چھیاسٹھ سال سے ہر کام ادھار پر چل رہا۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

یہ ملا نصیر الدین بھی تھے عجیب، کہ ملاّ ہونے کے باجود زاہد خوش نہ تھے اور ہر معاملے میں ہنسنے ہنسانے کا سامان پیدا کرلیتے تھے لہذا ہم اس کو یاد کر کے آج تک ہنس اور ہنسا رہے ہیں کہ خود میں اپنے اوپر ہنسنے اور ہنسانے کی ابھی تک جر اءت پیدا نہیں کر سکے۔ ادھر ادھر ڈھونتے پھرتے ہیں جہاں کچھ نظر آجائے اپنے قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ جو کبھی ہم نے پڑھا تھا وہ آج یاد آگیا کہ ملا جی ایک گھوڑے کے مالک بھی تھے، جسے دور سے دیکھتے تو یہ پہچاننا مشکل ہو تا تھا کہ واقعی یہ سچ مچ کا گھوڑا ہے یا یاکاٹھ کا، جیسے کہ بچے ٹانگوں میں ڈنڈا دبا کر دیہاتوں میں دوڑتے ہیں اور اس طرح اپنی شہ سواری کا شوق پورا کرتے ہیں ۔ ہم نے خود تو د نہیں دیکھا مگر ایک صاحب کے لیے مشہور تھا، جو ذرا کھسکے ہو ئے تھے! کہ وہ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں ایک ڈنڈا پھنسا لیتے تھے اور ایک چابک بھی ہاتھ میں رکھتے تھے، تاکہ سواری کا پورا پورا لطف اٹھائیں؟ وہ ڈنڈے کو چابک مارتے جاتے اور اسی رفتار سے خود تیز دوڑ تے،  یوں گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کرلیتے؟ ہاں تو بات چلی تھی ملا جی کے گھوڑے کی بچوں نے جب ملا جی کو شہر کی طرف آتے دیکھا تو انہیں حسب معمول چاروں طرف سے گھیر لیا اورخبار نویسوں کی طرح سوالوں کی بو چھاڑ کردی، ان میں سے کسی نے پوچھا کہ کیا ملا جی آپ گھوڑے کو کھانے کو نہیں دیتے! جو اس کی یہ حالت ہو گئی ہے؟ ملا جی نے کہا کہ کاغذ پینسل نکا لو اور لکھو میں بولتا ہوں !جوکہ بڑی لمبی فہرست تھی جس میں گھاس و دانے کے علاوہ مغزیات ، مقویات اور مکھن  وغیرہ سب  کچھ موجود تھا جب وہ مکمل ہو گئی؟تو بچوں نے پوچھا ملا جی یہ تو بتائیے کہ اس کی حالت  پھراتنی پتلی کیوں ہے ؟ ملا جی نے بڑی سچائی سے کام لیا اور فرمایا اس لیے کہ میری طرف اس کا چھ ماہ کا راشن ادھار ہے؟  ہمارے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ماجرہ ہے کہ 66 سال سے بہت کچھ ادھار ہے جبکے ہے اللہ کا دیا سب کچھ ؟ جیسے کہ ہمارا دستور ملک بننے کے بعد بمشکل پچیس چھبیس سال کے بعد بنا، وہ بھی آدھا ملک گنوا کر کیونکہ پہلے تو دستور بن کر ہی نہیں دے رہا تھا جب دستور بننے لگے تو آمروں کو پسند نہیں آئے اور کچھ بننے سے  پہلےاور کچھ بعد میں انہوں نے اپنے بوٹوں  سےروند ڈالے۔ رہی یہ بات کے اکثریت کیوں علیحدہ ہوئی؟  وہ اس لیے کہ بے صبر تھی مزید انتظار نہیں کر سکی اور مع اپنی عدوی اکثریت کے الگ ہو گئی۔ اگر وہ جلد بازی نہ کرتی تو وہ بھی ہماری طرح آج مزے کر رہی ہوتی۔ مگر اسے تو ہر بات کی جلدی تھی! جیسے کہ لڑکیوں کے والدین پریشان رہتے ہیں کہ جلدی سے بر مل جائے اور وہ اپنے فرائض سے فارغ ہو جائیں؟  ملک بنتے ہی سب سے پہلے اس نے زبان کا مسئلہ چھیڑ دیا پھر اپنے یہاں جاگیرداری اور زمینداری کا خاتمہ کر دیا۔ بابا یہ تو  بادشاہت کی قسم ہے اور بادشاہ اللہ کا سایہ ہو تا ہے ؟ اسی لیے بادشاہوں کے ساتھ (ظل ِ سبحانی) یعنی سایہ ِ خدا لکھتے ہیں! جبکہ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ہر بادشاہ کے ساتھ اکیس ولیوں کی طاقت ہوتی ہے؟ وہ ناشکری تھی کہ اس نے اپنے سر سے یہ بوجھ اتار پھینکا؟ دیکھئے بھگت رہی ہے نہ، اس کفران نعمت کی سزا؟ سب سے بڑا نقصان اسے یہ ہوا کہ بادشاہوں کے سائے سے کیا نکلی کہ اسلام کے سائے سے نکل گئی ، اب ترس رہی ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کو کبھی اسلامی ملک نہیں کہہ سکے گی اس لیے کہ انکے آزادی دہندہ بھارت اور اس کے درمیان معاہدے کی شرائط میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ وہ خود کو ہماری طرح اسلامی جمہوریہ نہیں کہلا سکتی؟ جبکہ ہم کچھ کریں یا نہ کریں لیکن کہنے کی حد تک تو ڈنکے چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک اسلامی ہے! کیونکہ دستور میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی۔ جس میں ہر ایک کو روز گار مہیا کرنے کی حکومت کی ذمہ ار ہو تی ہے۔ جس میں ہر ایک عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ ہر ایک قانون کی نگاہ میں بھی برابر ہو تا ہے، جہاں تک آزادیِ اظہار کی بات ہے ہر ایک کو آزادی ہو گی؟  جبکہ قومیں صدیوں میں بنتی ہیں؟ اور ہماری ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ “جلدی کا کام شیطان کا ہو تا ہے “ الحمد للہ ہمارے یہاں 98فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں شیطان کے اتباع سے منع کیا گیا ۔اس لیئے ہر کام میں وقت لگتا ہے؟ رہے شیطانی کام وہ ہر ایک کا انفرادی فعل ہے جس کی دستور نے اجازت دی ہوئی ہے کیونکہ وہ فرد کا ذاتی معاملہ ہے؟ مگر ہمارے یہاں ابھی تک بے صبرے لوگ موجود ہیں انتظار نہیں کرتے چیختے چلاتے رہتے ہیں؟ جبکہ ہر کام کے لیے ایک وقت معین ہے جب وہ وقت آجاتا ہے تو کام کو کوئی ہونے سے روک نہیں سکتا !ابھی کچھ سال پہلے اللہ کا کرنا یہ ہواکہ نئی ٹیکنالوجی آگئی اور میڈیا تمام زنجیریں توڑ کر خود بہ خود آزاد ہوگئی ؟ پھر ہم سب نے اس کے ساتھ مل کر تحریک چلا ئی تو ساٹھ سال کے بعد عدلیہ کو آزاد کرالیا؟ سانس تو لینے دو بھائی! باقی دستور کی دفعات پر بھی عمل کر نے لگیں گے جیسے کہ امین وغیرہ کی دفعات یا باقی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی شقیں، شکر  کروکہ ابھی تک ہمارے دستور کے ماتھے پر اسلامی تو لکھاہوا ہے !  اسلامی جمہوریت بھی ایک دن آجائے گی، ڈیم بھی بن جا ئیں گے، بجلی گھر بھی بن جا ئیں گے، بے روز گاری بھی دور ہو جا ئے گی، بد امنی بھی ختم کر دیں گے پھر رشوت خوری اقربا ء پروری اپنی موت آپ مر جا ئے گی کہ اسلام میں اسکی گنجائش ہی نہیں ہے ابھی جلدی کیا ہے تجوریاں تو بھرلینے دو؟ بس جہاں اتنا انتظار کیا ہے ساٹھ سال اور انتظار کر لو، کیونکہ حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں؟ نہ جنرل ضیاءالحق کے بقول گیڈر سنگی ہے؟ دیکھو !ہمارے یہاں کتنے بھولے بادشاہ ہوگزرے ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم تھاکہ ایک پنڈت  گیڈر سنگھی کے کس استعمال کی وجہ سے مشہور ہوا وہ اسے کس کام کے لیے استعمال کر تا تھا؟   آپ سب نے یہ محاورہ  توسنا ہوگا کہ روم ایک دن میں نہیں بنا ؟ تاریخ پڑھیں گے تو معلوم ہو جا ئے گا کہ وہ صدیوں میں کہیں جا کربنا تھا! ہمیں تو ابھی ایک صدی بھی نہیں ہوئی کہ ہم نے آج سے نصف صدی پہلے اسلام آباد بنا لیا، چھ ارب ڈالر کا قرضہ لیکر ؟ اب آپ پوچھیں گے کہ فائدہ کیا ہوا؟ اس کے جواب دو ہیں ایک تو یہ کہ مسلمان کرگزر نے کے بعد سوچتے ہیں پہلے سوچنابنیوں کا کام ہے؟ دوسرا یہ ہے کہ جنرل ایوب خان کی دور اندیشی یا روشن ضمیری کی داد دینا پڑے گی؟کہ وہ کراچی والوں کے احتسا ب اور جمہوریت پسندی سے پہلے ہی واقف ہو گئے تھے؟ انہیں ملک کے دو حصوں سے اپنے دور میں ہمیشہ شکایت رہی کہ “ میں کہیں بھی چلا جاؤں وہاں کے لوگ اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں کا مطالبہ کرتے ہیں ، مجھ سے پانی کے نکلے مانگتے ہیں، سڑکیں اور صنعتی علاقے بنا نے کا مطالبہ کرتے ہیں مگر بنگال جاؤ یا کراچی تو وہ جمہوریت مانگتے ہیں؟ بنگالیوں کا تو ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ جلد باز تھے اور وہ انہیں کے شاگرد رشید جنرل یحییٰ خان کے دور میں جان چھڑا گئے۔ جبکہ ان کے استاد جنرل ایوب خان کراچی سے بہت پہلے دارالحکومت اسلام آباد لے جاکر کراچی کو خود چھوڑ گئے تھے؟ اس کے بعد جنرل ضیا الحق آئے اور کراچی والو ں کو الطاف بھائی بطور تحفہ دے گئے جن کو بعد میں اسلام آباد کی طرح فوج نے ہی عوامی پہونچ سے باہر بنادیا ؟ اب صرف وہ وہاں سے فون پر خطاب فرماتے ہیں کہ آج اس سلسلہ میں ریلی نکالنا ہے اور کل اس سلسلہ میں ہڑتال کر نا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ شہر کبھی اتفاق سے ہی کھلتا ہے زیادہ تربند ہی رہتا ہے کیونکہ دن بجتے ہی نہیں ہیں جو کوئی کام ہو؟ اگر جنرل ایوب خان دور اندیش نہ ہو تے تو پاکستانی د فتروں میں ویسے ہی لوگ کام نہیں کرتے ہیں اگر کراچی سے دار الحکومت نہ لے جاتے تو ملک گھٹنوں کے بل چلنے سے پہلے ہی گر پڑتا؟ کم از کم  ابھی تک چل تو رہا ہے جیسے بھی سہی؟      آجکل ہم  پھروہی باتیں سن رہے ہیں کہ یہ حکومت اگر فوج کے ساتھ آن بورڈ نہ ہو تو حکومت کادھرن تختہ کردو ؟ اور انہیں سے کہہ رہے ہیں جن کی حکومت ہمیشہ سے تھی ہے اور رہے گی؟ جبکہ فرق اتنا ہو تا ہے کہ کبھی وہ پسِ پردہ ہوتی ہے کبھی سامنے نظر آتی ہے؟ کوئی جنرل جب اسے بدنام کر دیتا ہے اور مقبولیت کا گراف اتنا گر جاتا ہے کہ نوبت یہاں تک پہونچ جاتی ہے کہ فوجی وردی اتار کر سڑکوں اور بازاروں میں جانے لگتے ہیں۔ تو وہ پس ِ پردہ چلے جاتے ہیں؟ لیکن جب چاہیں لوٹ آنے کے لیے کہ ان کے پاس ڈنڈا ہے؟صرف عوام کو یہ قصہ ِ پارینہ یاد کرانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں ۔ اور اس طرح یہ آواگون چھیاسٹھ سال سے جاری ہے؟ کب تک جاری رہے گا یہ اللہ ہی جانتا ہے؟ کیونکہ ہم اب برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں ہیں؟ اللہ ہمیں بصیرت عطا فر مائے (آمین)

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.