پاکستان کے ایک موقر روز نامہ نے خبر دی ہے کہ سابق صدر پاکستان جناب مشرف نے ایک درخواست عدالت میں پیش کی ہے۔ کہ میں بظاہر تو تندرست اور توانا لگتا ہوں مگر میری حالت تشویش ناک ہے ۔ یہ جملہ ذو معنی ہے اگر ہم اس کا ضمیر صحت کی طرف مان لیں تو پھر ڈاکٹروں کی آرا ءپر یاخود اپنی صوابدید کی بناپر، فیصلہ عدالت کوکرناہے جو وہ کرے وہ اس کی مرضی؟ لہذا ہم اسے بلا تبصرہ چھوڑ تے ہیں ۔ البتہ اس کے ہم دوسرے معنی لیں، تو بیماری کے علاوہ، انسان کے اپنے افعال اسے اتنا کڑوا بنا دیتے ہیں کہ اسے اپنے چاروں طرف خطرات ہی خطرات نظر آتے ہیں۔ اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا جوکہ واقعہ بھی ہوسکتا ہے اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں یہ روش عام ہے! ایک صاحب اپنے جگری دوست کے گھر گئے ،تو انہوں نے اندر سے کہلا بھیجا کہ “ وہ گھر پر نہیں ہیں “ جبکہ یہ انہیں کھڑی میں سے جھانکتا ہوا دیکھ چکے تھے؟ ان کی اس حرکت نے سالوں کے دوستانے کو لمحوں میں ختم کردیا۔ اگر یہ جھوٹ نہ بولتے اور اسلامی طریقہ اختیار کرتے کہ تین دفعہ آواز دے کر واپس چلے جاتے تو دونوں میں سے کوئی گناہ گار بھی نہ ہوتااور نہ ہی یہ صورتِ حال پیدا ہو تی جو آگے چل کر آپ پڑھیں گے؟ کچھ دنو ں کے بعد جب یہ ان کے گھر آئے تو انہوں نے بجا ئے نوکر سے کہلانے کہ خود ہی کھڑکی میں سے سر نکال کر کہا کہ میں گھر پر نہیں ہوں؟ اِنہوں نے بہت ہی بے تکلفی سے کہا کہ یار کیوں مذاق کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تم عجیب آدمی ہو کہ میں نے تمہارے نوکر کی بات کا اعتبار کر لیا اور تم میرا اعتبار نہیں کر رہے ہو جبکہ میں خود تم سے کہہ رہا ہوں کہ میں گھر پر نہیں ہوں! اور یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے کھڑکی بند کرلی۔ اسی پر کسی شاعر نے شاید کہا کہ ع اک ذراسی بات پر برسوں کے یارانے گئے؟ اب آپ کہیں گے کہ دونوں گناہگار کیسے ہو ئے؟ پہلے صاحب تو یوں ہو ئے کہ اسلام میں جھوٹ گناہ ِ کبیرہ میں شامل سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ حضور (ص) نے فرمایا کہ مسلمان میں دنیا کے تمام عیب ہو سکتے ہیں “ مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا “ اگر وہ عملی طور پر بھی مسلمان ہوتے تو انہیں یہ معلوم ہو تا کہ اس موقعہ پر کیا کرنا ہوتا ہے؟ اور اگر دوسرے صاحب اسلام پر عامل ہوتے تو وہ صبر سے کام لیکر ان کو معاف کردیتے اور ان کاپردہ رکھتے؟ تو ثواب کے مستحق ہوتے ، مگر دونوں نے اس معاملہ میں اسلامی احکامات کو مد ِ نظر نہیں رکھا (جو کہ مسلمان کہلاتے ہوئے ہم عمو ما ً نہیں رکھتے ) اور وہ دونوں اجر سے محروم ہوگئے کیونکہ یہ تعلقات توڑنے کے مرتکب ہو ئے۔ جبکہ پھر ارشاد گرامی ہے کہ رشتوں کو توڑنے والے سے جوڑ نے والا بہتر ہے ؟ یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ کسی شخص سے زیادہ اس کے اپنے بارے میں کون جانتا ہے؟ لہذا مشرف صاحب جو کہہ رہے ہیں سچ ہی کہہ رہے ہونگے کہ مسلمان کو اپنے بھائی کے بارے میں حسن ظن رکھنا چا ہیئے۔ اس لیے بھی کہ وہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔ جس میں انہوں نے اپنی صدق بیانی کا دعویٰ کیا ہے حتیٰ کہ ا سکا نام ہی “ سچ اور صرف سچ “ چناہے۔ جس کے بازار میں آنے پر ہم نے تبصرہ لکھا تھا کہ“ یہ یادوں کی برات کے بعد اس معیار کی دوسری کتاب ہے جو پاکستان میں ہی شائع ہوئی“ مگر جانے کیوں لوگ ان کے اعمال سے اتنے نالاں ہیں کہ اس کو سچ ماننے سے انکار کردیا؟ جبکہ اوپر بیان کردہ کلیہ کے تحت ہم نے اسے سچ ہی مانا؟ اور اس لیے بھی کہ کوئی بھی اپنی وہ پوشیدہ باتیں عوام کے سامنے لانے کو تیار نہیں ہو تا ہے جو وہ لائے، جبکہ وہ کسی عوامی عہدے پر بھی ہو؟ ہمارے خیال میں اس کی سچائی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی جوانی کے کچھ معاشقے بھی لکھے ہیں جوکہ کو ئی بھی شادی شدہ مرد شادی ہونے کے بعد کبھی نہیں دہراتا اور پھر عمر کے اس حصہ میں پہونچ جا نے کے بعد جبکہ وہ نانا اور دادا بن چکا ہو؟ اس کے علاوہ انہوں نے مزید جرا ءت یہ دکھائی کہ اپنے بزرگوں کو بھی نہیں چھوڑا شاید اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ وہ پیدائشی طور پر ماڈرن مسلماں ہیں؟ مگر لوگوں نے ان کو سچا مان کر نہیں دیا؟ ممکن ہے کہ حالت تشویش ناک ہو نے کی وجہ یہ بھی ہو کہ انہیں جس پزیرائی کی امید تھی وہ انہیں اور کتاب کو نہیں ملی۔ اور اب ضمیر ملامت کرتا ہو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ بھی کلیہ ہے جب ضمیر ملامت کرتا ہے اور انسان کو اپنی کی ہو ئی زیادتی یا گناہ یاد آتے ہیں ۔ تو دل دھڑکنے لگتا ہے جبکہ وجہ سے مریض خود ہی واقف ہوتا ہے جوکہ چند لمحوں کی کیفیت ہوتی ہے اس میں اگر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے توبہ کی تو فیق دیدی تو پھر وہ کیفیت دائمی ہو جاتی ہے اور اس کا اظہار آنکھوں سے بھی ہو تا ہے کہ بات بات پر آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اور جس کو اللہ توبہ کی توفیق نہ دے ، وہ سر جھٹک کر واپس اپنی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ پھر دل کی حالت عجیب ہوتی ہے کہ آہستہ دھڑکے تو ہر صاحب دل پریشان ہو جاتا ہے اور زور سے دھڑکے تو بھی پریشان ہو جاتا ہے۔ خصوصاً جب کوئی پریشانی لاحق ہو تو بھی بڑی زور سے دل دھڑکنے لگتا ہے اور ہر مریض اس پر ہاتھ رکھ کر دھڑکنے گنتا رہتا ہے۔ جبکہ وہ صحت مند ہو تا ہے اور کسی کے ساتھ برائی کر تا ہے تو لوگ اس سے کہتے بھی ہیں کہ بھائی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو! اگر تم اس کی جگہ ہوتے تو تم پر کیا بیتتی، یا تم کیا کرتے ،مگر وہ کہنے کے باوجود نہ دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھتا ہے نہ کسی کی سنتا ہے۔ پھر اس کے علاج کا مرحلہ بھی بڑا مشکل ہوتا ہے اور وہاں کا معاملہ تو ہمیں اب یاد نہیں کہ دیار ِغیر میں ہیں! البتہ یہاں جب معالج مریض کے ساتھ کھیلنا شروع کرتا ہے تو انجیو گرافی سے پہلے صفحات کے صفحات چھپے ہوئے دیتا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ ہوسکتا ہے لہذا اس کو پڑھ لو اور ستخط کرکے دیدو ؟ کیونکہ انجیو گرافی کی اجازت اگر دیتے ہو تو انجو پلاسٹی کی بھی لکھ کر دیدو شاید ضرورت پڑ جائے؟ پھر وہ وصیت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کیونکہ بیہوشی کے بعد وصیت میں جو ایگزیکیوٹر ( وصیت کے نفاذ کا ذمہ دار ) ہوتا ہے اس کی ضرورت پڑتی ہے؟ جبکہ و صیت عموما ہوتی ہی ہے ؟ اگر نہیں ہے تو کہتے ہیں وہ بھی لکھوا لو کیونکہ ممکن ہے ہمیں کچھ اور بھی کرنا پڑے، مثلا ً سینہ کو کھولنا وغیرہ؟ اور ہم وہ سب کچھ اس سے پوچھ کر، کر گزریں جو آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہو اور آپ کو وصیت کا بھی موقعہ نہ ملے؟ پھر اگر انہوں نے حالت اور خرابی کی طرف جاتے دیکھی تو جس عقیدہ کا آدمی ہوتاہے اس عقیدہ کے مولوی کو بلا لیتے ہیں !اور مرنے والے کو مرنے سے پہلے سے یقین ہو جاتا ہے کہ اب میرا آخری قت آگیا؟ کیونکہ مولوی کسی عقیدے کا ہو تو آتے ہی توبہ یا اعتراف کی تلقین کرتا ہے ؟ جو اوروں کے یہاں وہ کان میں کہتا ہے اور موقعہ پر ہی معافی پاجاتا ہے کہ اس کے پاس معاف کرنے کے اختیارات ہوتے ہیں ۔ مگر مسلمانوں کے یہاں معاف کرنےکے اختیارات اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ لہذا مرتے وقت توبہ کی قبولیت پر اختلاف ہے؟ کہ آیا وہ قبول کرتا ہے یا نہیں ؟کیونکہ جو اس مرحلے پر توبہ کی قبولیت کے خلاف ہیں وہ فرعون کی مثال دیتے ہیں ؟ قرآن میں ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اس کی توبہ رد کردی کہ ہم تمہیں دنیا کے لیے نشان عبرت بنا نا چاہتے ہیں کیونکہ تم عذاب دیکھ تو بہ کر رہے ہو؟ اس لیے توبہ قبول نہیں ؟ دوسرے گروہ جو دین اور دنیا ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ اس کی رحمت کی طرف متوجہ کرا تا ہے؟ اور اس طرح تدفین اور فاتحہ کی مد میں کچھ دنیاوی منفعت بھی ہو جاتی ہے۔ جبکہ پاکستانی معاشرے میں صورت ِ حال مختلف ہے وہاں مریض کو مر نے سے پہلے مارنے کا بندو بست اس کے احباب کردیتے ہیں جنکی ورثے پر نظر ہو تی ہے ۔ اور وہ دوست بھی جو مقروض ہو تے ہیں، یا پھرشاندار چالیسویں پرنظر ہو تی ہے؟ پہلے جو عیادت کو آتا ہے تو دیکھتے ہی کہتا ہے خاص طور سے خواتین ،کہ دیکھو پیلا ٹپکا پڑ گیا ہے پیچارے کا منہ نکل آیا ہے؟ جیسے کہ اس کا منہ پہلے تھا ہی نہیں ؟ پھر ہر آنے والا بھی اسے موت یاد دلا دیتا ہے کہ بھائی کچھ کہا سنا ہو تو معاف کر دینا کیا پتہ اب دنیا میں ملا قات ہو یانہ ہو! حالانکہ وہاں سب کی ملاقات ہونا ہے اگر کوئی جنتی اپنے دوست کو وہاں نہیں پا ئے گا تو وہ پوچھے گا کہ وہ کہاں ہے؟ تو اس کے سامنے دوزخ کا وہ حصہ ظاہر کردیا جا ئے گا جہاں اس پر عذاب ہو رہا ہوگا؟ وہ دوست دیکھے گا اور پہچانے گا کہ یہ تو وہاں ہے؟ میں اسے یہاں تلاش کر رہا تھا؟ حالانکہ اس کے کام بہت اچھے تھے؟ چونکہ ہم قر آن پڑھتے نہیں ہیں لہذا وجہ معلوم نہیں ہوسکے گی ! جو یہاں پڑھ کر جارہے ہیں کہ وہ سمجھ جائیں گے کہ شایداس نے کوئی کام خالص اللہ کے لیے کیا ہی نہیں تھا ؟ کچھ نے شہرت کے لیے کیا کچھ نے ووٹوں کے لیے کیا وغیرہ وغیرہ؟ جبکہ اس نے کوئی کام آخرت کے لیے کیا ہی نہیں تو پھر صلے میں جنت ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں اس بات کو بار بار بیان فرمایا ہے کہ ہر اچھا کام خالص میرے لیے کرو اگر مجھ سے صلہ چاہتے ہو؟ نہ دیوبندیت کے فروغ کے لیے کرو، نہ بریلویت کے فروغ کے لیے کرو؟ نہ ہی مالکیت اور شافعیت کے فروغ کے لیے کرو ، نہ ہی حنابلہ اور وہابیت کے لیے کرو؟ کیونکہ ان کے اماموں میں سے کسی نے نہیں فرما یا کہ میرا اتباع کرو سب نے خوداتباع رسول (ص)کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہیں (ص) کی اتباع کا حکم دیا ہے اور انہیں کے اسوہ حسنہ (ص) کو امت کے لیے کافی فرمایا ہے نیز انہیں (ص) کی ہربات پر یہ فرماکر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے سوائے اس کے جوان (ص) پر میری طرف سے وحی کیا جائے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن اور اسوہ حسنہ سمجھنے کی توفیق عطا فرما ئے اور دوسروں کا انجام دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بھی تاکہ ہم سب سچائی پر کار بند رہ سکیں۔