے اور پاکستان کی میزبانی دیکھ کر! پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے نیز عالمِ اسلام کا درد بھی ، ان کی شمولیت بھی اس سے مشروط تھی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے ۔ یہ شرط مانی گئی تو کہیں جاکر سعودی عرب سے دوستی کی ابتدا ہوئی ۔ پھر اس کو عروج حاصل ضیاءالحق کے زمانے میں ہوا۔ جبکہ ان کے ہم عقیدہ مدرسوں کے طالبان کو “ روس امریکہ “ جنگ میں استعمال کیا گیا۔ اس طرح ان کا اثر ورسوخ پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گیا؟ جس کا خمیازہ ہم آجکل بھگت رہے ہیں ۔ اس کے بعد جب نواز شریف حکومت کا تختہ مشرف نے الٹا تو نوازصاحب کی گلو خلاصی میں سعودی عرب نے ضامن کا کردار ادا کیا اور ان کو اپنے یہاں پناہ اور کارخانے لگانے کی سہولت دی جس کی دیکھ بھال اب ان کے ایک صاحبزادے کر رہے ہیں؟ تاریخ شاہد ہے کہ وہ مشرف کے اس مشن میں کبھی حائل نہیں ہوئے کہ وہ پاکستان میں ماڈرن اسلام لانا چاہتے تھے؟ جبکہ اپنے یہاں وہ اس قسم کے اسلام کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے ہیں؟ یہ با لکل اسی طرح ہے کہ سارے ترقی یافتہ ممالک اپنے یہاں جمہورت چاہتے ہیں مگر ترقی پزیر ملکوں کے لیے انہیں آمریت پسند ہے؟ چاہےںوہ شخصی آمریت ہو یا جمہوری ؟ جبکہ سعودی عرب کی پوری جد جہد ہمیشہ سے اس نکتہ پر مرکوز رہی ہے کہ دنیامیں انکے عقائد ترقی کریں وہ پوری دنیا پر خادم ِ حرم کے نام پر حکومت کریں اس کے لیے امہ کو بدعتی اور غیر بدعتی کی پہچان دی گئی جس سے آپس کی تفرقہ بازی نے جنم لیا وہ مہم کامیابی سے چل بھی رہی تھی کہ اس منصوبہ میں اسوقت سے ایران حائل ہو گیا جبکہ وہاں خمینی انقلاب کامیاب ہوا اور اس نے اسلامی یک جہتی پر زور دیا؟ اس سلسلہ کا ان کا پہلا قدم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ وہ ہر امام کے پیچھے اور ہر مسلک کی مسجد میں جاکر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو یہ بات عام تھی کہ ایک دوسرے کے پیچھے ہمیشہ نمازپڑھ لیتے تھے( جو کہ اب کہیں کہیں نہیں بھی پڑھتے ہیں) مگر ان کے یہاں کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنا اسوقت تک ناممکن تھا؟ اس لیے کہ وہاں ہماری طرح ہر آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا تھا اور امام کے لیے بہت سی شرائط تھیں ۔ یہ ان کی اتنی بڑی خطا تھی کہ تمام توپوں کا رخ ان کی طرف پھیر دیا گیا۔ جبکہ ان کے پاس نہ اتنی عددی قوت تھی اور نہ دنیا بھر میں مدرسوں اور مساجد کا ایسا نیٹ ورک ہے ۔ لہذاوہ اتنے کامیاب نہیں گئے جتنے کے وہابی اور سلفی ؟ جبکہ جانی نقصان ان کا زیادہ ہوا جو ہنوز جاری ہے ۔ جہاں، جہاں طالبان اپنی جدو جہد جاری رکھے ہو ئے ہیں وہ بلا تفریق سنی اور اہلِ تشیع کو بموں کے ذریعہ اڑانے پر لگے ہو ئے ہیں جبکہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی طاقت ہو نے کی وجہ سے سالوں سے ان کی جولانگاہ بنا ہواہے۔ اب جبکہ یہاں سب کچھ انہیں کا ہے اللہ پاکستان پر رحم فرما ئے (آمین) ہمیں صرف ایک تبصرہ نگار کی بات اس پروگرام میں پسند آئی وہ یہ ہے کہ پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کرادے ؟یہ بیل بھی ہمیں اس لیے منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی کہ یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ وہ کسی پر ہمیشہ یکساں مہربان نہیں رہتا، کبھی اخوان المسلمین کو لاتا ہے، خود بھی رقم دیتا ہے اور قطر سے بھی دلاتا ہے پھر وہاں وہ فوجی انقلاب لے آتا ہے؟ کیونکہ ہر قوم پرست میں یہ خرابی عام ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات دیکھتا ہے، سوائے ہمارے مدبریں کے ،کہ وہ دوسروں کا زیادہ اپنا کم خیال رکھتے ہیں ۔ یعنی ہمیشہ دوسروں کے لیے قر بانی دیتے ہیں اور خوشی کے ساتھ قر بانی کا بکر ا بنتے ہیں ۔ خدا جانے وہ دن کب آئے گا کہ ہم اپنے ذاتی مفادات تج کر اپنے قومی مفادات کے بارے میں سوچیں گے۔ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہماری نا فرمانیوں کی بنا پر کسی “ بخت نصر“ جیسے بادشاہ کو بطور سزا ہم پر نہ مسلط فرما دے جو اس کے نازل کردہ عذاب کے تقاضے پو رے کر سکے؟